ڈاکٹر نورینہ پروین
غالبؔ کی زندگی کے مختلف رنگ
محمد حسن کے ڈراموں میں
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خون چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
غالبؔ ۱۹ویں صدی کے وہ مایۂ ناز شاعر ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ جسے ہر کسی نے سراہا اور ہر کسی نے اپنایا۔ یہ الگ بات ہے کہ سمجھا بہت کم گیا یا یوں کہیں کہ بہتوں کی سمجھ سے پرے رہا ۔کیونکہ غالبؔ کے ذہن کی جدت اور جولانی نے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جو ذہن و فکر کو ترغیب دلانے والے تھے۔ لیکن وہ جس زمانے میں شاعری کر رہے تھے اس میں شعر و شاعری کی دنیا عشق و عاشقی اور محبوب کے زلفوں میں الجھی ہوئی تھی جس سے ان کی وسیع القلبی اور دائرہِ فکر تک قارئینِ کرام کی نظر ہی نہ جا سکی۔کیونکہ ہمیشہ اور ہر زمانے میں ایک طرف دانشور طبقہ ہوتا ہے جو حالات کی ستم ظریفی اورسنگینی سے تمام اہلِ جہاں کوواقفیت دلانے اور ان کے مدِمقابل اقدامات کرنے کی جانب مائل کرتا ہے تو وہیں دوسری جانب وہ عوام ہوتی ہے جو بنی بنائی روش اور روایات پر سردھنتے ہوئے زندگی گزار دینے پر مضر ہوتی ہے۔جسے غالبؔ جیساحساس ذہن اوروسیع النظرشاعرکچھ ا انداز سے حالات سے واقف کراتا ہے:
عالم غبارِوحشتِ مجنوں ہے سر بہ سر کب تک خیالِ طرۂ لیلی کرے کوئی
حسنِ فروغِ شمعِ سخن دور ہے اسدؔ پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی!!
محمد حسن نے ادبی شخصیتوں پر جو ڈرامے لکھے ان میں غالبؔ پر لکھے گئے ڈرامے قابلِ توجہ ہیں بطور خاص ان معنوں میں
کہ محمد حسن نے غالبؔ کی زندگی،شعری فکر اور حالات سے نبرد آزمائی کو پیش کرنے کے لئے ۱۹۵۲ء میں ریڈیو کے لئے ‘نقشِ فریادی’ لکھا ۔جس میں تھوڑی طوالت اور ترمیم و اضافے کے ساتھ ۱۹۶۹ء میں ‘کہرے کا چاند’ اور پھر ۱۹۷۵ء میں ‘تماشا اور تماشائی’ کے عنوان سے اسٹیج ڈرامے لکھے۔‘نقشِ فریادی’ بظاہر ریڈیو کے لئے لکھا گیا ہے اس لئے اس ڈرامے میں کچھ خاص جاذبیت یا فنّی کمال کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس ڈرامے میں غالبؔ زندگی اور موت کے درمیان معلّق ہیں حالی ؔان کی عیادت کے لئے حاضرہوتے ہیں لیکن ان پر غشی کا دورہ پڑنے لگتا ہے اور ماضی کی اذیتیں کرب ناک صورتِ حال اختیارکرکے ذہن میں گونجنے لگتی ہیں۔ گویا آرزو،شکستِ آرزو اور عرفان کی درد ناک صورتِ حال آنکھوں میں پھر جاتی ہے یہاں قابلِ غورمقام یہ ہے کہ آگرہ کی حویلی میں ایک تقریب کے موقع پر ڈومنی عورتیں غالب کے سامنے گانے بجانے کے لئے شش و پنج میں گرفتار ہو جا تی ہیں جس سے اس دور کے معاشرے کی تصویر نمایاں ہونے لگتی ہے :
‘‘ڈومنی : خطا معاف ،ہم مردوں کے سامنے نہیں گا سکتے۔’’ ۱
ڈومنی کامردو ں کے سامنے گانے سے انکار کرنے میں اس دور کے سماج اور عورتوں کی حیثیت کاپتہ چلتا ہے کہ نچلے طبقے میں بھی آپسی تفاوت یا خلط ملط نہ تھا بلکہ عورت اور مرد کے درمیان ایک تفریق حائل تھی بطور خاص عورتوں کو اس فرق کا لحاظ رکھنا ضروری تھا جس سے سماج فحاشی و عریانیت سے پاک رہ سکے ۔لہٰذا آج کی طرح آپسی میل جول اورربط ضبط نہ تھا۔اس طرح ڈراما نگار نے اس دور کے سماج و معاشرے سے واقفیت دلانے کے لئے فنکارانہ انداز میں ڈومنی سے مکالمہ ادا کرایا ہے۔
