ڈاکٹرشاہ جہاں بیگم گوہرؔ کرنولی
گیسٹ لیکچرر، ڈاکٹر عبدالحق اردو یونی ورسٹی
کرنول، آندھراپردیش،انڈیا۔
علامہ اقبالؔ اور احمد شوقی کے کلام میں مماثلت
لب ولہجے کے اعتبار سے شاعری کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور انھیں شاعری کی تین آوازیں بھی کہا جاتا ہے۔ خود کلامی کا لہجہ ’’شاعری کی پہلی آواز ہے۔ یہاں شاعر اپنے آپ سے گفتگو کرتا ہے دوسرے سے گفتگو یعنی ’’مخاطب‘‘ شاعری کی دوسری آواز ہے۔ شاعری کی تیسری آواز وہ ہے جب شاعر کچھ کردار وضع کرتا ہے یا تاریخ مستعار لے لیتا ہے۔ اور اپنی بات ان کی زبان سے ادا کراتا ہے۔
ہر شاعر کے کلام میں شاعری کی پہلی اور دوسری آوازیں مل جاتی ہیں کیوں کہ شعرأ اپنے کلام میں عام طور پر خود کلامی کرلیا کرتے ہیں یا اپنے محبوب سے مخاطب ہوا کرتے ہیں۔ عموماً یہ دونوں آوازیں آسانی سے محسوس کرائی جاتی ہیں لیکن شاعری کی تیسری آواز جس میں شاعر کسی کردار کے ذریعے اپنا پیغام پیش کرواتا ہے، ایسے شعرأ کے کلام میں تخیل کی پرواز بلند اور الفاظ میں معنویت کی گہرائی پائی جاتی ہے۔ ایسے باشعور آفاقی شعرأ میں علامہ اقبالؔ اور احمد شوقی کا شمار ہوتا ہے۔ شاعر اقبالؔ کی نظم ’’پہاڑ اور گلہری‘‘ عربی شاعر احمد شوقی کی نظم ’’المدرسۃ‘‘ میں کیا مماثلت ہے۔ اس کا جائزہ لینے سے پہلے دونوں شعرأ کا مختصر تعارف پیش ہے۔
شیخ محمد اقبال نام اور اقبالؔ تخلص تھا۔ 9/نومبر جمعہ کے دن 1877ء کو سیال کوٹ میں پیدا ہوئے۔ انتقال 21/ اپریل 1938ء کو لاہور میں ہوا۔اقبال کے والد شیخ نور محمد والدہ امام بی بی اور دادا شیخ رفیق تھے۔ ان کا تعلق کشمیری پنڈتوں سے تھا۔
اقبالؔ نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا تھا۔ لیکن نظموں کی تعداد غزلوں سے زیادہ ہے۔ داغ سے بذریعہ ڈاک اصلاح لی اور ان سے اوروں کی طرح غائبانہ تلمذ رکھا۔ اقبال کی نظمیں عموماً پیغام سے مملو ہوتی ہیں۔ چار اردو کے شعری مجموعے ہیں (1) بانگ درا پہلا شعری مجموعہ جو 1924ء (2) بالِ جبرئیل دوسرا شعری مجموعہ 1935ء (3) ضرب کلیم یعنی یہ مجموعہ میں اعلان جنگ دور حاضر کے خلاف تھا 1936ء (4) ارمغان حجاز یہ آدھا اردو اور آدھا فارسی 1938ء میں شائع ہوچکے ہیں۔
بانگِ درا علامہ اقبالؔ کی سب سے زیادہ مشہور کتاب بلکہ ان کی شہرت کا سنگ بنیاد ہے اور یہ تصنیف تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصہ میں وہ نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جو انہوں نے ابتدائے شاعری سے 1905ء تک لکھیں۔ اسی زمانے میں ان پر وطن پروری کا جذبہ غالب تھا۔ اور تحقیق اور تجسس کا رنگ بھی نمایاں تھا۔ تصویر کشی اور منظر نگاری کے بیت عمدہ نمونے پیش کیے۔ بعض نظمیں بچوں کے لیے لکھی ہیں۔ مثلا ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری ایک گائے اور بکری وغیرہ ہیں۔ ان نظموں کی زبان بہت آسان ہے۔ فارسی تراکیب با مشکل الفاظ کہیں استعمال نہیں کیے لیکن یہ سب نظمیں بہت سبق آموز ہیں۔ جن سے بڑی عمر کے لوگ بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔
احمد شوقی کا تعلق مصر سے ہے چنانچہ وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے اور نمایاں شاعر تھے وہ 1869ء کو مصر کے دارالخلافہ قاہرہ میں پیدا ہوئے وہ وہیں پلے بڑھے ان کے والد ترکی اور چر کسی نسل سے اور ان کی والدہ ترکی و یونانی نسل سے تعلق رکھتی تھیں۔ احمد شوقی اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلے تو لا کالج (Law College) میں داخلہ لیا اور پھر دو سال بعد شعبہ ترجمہ میں منتقل ہوگئے۔
مصر میں تعلیم سے فراغت کے بعد مصر کے حکمران خدیوی توفیق نے انھیں اپنے دربار میں ملازمت دی اور پھر قانون کی تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے انھیں فرانس بھیج دیا۔ فرانس میں مغربی تہذیب و تمدن اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا شوقی پر خاصا اثر پڑا۔ قانون کی کتابوں کے علاوہ انہوں نے مختلف شعرا کے دیوان اور ادبا کے نگارشات کو پڑھا اور یوروپی شاعری کے نئے نمونوں اور اسالیب سے آشنا ہوئے۔
خدیوی کے انتقال کے بعد عباس نے شوقی کو دربار میں شعبہ ترجمہ کی ذمہ داری سونپ دی۔ جس کو انہوں نے بیس برس تک نبھائی۔ ان دنوں شوقی کی شاعری کا محور عباس اور ان کے کارنامے تھے۔
شوقی نے فن کی دنیا میں ایسے وقت قدم رکھا جب مصر میں عربی شاعری محمود سامی البارودی کے ہاتھوں بے جا قیود اور تکلفات سے آزاد ہو کر آزاد فضا میں سانس لے رہی تھی۔ شوقی نے شاعری کے اسلوب کو دل آفرین اور معانی کو گہرائی و گیرائی حامل بنایا اور عربی میں تمثیلی شاعری کی بنیاد ڈالی اور انہوں نے کئی ڈرامے منظوم کیے جیسے مصرع قلو پطرہ، مجنون لیلی، سرور عنترہ، بلاشبہ شوقی اپنی مختلف جدت طرازیوں اور خداد داد صلاحیتوں کے سبب عربی کے سب سے با کمال شاعر کہلائے اور انھیں امیر الشعرأ کے خطاب سے نوازا گیا۔ اکتوبر 1932ء کو احمد شوقی دیوان ’’الشوقیات‘‘ کے نام سے جو چار جلدوں پر مشتمل ہے اپنے پیچھے چھوڑ کر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔
انہوں نے عربی ادب میں نعتیہ قصیدہ ’’نہج البردہ‘‘ اور بچوں کے لیے نظموں اور نغموں کے ان کے مجموعے بھی ہیں اور ان کی ایک اہم کتاب ’’عظماء الاسلام‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوئی ہے اپنی یاد گار کے طو رپر ادب میں اضافے کیے ہیں۔
ان دونوں شعرأ کی شخصیت کے چند پہلو میں مماثلت ہے۔ اولاً علامہ اقبال ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لے یورپ 1905ء میں گئے تھے اور ٹرنتی کالج کیمبرج میں داخلہ لیا تھا۔ ’’ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقا‘‘ کے موضوع پر میونچ یونی ورسٹی نے پی۔ایچ۔ڈی۔ کی ڈگری عطا کردی۔ اور ’’اقبالؔ نے بیرسٹر کی ڈگری لنکر ان سے 1908ء میں حاصل کی تھی۔
اقبال اور احمد شوقی نے قانون کی تعلیم کے لیے مغرب کا رخ کیا تھا۔ وہاں پر ان کا ادبی شعور تغیر پذیر ہوا ثانیۃً احمد شوقی نے فرانس سے واپسی پر شاعری میں مغربی رجحان کی طرف توجہ مرکوز کرتے ہوئے عربی میں ڈرامائی شاعری کا اضافہ کیا۔
