You are currently viewing علی گڑھ تحریک –مابعدنوآبادیاتی مطالعہ

علی گڑھ تحریک –مابعدنوآبادیاتی مطالعہ

ڈاکٹرامتیازعبدالقادر،کشمیر

علی گڑھ تحریک –مابعدنوآبادیاتی مطالعہ

         انیسویں صدی تغیر و تبدّل کا دور تھا۔ غدر کی ناکامی اور برطانوی تسلط سے پیدا شدہ منظر نامہ شکست و ریخت سے عبارت تھا لیکن اسی شکست خوردگی نے مختلف اصلاحی تحریکوں کی شکل میں نئی تعمیر کا اعلان بھی کردیا۔ اس صدی میں مسلم معاشرہ ایک طرف غیروں کے بالواسطہ اور بلاواسطہ تسلط و اقتدار سے سازشوں کا ہدف بنتا ہے، تو دوسری طرف خود امت کے داخلی مسائل و مشکلات سے مسلمانانِ عالم کسمپرسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

         ہندوستان میں جن سیاسی ، سماجی اور مذہبی تحریکوں کا آغاز ہوا وہ پُرانے سڑے گلے اصولوں اور دقیانوسی رسم و رواج سے میل نہیںکھاتی تھیں ۔ ہندو اور مسلم دونوں دقیا نوسیت اور قدامت پرستی کا شکار تھے۔ دوسری طرف بدلتے وقت میں ترقی کی جانب قدم بڑھانے کے لئے نئی تہذیب ، جدید علوم اور سائنٹفک طرز فکر کو اپنانا ضرور ی تھا ۔ اس لئے تبدیلی اور ترقی کا خواب لیکر اصلاح کا بیڑہ اٹھانے والوں نے ماضی کی وراثت سے ایک نئے مستقبل کی تعمیر کی کوشش کی۔ مایوسی ، قنو طیت اور تشتت و انتشار کے ان احوال و کوائف میں ہندوستان کی سرزمین سید احمد بریلویؒ ، سید اسماعیل شہید اور مولانا محمد قاسم نانوتوی کی فکری و عملی جہاد کا مستقر قرار پاتی ہے۔ سرسید ؔ اس صدی کی ان عظیم شخصیات میں ہیں جنہوں نے بالخصوص ہندوستان کو اصلاح و فلاح سے متعلق اپنی مسائی جملہ سے فیض پہنچایا ہے۔

         سرسیدؔ کے عہد میں جو سماجی اور مذہبی تحریکات شروع ہوئیں ، ان میں راجہ رام موہن رائے ؔ ، گووند راناڈےؔ اور سرسید تینوں کی اصلاحی کوششوں میں کچھ پہلو قریب کا تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تینوں حضرات وقت کی نبض کو پہنچانتے ہوئے جدید علوم اور مغربی تصورات کی مدد سے ایک نئے بہترین اور عظیم مستقبل کی جانب قدم بڑھانے پر زور دے رہے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے وقت کے تقاضوں کے تحت مذہب کی سائنٹفک تشریح کی تاکہ نئی نسل گمراہی کا شکارنہ ہو اور اپنی جڑوں سے جڑی رہے۔ راجہ رام موہن رائےؔ نے ’ویدانت‘ کو نئے معنی پہنائے اور ’ستی پرتھا‘ اور عالم طفلی کی شادی کی شدید مخالفت کرتے ہوئے واضح کیا کہ ویدوں میں ان کا کہیں ذکر نہیں ۔ گووند راناڈےؔ بھی اصلاح کے لئے مذہب اور سماجی اصلاح کو ساتھ ساتھ دیکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر رام ناتھ شرماؔ لکھتے ہیں:۔

         ’’ انہوں نے یہ صلاح دی تھی کہ اصلاح کرنے والوں کو کلی طور انسان کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ صرف اس کے ایک پہلو کی اور ان کے مطابق مذہب اور سماجی اصلاح کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (تہذیب الاخلاق جشن سرسید  ۲۰۱۷ ء ۔ ص ۳۵۳)

         گووندرانا ڈےؔ اقتصادیات کے ماہر اور مصنف تھے۔ انیسویں صدی میں ہندو ہذہب میں درآئی دقنانوسی رسموں کو دور کرکے بیوہ عورتوں کی شادی، لڑکیوں کی تعلیم اور ذات پات کی تفریق ختم کرنے والوں میں رانا ڈےؔ کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ ’پرارتھنا سماج ‘کے ذریعہ انہوں نے اصلاحی کوششوں کو انجام دیا۔

