You are currently viewing علامہ اقبال کا فارسی غزلوں کی خصوصیات

علامہ اقبال کا فارسی غزلوں کی خصوصیات

ڈاکٹر سید محمد جواد

علامہ اقبال کا فارسی غزلوں کی خصوصیات

چکیدہ:

برصغیر پر حاکم ترک نژاد حکمران فارسی کی اہمیت سے بخوبی آشنا تھے۔ اسی لیے ان کے ایوانوں میں فارسی زبان و ادب کی ترقی و ترویج پر مسلسل کام ہوتا رہا۔ فارسی زبان نے برصغیر کے ہر طبقہ فکر پر گہرے اثرات مرتب کیٔے حتی کہ فارسی سیکھنے کے میدان میں ہندو اور سیکھ مذہب کے پیروکار بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ اس دور میں فارسی زبان کو ایسا فروغ حاصل ہوا کہ سرزمین ہندوستان کے مسلمان اور دیگر مذاہب کے حکمران بھی اس کے فروغ کے لیٔے نہ صرف سعی کرنے لگے بلکہ انہوں نے سربراہان ایران کے مانند اپنے ادوار کی تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیٔے بیشمار اثرات اپنے اپنے دور کے معروف ادیبوں اور شعراء سے لکھوایا جو ہند کی تاریخ روایات کو زندہ رکھنے میں ایک زرین باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مقالہ میں ہم قاریٔین و محققین کے لیٔے علامہ اقبال کے فارسی غزلوں کی خصوصیات پر مختصر مگر جامع جایٔزہ پیش کریں گے۔

کلیدی الفاظ:غزلیات،اقبال،فارسی،شعر،ہند

مقدمہ:اگرچہ غزنوی سلاطین ترک زبان تھے لیکن فارسی زبان کی ادبی اور ثقافتی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ اسلیے انہوں نے اپنے درباروں اور ایوانوں میں بصد شوق اس زبان سے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ اس کے فروغ کیلیٔے بھی کوشش جاری رکھیں۔ اس دور میں فارسی زبان و ادبیات ہندوستان میں بہت حد تک رایٔج ہوچکی تھیں۔ یہاں تک کہ ہندوستان پر تیموری خاندان حاکم ہوا جو اپنا اصلی اور ایرانیوں کو اپنا دوست اور ہم زبان سمجھتے تھے اور ان کی تہذیب و تمدن اختیار کرنا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔

فارسی زبان نے نہ صرف ان بادشاہوں کے دربار میں فروغ حاصل کیا بلکہ دربار کی رسمی زبان کی حیثیت سے ہمیشہ اہل علم و فضل کی توجہ کا سبب بنی۔

برصغیر میں فارسی زبان کے انحطاط کے دور میں جب انگریزوں نے آہستہ آہستہ اس زبان کو مٹانے کا عزم کیا تھا تب میرزا اسداللہ غالب اور علامہ اقبال جیسے شخصیت اس زبان کی حفاظت کرنے میں مصروف رہے۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال نے ایک غیرفارسی زبان شاعر ہوتے ہویٔے ایک نیٔے سبک شعر کو پیدا کیا جو انھی کے نام سے معروف ہوا اور اس کا اعتراف ہندوستان و پاکستان کے ناقدین نے ہی نہیں ایرانیوں نے بھی کیا۔ رفیق خاور لکھتے ہیں:

ِؒ’انہوں نے اپنا ایک سبک قایٔم کیا ہے جو ہندی اور ایرانی سبکوں سے جدا اور منفرد ہوتے ہویٔے ان سب پر حاوی بھی ہے یعنی ان سب کی جداگانہ خصوصیات کی روح ان کی تصنیف میں سمو دی گیٔی ہے اور ان کے سب کو قدیم و جدید کلاسیکی و رومانی اسالیب کی شان طرح داری کا بھرپور رنگارنگ مجموعہ قرار دیتی ہے۔‘

 علامہ اقبال کی فارسی غزلیات:

یونس جاوید لکھتے ہیں:

’ علامہ اقبال عظمایٔ غزل فارسی کے کاروان عالی شان میں شامل رہ کر بھی اپنے خیمہ و خرگاہ کو عظمت و زینت کے بعض خصایٔص کے باعث ممیز و منفرد رکھتے ہیں۔‘

