محمد عمران
لکچرار ہندی، اینگلو عربک سینئر سیکنڈری اسکول اجمیری گیٹ دہلی
علامہ اقبالؔ کے پیغام کو سمجھنے کی ضرورت
ہندوستان کی تہذیب و ثقافت جب تک باقی رہے گی اور جب تک اس کا تذکرہ کیا جاتا رہے گا ،شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کا نام نامی بھی لیا جاتا رہے گا۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال ؔ نے دنیا کی تہذیبوں کا مطالعہ اور ان کا موازنہ کرنے کے بعدہی پورے عالم کے سامنے اس حقیقت کا انکشاف کیاتھا کہ ہندوستان کی صدیوں پرانی تہذیب اور یہاں کی تمدنی روایت پر ماضی میں نہ تو کبھی زوال آیا ہے اور نہ ہی کبھی مستقبل میں اس کے مٹنے کا کوئی اندیشہ ہے۔ یونان،مصر اور روم کی قدیم تہذیبیں رو بہ زوال ہوگئیں لیکن ارض ہند کی تہذیب اپنی گنگا جمنی خصوصیات کی بنا پرابھی بھی زندہ ہے اور مستقبل میں بھی قائم و دائم رہے گی۔
علامہ اقبال ؔ ہندوستانی مزاج کو اچھی طرح سمجھتے تھے ،اخوت و محبت ہو یا پھر مذہبی رواداری کی بات ہو ان سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں تھا۔ کثیرمذاہب والے ملک میں تمام مذاہب کے متعلق ان کا عمیق مطالعہ تھا اورتمام مذاہب کے پیغامات پر ان کو عبور حاصل تھا ،خاک وطن میں مذہب کی آمیزش کا پہلو بھی ان کے سامنے عیاں تھا اسی لئے انہوں نے مدبرانہ طریقے سے واضح کیا تھا کہ مذہب صرف یکانگت کا درس دیتا ہے ،وہ آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتاہے۔ انہوں نے ہندوستان کے وسیع وعریض کینوس پر مذہبی تنگ نظری کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔وہ خاک وطن کے ایک ایک ذرہ کو دیوتا تسلیم کرتے ہیں ۔ اتفاق واتحاد کی فضا قائم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ان کی نظر میں ہندوستان کی عظمت کے مدمقابل دنیا کا کوئی بھی ملک نہیں ہے،اسی لئے ببانگ دہل انہوں نے پوری دنیا کو بتا دیا ہے کہ ہندوستان دنیا کا سب ے اچھا ملک ہے۔اس حوصلہ مندی اور وطن دوستی کا بین ثبوت اقبالؔ سے قبل کوئی نہیں دے سکا تھا اور بعد میں آنے والوں نے تو ان کی پیروی کرنے کو ہی اپنی ترجیحات میں شامل کیاہے۔اقبالؔ کی خاصیت یہ تھی کہ ان کو ہندوستان کی ہر چیز سے محبت تھی ،انہوں نے چشتی ؒ کے پیغام ِ حق کو ہندوستان کی ضرورت سمجھا ہے تورام اور نانک کے یکسانیت کا سبق پڑھانے والے پیغامات کو بھی عام کیا ہے،ہمالیہ کی عظمت بھی ان کی نظر میں مسلّم ہے۔انہوں نے انسانیت کا پیغام بھی دیا ہے اور ‘انیکتا میں ایکتا ’کے عنوان سے اس پیغام کی تبلیغ بھی کی ہے۔اگر یوں کہاجائے کہ ہندوستان کو اقبالؔکی ضرورت تھی اور ہرزمانے میں ان کے درداور فکر مندی کو محسوس کیاجاتا رہے گا تو شاید غلط نہیں ہوگا۔
اگر موجودہ ہندوستانی معاشرے میں سر محمد اقبالؔ کی شخصیت اور ان کی فکرمندی کو رکھ کر دیکھیں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ آج بھی ان کی ضرورت برقرارہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان کی غیر موجودگی کبھی کبھی شدت سے ستانے بھی لگتی ہے۔ اقبالؔنے جس ہندوستان کو سارے جہاں سے اچھا قرار دیا تھا اس ہندوستان میں ایمانداری تھی، مہمان نوازی تھی، ایک دوسرے کے حقوق کا احساس تھا ،بھائی کو بھائی سے محبت تھی،باہمی تعاون کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا،الگ الگ مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرتے تھے،دیوالی کاتہوار جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا تھااور اسی باہمی میل سے عید سعید بھی منائی جاتی تھی۔