         مصلحین و مجددین کی کہکشاں میں سرسید احمد خانؔ اپنے ہم عصروں سے بایں طورممتاز ہیں کہ شخصیت کے گوناگوں پہلوئوں کے سبب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جا تا ہے کہ کس میدان سے سر سیدؔ کے تخصّص و انفرادیت کو منسوب کیا جائے۔ عیسائی مشینریوں کی اسلام سے بر گشتہ کرنے کی کوشش ، مسلم نوجوانوں کی طرف سے اسلام کوعقل و فہم کی کسوٹی پر دیکھنے کا مطالبہ ، وقت کی نا گزیر ضرورت سے روایت پسند علماء کرام کی بے اعتنائی پر سرسیدؔ کی نوک قلم سے’ تفسیر القرآن ‘ کا منظر عام پر آنا، ۱۸۵۷؁ء کی پہلی جنگ آزادی میں تمام ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانانِ ہند کے تئیں حکومت برطانیہ کے شکوک و شبہات کے رفع و ازالہ کے مقصد سے’ اسباب بغاوت ہند‘کی شکل میں جرأت و بے باکی کی شاہکار تصنیف ،دریدہ دہن ولیم میورؔ کی سیرت سے متعلق ہر زہ سرائی اور نبیؐ کے عشق میں دیوانگی کے ثبوت کی شکل میں ’الخطبات لاحمدیہ ‘کی تالیف ۔’ آثار الصّنادید ‘ کی شکل میں عظمت کی روح پرور یاد گار ۔ یہ سب وقیع اور عظیم الشان کارنامے ہیں اور ان گراں قدر علمی کاوشوں کی بنا پر سرسید ؔبجا طور پر بے باک و جری سیاست داں ، مورخ اور تقابلی مطالعہ ادیان کے ماہر و حاذق کہے جانے کے مستحق ہیں۔ لیکن سرسیداحمدخان کی عظمت کا اصل راز ملک و قوم کی اصلاح و فلاح کی شبانہ روز جدو جہد میں مضمر ہے بایں طور یہ کہا جا سکتا ہے کہ قوم کی اصلاح حال سرسید ؔکی کوششوں کا اصل محور ہے اور اس محور پر سرسید ؔکی سیاسی ، معاشرتی ، علمی اور اقتصادی کا وش گردش کرتی نظر آتی ہیں۔

         حکومت برطانیہ کی جاہ و حشمت اور تمام ہندوستانیوں کے ساتھ اس کی ذلت آمیز اور آمرانہ روش بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ اس کا سوتیلا پن ، ۱۸۵۷؁ ء کی پہلی جنگ آزادی کے المناک نتائج اور مسلم قوم کی اندوہناک تباہی، ایسے حالات میں سرسید ؔ نے ہوش و خرد کی آنکھیں کھولیں اور عافیت کوشی اور چین و سکون کو خیر باد کہہ کر قوم کی فلاح و بہبود کے لئے مثلِ سیماب بن گئے اور تمام تر مخالفتوں کے طوفاں سے گزرتے ہوئے انہوں نے جدید تعلیم کو نسخہ شفاء کے طور پر پیش کیا تاکہ قوم کی ہمہ جہت زبوں حالی مر فہ الحالی میں بدل جائے اور اپنے آپ کو ترقی یافتہ اقوام کے شانہ بشانہ چلنے کے لائق بنائے ۔

         مسلم معاشرے کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر نے کا عمل حقیقی معنوں میں علی گڑھ تحریک ہی نے شروع کیا۔ علی گڑھ تحریک ایک ایسی تحریک تھی جس نے مسلم معاشرے کے تمام شعبوں کو متاثر کیا ۔ اس نے مسلمانوں میں مذہبی تعلیمی اور تہذیبی اصلاح کی کوششوں کی اور مسلم سیا ست اور شعرو ا دب کو بھی صحیح معنوں میں ایک جدید سمت عطا کی ۔ سیاست کے میدان میں اس تحریک نے جو رُخ اپنایا اور اس کے نتیجہ میں جا اثرات مرتب ہوئے ، اس سے پورا برصغیر متاثر ہوا۔