ایسے ناسازگار حالات میں غالبؔدہلی چلے جاتے ہیں جس کی واضح تفصیل‘ کہرے کا چاند’ اور ‘تماشا اور تماشائی’ میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔ غالب دہلی میں قلعۂ معلی کی سرپرستی اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ قلعۂ معلی علم و ادب کا گہوارہ تھا جس کے امین و سرپرست خود بہادر شاہ ظفر تھے۔ مغل حکومت کی ٹمٹماتی روشنی میں ہراہل ِ ادب و بصیرت کی خواہش تاریک پردوں میں جا چھپی تھی ایسے حالات میں دل کا درد شاعری میں سمٹ آنا لازمی سی با ت تھی لیکن ان تکلیف دہ اور غمگین حالات نے غالب کو جو غم دیئے اس کی تلافی یوں کرتے ہیں :
‘‘…………غابؔ سے زیادہ کسی دوسرے شاعر نے نئی نسل کو اسقدر متاثر نہیں کیا۔ان کی شاعری صرف احساس کا آئینہ نہیں متجسس ذہن کا پتہ دیتی ہے ان کی آواز میں محض فریاد نہیں سنگین حقیقتوں کی تلاش بھی ہے مرزا کی نظریں ایک صحت مند تشکیک اور ایک شاداب فکر کے ساتھ زندگی کو ہر رنگ میں دیکھتی ہے۔’’ ۲
ڈراما نگار نے راوی کی زبانی غالبؔکے شعری فکر اور خیالات سے ہم آہنگ کرانے کے ساتھ ہی اردو ڈرامے کو نئے اطوارسے آراستہ و پیراستہ کیا ہے جو بریختی ڈرامے کی خصوصیات میں سے ہے۔ جس میں:
‘‘راوی،کورس یا گویے سے اس طرح ناظرین و سامعین کو مخاطب کرنے کا طریقہ استعما ل کیا کہ جیسے گلی میں کوئی مقرِّر ہجوم سے خطاب کرتا ہے’’ ۳
ا س ڈرامے میں غالب کی اس مجبوری پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جس کی وجہ سے بھائی یوسف مرزا کے قتل کو بخار میں مبتلا ہو کردائمی اجل کو لبّیک کہنے کا ذکر کرایا گیاہے چنانچہ ان کی ذہنی کشمکش سے سامعین و قارئین کو بھی واقفیت کرایا جا سکے۔جس کا واضح اور طنزیہ انکشاف ‘تماشااور تماشائی’ میں غالب کی شخصیت کے دوا جزا کے ذریعے فنکارانہ انداز میں پیش کیا گیاہے۔ جس پر آگے تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔
غالبؔکی زندگی کا بہترین مطالعہ و مشاہدہ ‘کہرے کا چاند’ میں کیا جا سکتا ہے۔تین ابواب آرزو،شکستِ آرزواور عرفان پر مشتمل اس ڈرامے میں تین سین اور پانچ ایکٹ ہے۔ڈرامے کی شروعات نظیر ؔکے شہر آشوب سے ہوتی ہے چونکہ ڈراما نگار نے اس دورکی بد حالی و بدنظمی کو پیش کرنے کے لئے اس عہد کا سہارا لیا ہے جس سے مقاصد کی ترسیل بآسانی ہو سکے۔اس دور میں غالب کی حیثیت کہرے کے چاند کی مانند تھی جو ہزارہا مصیبتوں اور ستم ظریفیوں کے باوجود بھی اپنی تابناکی و چمک کو برقرار رکھے ہوئے تھا۔ لہٰذا کہرا علامت ہے اس مغلیہ دور کے انتشار و بد نظمی اور انگریزوں کے خلفشار کی ،جس میں اہل قدر کی تو ہین و تذلیل ہورہی تھی ۔ڈرامانگار نے علامتی پیرایہ میں ڈرامے کوو ہ ندرت اورجاذبیت عطا کی کہ آندھرا پردیش اردو اکادمی نے انھیں انعام و اکرام سے بھی نوازاہ۔کیونکہ ڈرامے میں فنکارانہ کارفرمائی نے شرو ع سے آخر تک کامیابی سے ہمکنارکیاہے اگر چہ ڈراماکلاسیکی طرز کا ہے لیکن بریختی طریقۂ کار کا اکثر و بیشتر امتزاج دیکھنے کوملتا ہے۔