لیکن آج بہت کچھ اس کے برخلاف ہونے لگا ہے۔ آج کے ہندوستانی معاشرے میں ہم اقبالؔ کے ترانہ ہندی کو فخریہ انداز میں اپنی زبان سے ادا تو کرتے ہیں لیکن ہماری ہی آنکھوں کے نیچے وہ سب گھناؤنے افعال بھی سرزد ہوتے رہتے ہیں جوہندوستان کی عظمت کے عین منافی ہوتے ہیں، اور ہم خاموش تماشائی بن کر سب دیکھتے رہتے ہیں، اگر مزید غور سے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ کبھی کبھی ہماری شبیہ بھی ان کی شبیہ کے ساتھ خلط ملط نظر آتی ہے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس ملک کی بلندی ہمالیہ کی اونچائیوں سے شروع ہوتی ہے اس ملک میں پستیوں کا سفر کیا جانے لگا ہے ،اخلاق مندی کو عملاََ بیوقوفی تصور کیا جانے لگا ہے ،بھا ئی کا بھائی پر سے اعتبار اٹھنے لگا ہے،ایک دوسرے کو مشکوک نظر سے دیکھنا مجبوری بن گئی ہے ،مہمان ایک بوجھ کی طرح وزنی محسوس ہونے لگے ہیں ،دھڑلے سے ایک دوسرے کا حق مارا جانے لگا ہے ،وطن دوستی کا جذبہ مفاد پرستی میں تبدیل ہونے لگا ہے،اور وہ سب ہونے لگا ہے جن سے انسانیت شرمندہ ہوتی ہے اور ہندوستانیت پر آنچ آتی ہے۔ تو پھر بہت ہی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی جانی چاہئے کہ کیا اس طرح‘ کبھی نہ مٹنے والی ہندوستان کی تہذیبی و تمدنی روایت’ کو باقی رکھ پانا ممکن ہوسکے گا؟
اقبال ؔکا یہ پیغام ہر خاص وعام زبان پررہتا ہے کہ ‘مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا’۔لیکن موجودہ معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو جو کچھ نظر آتا ہے وہ سب اس کے مخالف ہی نظر آتا ہے۔کسی مخصوص مقام اور سانحے کا ذکر نہ کیا جائے ،اور کسی مخصوص طبقے کی جانب بھی اشارہ نہ کیا جائے تب بھی یہ حقیقت روزروشن کی طرح سب پر عیاں ہوجاتی ہے کہ آزادی کے بعد سے ملک میں مذہب کے نام پر ہزاروں فسادات کو انجام دیا جاچکا ہے۔ لاکھوں ہندوستانی جانیں تلف ہوچکی ہیں،کروڑوں بے گھر ہوچکے ہیں اور بے یارومددگار دردر کی ٹھوکریں کھانے کو مجبور ہیں۔انہیں بھی اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے،ہند کی عظمت ان کے سینوں میں بھی موجود ہے ،لیکن تنگ نظری کے نام پر سیاسی روٹیاں سینکنے والوں کے ذریعے لگائی جانے والی آگ اور اس سے اٹھنے والے شعلوں نے یکلخت سب کچھ جلاکر خاک کرنا شروع کردیا ہے۔اس آگ سے پھیلنے والا دھواں مظلوموں اور مخلصوں کی نظروں کے سامنے تاریکی پھیلانے کا کام کررہا ہے۔وطن میں مختلف ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی بڑی بڑی ہستیوں میں سے اکثر ہی میں ہندوستانیت کا جذبہ کارفرما نظر نہیں آتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ گزشتہ دودہائیوں سے مذہب کے نام پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی شدت میں اضافہ ہونے لگاہے ۔جانی اور مالی نقصانات کا اندازہ لگاپانا بھی محال ہوگیا ہے۔اورہندوستان کی ملی جلی تہذیب کا تانا بانابھی متزلزل ہوکر نئے نئے خطروں سے خوف زدہ رہنے لگا ہے۔ اگر فوری طور پران پر لگام نہیں کسی جائے گی تو‘ہندی ہیں ہم’کا نعرہ فرقہ پرستی کے مختلف ناموں سے موسوم ہونے لگے گا ۔اورہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی شان و شوکت کا ذکر بھی زبان حال سے کرنا محال ہوجائے گا۔
مستقبل میں ایسا نہ ہو اور ہندوستان کی عظمت اپنی آن بان اور شان سے ہمیشہ ہی موجود رہے اس کے لئے علامہ اقبال ؔ کے پیغامات کو‘سیاست ’اور ‘معاشرت ’سب ہی کو بخوبی سمجھنا ہوگا اور ان پیغامات کو اپنی عملی زندگی میں بھی ڈھالنا ہوگا ،تبھی ہم ہند کی دیرینہ روایتوں کو محفوظ رکھ سکیں گے ۔ آج تہذیب کی پاسداری کرنے والے سچے ہندوستانیوں کے دل غم زدہ ہیں اور ان کی آنکھوں میں نمی ہے ۔ان کی خاموشی اقبالؔ کی اس آواز سے ہم آہنگ ہورہی ہے کہ :
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
کاش!ہندوستان کی تہذیبی معنویت ہماری سمجھ میں آجائے اور ہم ہندوستانی اپنی دیرینہ تہذیب کو غالب کرنے والے بن جائیں۔
9871185096
mohd1970imran@gmail.com
***