         علی گڑھ تحریک کا مطالعہ غدر کے پس منظر میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ جنگ روایتی اور زوال آمادہ مشرقی معاشرے اور سائنسی ایجادات پر مبنی ترقی یافتہ اور سرمایہ دارانہ مغربی تہذیب کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ تھی ۔ جس میں مغرب کی فتح نے مشرق کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر دیا اور سرسیدؔ و دیگر ہندوستانی دانشوروں کی نظر میں مغرب کی برتری ثابت کر دی اور انہوں نے سنجیدگی سے یہ محسوس کیا کہ ہندوستانی عوام کی نجات اسی میں مضمر ہے کہ وہ تعلیم اور تہذیب کے بارے میں ایساموقف اختیار کریں جو جدید ، مغربی اور سائنسی ہو۔ اس تحریک کے روح رواں سرسیدؔکے ذہن میںتبدیلی یہی سے پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میںمسلم معاشرہ کوانھوںنے ؔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر نا چاہا اور انہی خطوط پر اس کی اصلاح کا ارادہ کیا۔

         انگریزی حکومت کے قیام کے نتیجے میں ہندوستانی معاشرے کو مختلف قسم کی تبدیلیوں سے دو چار ہو نا پڑا۔ جو اس کے لئے بالکل نئی تھیں۔ رسل و رسائل کے میدان میں ریل، ڈاک اور تار کے رواج نے وقت اور فاصلے کے فرق کو بڑی حد تک کم کر دیا۔ زراعت ، صنعت و حرفت کے میدان میں نئے مشینی ذرائعے  پیداوار کے رواج دینے سے سماجی رشتوں میں تبدیلی پیدا ہوئی۔ جس نے سائنس اور مشینوں کی برتری ثابت کر دی۔ سائنسی تحقیقا ت ، مشینی ایجادات اور نو ایجاد مشینوں کی آمد نے ہندوستان کے دانشوروں پر اپنی عظمت کا نقش چھوڑا اور ان کو بھی غور و فکر کی دعوت دی ۔ سرسیدؔ کے رفقاء حالیؔ، شبلی ؔ، وقارالملکؔ، نذیر احمدؔ اور محسن الملکؔ وغیرہ بھی اس سے متاثر ہوئے۔ اس لئے وہ بدلے ہوئے حالات کے مطابق زمانے کا ساتھ دینے کی غرض سے ہندوستانی معاشرے ، علوم و فنون اور تصورات و نظریات میں ترمیم و اضافے کی ضرورت محسوس کرنے لگے۔

         انگریزوں نے اپنی عمل داری قائم کرنے کے بعد جب ہندوستانی سماج پر سائنسی ایجادات کی کرشمہ سازیوں کا اطلاق کیا تو اس سے نذیر احمد ؔ متاثر ہوئے اور اس نے ان کی فکر کے دھارے کو نیا رُخ عطا کیا اور وہ یورپ کی سائنسی ایجادات کی برتری کے قائل ہو گئے، لکھتے ہیں:

         ’’ سائنس نے ایسا سر اٹھارکھا ہے کہ زورِجسمانی اور بہادری اور پہلوانی کسی کی کچھ حقیقت باقی نہ رہی۔۔۔۔۔ میں ایسا خیا ل کرتا ہوں کہ اہل یورپ کے مقابلے میں بہادری کے معنی ہیں خودکشی ۔ ہر روز آلات ِ حرب میں ایسی ایسی ایجادیں ہوتی چلی جاتی ہیں کہ اہل یورپ ہی ایک دوسرے کی مقاومت کریں تو کریں ۔۔۔۔۔۔۔ سلطنت کوئی حق مستقل با الذات  نہیں بلکہ سائنٹفک سو پیری یا ریٹی ( علمی برتری ) کا تابع اور اس کی فرع ہے‘‘۔؎( لیکچروں کو مجموعہ ، ۱۔ ص ۵۶۔۵۴)

         نذیر احمدؔ نے یورپ کی ترقی کا راز ان کی سائنسی برتری میں مضمر پایا ، اسی لئے انہوں نے مسلمانوں کو نہ صرف ان جدید علوم کو تحصیل کا مشورہ دیا جن کے ذریعے انگریز ترقی کی اس منزل پر پہنچ گئے تھے اور ان پر حکمران تھے بلکہ ان کے نزدیک ہندوستان کی پستی کی وجہ جہالت تھی اور انہیں پختہ یقین تھا کہ ہندوستان کو اس حالت سے نکالنے کے لئے جدید علوم کے تمام شعبوں میں ماہرین پیدا کر نا لازمی ہے اسی لئے انہوں نے مسلمانوں میں رائج روایتی قدیم علوم کو بدلے ہوئے حالات میں معاشی اعتبار سے غیر مفید اور ترقی کا سدراہ اور عربی زبان کی تحصیل کو نادانی قراردیا ۔

