You are currently viewing عہد وسطیٰ میں عورت کی حیثیت

عہد وسطیٰ میں عورت کی حیثیت

ڈاکٹر شبنم آرا

پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو(یو جی سی)

ہاؤس نمبر:128، فلیٹ نمبر 303،

گلی نمبر 10، ذاکر نگر ، نئی دہلی110025-

عہد وسطیٰ میں عورت کی حیثیت

         آٹھویںصدی عیسوی سے اٹھارہویں صدی عیسوی تک کا زمانہ سمرتیوں، شارحین اور مورخین کا عہد تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس عہد کے معاشرتی نظام میں عورت کی حیثیت میں ہمیں خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے خواہ وہ راجپوت ہوں یا سلاطین دہلی یا مغل شہنشاہ۔ ان حکمرانوں کے عہد میں بھی شہزادیوں اور امیر زادیوں کے علاوہ عام عورتیں جبر و استحصال کی شکار رہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں انہیں کمتر، کہتر، حقیر اور لاچار ہی سمجھا جاتا رہا۔ ہندو عورت کو وید پڑھنے کی ممانعت تو عہد قدیم ہی میں کر دی گئی تھی کیوں کہ ان کی نظر میں عورت کی حیثیت شودر سے زیادہ نہیں تھی۔ عورت سے صرف یہی توقع کی جاتی تھی کہ وہ شوہر کی تابع اور فرماں بردار رہے۔ بلکہ اپنے شوہر کے حکم کو آنکھ بند کرکے بجالانا اس کا فرض اولین تھا۔ ایک مصنف نے اس عہد میں اپنے شوہر کے تئیں بیوی کے فرائض پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ اسے اپنے شوہر کے پیروں کی مالش اور وہ تمام کام کرنے چاہئے جو کہ نوکروں کے لئے مناسب ہیں۔(1) لیکن دوسری طرف وہ یہ شرط بھی عائد کرتا ہے کہ شوہر کو راستی کے راستے پر چلنا چاہئے اور اپنی بیوی کے تئیں نفرت یا حسد نہیں رکھنا چاہئے۔ جب کہ پُران میں ایک شوہر کو اس بات کی پوری آزادی دی گئی ہے کہ وہ اس کے

سر اور چھاتی کو چھوڑ کر کوڑے یا بانس کی چھڑی سے اس کی پٹائی کر سکتا ہے۔(2)

         عہد وسطیٰ میں بھی عورت کو وید پڑھنے سے منع کر دیا گیا۔ گوکہ عہد قدیم میں اسے جو آزادیاں درکار تھیں عہد وسطیٰ میں دھیرے دھیرے کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ تعلیم کے دروازے بھی رفتہ رفتہ ان کے لئے تنگ ہونے لگے۔ صرف اعلیٰ خاندان میں ہی لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت دی جاتی تھی۔ دراصل اس عہد کا عام نظریہ یہی تھا کہ وہ شادی کریں اور اپنے شوہروں اور بچوں کی نگہبانی میں اپنے آپ کو وقف کر دیں۔ اس لئے ان کو مذہبی یا ریاضت کی زندگی اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن اعلیٰ طبقے کی عام عورتوں کو تعلیم سے بہروردیکھا یاگیا ہے اور سنسکرت زبان میں شادی اور ڈرامہ کی متعدد تصنیفات بھی عورتوں سے منسوب کی جاتی ہیں۔ (3)مثلاً تمل زبان کی قدیم شاعرہ اویّار کا ذکر بھی لازمی ہے جس نے قابل قدر شاعرانہ سرمایہ چھوڑا ہے۔ ایک پُرشکوہ نظم کا حوالہ ایک کمار کی بیوی سے دیاجاتا ہے۔ اس نظم میں قدیم چول بادشاہ کاکری کالن کی ونّی میں عظیم فتح کو بیان کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ سنسکرت کے درباری ادب سے جو عورتیں تعلق رکھتی تھیں ان کو بھی پڑھنے لکھنے اور منظومات تصنیف کرنے میں منہمک دکھایا گیا ہے۔ ان خواتین نے بھی اس عہد کے اہم علوم و فنون میں اپنی مہارت کا ثبوت پیش کیا ہے۔(4) اعلیٰ طبقے کی خواتین کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک مہم جو یا نہ اور غیر محفوظ زندگی گزارتی تھیں اس لئے وہ بہت سے علوم و فنون سیکھنے پر بھی مجبور تھیں۔ (5) دیول رانی ، روپ متی اور میرا بائی ہندو تہذیب کی اچھی مثالیں ہیں۔ حاجی دبیر کا یہ بیان بھی قابل غور ہے کہ قراجل کی پہاڑیوں (کمایوں)پر تغلق کے حملے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ ان علاقوں کی عورتیں حاصل کرنا چاہتا تھا جو اپنی شائستگی کے لئے مشہور تھیں۔(6) عہد قدیم میں خوشحال گھرانے کی لڑکیاںسنگیت اور رقص سے اسی طرح رغبت رکھتی تھیں جس طرح دوسرے نسوانی فنون مثلاً تصویر کشی اور عقد سازی وغیرہ۔(7) یہاں تک کہ اس عہد کے تحریر کردہ کچھ ڈراموں سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ شاہی محل کی عورتیں اور رانی کی باندیاں بھی سنسکرت اور پراکرت میں اعلیٰ معیار کی شاعری کر سکتی تھیں۔ فنون لطیفہ خاص طور پر مصوری اور موسیقی میں شہزادیوں کی مہارت کا ذکر مختلف قصوں اور کہانیوں میں ملتا ہے۔ یہاں تک کہ اعلیٰ عہدیداروں کی لڑکیاں ، طوائفیں اور داشتائیں بھی مختلف فنون لطیفہ کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری پر بھی پوراپورا عبور رکھتی تھیں۔ (8) غرض کہ اس عہد میں عورتوں نے ان فنون میں اپنی لگن اور مہارت کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔ لیکن عہد وسطی میں انہیں وہ مواقع نصیب نہیں ہو سکے جس کی وہ حقدار تھیں۔ ان کے فرائض منصبی صرف مردوں کی خدمت کرنا اور زندگی کے میدان عمل میں انہیں اپنے مردوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ مثلاً بیٹی کی حیثیت سے عورت باپ کی سرپرستی میں رہتی تھی۔ بیوی کی حیثیت سے (اگر وہ اپنے شوہر کی موت کے بعد بھی زندہ رہتی) سب سے بڑا بیٹا اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ (9) اسے اپنی ساری زندگی کسی نہ کسی نگہداشت میں بسر کرنی پڑتی تھی۔ اور سماج کے اصول و ضوابط اور طور طریقے نے تو اس پر ذہنی کم مائگی کی مہر ہی ثبت کر دی تھی۔ پیدائش کے وقت اسے ناخواندہ مہمان تصور کیا جاتا تھا۔ کیوں کہ ہندؤں کے مذہبی عقائد کی رو سے بد نصیب بیٹی باپ کے گناہوں کا کفارہ ادا نہیں کر سکتی تھی۔ (10) یہی وجہ ہے کہ بعض اقوام میں اسے بچپن میں ہی قتل کر دیا جا تا تھا۔(11) اگر والدین نے ترس کھاکر اس کو زندگی بخش دی تو اسے کبھی نہ ٹوٹنے والے رشتے میں منسلک کرکے شوہر کے رحم و کرم پر اس کے گھر رخصت کر دیا جاتا تھا۔ اس عہد کے عوامی نظریے کے مطابق دوران حمل اگر وہ وفات پا جاتی تو بہت خوف ناک بد روح کی شکل اختیار کر لیتی تھی جسے چڑیل کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ وہ پڑوس میں منڈلاتی رہتی تھی۔ یہاں تک کہ اس کا اختتام موت یا ستی کی حالت میں ہی ممکن تھا۔(12) اس طرح پیدائش سے موت تک عورت کی زندگی انتہائی ناخوشگوار ہوتی تھی ۔ حالانکہ مذہب اور دیگر اصلاحی روحانی تحریکات عورت کے ساتھ اس قسم کے نازیبا سلوک کو غلط قرار دیتے تھے اور انہیں اپنی قسمت پر شاکر رہنے کے لئے صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین کرتے تھے۔ لیکن انہیں یہاں بھی کوئی ایسا مقام نصیب نہیں ہو سکا جس کی بنیاد پر وہ اپنی ذات اور وجدان کی شناخت پیش کرتیں۔ مذہبی معاملات میں بھی ان کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ عہد وسطیٰ میں بھی بہ نسبت لڑکیوں کے لڑکوں کی پیدائش پر بے حد مسرت کا اظہار کیاجاتا تھا۔ یہاں تک کہ ہندوؤں کے عقائد کے مطابق ایک لڑکے کو جنم دینا عورت کا فرض اولین تھا۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد اس عورت کی بے انتہا عزت کی جاتی تھی لیکن دیگر معاملات میں ہندوستانی عورت گھر اور گھریلو امور تک ہی محدود رہتی تھی۔ یہاں تک کہ اس کی تمام عمر شوہر کی خوشنودی اور خود کو وفادار ثابت کرنے میں ہی گزر جاتی تھی۔ (13) علاوہ ازیں وہ ایک کمزور دماغ اور اہم معاملات میں بالکل ناقابل اعتبار تصور کی جاتی تھی۔ البتہ چند غیر معمولی عورتیں بھی اس عہد میں تھیں لیکن ان کی وجہ سے پوری صورت حال تو نہیں تبدیل ہو سکتی تھی۔

