الطاف احمد
ریسرچ اسکالرشعبۂ اردو،یونیورسیٹی آف کشمیر
علامہ اقبالؒ بحیثیت ادیب و فن کار
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے
علم اور فن وادب شعوری کوششوں اور کاوشوںکا نتیجہ ہوتے ہیں۔ فن کار اپنے فن کے ذریعے دلوں کو آرزو کے سوز وساز سے بھردیتا ہے اور زندگی کے کارواں کو نئی نئی منزلوں کی طرف لےجاتا ہے۔ ایک سچا فن کار فطر ت اور سماج دونوں سے متاثر ہوتا ہے۔ فن وہ ہے جو دلوں میں مستقل تلاطم اور ابدی زندگی کا سوزو ساز پیدا کرے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ادیب خودی کا داعی ومحافظ ہو اور فرعونیت کو تہہ و بالا کردینے کی قوت رکھتا ہو۔
علامہ اقبالؒ کی حکیمانہ عظمت مشرق ومغرب میں تسلیم کی جاچکی ہے۔ مگر ان کی ادیبانہ فن کاری کا ابھی تک مکمل تجزیہ نہیں ہوا ہے۔ بہر حال اقبال کا مطالعہ بنیادی طورپر ایک فنکار کی حیثیت سے کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ان کے افکار سے اس فن کو کس قدر تب وتاب ملی۔ چونکہ آپ کا فن دنیا کے مختلف اقوام کے مشاہدات وتجربات سے مزین ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال نے ان تجربات ومشاہدات کو اپنے فن کے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔
اقبال کے حوالے سے مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں پہلے کیا تسلیم کیاجائے، بڑا شاعر، بڑافلسفی یا بڑا مفکر ،پر حقیقت یہ ہے کہ وہ عظیم ادبی فن کار تھے۔ اِس میں شک نہیں کہ اقبال کی ذات میں متعدد قابلیتیں جمع تھیں جس طورفن میں ان کا مقام بڑا ہے اُسی طرح حکمت میں بھی ان کا مقام وسیع ہے۔ ان کے فنی حقائق کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان کی شاعری میں مابعد الطبیعیات کائنات و حیات کے مسائل، نصب العین سے متعلق منظم افکار پائے جاتے ہیں۔ اقبالؒ کا فن اعلیٰ سنجیدگی کا فن ہے، اس علیٰ سنجیدگی میں جلال وجمال کا خوبصورت امتزاج ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اقبالؒ کا تصور فن ’’فن برائے فن‘‘ کی بنیادی صداقتوں کا جامع ہے۔ اقبالؒ تو جذبے کو فن کی روح قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک عشق کے سوزو ساز یا خون جگر کے بغیر فن کار کا کوئی نقش مکمل نہیں ہوسکتا۔ علامہ ایک خط میں رقمطراز ہیں:
’’شاعری کی جان تو شاعر کے جذبات ہیں۔ جذباتِ انسانی اور کیفیات قلمی اللہ کی دین ہے۔‘‘
فن کے سلسلے میں جہاں انہوں نے ’’خون جگر‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے (معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود) اس سےمراد محض تجربےکا خلوص اور جذبے کی شدت ہی نہیں بلکہ وہ محنت پیہم وجاںکاہی ودلسوزی کو بھی تکمیل فن کے لیے ضروری قراردیتے ہیں۔
اقبال کے نزدیک فن کار کی خودی ہی زندگی اور کائنات کے تمام حسن وقبح کی کسوٹی ہے۔ اقبال نے اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی زبان و فن کی باریکیوں کو سمجھنے اور سیکھنے میں برسوں کاوش کی۔
ہے یہی میری نماز ہے یہی میرا وضو میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو
واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا تصورِ فن ان کے افکار کا ایک ضروری حصہ ہے جن کے ابلاغ کے لیے انہوں نے شاعری کا ذریعۂ اظہار اختیارکیا۔ اقبال کے فن اور تصور فن کے درمیان پوری پوری مطابقت ہے۔ اس سے شاعر کے ذہن اور فکر کی اس ہم آہنگی کا بین ثبوت ملتا ہے، جس پر اقبال کا فنی کمال اور کارنامہ مبنی ہے، جس سے بڑی کوئی بنیاد اور کسوٹی عظمتِ فن کی متصور نہیں۔ فکری توازن اقبال کی سب سے بڑی فنی طاقت ہے، جہاں اقبال کے فن کی تاثیر معلوم ہوتی ہے، وہیں ان کی استقامت بھی نظر آتی ہے۔ اقبال اپنی شاعری کی سحر گری سے آگاہ ہیں اور ذوق وشوق کی یہی وہ انتہا ہے جو کسی بھی فن کا مطمح نظر اور منتہائے مقصود ہوسکتی ہے۔ اس فن کا تصور خود فن کار کی نگاہ میں دیکھئے:
عزیز تر ہے متاعِ امیر وسلطاں سے
وہ شعر جس میں ہوبجلی کا سوز براقی
ہے یہی میری نماز ہے یہی میرا وضو
میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو
دنیائے شاعری کی پوری تاریخ کا ایک سرسری جائزہ بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اقبالؒ دنیا کے کے سب سے زیادہ باخبر، باشعور وصاحب علم شاعر تھے۔حقیقت یہ ہے کہ اقبال ایک عظیم فن کار ہونے کے علاوہ ایک عظیم ناقد کا ذہن بھی رکھتے تھے۔
اقبالؒ کے افکار نے ایسا طلسم قائم کردیا ہے کہ ان کے فن کی طرف بہ مشکل کسی کی توجہ مبذول ہوتی ہے۔ حالانکہ طلسم درحقیقت فن پر ہی مبنی ہے۔
بلاشبہ اقبال کی فکرہی ان کے فن کی محرک بھی ہے اور اس کا مواد وموضوع بھی اقبال کافن جو فکر کے تمام ضروری اجزاء سے مرکب و فن کے تمام ضروری عناصر پر مشتمل ہے۔ اس میں دل کا سوزو گداز بھی ہے، دماغ کا تفکر وتعقل بھی، رومان کی جمالیات بھی، مذہب کی اخلاقیات بھی، یہ مرکب ومرتکز فن ایک زبردست توازن کا کرشمہ ہے۔
فن کا یہ توازن ایک فکری استقامت پر مبنی تھا۔ اقبالؒ کی فکری وفنی ہم آہنگی کا راز یہ ہے کہ انہوںنے فکر کو کبھی اپنی فنی زندگی کا مسئلہ نہیں بنے دیا۔کلام اقبال کی اس فکری وفنی ہم آہنگی کو ادب میں روایت وانفردیت کا ارتباط و اشتراک اور تعامل وتعاون بھی کہاجاسکتا ہے ؎
دید تیری آنکھ کو اُس حُسن کی منظور ہے
بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
لہٰذا قبال فن کاری کو بھی عبادت قرار دیتے ہیں اور جمالیات کو ایک تقدس عطا کرتے ہیں۔ یہ بڑا پیچیدہ، مرکب ، رنگین اور زرین تصورِ فن ہےجس سے فن میں لطافت اور گہرائی کے ساتھ ساتھ وسعت وعظمت کے وہ اہم ترین پہلو پیدا ہوتے ہیں جو جمالیاتی فن کاری سے بہت آگے کی باتیں ہیں۔ اقبال کا شعرانہ پیغام ’’خودی‘‘ ہے جو فنی فنی طورپر وجودیت سے زیادہ بامعنی نتیجہ خیز اور جمال آفرین ہے۔
اقبال کی شاعری اپنےفن کی تمام روایات و آداب کو ملحوظ رکھنے کے باوجود رسوم و قیود کی پابندی محض نہیں ہے۔ فکرکی پیشگی تعین وتوضیح نے فن کار کو فن کے لیے یکسو کردیا ہے، اِسی لیے اس کے تصورات میں تنوع کے باوجود ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ اس کے اسالیب بیان میں ہمواری و استواری ہے۔ اس نے فکرو فن کی یکجہتی کے علاوہ ایک زبردست فنی ارتکاز بھی پیدا کیا ہے۔اقبال کا فن یہ ہے کہ جو چیز ’خون جگر‘ ہے وہی ’’شعلہ نوا‘‘ بن کر رونما ہوتی ہے اور وہ کہہ اٹھتے ہیں ؎