         اپنے ناول ’ابن الوقت‘ میں اسباب بغاوت کا تجزیہ کرتے ہوئے ، دیسی صنعت و حرفت کے زوال کا بنیادی سبب نزیر احمد نے برطانوی ٹیکنالوجی کی برتری قرار دی تھی اور ہندوستان میں صرف ایسی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا تھا جو عوام کے حق میں فائد ہ مند ثابت ہو سکے۔ اور جو لوگوں کو غور و فکر کی دعوت اور صنعت و حرفت کی ترقی دے سکے۔ علاوہ ازیں انہوں نے مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ضروری دینی تعلیم کو بھی لازمی قرار دیا تاکہ مذہب پر طلباء کا اعتقاد برقرار ہے ۔

         حالیؔ کے خیال میں کل تک جو چیزیں اسرار فطرت تصور کی جاتی تھیں، انہیں سائنسی ایجادات نے نہ صرف سب پر عیاں کر دیا ہے بلکہ ان کی تسخیر بھی کر لی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ روز بروز کی سائنسی ایجادات کے نتیجے میں پرانے اقدار ، تصورات ، نظریات اور آلات فرسودہ ہوتے جارہے ہیں ۔ ہندوستانی معاشرے، نو ایجادآلات اور مشینوں کے رواج کے نیتجہ میں رونما ہوتی ہوئی تبدیلیوں کا بھی انہوں نے غائر مطالعہ کیا۔

         ہمعصر سماج میں رونما ہوتی ہوئی تبدیلیوں کو دیکھ کر حالیؔ کو اس بات کا شدید احساس ہوا کہ مسلم معاشرے میں جو تعلیم رائج ہے وہ بدلے ہوئے حالات میں دین یا دنیا ، کسی کے فائدے کی نہیں ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ جدید تعلیم پر ہی ترقی کی بنیا دہے۔

         شبلیؔ نے یقینا مسلمانوں کی مجموعی پسماندگی کا علاج جدید علوم کی تحصیل میں تلاش کیا اور جدید علوم کے طلبہ کے لئے مذہبی تعلیم کو بھی ضروری خیال کیا تاکہ مسلم طلبہ اپنی تاریخ ، اپنے دین اور اپنے تہذیبی ورثے سے باخبر رہیں۔ انہوں نے مشرقی زبان و علوم کی تحصیل کو ضروری سمجھا تاکہ مسلمان اپنی روایات سے باخبر رہیں ۔ شبلیؔ بنیادی طور پر مسلمانوں کے لئے ان دونوں تعلیمی نظاموں کا ایک آمیزہ تیار کر نا چاہتے تھے۔ شبلیؔ کے اس نظریے کو سامراجی تہذیبی حملے کے پیش نظر تہذیبی مدافعت کی ایک کوشش تصور کیا جاتا ہے۔

         اٹھارویں صدی میں مغرب نے مشرق پر سیاسی،فکری اور تہذیبی اعتبار سے جس درجہ کا حاکمانہ تسلط اختیار کر لیا تھا اس کے پس پردہ علمیات کی قوت کار فرما تھی۔ مغرب نے مشرق کو ایک طویل عرصے تک اپنے مطالعہ کا موضوع بنایا ۔ یہ مطالعہ مشرق، اس کے علوم و فنون اور تہذیب و سیاست کو جاننے کی غرض سے نہیں کیا گیا تھابلکہ اس کا مقصد ایک ایسی علمیات وضع کر نا تھا، جس کا محرک حاکمیت اور اقتدار کا فلسفہ تھا۔ مشرق کے بارے میں مغرب کایہ علمیاتی تصور ہمہ گیر اور آفاقی تھا ۔ یہ علمیاتی ڈسکورس مشرق کے تصور کائنات ، تصور علم ، تصور تشخص ، تصور تہذیب اور تصور مذہب غرض کہ تما م مظاہر کا ئنات کو محیط تھا۔