         بحیثیت مجموعی ہندو سماج میں عورتوں کی حالت بہتر نہیں تھی۔ عہد وسطیٰ میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادی بھی ان کی اعلیٰ تعلیم کی راہ میںحائل ہوئی کیوں کہ سمرتیوں کے مصنفین کے مطابق عام طور پر لڑکیوں کی شادی چھ سے آٹھ برس کی عمر کے درمیان یا آٹھ سال کی عمر کے بعد اور بالغ ہونے سے پہلے کر دینی چاہئے۔(14) اکبر نے ان معاملات میں دخل اندازی کی کوشش کی اور شادی کے لئے کم از کم لڑکے کی عمر 16سال اور لڑکی کی عمر 14سال مقرر کی۔(15) لیکن یہ وثوق کے ساتھ کہنا مشکل ہے کہ ان کے اس قوانین پر کس حد تک عمل ہوا۔ شادی سے متعلق رسوم و تقریبات کی ذمہ داری والدین اور خصوصاً والد کا حق تصور کیا جاتا تھا۔ (16) دوسری شادی کی اجازت بعض مخصوص حالت میں تھی۔ یعنی اس صورت میں کہ شوہر نے بیوی سے کنارہ کشی کر لی ہو۔ یعنی اس کا کوئی پتہ نہ ہو، یا شوہر فوت ہو گیا ہو، یا اس نے سنیاس لے لیا ہو، نامرد ہو یا اسے ذات سے باہر کر دیا گیا ہو۔ (17)گو کہ کم عمری کی شادی نے عورتوں کی تعلیم پر بڑے مضر اثرات مرتب کئے۔ اس عہد میں عورتوں کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس عہد میں جو فرہنگیں مرتب کی گئیں ان میں ’’معلمہ‘‘ یا ’’استانی‘‘کے متبادل الفاظ کا ذکر نہیں ملنا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ عورتوں کی اعلیٰ تعلیم یا ان کا کسی پیشے سے منسلک نہ ہونا اس عہد کی ناگفتہ بہ صورت حال تھی۔ (18) کم عمری کی شادی آہستہ آہستہ لڑکیوں کی اموات میں اضافے کا سبب بنی اور مرد ’’منوسمرتی‘‘کے بنائے ہوئے قانون کا سہارا لے کر دوسری شادی کرنے کے آہستہ آہستہ عادی ہونے لگے ۔ عورتوں کی اس افسوس ناک صورت حال کا تجزیہ بڑی ہی باریک بینی سے ستیش چندرا نے کیا ہے:

’’ہندو معاشرے میں عورتوں کی حیثیت میں بھی بہت کم تبدیلی آئی۔لڑکیوں کی کم عمری میں شادی اور شوہر کی خدمت اور اس کی پوری تابعداری بیوی کا سب سے اہم فریضہ مانا جانا اور ایسے تمام قواعد بدستور موجود تھے۔ شادی کی منسوخی (طلاق) کی اجازت بالکل آخری حد پر تھی جیسے چھوڑ کر چلا جانا، گھناونی بیماری وغیرہ۔ ‘‘(19)