ڈاکٹر یونس جاویدکے اس بیان سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن  علامہ اقبال کی غزل کی انفرادیت مسلم ہے جس کا سبب وہ چند جدتیں ہی جو انہوں نے اس صنف کو عطا کیں۔

الف)  علامہ اقبال کی غزلوں میں نظموں کی سی فکری وحدت پایٔی جاتی ہے بلکہ اکثر غزلوں میں تخلص کی غیر موجودگی انہی نظموں کی طرح موضوعاتی بنادیتی ہے۔حالانکہ تعزل کی پوری لطافت و ایمایٔیت ان میں موجود ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل غزل کلیدی سر عشق کی بے باکی اور پر شوری ہے جبکہ زمین کی رواں دواں نوعیت اور الفاظ کا دروبست بھی احساس وحدت کو ابھارنے میں بنیادی کردار ادا کررہا ہے۔

صورت نپرستم من بتخانہ شکستم من

آن سیل سبک سیرم ہر بند گسستم

در بود و نبود من اندیشہ گمانہا

از عشق ہویدا شد این نکتہ کہ ہستم

در دیر نیاز من در کعبہ نماز من

زنار بدوشم من تسبیح بدستم من

فرزانہ بگفتارم دیوانہ بکردارم

از بادہ شوق تو ہشیارم و مستم من

کلیات اقبال فارسی ص ۳۳۲

یعنی میں نے صورت پرستی نہیں کی اور ظاہری و باطنی ہر بت کو پاش پاش کردیا۔ میری حیثیت اس سیل بے پناہ کی ہے جو اپنے راست کی تمام رکاوٹوں کو دور کرتا چلاجاتا ہے۔ عقل اگر ایک طرف میری ہستی کا اثبات کرتی رہی تو دوسری طرف میرے وجود میں شبہات بھی وارد کرتی رہی لیکن عشق سے مجھے اپنے ہونے کا یقین ہوا۔

دیر ہو یا کعبہ مجھے دونوں جگہ خدا کے جلوے دکھایٔی دیتے ہیں اسی لیٔے میں دونوں جگہ نیاز اور نماز مصروف رہتا ہونے اور زناز کندھے پر لٹکایٔے اور تسبیح میں لیٔے رہتا ہوں۔ اے محبوب جو اشک تیری محبت میں میری آنکھوں سے نکلتے ہیں میری زندگی کا سرمایہ ہیں اور چونکہ درد کے اس سرمایٔے کو تباہ نہیں کیا جاسکتا لہذامیں ان کو زمین پر گرنے نہیں دیتا بلکہ جب وہ میری آنکھوں میں آجاتے ہیں تو انہیں پی جاتا ہوں۔ تیری محبت کے نتیجے میں، میں کویٔی بات خلاف عقل نہیں کہتا لیکن سر بکف ہو کر سامنے آتا ہوں یعنی دیوانگی کا مظاہرہ کرتا ہوں پس میں تیری محبت کی شراب پی کر ہشیار بھی اور مست بھی۔

ب) علامہ محمد اقبال لاہوری نے غزل کی زبان کو اتنی وسعت دی کہ وہ ہر قسم کے مضامین ادا کرنے کے قابل ہوگیٔ لیکن اس روپ میں فرق نہ آیا۔ مثلا ایک شعر میں استعاراتی انداز میں فرماتے ہیں کہ جب شاہین زادہ قفس کی اختیار کرکے دانے سے موافقت کرلیتا ہے۔ با الفاظ دیگر قید کی ذلت گوارا کرلیتا ہے تو وہ اس قدر بزدل ہوجاتا ہے کہ چکوروں کو دیکھ کر اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جب مومن غیر اللہ کی غلامی اختیار کرلیتا ہے تو اس میں اس قدر بزدلی پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ کافر کو دیکھ کر ہی لرزہ بر اندام ہوجاتا ہے کجا یہ کہ وہ اس سے جہاد کرے:

تنش از سایہ تدروی لرزہ می گیرد

چو شاہین زادہ اندر قفس با دانہ می سازد

کلیات اقبال فارسی ص ۳۲۳

مسلمان کو نصیحت کرتے ہویٔے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ اگر تواڑنا چاہتا ہے یعنی ترقی کرنا چاہتا ہے تو اپنے بازووں کے سہارے اڑنا یا دوسری کی خوبیوں کے بل بوتے پر ترقی کرنا ممکن نہیں اس شعر میں بیان کی رعنایٔی فکری حسن کو کیسے دو چند کرتی ہے۔ ملاحظہ کریں:

         در جہان بال و پر خویش گشودن         کہ پریدن نتوان با پر و بال دگران

کلیات اقبال فارسی ص۳۴۴

مسلمان کی مختصر زندگی کے لیٔے چنگاری کی خوبصورت تشبیہ استعمال کرتے ہوتے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ اسے تمام غیر ضروری کاموں سے دستکش ہو کر اپنی پوری توجہ اپنی ذات کی تعمیر یعنی خودی کی تربیت پر مشغول کردینی چاہیٔے۔

زخاک خویش بہ تعمیر آدمی برخیز

کہ فرصت تو بقدر تبسم شرر است

کلیات اقبال فارسی ص۳۱۷

کسی ایک شعر میں علامتی انداز اختیار کرتے ہویٔے فرماتے ہیں کہ تمام افراد انسانی کی اصل ایک ہی شعلہ حیات یعنی انایٔے مطلق ہے لیکن انفرادیت کے شوق یا لذت خودی نے ہمیں شرر کی طرح اس شعلہ سے جدا کردیا جبکہ ہم سب اللہ کے پاس سے آیٔے ہیں اور انجام کار اس کی طرف لوٹ کر جایٔیں گے۔

بود و نبود ماست زیک شعلہ حیات

از لذت خودی چو شرر پارہ پارہ ایم

کلیات اقبال فارسی ص۳۴۸

 علامہ محمد اقبال لاہوری کسی ایک شعر میں مسلک عشق کے درس کے لیٔے بیان کا زور ملاحظہ ہو فرماتے ہیں کہ اے مخاطب تو عشق کو اپنا رہنما بنا لے اس کے بعد جو جی میں آیٔے کر تیرا کویٔی فعل تجھے نقصان نہیں پہنچاسکے گا یعنی تجھ سے کویٔی ایسا عمل سرزد نہیں ہوسکے گا تجھے منزل مقصود یعنی اصلاح باطن سے غافل کردے کیونکہ عشق تو اصل حیات ہے اور اس بنا پر ہوش یعنی شعور اور فرہنگ یعنی عقل دونوں کی جان ہے لہذا جب تو مسلک عشق پر گامزن ہوجایٔے گا تو ہوش و خرد دونوں غلطی سرزد کرنے سے محفوظ ہوجایٔیں گے۔

زعشق درس عمل گیرد و ہر چہ خواہی کن

کہ عشق جوہر ہوش است و جان فرہنگ است

کلیات اقبال فارسی ص۳۲۱

ایک اور شعر میں فکری جوش الفاظ سے یوں مترشح ہے۔

نکنم دگر نگاہی بہ رہی کہ طی نمودم

بسراغ صبح فردا روش زمانہ دارم

کلیات اقبال فارسی ص۴۱۳

یعنی میں طی کردہ راہوں کو نہیں ناپتا بلکہ زمانے کی سی روش کے ساتھ آنے والی صبح کی جستجو میں رہتا ہوں۔

ج) معروف فارسی شعری اسالیب کے پیروکار شعراء کا کلام اپنی تمامتر رعنایٔی اور لطافت کے باوجود زبان میں علمیت کی طرف مایٔل تھا۔ ان کی شاعری کلاسیکی شاعری تھی جس میں ہر طرح کا عنصری شامل تھا۔ اسی لیٔے ان کے اشعار کی بندش صاف اور رواں ہوتے ہویٔے بھی کلام اقبال کی بندش سے محروم ہے جس کی موجودگی میں علامہ اقبال کا ہر مصرع اول سے آخر تک بی ساختہ پڑھا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ شاید یہ بھی ہے کہ انہوں نے چھوٹی اور زیادہ طویل بحریں بہت کم برتی ہیں چھوٹی بحریں ایسے ہی اظہار میں بندش پیدا کرتی ہیں اور طویل ادق اور پچیدہ بحریں بیان کو نامانوس بنادیتی ہیں اسی لیٔے علامہ اقبال عام طور پر مقبول بحروں میں لکھتے ہیں۔ جن سے صوتی اثر دو بالا کردینے والی کھنک اور بلند آہنگ پعدا ہوتا ہے اور غزلیات کی نوعیت غنایٔیہ ہوجاتی ہے۔ مثلا:

یاد ایامی کہ خوردم بادہ ہا با چنگ و نی

د)  علامہ اقبال لاہوری کے دو اشعار بھی جو سنگین فکری حقایٔق کے عکاسی ہیں فنی حسن سے بیگانہ دکھایٔی نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں:

من آن علم و فراست با پر گاہی نمی گیرم

کہ از تیغ و سپر بیگانہ سازد مرد غازی را

کلیات اقبال فارسی ص۴۹۶

یعنی میں اس علم و فراست کو ہیچ گر دانتا ہوں جو مرد غازی کو تیغ و تلوار سے بیگانہ کردے۔

چون بکمال می رسد فقر دلیل خسروی است

مسند کیقباد را در تہ بوریا طلب

کلیات اقبال فارسی ص ۵۰۷

یعنی جب فقر یا درویشی اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو یہی بادشاہت کی دلیل ہے لہذا تو اگر بادشاہت کا جویا ہے تو اس درویشانہ زندگی میں تلاش کر:

فروغ آدم خاکی زتازہ کاری ہاست

مہ و ستارہ کنند آنچہ بیش ازین کردند

کلیات اقبال فارسی ص ۵۱۸

یعنی انسانیت کا فروغ چاند اور ستاروں کی طرح گذشتہ افعال کی تکرار کے ساتھ انجام دہی میں نہیں بلکہ نت نیٔے کارنامے سرانجام دینے میں ہے۔

المختصر شعر کی بعض اقسام اور فنون میں مذکورہ بالا جدتوں کے پیش نظر علامہ اقبال لاہوری کو ایک نیٔے سبک شعر کا موجد ٹھہرانا نہیں خصوصا جبکہ زندگی کے بار میں بھی ان کا نقطہ نظریہ ہے کہ:

تزاش از تیشہ خود جادہ خویش

براہ دیگران رفتن عذاب است

گر از دست تو کار نادر آید

گناہی ہم اگر باشد ثواب است

حوالہ جات:

۱۔ اقبال کا فارسی کلام ایک مطالعہ، رفیق خاور، بزم اقبال لاہوری، سال ۱۹۸۸م۔

۲۔ اقبال فکر و فن، ترتیب و انتخاب، رشید امجد، فاروق علی، ندیم پبلیکیشنز راولپنڈی، سال ۱۹۸۱۔

۳۔ اقبال کا نظام فن، ڈاکٹر عبدالغنی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، سال ۱۹۹۰م۔

۴۔ اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جایٔزہ، ڈاکٹر عبدالشکور احسن۔

۵۔ شہپر جبریل، پروفیسر ڈاکٹر این میری شمل، مترجم ڈاکٹر محمد ریاض، گلوب پبلیکیشنزلاہور، سال ۱۹۸۵م۔

۶۔ نگاہی بہ اقبال ، ڈاکٹر شہین دخت مقدم صفیاری،  اقبال اکادمی پاکستان، سال ۱۹۸۹م۔

۷۔ اقبال کے کلاسیکی نقوش، انور سدید،اقبال اکادمی پاکستان، سال۱۹۸۸م۔

۸۔ اقبال ایرانیوں کی نظر میں، خواجہ عبدالحمید عرفانی، کراچی پاکستان، سال۱۹۵۷م۔

۹۔ اقبال نیٔی تشکیل، عزیز احمد، اردو ڈانجست پرنٹرز لاہور پاکستان، سال ۱۹۶۸م۔

۱۰۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، اقبال اکادمی پاکستان، سال ۱۹۸۲م۔

Leave a Reply