         انیسویں صدی میں سرسید ؔ ، ڈپٹی نذیر احمد ؔ ، محمد حسین آزاد ؔ، حالیؔ ، ذکاء للہ ؔ اور شبلیؔ جیسے نابغہ جلوہ افروز تھے۔ ان دانشوروں میں علامہ شبلیؔ نوآبادیات کے علمیاتی ڈسکورس کا گہرا عرفان رکھتے تھے۔ وہ اسکے مضمرات سے بخوبی آگاہ تھے۔ اس کا اندازہ شبلی کی غیر تنقیدی تحریروں ، سوانح نگاری، سفرنامہ اور مقالات کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ شبلیؔ کی تمام غیر تنقیدی تحریریں مشرقی علوم کی عظمت اور مشرقی طرز حکومت کی خصوصیات ، مشرقی فلاسفہ کے کارناموں کی مناظرانہ اندازمیں پیشکش مغرب کے علمیاتی ڈسکورس کے ابطال سے عبارت ہیں۔ نوآبادیاتی ڈسکورس سے علامہ شبلیؔ کی واقفیت کا اندازہ لگانے کے لئے ذیل کا اقتباس ملاحظہ کیجئے:

         ’’ یورپ نے کسی زمانے میں مسلمانوں کے خلاف جو خیالات قائم کر لئے تھے، ایک مدت تک وہ علانیہ اس طریقے سے ظاہر کئے جاتے تھے کہ مذہبی تعصب کا رنگ صاف نظر آتا تھا اور اس وقت قبول عام کا یہی بڑاد عمدہ ذریعہ تھا لیکن جب یورپ میں مذہب کا زور گھٹ گیااور مذہبی ترانے بالکل بے اثر ہوگئے تو اس پالیسی نے دوسرا پہلو بدلا ، اب یہ طریقہ چند اںمفید نہیں سمجھا جاتا کہ مسلمانوں کی نسبت صاف صاف متعصبانہ الفاظ لکھے جائیں بلکہ بجائے اس کے یہ دانش مندانہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ اسلامی حکومتوں ، اسلامی قوموں ، اسلامی معاشرت کے عیوب تاریخی پیرایہ میں ظاہر کئے جاتے ہیں اور عام تصنیفات ، قصوں ، ناولوں ضرب المثلوں کے ذریعہ سے وہ لٹریچر میں اس طرح جذب ہو جاتے ہیں کہ تحلیل کیمیاوی سے جدا نہیں ہو سکتے‘‘۔ (سفر نا مہ روم ، مصر و شام ، ص ۱۴)

         نو آباد کار جن ممالک پراپنا تسلط جمانے کے خواہاں ہوتے ہیں ، ان کا پہلا حربہ یہ ہوتا ہے کہ تاریخ کے بیانیہ کو مسخ کر دیتے ہیں۔ شبلیؔ نے اپنی دور اندیشی اور تبحر علمی کے سبب استعماری نظام کی حرکیات کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ وہ نو آباد کار کے اس حربے سے واقف تھے کہ نوآباد کاراپنے ایجنڈے کی ترویج و اشاعت کے لئے تعلیمی اداروں کو موئثر وسیلہ خیال کرتا ہے۔ استعماری طاقتوں کے زیر اہتمام علمی اداروں کے قیام کے مضمرات کی تفہیم ،شبلیؔکو اپنے معاصرین میں ممتاز بنا دیتی ہے۔اخیر اٹھارویں صدی کے مستشرقین کے علمی کارناموں کا جائزہ لیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

         ’’ یہ وہ زمانہ ہے جب یورپ کی قوت سیاسی، اسلامی ممالک میں پھیلنی شروع ہوگئی ، جس نے اورینٹلسٹ کی ایک کثیر التعداد جماعت پیدا کر دی ، جنہوں نے حکومت کے اشارہ سے السنہ مشرقیہ کے مدارس کھولے ، مشرقی کتب خانوں کی بنیادیںڈالیں ، ایشیاٹک سوسائٹی قائم کیں ، مشرقی تصنیفات کی طبع و اشاعت کے سامان پیدا کیئے اور ئنیٹل تصنیفات کا ترجمہ شروع کیا۔‘‘  ( سیرت النبیؐ  ج ۱۔ ص ۵۸)