         اس عہد میں بیواؤں کی حالت نہایت ہی نازک تھی۔ طبقہ اعلیٰ کے افراد بیواؤں کی دوبارہ شادی پر نہایت ہی سختی برتنے لگے۔ اس میں وہ لڑکیاں بھی شامل تھیں جو بچپن ہی میں بیوہ ہو جاتی تھیں اور جن کی شادیاں پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتی تھیں۔ یہاں تک کہ ’’نیوگ‘‘کی رسم بھی جس کے تحت ایک بے اولاد بیوہ کو اپنے دیور یا جیٹھ سے جسمانی تعلقات استوار کرنے اور حاملہ ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا تھا۔ مسیحی عہد کی ابتدائی صدیوں میں یہ رسم متروک ہو گئیں۔ (20)تاریخ شاہد ہے کہ عہد قدیم میں بیواؤں کی شادیاں بہت عام تھیں لیکن عہد وسطیٰ میں بیوہ بہت بدنصیب تصور کی جاتی تھی۔ زمین پر سوتی تھی اور دن بھر میں صرف ایک بار بہت سادہ کھانا کھاتی تھی۔ نہ رنگین کپڑے پہنتی تھی اور نہ ہی عطریات کا استعمال کرتی تھی۔ عہد وسطیٰ میں بیواؤں سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنے بال بھی ترشوائیں۔ ایک بیوہ کو یہ سخت زندگی اپنے آخری ایام تک بسر کرنا ہوتی تھی اور وہ بھی صرف اس امید میں کہ دوسری دنیا میں اس کی شادی اس کے سابق شوہر سے دوبارہ ہو جائے گی۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت عبادت میں گزارتی تھیں۔(21) گو کہ اس کی پوری شخصیت ہر شخص کی نظرمیں منحوس تھی۔ وہ جہاں بھی جاتی تھی اس کی موجودگی بد شگن ثابت ہوتی تھی۔ وہ کبھی کسی بھی خاندانی تیوہاروں میں شرکت نہیں کر سکتی تھی۔ کیوں کہ ہندوؤں کا عام نظریہ یہی تھا کہ اس کی شمولیت تمام حاضرین کے لئے بدبختی کا پیغام ہوگی۔ ان دل سوز حالات سے عاجز آکر عورتوں نے ’’ستی‘‘ ہونے کے فیصلے کو جائز قرار دیا۔ ویسے تو یہ رسم ہندو سماج کے اعلیٰ طبقات تک محدود تھی اور جنگجو راجپوت اقوام میں اسے خصوصاً پسندیدہ نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ادنیٰ طبقہ کی عورتیںاپنے شوہر کی ارتھی کے ساتھ شمشان گھاٹ تک بھی نہیں جاتی تھیں ۔(22)ہندوستان کی دیگر قدیم رسموں میں ستی کی رسم بھی چلی آرہی تھی اور آریوں اور دیگر حملہ آوروں نے آکر اسے اپنے سماجی نظام میں شامل کر لیا۔(23)چند دیگر سماجی امور بھی اس خوفناک رسم کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ کیوں کہ ستی کی رسم کی حوصلہ افزائی نے ہندو سماج میں عورت کی حالت کو پست کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ بلکہ متعدد ایسے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ستی کو بہ رضا قبول نہیں کرنے کی صورت میں اسے نہایت ہی تلخ اور ہتک انگیز زندگی گزارنا پڑتی تھی۔ اس لئے وہ یہی بہتر سمجھتی تھی کہ خود کو آگ کے شعلوں کی نذر کر دے۔ (24)کیوں کہ ستی نہ ہونے کی صورت میں کنبے کے سامنے اس کی سماجی حیثیت پر چوٹ لگتی تھی۔ اس لئے عوام کے احکامات اور مذہبی اعتقادات بھی عورت کے ذہن پر اس بات کو نقش کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے کہ ستی ہونا عورت کے لئے باعث فخر ہے۔ اگر کوئی بیوہ خود کو اپنے مرحوم شوہر کے ساتھ ستی ہونے سے انکار کر دیتی تو اس کی وفاداری پر شک کیا جاتا۔ بعض حالات میں اس پر معاشی دباؤ بھی ڈالا جاتا۔ نکولوئٹی نے ایسے واقعات پیش کیے ہیں جن میں دلہن کے ستی ہونے یا جہیز کو واپس کرنے کی شرط رکھی گئی۔ موخر الذکر حالت میں اس کے اپنے بچوں کو چھوڑ کر تمام جہیز اس کے مرحوم شوہر کے رشتہ داروں کو دیا جاتا تھا۔(25)ابوالفضل کے تجزیے

 کے مطابق:

’’عورت کے ستی ہونے کی کئی قسمیں ملتی ہیں۔ پہلی وہ جنہیں ان کے رشتے دار چتا میں جانے کے لئے مجبور کرتے تھے، دوسری وہ جو اپنے مرحوم شوہروں کے ساتھ انتہائی محبت کی وجہ سے برضا و رغبت اور بخوشی اس ابتلا کو تسلیم کر لیتی تھیں۔ تیسری قسم کی وہ عورتیں جو رائے عامہ کے پیش نظر خود کو شعلوں کے سپرد کر دیتی تھیں۔ چوتھی قسم کی وہ خواتین تھیں جو خاندانی رسوم و روایات کے پیش نظر ستی ہوتی تھیں اور پانچویں قسم ان عورتوں کی تھی جنہیں ان کی مرضی کے خلاف آگ میں ڈالا جاتا تھا۔(26)