ڈرامے کی ابتدا غالبؔ کے آبائی وطن اکبرآباد سے ہوتی ہے جہاں حویلی کی ڈیوڑھی پر دو فقیر، خاندان کی عظمت کا بیان کرکے داد و دَہش کے طالب ہیں غالبؔاگر چہ اس اجڑے ہوئے چمن کی ویرانی سے دل برداشتہ ہیں مگر خاندان کی عظمت و جلال کو برقرار رکھنے کے لئے اپنا فرغُل اور کُلاہ فقیروں کو عنایت کردیتے ہیں۔بچپن کا یہ دورخاندانی جاہ و حشمت سے ا س قدر سر بلند تھا کہ خود کو پتنگ بازی اور شعر و شاعری کے رسیا سمجھتے،ذہن اس قدرتیز کہ ایرانی استاد ہُر مُزد (ڈراما کہرے کا چاند) کو بھی اپنی بصیرت تسلیم کرنے پر مجبورکر دیتے،جس سے استاد ان پر ناز کرتے (یہاں ایک بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ ماہرینِ غالب کے مطابق استاد ہرمزد نام کا کوئی استاد اس زمانے میں نہیں ملتا)۔لیکن ان نامساعدحالات میں خاندانی جلال کا زوال دن بہ دن ذہن میں نشتر کی طرح سرایت کرنے لگتا ہے۔کیونکہ اس امیرزادے میں ایک نئی شخصیت کا ورود ہونے لگا تھا جو بیحد حسّاس اور خود کو ہر طرح کے قید و بند سے آزاد رکھنا چاہتا تھا ،اس کی انھیں آرزوؤں کو ڈراما نگار نے بڑے فنکارانہ انداز سے پیش کیا ہے :
‘‘غالب : …………میرے اندر کئی دل چھپے ہوئے ہیں کئی اور پیکر پوشیدہ ہیں۔ان میں سے ایک امیر زادے کا دل ہے جس سے اپنے خاندان کی تباہی نہیں دیکھی جاتی اور وہ کسی طرح بھی اپنی آن بان رکھنا چاہتا ہے۔ ایک شاعر کا دل ہے جو سب آن بان،روٹی روزی، شہرت،جاہ و جلال،منصب پر لات مار کر اپنے من کی دنیا میں حکمرانی کرنا چاہتا ہے جو من موجی ہے جسے ہوس ہے کہ دنیا میں ظہوریؔ،عرفیؔاور بیدلؔکیا حافظؔ و خیامؔ کو گرد کردوں اور میرا کلام سونے جواہرات میں تولے ہوئے شاعروں کے کلام کے ساتھ تولا جائے سونے جواہرات میں تولے ہوئے شاعروں کے کلام کے ساتھ تولا جائے اور آسمان کے سات طبق میری شاعری کے غلغلے سے گونج اُٹھیں ۔پھر ایک نوجوان کا دل ہے جو عیش سے زندگی گزارنا چاہتا ہے ،شطرنج،پتنگ بازی اور اچھی اچھی باتیں۔مزے دار جیالے دوست اور مشاعرے کی محفلیں۔میلے ٹھیلے،نغمہ و سرود،بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔’’ ۴
ڈراما نگار نے غالب کے مکالمے میں اس آرزو کا انکشاف کیا ہے جس کے لئے وہ تا زندگی دل برداشتہ رہے۔لہٰذا اسی غم کو فراموش کرنے اور حالات سے نبردآزما ہونے کے لئے کبھی شرا ب نوشی کاسہارا لیا توکبھی ڈومنی لڑکی سے معاشقہ کیا یہاں تک کہ مصلحت کوشی سے بھی گریز نہیں کیا ۔جبکہ یہ غالبؔ کا شیوہ نہ تھا جس کے باعث اکثر معترضین کے ہدف و ملامت کا نشانہ بنے جسے اس ڈرامے میں منظر عام پر لایا گیا ہے لیکن اکثر جگہوں پر تلخ حقائق سے پردہ ہٹانے کے لئے زندگی کی ان خصوصیات کو پیش کرنے میں مکالمے کی طوالت کا اندازہ نہیں ہو سکا جس سے بعض اوقات ڈرامے میں ناہمواری پیدا ہو گئی ہے۔
ایسے ناساز گار ماحول میں جبکہ مغلیہ حکومت کا شیرازہ منتشر ہو رہا تھا جس کے اثرات سبھی جگہوں پر مرتب ہونے لگے تھے ایسے میں غالب نواب احمد بخش کی بھتیجی اور نواب الٰہی بخش کی صاحبزادی سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو کر مع اہل و عیال دہلی چلے آتے ہیں جہاں حالات سے نبرد آزمائی اور حقائق سے چشم پوشی کے لئے داستانی محفلوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔یہاں قابلِ غوربات یہ ہے کہ اس دور کا آگرہ پتنگ بازی اور سیر و تفریح میں د ل بہلا رہا تھا جبکہ دہلی شرفاو امرا کا مسکن ہونے کی وجہ سے داستانی محفلوں کو فروغ بخش رہا تھا چنانچہ لوگ داستانی خول میں اسیر ہو کر سنگین حقیقتوں سے چشم پوشی کر رہے تھے۔ داستان کے بیان میں ڈراما نگار نے ا لتباس ِحقیقت کو توڑنے کے لئے دخل در معقولات سے کام لیا ہے ۔دہلی کالج کو اس دور کے بزرگ اور شرفا نئی نسل کے لئے مضرت رساں تصور کر رہے تھے ۔ڈراما نگار نے ان کے اندیشوں پر کاری ضرب لگاتے ہوئے اس کے محاسن پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس سے ناظرین و قارئین کے لئے کسی قسم کی غلط فہمی یا شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔
اس وقت تک دِلّی میں غالب کی حیثیت مسلم ہو چکی تھی۔ لوگ انھیں اعلیٰ پایے کا شاعر تسلیم کرنے لگے تھے یہی وجہ ہے کہ ڈراما نگار نے بڑے فنکارانہ انداز سے غالب کے شعری کیفیات پر روشنی ڈالی ہے لیکن اس دور کی تنزل پذیری اور بد نظمی نے انھیں وہ مرتبہ نہیں دیا جس کے غالب یقینی طور پر مستحق تھے۔اس درد ناک صورتِ حال اور ذاتی الجھنوں نے بیبس و لاچار کردیا تھا جسے فراموش کرنے کے لئے شراب کا سہارا لیا اور ڈومنی لڑکی سے معاشقے کئے ۔لہٰذا اس انتشارو بد نظمی کے کہرے دن بہ دن گہرے ہوتے گئے جس کی زد میں سب سے زیادہ اس دور کے علماو فضلا اور صاحبِ علم اور ذی فہم لوگ تھے اس دلدو ز اور تکلیف دہ ماحول میں غالبؔ کا کوئی قدر داں بھی نہ رہا۔غالب کو اپنی شکستِ آرزو کا احساس شد ت سے ہونے لگا جو نہایت افسوسناک بھی تھا۔خود کلامی کے انداز میں یہ طنز غور فرمائیں :
‘‘غالب : (خود کلامی) اقبال بلند،دولت زیادہ،خوب!اقبال اتنا بلند کہ بھکاری غزلیں گائیں اور علما و فضلا امراء اور بادشاہ قدر افزائی سے باز رہیں۔ رہی دولت تو اس کا یہ حال کہ ساری دنیا کے قرض دار۔متھراداس،درباری مل،خوب چندجین سب تمسک مہری لے کے چاٹیں اور ایک دن قرض خواہوں کا ہاتھ ہے اور یہ گردن، انجام موت ہے یا بھیک مانگنا،کسی دوکان سے دھتکارے گئے اور کس دروازے سے کوئی پیسہ مل گیا۔اب شعروں میں جی کا دکھڑا رو لینے سے کیاہو گا اور ان کو شہرت سے کیا حاصل ہوا کہ مجھے ہو گا۔’’ ۵
ڈراما نگار نے غالب کی شکست آرزو اور اس دور کی سفاک حقیقتوں کے بیان میں شیکسپیرئن ڈراموں کا سہارا لیا ہے جو ایلیزا بتھی ڈراموں کی خصوصیات ہے چنانچہ محمد حسن نے غالبؔ کے نظری تصادم کو خود کلامی کے ذریعے پیش کر کے طرز قدیم کے ڈراموں سے واقفیت ہی نہیں وابستگی کا بھی احساس دلایا ہے کیونکہ بقول ڈاکڑمسعود حسن رضوی :
‘‘سولی لوکی(SOLILOQUY)یعنی اپنے دل سے باتیں کرنا یا زور سے سوچنا اور اسائڈ (ASIDE) یعنی دو کرداروں کا اس طرح باتیں کرنا کہ دوسرے لوگ جو اسٹیج پر موجود ہوں ان کو نہ سن سکیں،ان دونوں چیزوں سے شیکسپیرنے اپنے ڈراموں میں اکثر کام لیا ہے ایلزا بتھ اسٹیج پر بہت عام تھیں لیکن بعد کو ترک کر دی گئیں۔’’ ۶