علامہ اقبال کو زمانہ قیام یورپ میں ان کی شاعری میں ایک خوش آئندہ عظیم الشان انقلاب پیدا ہوگیا۔ وہاں انہوں نے مغربی تہذیب و سیاست کو بہت نزدیک سے دیکھا۔ جس کی وجہ سے انہی دو چیزوں کا منکشف ہوا کہ یہ قومیت و وطنیت بنی آدم کے حق میں کبھی بھی مفید نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ اس کی بنیاد تعصب اور تنگ نظری پر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مغربی تہذیب کا نتیجہ انسانوں کے حق میں تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کی بنیاد مادیت اور انکار خدا پر ہے وہاں پر انہوں نے اسلامی اصول اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ دنیا کی نجات اسلامی اصول زندگی کی تبلیغ و اشاعت ہی میں مضمر ہے۔
فارسی میں شاعری بھی حقیقت کا علم دوسروں تک پہنچانے کے لیے کیا جیسے افغانستان، ترکستان ایرانا ور عراق میں بھی سمجھی جائے۔ جب انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ آئندہ اپنی شاعری کو اسلامی اصولوں کی تبلیغ کے لیے وقف کر دیں گے تو قدرتی طور پر ان کی شاعری میں ’’پیغام نما رنگ پیدا ہوگیا‘‘ جو 1908ء سے لے کر 1928ء تک ہر تصنیف اور ہر نظم میں نظر آتا ہے۔
ثلاثاً علامہ اقبالؔ کو حمایت اسلام کے سترھویں جلسے میں صدر جلسے میاں نظام الدین نے اقبال کو ’’ملک الشعرأ‘‘ کا خطاب 23/ فروری 1901ء میں دیا تھا۔ اور احمد شوقی کو بھی مصری ادب میں امیر الشعرأ کا خطاب سے نوازا گیا تھا۔
ربع: ’’المدرسۃ ‘‘ شوقی کے دیوان الشوقیات سے لی گئی نظم ہے جو بچوں کے لیے لکھی گئی ہے اس نظم میں مدرسہ بچے سے مخاطب ہے ملاحظہ ہو:
نظم : المدرسۃ :
انا المدرسۃ اجعلنی
کأم، لاتمل عنی
ولا تفزع کماخوذ
من البیت الی السجن
کأنی وجہ صیاد
وانت الطیر فی الغصن
ولا بدلک الیوم
والا فغدا منی
او اسغن عن العقل
اذن عنی تستغنی
انا المصباح للفکر
انا المفتاح للذھن
انا الباب الی المجد
تعال ادخل علی الیمن
غدا ترتع فی حوشی
ولاتشبع من صحنی
والقاک باخوان
یدانونک فی السن
تنادیھم بیافکری
ویاشوقی، ویاحسنی
وآباء احبوک
وماانت لھم بابن
ترجمہ:
(1) میں مدرسہ ہوں، مجھے ایک ماں کی طرح سمجھو، مجھ سے روٹھ نہ جاؤ
(2) اور تم اس شخص کی طرح گھبرانہ جاؤ جسے گھر سے اٹھا کر قید خانہ میں ڈال دیا گیا ہو۔
(3) میں ایک شکاری کے چہرہ کی طرح ہواور تم ڈال پر بیٹھے ہوے پرندے ہو۔
(4) تمھیں آج یا نہیں تو کل ضرور میرے پاس آنا ہی ہے۔
(5) یا پھر تم خود عقل سے بے نیاز ہو جاؤ تب ہی تم مجھ سے بے نیاز ہوسکتے ہو۔
(6) میں غور وفکر کی شمع ہوں اور میں ذہین دماغ کی کلید ہوں۔
(7) میں بلندی و اقبال کا ذریعہ اور وسیلہ ہوں۔ آؤ سعادت و نیک بختی کے پاس چلو۔
(8) کل تم میرے احاطے میں چرنے چگنے لگو گے اور تم میرے برتن سے سیراب نہ ہو سکو گے۔
(9) اور میں ایسے دوستوں اور بھائیوں کے ساتھ تم سے ملاقات کروں گا۔ جو تمہارے ہم عمر ہو ںگے۔
(10) تم انھیں یہ کہہ کر بلاؤ گے اے میری فکر اے میرے شوق ادارے میرے حسن۔
(11) اور اپنے والدین کے ساتھ جو تم سے محبت کریں گے حالاںکہ تم ان کے (حقیقی )بیٹے نہیں ہو۔