         ہندوؤں کے اس رسم ستی کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے مسلم حکومت کے طرز عمل کا جائزہ بھی لازمی ہے۔ بیرونی سیاح ابن بطوطہ کے مشاہدے کے مطابق سلاطین دہلی نے ایک ایسے قانون کا نفاذ کیا جس کے مطابق ایک بیوہ کو جلانے کے لئے حکومت کی جانب سے اجازت نامہ لینا لازمی تھا۔ اس قانون کو وضع کرنے کے پس پشت یہ نظریہ کار فرما تھا کہ عورت کو جبراً یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے شوہر کی لاش پر جلنے کے لئے اسے لاچار تو نہیں کیا جا رہا ہے۔ لیکن حکومت بھی اس حیوانیت کے خلاف اپنی جانب سے کوئی خاطر خواہ قدم اٹھانے پر مجبور تھی۔(27) صرف سرکار کی جانب سے اجازت نامہ حاصل کرنے کے علاوہ حکومت ہمایوں کے دور تک کوئی اور قدم نہیں اٹھا سکی۔ لیکن مغل شہنشاہ ہمایوں وہ پہلا حکمراں تھا جس نے ستی جیسی انسانیت سوز رسموں پر پابندی عائد کر دی۔ مثلاً کوئی بھی عورت جو بچہ پیدا کرنے کی عمر سے آگے نکل چکی ہو اسے ستی کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ خواہ اس نے اپنی مرضی ہی سے خود کو کیوں نہ ستی ہونے کے لئے آمادہ کر لیا ہو۔ ہمایوں کی جانب سے سماجی اصلاح کا یہ بہت ہی دلیرانہ قدم تھا۔ گوکہ ہندو مذہبی طبقے اور ہندو عوام نے اس قسم کی پابندی کی مخالفت نہیں کی لیکن بادشاہ کو اس بات کا یقین ضرور دلایا گیا کہ دوسروں کے مذہبی معاملات میں رخنہ ڈالنا اور ایک مقدس رسم پر پابندی عائد کرنے پر خدا کا قہر بھی نازل ہو سکتا ہے۔ اور اس کی حکومت کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے اور شاید موت کا باعث بھی۔(28)’’رگ وید ‘‘کی ایک مماتی مناجات سے بھی اس حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ پرانے زمانے میں مردے کو جلاتے وقت اس کی بیوہ اس کے بازو میں لیٹ جاتی تھی اور ایک کمان اس کے ہاتھ میں رکھ دی جاتی تھی اور تھوڑی ہی دیر میں اس کمان کو ہٹا لیا جاتا تھا۔ اور اس کو دوبارہ ایک جیتے جاگتے انسان کے روپ میں زندگی بسر کرنے کو کہاجاتا تھا۔ یہ عمل اس مناجات کے منظوم کیے جانے سے قبل کا ہے جب بیوی کو واقعی اس کے شوہر کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا۔(29) یہاں تک کہ سکندر کے حملے کی جو یونانی تفصیلات ملتی ہیں ان میں بھی ہمیں ’’ستی‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔(30)رزمیات میں بھی ایک دو واقعے کا ذکر ہے لیکن وہ بھی شاذ و نادر۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان رزمیات کے منظوم کرنے کے زمانے میں ستی کی رسم بہت عام نہیں تھی۔ قدیم سمرتی ادب میں بھی اس رسم کے حوالے ملتے ہیں لیکن عورت کو اس کی قربانی دینے کے لئے مجبور نہیں کیا جاتا تھا۔ ہاں ستی کی پہلی یادگار تصویر مدھیہ پردیش ضلع میں ساگر کے قریب اران (Eran)کے مقام پر ملتی ہے۔ وہاں ایک ستون پر 510ء کا ایک کنبہ ہے جس میں ایک ہیر اور اس کی بیوہ کی المناک موت کا واقعہ درج ہے۔(31)گرچہ اس خوفناک رسم کی شدید مذمت بھی کی گئی تھی۔ ساتویں صدی عیسوی کے ایک دردمند اور حساس شاعر نے اس حیوانیت آمیز رسم کی سخت الفاظ میں تنقید کی۔ تانتری حلقے والے بھی اس رواج کو ناپسندیدہ مانتے تھے۔ ان لوگوں نے اس بات سے عورتوں کو آگاہ کیا کہ جو عورت اپنے شوہر کے ساتھ خود سوزی کی مرتکب ہوتی ہے وہ براہ راست جہنم میں جائے گی۔ لیکن دوسری جانب عہد وسطیٰ کے کچھ مصنفین نے یہ اعلان نامہ جاری کیا کہ وہ عورت پا ک باز ہے جو خود کو اس رسم کے لئے آمادہ کر لیتی ہے۔ وہ اپنے خاوند کے گناہوں کی تلافی کر تی ہے اور دونوں جنت میں تین کروڑ پچاس لاکھ سال تک پُر مسرت زندگی بسر کرتے ہیں۔(32)غرض کہ معاشرتی اور خاندانی دباؤ کی وجہ سے اونچی ذات کی عورتوں نے بالخصوص جنگجو طبقہ کی عورتوں نے خود سوزی کے لئے خود کو مجبور کیا۔ پندرہویں صدی عیسوی کا سیاح نکولادے کانتی کا بیان قابل ذکر ہے کہ وجیانگر کے بادشاہوں کی کم و بیش تین ہزاربیویوں اور کنیزیوں نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپنے آقا کی موت پر اس کے ساتھ جل جائیں گی۔(33) عہد وسطیٰ میں عورتوں کو جائیداد میں بھی حق حاصل نہیں تھا۔ لیکن چند مفسرین نے کچھ شرائط کے ساتھ شوہر کی ملکیت میں بیوہ کے حق کو تسلیم کیا ہے۔ مثلاً عورت کے پاس کوئی اولاد نرینہ نہ ہو۔ ملکیت بھی مشترکہ نہ ہو۔ یعنی پہلے تقسیم ہو چکی ہو۔ ایسی صورت میں بیوہ کو جائیداد کا کچھ حصہ دیا جاتا تھا۔ بیوہ اس جائیداد کی صرف نگہبان یا متولی ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ اس کو فروخت کر دینے کا حق بھی رکھتی تھی۔(34) اور اس جائیداد پر بیوہ کی لڑکیوں کا ہی حق ہوتا تھا۔

         عہد وسطیٰ میں مسلمان عورتوں کی حیثیت اور ان کا رتبہ ہندو عورتوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ یہاں بھی وہ مکمل طور پر مرد کی دست نگر اور اس کی دل بستگی کا خوبصورت ذریعہ بن کر رہ گئی تھیں۔ حالانکہ مسلم عائلی قانون نے عورتوں کو بے شمار ایسے حقوق سے نوازا ہے جو انہیں دوسرے مذاہب کی عورتوں سے ممیز کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان حقوق کے حصول یا ان سے محرومی کی وجہ مختلف ملکوں کے مختلف ادوار اور ان کے سماجی اور معاشی حالات رہے ہیں۔ پیغمبر اسلام نے جب اپنے تبلیغی مشن کی شروعات کی عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا چلن انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جو عزت بخشی اور ان کے رتبے اور مقام کو بلند کیا اس نے قرون وسطیٰ کے سماجی نظام کو بھی از سر نو تبدیل کر دیا۔ چین سے افریقہ تک کثرت ازدواج اور داشتائیں رکھنا فخر کی بات مانی جاتی تھی۔ لیکن اسلامی قانون نے کثرت ازدواج کو حتی الامکان محدود اور مشروط کرنے کی کوشش کی۔ کنیزوں کو آزاد کرنا کارِ ثواب مانا گیا۔ اور ان کی اولاد بھی حقوق کی مستحق قرار دی گئی۔ اس طرح اسلام نے عورتوں کو ایسے ایسے اعزازات بخشے جو اس وقت (چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی) دنیا میں عورتوں کو کہیں بھی حاصل نہیں تھے۔ بقول قرۃ العین حیدر:

’’دوسرے مذاہب میں شادی ایک مقدس فریضہ اور زندگی کا اٹوٹ رشتہ تصور کیا جاتا تھا۔ قرآن نے شادی کے تصور میں انقلابی تبدیلی لاکر اسے ایک ایسا معاہدہ قرار دیا جس کو فریقین میں سے کوئی بھی توڑ سکتا ہے۔ مغرب میں سول میرج اور طلاق دلانے والی عدالتوں کا قیام تیرہ سو برس کے بعد وجود میں آیا۔ قرآن کے مطابق شادی کے بعد بھی عورت جائیداد کی وارث اور مالکہ رہ سکتی ہے اور اپنی قانونی حیثیت اور انفرادیت کو برقرار رکھ سکتی ہے۔‘‘(35)

         برطانیہ کے مشہور ماہر قانون لارڈ کو ک کے الفاظ میں

’’قانون میں مرد اور اس کی بیوی ایک فرد واحد کی حیثیت رکھتے ہیں اور مرد ہی وہ فرد واحد ہے لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہے۔(36)