محمد حسن شیکسپیر ئن ڈرامے کی اس خوبی کو اپنے تقریباً سبھی ڈراموں میں اپناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور غالبؔ کی ذہنی اذیتوں کو ڈرامائی رنگ دے کر اس دور کے حالات سے روبرو کراتے ہیں جس سے نبرد آزماں ہوتے ہوئے غالب انھیں کے عادی ہو جاتے ہیں اور یہ کہنے لگتے ہیں کہ ‘‘رنج سے خو گر ہو اانساں تو مٹ جاتا ہے رنج’’ غالبؔ کی آرزوؤں کی شکستہ حالی و پامالی کا احساس اس دور کے سبھی عالم و فاضل اور باشعور انسانوں کو تھا۔جس پر بڑے لطیف انداز سے طنز کیاگیا ہے جس نے غالبؔ کی آرزوؤں کو شدت سے چوٹ پہنچائی تھی ۔مولانا جریب کی زبانی اس خوارگی کا پُر درد بیان غور فرمائیں :
‘‘ مولانا : قومی حَمیت دفن ہو گئی۔شرافت کا جنازہ نکل گیا۔جرائت اور حوصلے کا خاتمہ ہو گیا۔ہائے کیا کلام ہے۔ غالبؔ کا قدر داں نہ ملا۔’’ ۷
مولانا کی زبانی ادا کئے گئے مکالمے میں نیز غالبؔ کی ناقدری اور خواری کا زکر نہیں ہے بلکہ اس پورے دور کی منافرت اور آسودہ حالی کا بیان ہے ۔ جس نے غالبؔ کو عرفان کی منزل تک پہنچادیاتھا اور وہ کہنے لگے کہ‘شمع ہررنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک’۔ اتنا ہی نہیں بہادر شاہ ظفر کے لئے سکّہ کہنے پر گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوااور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ر ہی سہی عزّتیں بھی بد سے بدتر ہو گئیں،چھوٹے بھائی یوسف مرزا کو گولی مار دی گئی اس پرطُرّہ یہ کہ زبان پہ حرفِ شکایت لانے کی پابندی بھی عائد کر دی گئی اس بے بسی و بے چارگی کے عالم میں غالب پوری طرح بے سہارا ہو گئے لہٰذا صبر کی شدت سے عرفانِ حیات کی منزل کو پہنچ گئے :
‘‘ غالبؔ : بیگم یہی تو پوری زندگی کی داستان ہے اندھیروں میں چراغ جلانا ہی تو ہمارا منصب اور مقصود ہے۔ہر روشنی کے ساتھ اندھیرے ہیں اور ہر اندھیرے کے ساتھ روشنی ہے۔یہی زندگی ہے۔’’ ۸
غالبؔ کی زندگی کو احاطہ کرنے والا یہ ڈراما نیم تاریخی ڈراما بھی ہے کیونکہ غالب کی زندگی کے مد و جزر اس دور کے حالات کے مطابق تھے جسے ڈراما نگار نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ڈرامائی شکل دی اور اکثر و بیشتر اپنے مارکسی نظریہ کی عرق ریزی بھی کی ہے جس کا اندازہ ڈومنی لڑکی کے جرائت مند انہ مکالمے سے لگایا جا سکتاہے جو اپنی خوشیوں اور خواہشوں کا بیباکانہ مطالبہ کرتی ہے۔ اگر چہ یہ اس دور میں قطعی ممکن نہیں تھا :
‘‘لڑکی : میں بھی انسان ہوں میرے سینے میں بھی دل ہے پتھر نہیں ہے بھائی صاحب مجھے بھی جینے کا حق حاصل ہے۔’’ ۹
لڑکی کی زبانی اپنے حق کا اس بیباکانہ انداز سے مطالبہ کرنا اُس دور میں قطعی ممکن نہیں تھا بلکہ یہ ڈرامانگار کے دل کا وہ غبار ہے جس کے ذریعے وہ جاگیردارانہ سماج کی عورتوں کی جانب سے لے کر کھڑے ہوئے تھے گویا ان کا نظریہ کہیں بھی اور کسی بھی حال میں بیجا ظلم و جور اور قید و بند کو برداشت نہیں کرتا جس کے باعث ڈومنی لڑکی سے یہ جرائت مندانہ مکالمہ ادا کرایاگیا ہے۔ اس کے علاوہ اس ڈرامے میں اور بھی کردار ہیں جن کی حیثیت ثانوی ہے جو غالبؔ کے کردار کے ارد گرد چکر کاٹتے دکھائی دیتے ہیں یا ایک ہی مرکزو محور پر گھومتے ہوئے غائب ہو جاتے ہیں چنانچہ پرانے اور نئے طرز کے امتزاج پر مبنی اس ڈرامے کے متعلق ڈاکٹر ظہور الدین لکھتے ہیں :