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
اقبال کےیہاں فن میں سب سے زیادہ اہمیت جس چیز کو حاصل ہے وہ ہے کامیابی اظہار کی آرزو یعنی پردہ داری سے زیادہ بے پردہ اظہار حقائق کی تڑپ اور پھر اس پر نظر کے قاری یا مخاطب کو سب سے زیادہ کس اسلوب اظہار نے متاثر کیا۔
دنیاکی بڑی شاعری کا راز تعلیم، تربیت اور تہذیب اخلاق میں پنہاں ہے۔ اقبال نے شروع ہی سے شاعری کو زندگی کا خادم اور اس کا پرستار بتایا ہے۔ اقبال کی شاعری خالص فنی اور جمالیاتی نقطہ نظر سے بھی بہت دلکش ہے۔ اقبال نے اپنے ذاتی کی بنا پر تخلیق شعر کے عمل کو ایک الہامی کیفیت قرار دیا ہے۔ فن اور فنی اقدار وشرائط سے ظاہری بے نیازی کے باوجود اقبال فن سے گہری وابستگی کو فن کار کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں۔
اقبال نے بطورِ ایک فن کار شعر کی سب سے پہلی خدمت یہ انجام دی کہ غزل کی ہیئت کو ایسے مضمون سے ترکیب دی جسے غزل نے اس سے پہلے اپنی ہزار سالہ تاریخ میں قبول نہیں کیا تھا ؎
پھُونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
اپنی بے مثال فنی مہارت اور منفرد فکری عظمت کی بنا پر علامہ اقبال کو اردو شعروادب کی آبرو کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ مقصد وفن کا ایسا حسین وجمیل امتزاج عالمی ادب میں بھی مشکل ہی سےملے گا۔
اقبال نے ابتدائی دور میں مناظر فطرت کو بھی موضوعِ سخن بنایا اور نفسِ انسانی کی مختلف کیفیات کو بھی۔ اس دور میں ان کے کلام میں ایک حکیمانہ پیغام بتدریج نمایاں ہونے لگا، یہی انکی فن کاری کے عروج کا دور بھی ہے۔ اس دور کے کلام میں ایک نئی گونج سنائی دیتی ہے۔ اقبال بار بار دہراتے ہیں کہ ان کی شاعری مقصدی ہے، وہ ناقۂ بے زمام کو قطار میں لانا چاہتے ہیں، وہ اپنا نورِ بصیرت عام کرنا چاہتے ہیں اور انسان کو تخلیق خدا کا ہمسر بنانا چاہتے ہیں۔ وہ اس شاعری کی مذمت کرتے ہیںجو روح کو خوابیدہ اور بدن کو بیدار کرے یا موت کی نقش گری کرے وہ یقین کی دولت کو عام کرنا چاہتے ہیں۔
اقبال کے مداحوں نے ان کی فکر کو اتنی اہمیت دی کہ ان کے فن کا ’تاج محل‘ مزار بن کر رہ گیا ہے۔ جو لوگ کسی نہ کسی وجہ سے ان کی فکرسے مانوس نہ ہوسکے انہوں نے اسے ’خطابیہ شاعری‘ کہہ کر ان کےفن کی اہمیت کو کم کرنے کی کوششیں بھی کی۔
بلکہ صداقت تو یہ ہے کہ اقبال کا سارا کلام اس کا شاہد و گواہ ہے کہ انہوں نے فن اور تخلیق فن کے بارے میں جو کچھ کہاہے اس پر خود بھی خلوصِ نیت کے ساتھ عمل کیا ہے ، یہی سبب ہے کہ ان کا فن انفرادی نہیں آفاقی ہے۔ اقبالؒ کے نقطۂ نظر سے فنی پیشکش میں دو باتیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک مجرد حقیقت نگاری یا واقعہ نگاری دوسرے منطقی اور بدیہی صداقتوں پر شعری صداقتوں کو فوقیت۔ اقبال کے کلام میں یہ دونوں چیزیں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔
شاعری کی طرح اقبال مصوری اور موسیقی کے فن میں بھی ظاہری صورت یاہیئت سے زیادہ ان کی معنوی حیثیت کو اہمیت دیتے ہیں۔
فن اور رموز فن پر اتنی وضاحت اور منطقی انداز سے اظہارِ خیال کرنے کی روایت اقبال سےپہلے اردو شاعری اور ادب کی تاریخ میں نظر نہیں آتی، بلکہ غالبؔ اور حالیؔ نے شاعری اور فن شاعری کے بارے میں جو طرح ڈالی تھی اس پر اقبال نے شاندار عمارت تعمیر کردی۔ انہوں نے اپنے فن اور نظریہ فن کے بارے میں جگہ جگہ اظہار خیال کیا ہے، یہ اظہار خیال مبہم ومنتشر نہیں بلکہ بہت واضح مربوط اور مدلل ہے۔ فن اور فن کی مقصدیت کیا ہے ، فن کا معیار کیا ہونا چاہیے؟ اس حوالے سے جتنے بھی استفسار ہوسکتےہیں اقبال نے ان سب پر سنجیدگی سے اظہار خیال کیا ہے۔ فن یا آرٹ کے متعلق اقبال کی رائے یہ ہے کہ اسے بہر طور بامقصد ہونا چاہیے ؎
خاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتاب
تا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرے
کوئی بڑا فن کار اپنی فنی روایات سے علاحدہ نہیں ہوتا یہ روایت اس کے فن کے پس منظر میں موجود ہوتی ہے۔ پس منظر اگر پیش منظر پر حاوی ہوجائے تو یہ فن کاتصور ہے۔اقبال کے یہاں یہ ’ذوق یقیں‘ اس ’خون جگر‘ کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے جو ’سِل‘ کو ’دِل‘بنادیتا ہے اور صدا کو سوز وسرور بخشتا ہے۔ اقبال کے نزدیک اعلیٰ درجے کی نئی تخلیق بغیر معمولی محنت وریاضت کے ممکن نہیں۔ ان کی فنی تخلیق میں ہمیں ہرجگہ ریاضت وانہماک نظر آتا ہے۔ اقبال کی شاعری اس کے’شدت احساس‘ تجربے اور مشاہدے کا حاصل ہے۔
اقبالؒ کے لفظوں میں ایک اور جگہ شاعری پر یوں اظہارخیال کیا ہے:
’’سائنس ، فلسفہ، مذہب ان سب کی حدیں متعین ہیں، صرف فن ہی لامحدود ہے۔ ‘‘
علامہ اپنے اشعار میں یوں بیان کرتےہیں ؎
میں ترے چاند کے کھیتی میں گُہر بوتا ہوں چھُپ کے انسانوں سے مانندِ سحَر روتا ہوں
دن کی شورش میں نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں عُزلتِ شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں
اقبال کی شاعری کا مقصود محض شاعری نہیں بلکہ آدم گری وحیات آفروزی ہے۔ انہوں نے ’حسن الفاظ‘ کے بجائے ’حسن معنی‘ اور اس کی تعمیری سمت کو کمالِ فن جانا ہے۔ چنانچہ اقبالؒ کی ساری عمر اِسی آرزو میں گزری کہ کاش ان کی شاعری ملت کے غم کا مداوا اور ان کا پیغام انسانیت کے زخم کا مرہم بن جائے ؎
جس روز دل کی رمز مُغنّی سمجھ گیا سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہُنر ہیں طے
اقبال کی فنی حیثیت تنقید کو دعوت دیتی ہے ان کے فنی کمال پر غوروفکر کرنا لازمی ہے۔جب اقبال اپنے فنی وفکری کمالات کے نقطۂ عروج پر پہونچنے کے علاوہ خود کو دریافت کرچکے تھے ان کی شعری شخصیت تکمیل کے آخری مراحل تک پہنچ چکی تھی تو کہہ اٹھے۔
اسی اقبال کی میں جستجو کرتارہا برسو بڑی مدت کے بعد آخر وہ شاہیں زیر دام آیا
لہٰذا اقبال کے فن کا ایک آزاد اور آفاقی معیار سے مطالعہ کرنا وقت کی اہم ضرورت اور تنقید کا واجب الادا فریضہ ہے۔
***