         یقینا اسلام نے عورتوں کو وہی درجہ اور وہی مقام بخشا ہے جس کے مرد مستحق ہیں مثلا ً شوہر کا انتخاب اور مہر کا حق، نان و نفقہ کا حق، کاروبار اور عمل کی آزادی کا حق، عبادت و ریاضت کا حق، طلاق، آزادی رائے اور تنقید و احتساب کا حق خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن اتنے اختیارات دستیاب ہونے کے باوجود بھی عورتوں کو وہ آزادیاں نصیب نہیں ہو سکیں جن سے مرد مالا مال تھا اور اسلام کی طرف سے دیا ہوا یہ مساواتی نظریہ مسلمانوں میں عملی طور پر دیر پا ثابت نہیں ہو سکا۔ کیوں کہ رفتہ رفتہ مردوں نے اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے عورتوں کے ان حقوق کو پامال کرنا شروع کر دیا۔

         عہد وسطیٰ میں پردے کی بے جا پابندی بھی عورتوں کی ترقی اور فروغ میں مانع ثابت ہوئی۔ پردے کی ابتدا کے بارے میں متعدد نظریات ہیں۔ کچھ اس خیال کی حمایت کرتے ہیں کہ پردے کو رواج دینے کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے ۔ کیوں کہ اسلام کی آمد سے قبل ہندوستان کی خواتین آزادی سے باہر نکلتی تھیں۔(37) لیکن دوسرے جانب لوگ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ نقاب یعنی پردے کا رواج بہت پرانے زمانے کا ہے اور اس نظریے کو قدیم ہندو سماجی تاریخ کی مثالوں سے مدد ملتی ہے۔(38)لیکن حتمی طور پر کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ کیوں کہ قدیم ہندوستان میں خواتین جزوی طور پر سماج سے الگ تھلک رہتی تھیں اور ایک خاص قسم کے پردہ کا اہتمام بھی کرتی تھیں۔(جسے آج کل گھونگھٹ کہتے ہیں) لیکن رفتہ رفتہ ہندوستان میں پردے کے چلن نے جس طرح شدت اختیار کی اسے مسلمانوں کی ہندوستان میں حکومت کے بعد سے ہی تسلیم کیا جاتا ہے ۔ بقول رومیلا تھاپر:

ــ’’سنہ عیسوی کی ابتدائی صدیوں میں عزت دار گھروں کی خواتین پردہ کرنے لگی تھیں۔ اسلام میں رائج پردے نے عورتوں کی گوشہ نشینی کو اور بھی بڑھاوا دیا۔‘‘(39)

         جبکہ بپن چندرا کے مطابق:

’’عورتوں کو مردوںکی نگاہ بازیوں سے دور رکھنے کے لئے انہیں علیحدہ رکھنے کا دستور اونچی ذات کے ہندوؤں میں موجود تھا اور قدیم ایرانی اور یونان وغیرہ میں بھی یہ طریقہ رائج تھا۔ عربوں اور ترکوں نے بھی اسے اپنا لیا تھا اور وہ اسے اپنے ساتھ ہندوستان لائے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی یہ پورے ہندوستان خصوصاً شمالی ہندوستان میں پھیل گیا۔ پردے کے رواج کواس خوف سے بھی منسوب کیا گیا ہے کہ ہندو عورتوں کو حملہ آور نہ پکڑ لیں۔ جارحیت کے کسی دور میں عورتوں کو جنگ میں فتح کے انعام کے طور پر حاصل کرلینے کا تصور ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ پردے کے رواج کے پھیلنے میں شاید سب سے اہم حصہ سماجی ہی ہے۔ یہ سماج میں اونچی ذات کے اظہار کی ایک علامت بن گیا اور وہ تمام لوگ جو خود کو باعزت ظاہر کرنا چاہتے تھے وہ اسے اپنا لیتے تھے۔ اس کے لئے مذہبی جواز بھی تلاش کر لئے گئے۔ جو بھی وجہیں رہی ہوں اس رواج نے عورتوں پر خراب اثر ہی مرتب کیا اور اس سے مردوں پر ان کا انحصار اور بڑھ گیا۔‘‘(40)

         مندرجہ بالا دونوں اقتباس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ ہندوستانی معاشرے میں پردے کا رواج اور اس میں شدت پسندی مسلمانوں کے ہندوستان میں آنے کے بعد سے ہی شروع ہوتی ہے۔ پردے کی اس سخت گیری نے عورت کو گھر کے اندر مقید کرنے میں بہت ہی اہم رول ادا کیا۔ یہاں تک کہ اس کا اعلیٰ تعلیم سے بہر مند ہونا، جد و جہد معاش اور اسی طرح کے دیگر افعال خود بخود ممنوع قرار پائے اور یہیں سے مردوں کے تمام نازیبا سلوک اور اس کے رحم و کرم پر جینا ہی اس کی تقدیر بن گئی۔ اسلام نے عورتوں کو طلاق یا مصلحتاً دوسری شادی کی اجازت دی ہے۔ لیکن عہد وسطیٰ کے ہندو سماج میں طلاق یا دوسری شادی عورتوں کے لئے ممنوع تھی۔ ہاں درمیانہ طبقہ کی عورتیں آسانی سے طلاق حاصل کر سکتی تھیں یا بیوہ کا نکاح ثانی بھی عام بات تھی۔ لیکن مسلمانوں نے بھی دھیرے دھیرے ہندوؤں کی اس سخت گیری کے اثرات کو قبول کرنا شروع کر دیا۔ اور رفتہ رفتہ ان کے یہاں بھی دو بارہ شادی کے لئے سوچنا بھی گناہ سمجھا جانے لگا۔ بقول قرۃ العین حیدر:

’’ہندوستانی والدین اپنی لڑکی کو یہ نصیحت کرتے تھے کہ اپنے مجازی خدا (شوہر) کے گھر میں پالکی میں بیٹھ کر جاؤ اور وہاں سے صرف جنازہ ہی باہر آئے۔ یہ خوش حال مسلم خاندانوں کے لئے بھی ایک غیر تحریری قانون بن گیا۔ اسی زمانے میں خوش حال ہندو گھرانوں نے پردے کو اپنا لیا۔‘‘(41)

         یہاں تک کہ دھیرے دھیرے یہ رسم اس حد تک قبول کر لی گئی کہ مسلمانوں کے یہاں بھی لڑکی کی رخصتی کے وقت ’’بابلی‘‘ وغیرہ قسم کے گیت گائے جاتے تھے۔ (امیر خسرو سے منسوب چند بابلی گیت ملتے ہیں)ان گیتوں کا مرکزی خیال یہ ہے کہ لڑکی ہمیشہ کے لئے گھر چھوڑ کر جا رہی ہے ۔ حالانکہ اسلام میں اس قسم کی شادی کا کوئی تصور ہرگز نہیں ہے۔