مذکورہ بالا نظم کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ مدرسہ بچے سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ مدرسہ کو اپنی ماں کی طرح سمجھ گھبراؤ مت، خوف مت کھاؤ اس لیے کہ مدرسہ تمھیں عقل و دانش سے مالا مال کرے گا۔ اور ا س سے کوئی بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ نیز مدرسہ کہتا ہے کہ وہ ایک چمن کی طرح ہے جس میں طرح طرح کے خوب صورت پھول ہیں چنانچہ تم بھی ان ہی میں کے ایک پھول بن جاؤ گے غرض یہ کہ شوقی اس نظم میں مدرسہ کی اہمیت اور فوائد کو بڑے ہی دلچسپ انداز میں مدرسہ کی زبانی بیان کروایا ہے۔ اس نظم میں واضح اشارہ یہ ہے ان لوگوں کی طرف جو علم کو اہمیت نہیں دیتے۔ علم کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ حضور ﷺ پر پہلی وحی جو آئی اقرا یعنی پڑھو۔ اور حضور ﷺ اپنے صحابہ اکرام کو اکثر علم سیکھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے ۔
علامہ اقبال کے مجموعہ بانگِ درا سے یہ نظم لی گئی ہے ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ یہ نظم امریکہ کے مشہور شاعر ایمر سن کے کلام سے ماخوذ ہے۔ شاعر اس نظم میں پہاڑ اور گلہری کی گفتگو کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا میں کوئی چیز بری نہیں ہے نظم ملاحظہ ہو:
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذراسی چیز ہے اس پر غرور کیا کہنا
یہ عقل اور یہ شعور کیا کہنا
خدا کی شان ہے ناچیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں
تیری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں
کہا یہ سن کے گلہری نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا
جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنادیا اس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
تری بڑائی ہے خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی بڑا نہیں قدرت کے کارخانے میں
مذکورہ بالا نظم کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ علامہ اقبال نے بہت عمیق اور سنجیدہ خیالات کو آسان اور سلیس پیرائے میں پیش کرتے ہوئے عوام الناس کو یہ سمجھانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو بے کار پیدا نہیں کیا۔ اس مفہوم کو پہاڑ اور گلہری کے مابین گفتگو کے ذریعہ دلچسپ انداز میں سمجھایا ہے۔
عربی شاعر احمد شوقی نے اپنی نظم المدرسۃ میں مدرسہ کی زبانی بچو کو مدرسہ کی اہمیت سے نہایت ہی سلیس انداز میں واقف کرواتے ہوئے کہا ہے مدرسہ ایک مشفق ماں کی طرح ہے جس کی مامتا پر کسی کو شک نہیں ہوسکتا۔ یہاں پر انسان عقل و دانش کی نشوونما پاتا ہے غرض یہ چھوٹی سے نظم بہت ہی معنی خیز اور دلچسپ ہے۔
غرض یہاں پر دونوں شعرأ کے کلام میں ایک مماثلت پائی جاتی ہے احمد شوقی اپنی نظم ’’المدرسۃ‘‘ اور علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ میں مدرسہ پہاڑ اور گلہر کے کردار وضع کرتے ہوئے اپنی بات ان کی زبان سے ادا کروایا ہے۔ جو لب و لہجے کے اعتبار سے شاعری کی تیسری آواز ہے۔ شاعری کی تیسری آواز عظیم الشان شعرأ کی شاعری میں پائی جاتی ہے جو بہت اہمیت کے حامل ہیں بقول اس شعر کے:
مت سہل انہی جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
٭
کتابیات
(1) کلیاتِ اقبال۔علامہ اقبالؔ
(2) جدید اردو تنقید اصول و نظریات ۔ شارب ردولوی
(3) اردو شاعری پر ایک نظر ۔ کلیم الدین احمد
(4) جدید عربی شاعری۔ ڈاکٹر فوزان احمد
(5) الشوقیات ۔ احمد شوقی
(6) جدید عربی ادب۔ شوقی صیف (ترجمہ) ڈاکٹر شمس کمال انجم
***