‘‘ …………ڈراما کہرے کا چاند بھی ایپک تھیٹر کے اثرات کا پتا دیتا ہے۔مجموعی اعتبار سے اگر چہ یہ بھی کلاسیکی روایت کا ہی تتبع کرتا ہے لیکن ان میں داستان گوکی موجودگی،پلاٹ کی سماجی معنویت،اسے قصہ درقصہ بنانے کی کوشش مناظر کی انفرادیت اور کرداروں کے مسلسل بدلتے رہنے کی خصوصیت سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر محمدحسن جلدہی کوئی اہم تجربہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔’’ ۱۰
اس اہم اور نئے تجربے کا مشاہدہ‘تماشا اور تماشائی’ میں بڑے فنکارانہ اندازسے کیا گیا ہے جس میں ڈراما نگار نے غالبؔ کی شخصیت کے دو رُخ پیش کئے ہیں جن کی کش مکش کے درمیان غالبؔ تا زندگی معلق رہے ۔محمد حسن چونکہ غالبؔ شناس بھی ہیں لہذا ‘عرض ہنر’ کے دیباچے میں غالبؔ کی انھیں دو شخصیتوں کی وضاحت یوں کرتے ہیں :
‘‘جیسے غالبؔ کے اندر دو غالبؔ ہوں ایک وہ جو زندگی کے ابھرتے ہوئے سورج پر نگاہ رکھتا ہے،جیسے حیات کی برکتوں کا احساس رکھتا ہو،جو‘لُطف ِخرامِ ساقی و ذوقِ صدائے چنگ’ ہی سے نہیں حسرتِ تعمیر سے بھی بے قرار اور نغمہ برلب ہو دوسرا وہ غالب جس کی قسمت میں منجملۂ القاب ویرانی،لکھا جانے کے سوا اور کچھ نہ ہو جس کے دل میں ذوقِ وصل اور یادِ یار تک باقی نہیں۔’’ ۱۱
‘تماشا اور تماشائی ’میں غالب کے اسی نظریاتی بُعد کو مدّنظر رکھ کر غالبؔ کی شخصیت کا نقشہ کھینچاگیا ہے غالبؔپر یکِ بعد دیگرِ تین ڈرامے لکھے لیکن اس آخری ڈرامے میں غالبؔ کی ذاتی زندگی کے گوشے ابھر کر سامنے آجاتے ہیں جس سے ڈراما نگار کی ذہنی مناسبت اور جذباتی وابستگی بھی ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔
اس ڈرامے میں وہ نظریاتی تصادمات بھی ابھر کر سامنے آجاتے ہیں جن سے غالبؔتا زندگی نبرد آزما رہے۔چنانچہ ۱۰۵/ویں برسی کے موقع پر لکھے گئے اس ڈرامے میں غالبؔ کی شخصیت کے دونوں جز وآپس میں حجت و اختلاف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ڈراما نگار نے موت کے بعد دو رخوں کو اسٹیج پر آمنے سامنے زندگی کے مسئلے مسائل پر تبادلۂ خیال کرتے دکھایا ہے جو طرز جدید کے ڈراموں کی جانب متوجہ ہونے کا ثبوت پیش کرتاہے گویا التباسِ حقیقت کو توڑنے کا ایک نیا حربہ استعمال میں لائے ہیں۔
ڈرامے کی شروعات ہی اسٹیج پر مرزا غالبؔ کے بحث و مباحثے سے ہوتی ہے کہ لوگ کس کی برسی منا رہے ہیں مرزا کی یا غالب کی جس سے قارئین و ناظرین جذباتی طورپر ہم آہنگ ہونے کے بجائے ایک نظریہ قائم کر لیتے ہیں :
‘‘مرزا : نہیں ،غالب بھولتے ہو۔غالب سے پہچانے جانے سے پہلے صرف میں تھا مرزا اسد اللہ بیگ اور میں نے آگرے میں آنکھیں کھولی ہیں ۔۱۷۹۸ء کا آگرہ۔ یہاں نظیر اکبرآبادی کے شہر آشوب کا آگرہ۔جہاں میری خاندانی حویلی تھی اور دیوان خانے میں راجا بنسی دھر کے ساتھ شطرنج کی بازی جمتی تھی۔ ۱۲
مرزا کے مکالمے میں پیدائش اور مقام کے ساتھ ہی اس دور کے مشاغل اور دلچسپیوں کا اندازہ ہوتا ہے جس میں زبوں حالی و تنزّلی سے نبرد آزمائی کے لئے لہو و لعب کا سہارا لیا جاتا تھا جو دل بہلاوے اور پامالی کے احساس سے سکون بہم پہچانے کا بہترین ذریعہ تھے گویا وہ دور آج کی طرح ترقی یافتہ سائنس و ٹیکنالوجی کا نہ تھا جس میں لو گ مختلف ذرائع سے دل بہلاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈراما نگار نے مرزا کی زبانی ان نہاں گوشوں پر روشنی ڈالی ہے جن سے اس دور ہی کی نہیں بلکہ حالات کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔فلیش بیک(FLASH BACK) کی تکنیک کے ذریعے ڈرامے کو جدّت پسندی سے ہم کنار کیا ہے۔