          عہد وسطیٰ میں عورتوں کی تعلیمی سرگرمیاں بھی ناگفتہ بہ تھیں ۔ مسلم لڑکیوں کو صرف معمولی مذہبی تعلیم سے آراستہ کیا جاتا تھا۔قرآن پاک کی تعلیم دی جاتی تھی۔ انہیں آٹھ نو سال کی عمر تک ہی مکتبوں اور اسکولوں میں لڑکوں کے ساتھ پڑھنے کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ زیادہ تر گھروں میں استانیاں مقرر ہوتی تھیں۔ اس کے بعد انہیں گھر کی چہاردیواری میں مقید کر دیا جاتا تھا۔ اور بالغ ہونے کے فوراً بعد ان کو رشتہ ازدواج میں منسلک کر دیا جاتا تھا۔(42)اعلیٰ تعلیم صرف طبقہ اشرافیہ کی لڑکیوں کو نصیب ہوتی تھی۔ کیوں کہ بادشاہ زادیوں اور امیر زادیوں کو خصوصی مراعات اور سہولتیں دستیاب تھیں۔ رضیہ سلطان کے امور مملکت میں حصہ لینے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمان امرا اور شاہی خاندان کے افراد اپنی لڑکیوں کو بہترین تعلیم و تربیت سے آراستہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ مغلوں کے دور میں ہندوستانی سلاطین کے یہاں ایک صحت مند روایت کا آغاز ہوا۔ گلبدن بیگم کا بیان ہے کہ ہمایوں کے شاہی حرم کی خواتین اپنے مرد دوستوںاور مہمانوں کے ساتھ آزادی سے ملتی جلتی تھیں۔ بعض اوقات یہ خواتین مردانہ لباس زیب تن کرکے باہر جاتی تھیں۔ پولو کھیلتی تھیں اور موسیقی سے اپنا دل بہلاتی تھیں۔ وہ غلیل کے استعمال اور دیگر فنون لطیفہ کی بھی ماہر تھیں۔ مقابلتاً زیادہ آزادی نے مغل خواتین میں عزت اور خود داری کا ایک احساس بیدار کر دیا تھا اور مشہور مغل شہنشاہوں کی مائیں اپنے اپنے میدانوں میں اتنی ہی فنکارانہ صلاحیتوں کی حامل تھیں جتنے ان کے بیٹے اپنے میدانوں میں تھے۔‘‘ (43)مندرجہ بالا اقتباس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس دور میں حکمراں خاندان کی خواتین نے ادب، سیاست اور فنون لطیفہ میں بھی اپنی شناخت قائم کی۔ جن خواتین نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ان میں کاکاتیا خاندان کی ملکہ رودرمبا، دلی کی رضیہ سلطانہ ، احمدنگر کی چاند بی بی، تارابائی اور اہلیہ بائی قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ اورنگ زیب کی بیٹی زیب النساء، شاہ جہاں کی دو لڑکیاں جہاں آرا اور روشن آرا اور جیجا بائی، (شیواجی کی ماں) نے ملک کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہ چند مثالیں ہیں کیوں کہ اس وقت سماج میں عورتوں کی حالت میں دن بدن گراوٹ آنے لگی۔ لیکن تعلیمی اعتبار سے مغلوں کا زمانہ عورتوں کے لئے نہایت ہی معاون ثابت ہوا کیوں کہ اس زمانہ میں عورتوں کی حیثیت میں بے شمار تبدیلیاں رونماہوئیں اور چند عورتوں نے تو اپنا نام بھی روشن کیااور اپنی پہچان بھی بنائی۔ بابر کی لڑکی اور ہمایوں کی بہن گلبدن بانون نے ’’ہمایوں نامہ‘‘ تصنیف کیا۔ اور ہمایوں کی بھتیجی سلمہ سلطانہ نے بہت سے فارسی اشعار قلم بند کئے۔ نور جہاں، ممتاز محل، جہاں آرا اور زیب النساء نے علم و ادب کی دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ زیب النساء نے ایک ماہر کاتب کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت قائم کی ۔ لیکن یہ چند مثالیں ہیںعورت کو دیکھنے اور اس کو سماج میں مساوی حیثیت دینے میں کوتاہی برتی جانے لگی۔ ہندو عورت ہو یا مسلم عورت اسے سامان انبساط اور تفریح کا حسین ذریعہ ہی سمجھا جانے لگا۔ لیکن چودھویں صدی وسط میں تصوف اور بھگتی تحریک نے روحانیت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل کو بھی اپنا مرکز و محور بنایا۔ مساوات اس کا سب سے اہم حصہ قرار پایا۔ اس تحریک کے بانیوں نے سماج میں عورتوں کے رتبے کو بہتر بنانے کی حتی الامکان کوشش کی۔ انہی کی بے پایاں کوششوں کے طفیل انڈل، میرا بائی اور للّہ جیسی سنت خواتین منظر عام پر آئیں۔ یہ امر باعث حیرت نہیں کہ بھگتی تحریک نے نہ صرف دینیات اور مذہبی رسوم کی بندشوں سے آزادی دلانے پر زور دیا بلکہ مرد اور عورت کے باہمی تعلقات میں بھی آزادی آئی۔ بھگتی کے ابتدائی اظہار میں جو الواروں اور نائناروں کی تعلیمات میں ملتے ہیں نہ صرف ایک شخص کہ اپنے دیوتا کے تئیں ذاتی عقیدت پر زور دیا گیا بلکہ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ عورتوں کو بھگتی کا حق حاصل ہے اور وہ بھی پوجا سبھاوں میں شریک ہو سکتی ہیں اور عام طور پر پہلے سے زیادہ آزاد زندگی بسر کر سکتی ہیں۔ بھگتی رس کے یہ عام فہم بھجن فاضلانہ سنسکرت کی بجائے وسیع پیمانے پر بولی جانے والی پراکرتوں میں نظم کیے جاتے تھے۔ اس کی جھلک لنگایت سنتوں کی ابتدائی تعلیمات میں، مہاراشٹر کے سنتوں کی بانیوں میں، مشرقی ہند میں، کسی حد تک چیتنیہ مہا پربھو کی تعلیمات میں اور بڑی حد تک شمالی ہندوستان کے بھگت سنتوں خاص طور پر کبیر اور نانک کے کلام میں بھی ملتی ہے۔(44)بقول قرۃ العین حیدر:

’’صوفی تحریک کے فروغ کے زمانے میں مسلم ممالک اور خود ہندوستان میں ایسی عارفہ عورتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنے تقدس اور علمیت کی وجہ سے نام حاصل کیا۔ انہوں نے صوفی مردوں سے مذاکرے کیے اور عوام میں تبلیغ کی۔ آج بھی ہندوستان کی مسلم صوفی عورتوں کے مزارات پر ہندو اور مسلمان عقیدت مندوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔‘‘(45)