         نوآبادکار جس علاقے پر اپنا اقتدار قائم کرناچاہتا ہے، اس علاقے کے افراد ، وہاں کی تاریخ و تہذیب اور مذہب کے بارے میں منفی مفروضات کا ایک نظام وضع کر تا ہے۔ اس کا مقصد وہاں کے باشندوں میں احساس کمتری ، بے چارگی ، اپنے آپ سے نفرت ، اپنے اسلاف سے نفرت اپنی تہذیب اور اپنے مذہب سے نفرت پیداکر نا ہوتا ہے۔ اس کے بعد نو آباد کار زیر ہدف ممالک کے باشندوں کے سامنے ایک ایسا نظام زندگی پیش کرتا ہے، جو استعماری ایجنڈے کو بروئے کار لانے میں ممدو معاون اور وہاں کے اہلیان کے لئے دلکش ہوتا ہے۔ شبلیؔ نے اس استعماری فریب کی بیخ کنی کے لئے ناموران ِاسلام کی سوانح عمری کا سلسلہ شروع کیا۔ شبلیؔ  نے جن نامور مغربی مصنفین کے عربی ترجمے کے مطالعے کے توسط سے انیسویں صدی کے ربع آخر میں نوآبادیاتی مضمرات و مسائل کا شعور حاصل کیا تھا، ما بعد نوآبادیاتی تنقید کے باقاعدہ بنیاد گزار ایڈورڈسعیدؔ نے اپنی رجحان ساز کتاب “Oreintalism” (مطبوعہ  ۱۹۷۸؁ء) میں انہی مغربی مصنفین کے افکار و تصورات پر اپنی فکر کی اساس قائم کی ہے۔ حقیقت یہ کہ شبلیؔ کی غیر تنقیدی تحریریں مابعد نو آبادیاتی طرز فکر کے پیش نظر بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔

         حاکم و محکوم کے درمیان ہمیشہ سے ایک ہی رشتہ رہا ہے ، حاکم قومیں اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے محکوم قوموں کوکاہل اور بے عمل گردانتی ہیں۔ انگریزوں نے بھی اپنی حکومت کو استحکام دینے کے لئے اس طریقہ کار کو اپنایا انہوں نے ہندوستانیوں کے ذہن میں ان کی تہذیبی روایات اور ثقافتی قدروں کے متعلق بے شمار سوالات پیدا کئے ۔ یہ نوآبادیاتی رویہ اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے لے لئے اپنایا گیا۔ انگریزوں کی شعوری کوششوں کے باعث ، ہندوستانیوں کا ذہنی رویہ تو تبدیل ہوا ہی نیز ان کی طرز زندگی بھی کافی حد تک متاثر ہوئی۔ انگریزوں نے ہندوستانیوں کے ادبی سرمائے، تاریخ ، تہذیب ، ثقافت کو غیر منطقی اور لغو قرار دے کر اس کا مذاق اڑایا اور اپنے ادب، تاریخ، تہذیب وغیرہ کو سب پر فائق گردانا۔ ایڈورڈسعیدؔ اس حوالے سے لکھتے ہیں:

         ’’ؔ توسیع حکومت کی آرزو مندی کالونیل ڈسکورس کا لازمی حصہ ہے۔ اس لئے مغرب نے کولونیل علاقوں میں محض فوجی استحصال اور سیاسی حکمرانی تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ آرٹس، ادبیات اور ڈسکورس کے تمام ممکن وسائل سامراجیت کے استحکام کے لئے استعمال کئے تھے۔ـ‘‘

 ( کولونیل ڈسکورس اور اردو ادب، ایک عمومی جائزہ ، مشمولہ،دانش،شمارہ ۷،علی گڑھ۔ص۱۸۲۔۱۸۱)

         سرسید کی اصلاحی تحریک اور غزل پر حالیؔ کے اعتراضات کی بنیاد اس نو آبادیاتی کلامیہ کی اساس پر قائم ہے۔ انگریزوں کی پیدا کردہ اس نو آبادیات

 کے تحت غزل ، مثنوی ، داستان  وغیرہ غیر حقیقی معلوم ہونے لگے۔ سرسیدؔ کے مطابق ہندوستانی اپنی کنہہ تک انگریزوں کی تقلید کے ذریعہ ہی پہنچ سکتا ہے ۔ غرض کی مغربی تہذیب کی بالادستی مستحکم ہو گئی ۔ آزادؔ نے سرسید کی تقلید کرتے ہوئے لکھا:

         ’’ تمہارے بزرگ اور تم ہمیشہ نئے مضامین اور نئے انداز کے موجد رہے، مگر نئے انداز کے خلعت و زیور جو آج کے مناسب حال ہیں ، وہ انگریزی صندوقوں میںبند ہیں کہ ہمارے پہلو میں دھرے ہیں اور ہمیں خبر نہیں ۔ ہاںصندوقوں کی کنجی ہمارے ہم وطن انگریزی دانوں کے پاس ہیں‘‘۔        (کولو نیل ڈسکورس اور اردو ادب ایک عمومی جائزہ مشمولہ دانش شمارہ ۷، علی گڑھ ص ۱۸۳)

         جہاں ایک طرف سرسیدؔ، حالیؔ اور آزاد وغیرہ نو آبادیاتی کلامیہ کو قائم کرنے کی مسلسل کوششوں میں مصروف تھے، وہیں دوسری طرف میر ناصر علیؔ ، شبلیؔ ، سرعبدالقادؔر اور عبدل الحلیم شررؔ نے نو آبادیاتی رویوں پر شدیدردِ عمل کیا ۔ اکبر الہ آبادی کی پوری شاعری ہی نو آبادیاتی قوتوں سے نبردآزما ہے۔ یہ ردعمل مابعد نو آبادیاتی کی اساس ہے۔

         ما بعد نو آبادیات وہ طرز فکر ہے جو اپنی مخصوص شعریات، ثقافت، تہذیب اور روایات کو بنیادی حوالہ بناتی ہے۔ جن رویوں اور طریقہ کار کو نو آبادیاتی کلامیہ کے تحت فرسودہ اور غیر حقیقی قرار دے دیا گیا، ما بعد نو آباد یات انہیں فکری رویوں سے معاملہ کرتی ہے۔ ایسی تحریر وںکا مطالعہ مابعد نو آبادیاتی  از سر نو کرتی ہے، جس کا مطالعہ نو آبادیاتی شعر یات کے تحت کیا گیا تھا۔ گویا مابعد نوآبادیاتی کلامیہ زبان و ادب کو اس کے مخصوص ثقافتی پس منظر میں اجاگر کرنے کی سعی ہے ۔ بل ۔ آش کرافٹ رقمطراز ہیں:

         ’’ ان کی (مابعد نو آبادیات کی ) موجودہ شکل نو آبادیت  کے تجربے کے نتیجے میں سامنے آئی ہے اور سامراجی قوتوں کے سامنے اپنے وجود کا احساس کراتی ہے اور ان طاقتوں سے اپنے اختلاف کو نمایاں کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں مابعد نو آبادیات کہا جاتا ہے‘‘ مزید لکھتے ہیں :

         ’’ مابعد نو آبادیاتی تصانیف کی گوناگوں ثقافتی ابتدائی تاریخ اور پیچدگیوں کوپیش کرنے میں یورپین نظریے کی نا اہلی کے سبب ، مابعد نو آبادیاتی نظرئے کا تصور وجود میں آیا۔‘‘  (مابعد نو آبادیات کا تعارف ، مترجم ، مشرف علی، مشمولہ دانش، شمارہ ۷، علی گڑھ ، ص ۱۷۶/۱۴۴)

          نو آباد کاروں نے ہندوستان کے ادب کا مطالعہ مغربی معیارات پر کیا تھا۔ چونکہ یہ عمل صرف اپنی حکومت کے استحکام کے لئے اور مابعد نو آبادیاتی صورت حال کو مضبوط کرنے کے لئے تھا، کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ ہر ادب کا اپنا مخصوص کلچر اور روایتیں ہوتی ہیں۔ ادبی شعریات خلا میں پیدا نہیں ہوتیں ۔ شعریاتی نظام خود مکتفی نہیں ہوتا اور نہ ہی مغربی شعریات کی رو سے مشرقی ادب کی قرأت ممکن ہے ۔ شعریات کا اپنی ثقافت سے گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے نو آبادکاروں نے مشرقی شعریات کا مطالعہ جن بنیادوں پر کیا تھا وہ مابعد نو آبادیات کی رو سے رد ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں ادبی شعریات کو غیر اہم قرار دے کر ہندوستانیوں کے ذہنوں کو غلام بنانا تھا تاکہ نو آبادیاتی صورت حال قائم رہے اور وہ ایسے ہی حکومت کرتے ہیں ۔ مابعد نو آبادیات نہ صرف نو آبادیاتی رویوں کو رد کرتی ہے بلکہ ہند کی ادبی شعریات کی بنیادوں پر ہی متن سے معاملہ کرتی ہے۔

٭٭٭

Leave a Reply