فلیش بیک کی تکنیک کے ذریعے لڑکی مرزااور غالبؔ کے درمیان حائل ہو جاتی ہے اور دونوں کو اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے اسی شکوہ شکایت کے دوران اس حقائق کا طنزیہ انکشاف بھی کرتی ہے جو ادبی جمالیات کے زیر اثر ادب میں وجود پذیر ہوایہاں یہ مکالمہ پیش ہے :
‘‘لڑکی : شاعروں کواکثر جھوٹ سے پیار ہوتا ہے مگر عورت ایسی سچائی ہے جسے شاعروں نے اپنی سچائی کے ذریعے جھوٹ بنا لیا ہے میں بھی عورت ہوں۔میں آج تم سے انصاف مانگنے آئی ہوں۔’’ ۱۳
لڑکی سے مکالمے میں ڈراما نگار نے مارکسی نظریے کی نمائندگی کی ہے کہ ‘ادب برائے ادب’ نے انسانی حقیقت کو فراموش کر کے ادبی صورتوں کوتقویت پہنچائی ہے اور ادب و شعر میں معشوق کے جھوٹے سراپے کا سہارا لیا ہے او ر انھیں لعنت ملامت کیا ہے جس کے برعکس ترقی پسندوں نے عورت کا حقیقی وجود ہی نہیں پیش کیابلکہ سماج کی دکھتی رگوں کو چھو کر انھیں مردوں کے شانہ بہ شانہ جگہ د ی حالانکہ غالبؔنے بھی اپنے کلام میں اکثر و بیشتر تلخ حقائق کی رونمائی کی ہے۔جس سے ڈراما نگارنے کافی حد تک اثرات قبول کئے ہیں یہی وجہ ہے کہ لڑکی کا انصاف طلب کرنا اور اپنے حق کا مطالبہ کرنے میں ترقی پسند نظرئے کو فوقیت حاصل ہوتی ہے جس پر محمدحسن تا زندگی زور دیتے رہے ۔
اس پورے ڈرامے میں حق تلفی و نامرادی کی تصویر ابھرتی ہے جسے غالب کے نظریۂ توازن نے ثابت قدمی عطا کی مگروہ اپنے ضمیر کا سودا کرنے سے پوری طرح گریز کرتے رہے یہاں تک کہ حالات کی چیرہ دستی اور تنگ حالی کے باوجود بھی دلّی کالج کی ملازمت اختیار نہیں کی کیونکہ ان کی انانیت اور ضمیر کی پاسداری نے سر تسلیم خم نہیں کرنے دیا جسکو اس ڈرامے میں بڑے فنکارانہ طریقے سے ڈرامائی رنگ دیا گیا ہے۔ لیکن وقت کی سفاکی اورستم ظریفی کے باوجود وہی غالب مصیبتوں کے بھنور میں اسیر ہو کر اپنے روز نامچے میں حقیقت کے برعکس حکمتِ عملی اور دور اندیشی سے کام لیتاے ہیں جبکہ ضمیر اس بات کی قطعئی اجازت نہیں دیتے پھر بھی غایت درجہ مجبوری و بے بسی اس کی انا و خوددار ی پر گہری چوٹ کرتے ہیں جسے ذہنی کوفت اور ملامت کے انداز میں غالب کی زبانی ملاحظہ فرمائیں :
‘‘غالب : تم نے مجھے کہاں لکھنے دیا امیر زادے نے میرے ہاتھ سے قلم چھین لیا۔ شاعر تو مجاہد بھی بن سکتا تھا مگر امیر زادہ بزدل ہوتا ہے اسے تو اپنے حلوے مانڈے سے کام تھا اسے تو انگریزوں کے دربار میں اگلی صف میں جگہ چاہئے تھی خطاب درکار تھا جھوٹی عزت چاہئے تھی تم میری کمزوری تھے اور میں نے جھوٹ لکھ دیا کہ میرا دیوانہ بھائی بخار میں مبتلا ہو کر مر گیا۔میں یہ نہ لکھ سکا کہ انگریز سپاہیوں نے اسے گولی ماردی تھی ۔یہ بھی نہ لکھ سکا کہ میں نے بہادر شاہ ظفر کی حکومت دوبارہ قائم ہو جانے پر ‘سکّہـ’ کہہ کر دیا تھا۔’’ ۱۴