         لیکن اس کے باوجود عام طور پر عورتوں کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ اٹھارہویں صدی کا زمانہ ملک کے لئے ہر اعتبار سے تاریک تھا۔ کیوں کہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد سماج میں ہر جانب انتشار پھیلنے لگا۔ ایسے میں عورتوں کی حالت پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے۔ سرولیم جونسن کی نظر میں:

’’اس وقت عورتیں اور بچے خریدے اور بیچے جاتے تھے۔ نومولود لڑکی کا گلا گھونٹ کر مارنے کا رواج زور پکڑتا جارہا تھا۔ خصوصاً راجپوتوں میں یہ رواج عام تھا۔ ایک سال میں تقریباً بیس ہزار لڑکیاں موت کے گھاٹ اتاری جاتی تھیں۔‘‘(46)

         مندرجہ بالا اقتباس سے عہد وسطیٰ میں عورت کی ناگفتہ بہ حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جہاں وہ ہر قسم کے جبر و تشدد کو برداشت کرنے پر مجبور تھیں۔ جس وقت انگریزوں کا ہندوستان پر تسلط ہوا ہندوستانی عورتوں کی سماجی حیثیت اور بھی زیادہ افسوس ناک تھی۔ کیوں کہ مشترکہ خاندان کا حاکم مرد ہوتا تھا۔ وہاں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ مرد کو ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت تھی۔ پردہ کی سختی انتہا پر تھی۔ لڑکیوں کی کم عمری کی شادی بھی عام تھی۔ جائیداد میں عورت کو حق حاصل نہیں تھا اور بیواؤں کے لئے چتا پر جلنے یا بیوگی کی حالت میں تمام عمر یوں ہی زندگی بسر کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیںتھا۔ بقول ستیش چندرا:

’’عورتوں کی حیثیت مجموعی طور پر خراب تر ہو گئی ۔ پردہ کا رواج بڑھ گیا۔ ہندو عورتیں دوبارہ شادی کے حق کا، یا باپ کی وراثت میں حصہ کا دعویٰ نہیں کر سکتی تھیں۔ اگرچہ مسلمان عورتوں کو یہ حقوق حاصل تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بعد میں یہ حقوق مسلمان عورتوں کو بھی ملنے بند ہو گئے تھے۔‘‘(47)

         غرض کہ عہد وسطیٰ کا ہندو سماج ہو یا مسلم سماج کہیں بھی عورت کی حیثیت بہتر نہیں تھی۔ اور نہ ہی اسے وہ قدر و منزلت نصیب ہو سکی جس کی وہ حقدار تھی۔ بلکہ بعض حقوق جو اسے ماضی میں دستیاب تھے اس میں دھیرے دھیرے کمی آنے لگی۔ اس عہد کی ایک رسم ’جوہر‘کا ذکر بھی لازمی ہے کیوں کہ اس عہد میں اس رسم پر عمل راجپوتوں کے یہاں ہی شدت سے ہوتا تھا۔ جب کسی راجپوت سردار اور اس کے ساتھیوں کو کسی بھی جنگ میں فتح حاصل کرنے کی امیدیں معدوم ہو جاتی تھیں تو سب سے پہلے وہ اپنی عورتوں اور بچوں کا قتل کر دیتے تھے۔ یا پھر انہیں کسی زمین دوز عمارت میں بند کرکے اس میں آگ لگا دیتے تھے اور اپنی بہادری اور جواں مردی کا ثبوت پیش کرنے کے لئے شمشیر برہنہ سے دشمن پر حملہ کر دیتے تھے۔ کیوں کہ راجپوتوں کی نظر میں جنگ میں شکست قبول کرنا یا مغلوب ہونا ان کے اصول کے خلاف تھا۔ اس لئے وہ کسی جنگ میں فتح پاتے یا خود کو فنا کر دیتے تھے۔ بقول ستیش چندرا:

’’راجپوت جنگجو اقوام میں صرف ستی ہی نہیں بلکہ بچوں اور عورتوں کا قتل کرنا عزت کا معاملہ تصور

کیا جاتا تھا۔ مایوسی کی اس انتہا کو وہ لوگ ایسی حالت میں پہنچتے تھے جب انہیں قطعی شکست کا یقین اور اس کا قطعی امکان ہوتا تھا کہ پورا کنبہ ظالم دشمن کے پنجوں میں پھنس جائے گا۔ عموماً بیویاں اور چہیتی داشتائیں راجپوت سردار کی موت پرستی ہو جاتی تھیں۔ لیکن زیادہ بڑا اور نظر فریب قتل عام صرف اس وقت ہوتا تھا جب انہیں جنگ میں شکست ہوتی تھی۔‘‘(48)

         اس عہد کے جوہر کے متعدد واقعات قابل ذکر ہیں۔ مثلاً کمپلا کے راجہ کے ساتھ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ سلطان محمد بن تغلق نے ایک سرکاری باغی بہاء الدین گستاسپ کو پناہ دینے کی وجہ سے راجہ کے قلعے کا محاصرہ کر لیاتھا۔ راجہ نے پہلے تو خفیہ طریقے سے اس قلعہ سے باہر نکال کر دوسری محفوظ جگہ اسے پناہ دی۔ اس کے بعد اس نے بڑے پیمانے پر آگ جلانے کا حکم دیااور اپنے خاندان کے افراد سے یوں مخاطب ہوا:

’’میںاپنی جان قربان کرنے کا ارادہ کر چکا ہوں۔ تم میں سے جو لوگ مرنا چاہیں وہ تیار ہو جائیں۔ اس کی سب عورتوں نے نہادھوکر اپنے جسم پر چندن ملا۔ اپنے مالک کے لئے اظہار وفاداری کیا اور خود خاموشی کے ساتھ آگ میں کود پڑیں۔ اس کے وزراء اور امراء کے خاندان کے افراد بھی اس عظیم قربانی میں اس کے ساتھ شریک ہوئے۔ اس کے بعد راجہ نے اپنے جنگجو سپاہیوں کے ساتھ نہا دھوکر اپنے جسم پر چندن مل کر ہتھیار لگائے لیکن ڈھالیں نہیں لیں اور جواں مردوں کا یہ گروہ محاصرین سے جنگ کرنے کے لئے آگے بڑھااور اس وقت تک لڑتا رہا جب تک کہ ان میں سے ہر ایک قتل نہیں ہو گیا۔‘‘(49)