حقیقت تو یہ ہے کہ اس دور میں جبکہ حالات نہایت سنگین اور پیچیدہ ہو گئے تھے ایسے میں غالب کو اپنے حلوے مانڈے کا خیال رکھنا کوئی عیب کی بات نہ تھی جسے ڈراما نگار نے مرزا اور غالب کے مکالمے میں وضاحت اور صراحت کے ساتھ پیش کیا ہے اور ان مسائل و پابندیوں سے اپنے پڑھنے اور دیکھنے والے کو روبرو کرایا ہے جس کے شکنجے میں پھنس کر غالبؔ جیسے شاعر مصلحت اختیار کر نے کو مجبور ہو ئے ۔جس کی وجہ سے اکثر ادبی حلقوں نے ان پر موقع پرست ہونے کا الزام لگایا ہے، جبکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ دور انگریزوں کا تھاجس میں زندگی بسرکرنا دژوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو گیاتھا۔لہٰذاانگریزوں کے حمایتی اوروَ فاشعار بن کر جینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا جس کے لئے غالب کو بھی آمادہ ہونا پڑا ۔
یہاں پر ‘تماشا اورتماشائی’ ‘نقش فریادی’ اور ‘کہرے کا چاند’ سے آگے نکل جاتا ہے۔ جس میں ڈراما نگار نے بریختی طرز تحریک کوملحوظ رکھتے ہوئے دیر پا تاثر قائم کیا ہے اور آخر میں زندگی کا ایک فلسفہ پیش کر کے درس عبرت دیا ہے جو غالبؔ کی پوری زندگی کا نچوڑ کہے جانے کا مستحق ہے :
‘‘ہر وجود ایک سوال ہے،میرا وجود ایک ایسے زمانے میں جب تمام چیزیں جو مجھے عزیز تھیں مٹ رہی تھیں۔بہت بڑا سوال تھا۔تمہیں کیا حق تھا کہ اس طرح مجھ سے کھیلو،جو مجھے عزیز تھا مجھ سے چھین لیااور جو کچھ آنے والا ہے اسے قبول کرنے پر مجھے مجبور کرو۔صبح کے وقت تم نے کبھی چراغوں کی بے بسی دیکھی ہے۔’’ ۱۵
غالبؔ کی زندگی کو احاطہ کرنے والے اس ڈرامے میں اس دور کے حالات اور سماجی مسائل کے ساتھ ہی روایت پرستی اور تہذیبی قدروں کی جانب بھی اشارہ کیاگیاہے۔ لیکن بعض اوقات ان کرداروں کی زبانی ایسے مکالمے ادا کرائے اور ایسی باتیں پیش کی گئی ہیں جو اس دور سے مطابقت نہیں رکھتیں جن پر ڈراما نگارکا اپنانظریہ غالب نظر آتا ہے اور ڈراما فوق البشریت سے نکل کر حقیقت پسندی کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتا ہے کیونکہ ایپک ڈراموں میں :
‘‘…………فرد کی نہیں سماج کی عکاسی و ترجمانی کرنا ہے اس لئے یہاں کرداروں کی تخلیق کے لئے ان کے سماجی اعمال ہی کو مرکزی اہمیت دی جاتی ہے اور ان کی نجی یا نفسیاتی زندگی جس سے سماج کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا اس کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔’’ ۱۶
٭٭٭
حوالہ جات
۱ مجموعہ پیسہ اور پرچھائیں : ڈاکٹر محمد حسن : ادارہ فروغ اردو،لکھنؤ ۱۹۷۷: ص ۱۱۲
۲ مجموعہ پیسہ اور پرچھائیں :ایضاََ : ص ۲۲
۳ جدید اردو ڈراما :ڈاکٹر ظہور الدین: ادارہ فکرِجدید،دریا گنج، نئی دہلی۱۹۸۷: ص ۴۳
۴ کہرے کا چاند :شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی، دہلی۱۹۶۹: ص ۱۲۔۱۱
۵ کہرے کا چاند :ایضاََ: ص ۳۷
۶ لکھنؤ کا عوامی اسٹیج :سیدمسعود حسن رضوی: نظامی پریس ، لکھنؤ۱۹۶۸: ص ۱۱۱
۷ کہرے کا چاند :ایضاََ: ص ۵۸
۸ کہرے کا چاند : ایضاََ : ص ۶۹
۹ کہرے کا چاند :ایضاََ: ص ۳۰
۱۰ جدید اردو ڈراما :ایضاََ: ص ۱۹۵
۱۱ عرض ہنر :ڈاکٹر امحمد حسن: نصرت پبلشرز، لکھنؤ۱۹۷۷: ص ۱۴
۱۲ تماشا اورتماشائی : محمد حسن: ادارہٗ تصنیف،ڈی7 \ ماڈل ٹاؤن، نئی دہلی ۱۹۷۵: ص: ۳
۱۳ تماشا اور تماشائی :ایضاََ: ص ۱۸
۱۴ تماشا اور تماشائی :ایضاََ: ص ۳ ۳
۱۵ تماشا اور تماشائی :ایضاََ: ص ۳۶
۱۶ جدید اردو ڈراما :ڈاکٹر ظہور الدین : ایضاََ: ص ۹۱
Name: Dr.Nurina Parveen
Email ID: parveennurina@gmail.com