          اس طرح کی اور بھی مثالیں موجود ہیں مثلاً چند پری کے راجہ میدنی رائے کے جنگجو سپاہیوں نے اپنے تمام بچوں اور عورتوں کا قتل کیا اور آخری دم تک تلواریں لے کر میدان کار زار میں کود پڑے۔ لیکن جلد ہی انہوں نے محسوس کر لیا کہ اب لڑنا مشکل ہے اور یہ خطرہ بھی لاحق ہونے والا ہے کہ اب زندہ گرفتار کر لیا جاؤں گا۔ اس توہین آمیز انجام سے بچنے کے لئے انہوں نے خود کشی کرنے کا عزم کر لیا۔ اس کے لئے انہوں نے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جو ایک بلند مقام پر ہاتھ میں ننگی تلوار لیے کھڑا ہے۔ اور یک بعد دیگرے ایک شخص اس کے نیچے سے گزرتا ہے اور تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد ایک ایک کا سر تن سے جدا کر دیتا ہے۔ اس طرح کے واقعات پر اعتبار کرنے کے لئے بے شمار شہادتیں موجود ہیں جس کی وجہ سے ان کے یہ اقدام غلط تسلیم نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ مسلمانوں کے یہاں اس قسم کی رسم دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ لیکن کسی نہ کسی حد تک مشابہ رسم کا ذکر موجود ہے۔ کیوں کہ ان کی بھی جنگ و جدل کی روایات راجپوتوں کی ہی طرح سخت گیر تھیں۔ بلکہ بعض مواقع پر جنگ کے درمیان وہ بھی کم و بیش اسی طرح کے ذرائع استعمال کرتے تھے جس طرح اس کے مخالف ان کے خلاف کرتے تھے۔ تیمور نے بھی ہندوستان پر حملہ کرنے کے درمیان نہ کسی رحم کی بھیک مانگی اور نہ ہی رحم دلی کا مظاہرہ کیا۔ اور وحشیانہ قتل عام کا یقین ہونے کے بعد کثیر تعداد میں جنگجو سپاہیوں نے راجپوتوں کے جوہر کی طرح اپنی جانیں قربان کیں۔(50)بحیثیت مجموعی عہد وسطیٰ میں عورتوں کی حیثیت نہایت ہی افسوس ناک اور فکر انگیز تھی۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں انہیں نہ ہی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا اور نہ ہی انہیں وہ مواقع فراہم ہوئے جس کی وہ مستحق تھیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں انہیں کم تر، لاچار، کمزور اور نااہل قرار دیا گیا۔ تعلیم سے محرومی ، بچپن کی شادی، حقوق سے بے دخل، پردہ کی سختی، بیواؤں کے مسائل ، ستی جیسی حیوانیت سوز رسم کی شدت پسندی وغیرہ نے ان کی شخصیت کو بالکل ہی مسخ کر دیا۔ ایسے حالات میں عورت کی بہتر حیثیت کی توقع کرنا فضول ہے۔

حواشی

         (1)              عہد وسطیٰ کا ہندوستان ، ستیش چندرا، ص:43

         (2)              ایضاً

         (3)              ہندوستان کا شاندار ماضی، سید،اے،ایل، ہاشم، ص:246

         (4)              ایضاً

         (5)              ہندوستانی معاشرہ عہد وسطیٰ میں، کنور محمد اشرف، ص: 234

         (6)              ایضاً،ص:231

         (7)              ہندوستان کا شاندار ماضی، سید، اے،ایل، ہاشم، ص: 246

         (8)              عہد وسطیٰ کا ہندوستان، ستیش چندرا، ص: 44

         (9)              ہندوستانی معاشرہ عہد وسطیٰ میں، کنور محمد اشرف ، ص: 227

         (10)            ایضا، ص: 226

         (11)            ایضاً، ص: 326

         (12)            ایضاً

         (13)            ہندوستانی معاشرہ عہد وسطیٰ میں ، کنور محمد اشرف، ص: 243

         (14)            عہد وسطیٰ کا ہندوستان، ستیش چندرا،ص:44

         (15)            ہندوستانی معاشرہ عہد وسطیٰ میں، کنور محمد اشرف، ص: 243

         (16)            ایضاً،ص: 243

         (17)            عہد وسطیٰ کا ہندوستان ، ستیش چندرا، ص: 44

         (18)            ایضاً

         (19)            ایضاً، ص: 207

         (20)            ہندوستان کا شاندار ماضی ، سید اے۔ایل ہاشم، ص: 257

         (21)            ایضاً

         (22)            ہندوستانی معاشرہ عہد وسطیٰ میں، کنور محمد اشرف ، ص: 251

         (23)            ایضاً

         (24)            ہندوستانی معاشرہ عہد وسطیٰ میں، کنور محمد اشرف، ص: 255

         (25)            ایضاً، ص: 256

         (26)            ایضاً، ص: 257

         (27)            ایضاً

         (28)            ایضاً،ص: 258

         (29)            ہندوستان کا شاندار ماضی، سید ،اے،ایل، ہاشم، ص: 258

         (30)            ایضاً ، ص: 259

         (31)            ایضاً، ص: 258

         (32)            ایضاً، ص: 260

         (33)            ایضاً

         (34)            عہد وسطیٰ کا ہندوستان ، ستیش چندرا، ص: 44

         (35)            ہندوستان کی مسلمان عورتیں، قرۃ العین حیدر، ص: 13

         (36)            بحوالہ ہندوستان کی مسلمان عورتیں ، قرۃ العین حیدر، ص: 13

         (37)            ہندوستانی معاشرہ عہد وسطیٰ میں ، کنور محمد اشرف ،ص: 232

         (38)            ایضاً، ص: 233

         (39)            تاریخ ہند میں خواتین کا مقام ، رومیلا تھاپر،ص:5

         (40)            عہد وسطیٰ کا ہندوستان، ستیش چندرا، ص: 208

         (41)            ہندوستان کی مسلمان عورتیں، قرۃ العین حیدر، ص: 16

         (42)            ایضاً، ص: 14

         (43)            ہندوستانی معاشرہ عہد وسطیٰ میں، کنور محمد اشرف، ص: 232

         (44)            ہندوستان کی مسلمان عورتیں، قرۃ العین حیدر، ص: 15

         (45)            ہندوستانی سماج میں عورت کی حیثیت ،صالحہ بیگم ،ص: 36

         (46)            تاریخ ہند میں خواتین کا مقام، رومیلا تھاپر، ص: 7

         (47)            عہد وسطیٰ کا ہندوستان، ستیش چندرا،ص: 209

         (48)            ہندوستانی معاشرہ عہد وسطیٰ میں ، کنور محمد اشرف ، ص: 260

         (49)            بحوالہ ابن بطوطہ کا بیان، کتاب الرحلہ جلد دوم 5958

         (50)            ہندوستانی معاشرہ عہد وسطیٰ میں ، کنور محمد اشرف، ص: 262

***

Leave a Reply