ڈاکٹر حارث حمزہ لون
رحمت آباد رفیع آباد ، بارہمولہ کشمیر
غالبؔ کی شاعری کے امتیازات
غالبؔ اُردو شاعری کی دنیا میں ایک نادر مظہر ہیں۔ فکر و فن کی محفل میں ان کا مقام سب سے الگ ہی نہیں سب سے بلند بھی ہے۔ اُردو میں وہ تنہا شاعر ہیں جن کی شاعری دلنشیں اور دلآویز ہونے کے ساتھ ساتھ خیال انگیز اور فکر انگیز بھی ہے۔ ان کی شاعری کا موضوع ان کے شدید ذاتی تاثرات ہیں اور ان کی امتیازی خصوصیت ان کا تفکر ہے۔ غالب کے یہاں تفکرات تمام تجربوں کا اظہار ہے جو ذہن اور روح کی گہرائیوں میں جذب ہوکر ابھرے ہیں۔ ان کے یہاں غور و فکر اور سوچ و بچار کا خاصہ گہرا سمندر ہے۔ وہ زندگی کو دیکھنے اور بسر کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں حقیقتوں کی تلاش و جستجو کا بھی درس دیتے ہیں۔ وہ بظاہر معمولی سی بات کہتے ہیں لیکن اس کی تہہ میں انسانی زندگی کی کوئی بڑی اہم حقیقت ہوتی ہے۔ ان کے یہاں رنگا رنگی اور فراوانی سے زیادہ ندرت، پیچیدگی اور تنوع اہم ہیں۔ ان کے یہاں جذبات کی تُندی اور ذہن کی برق رفتاری بیک وقت ملتی ہے۔ غالب کی شاعری ان تعلیمات کی فنی ترسیل ہے جو انھوں نے اپنے نجی تجربات سے اخذ کیے ہیں۔
؎ بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
غالبؔ کی شخصیت جامع الصفات تھی وہ ایک معروف شاعر کی حیثیت سے مقبول تو ہیں ہی، ایک کہنہ مشق نثر نگار کی حیثیت سے بھی ان کا پایہ بلند ہے۔ ان کے خطوط اُردو میں جدید نثر کا سنگ بنیاد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کی چند ایک کتابیں ہیں۔ شاعری میں غالبؔ نے قصیدے ، رباعیات ، قطعات اور مثنویاں وغیرہ بھی لکھی لیکن جس صنف کی وجہ سے غالبؔ، غالب ہیں وہ ان کی غزل گوئی ہے۔ دیوانِ غالب ؔ میں ۱۸۰۲ اشعار شامل ہیں۔اس کا پہلا ایڈیشن اکتوبر ۱۸۴۱ ء میں مطبع دہلی سے شائع ہوا ۔ اس کے بعد غالبؔ کی زندگی میں ان کے دیوان کے چار ایڈیشن (دوسری بار ۱۸۴۷، تیسری بار ۱۸۶۱ ء میں، چوتھی بار ۱۸۶۲ ء، پانچواں بار ۱۸۶۳ ء میں )شائع ہوئے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے دیوانِ غالبؔ کے پہلے شعر پر نظر پڑتی ہے ۔ دیوان غالبؔ کا جمال اورکمال اُن کے پہلے شعر سے ہی مترشح ہے ؎
؎ نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
غالبؔ نے اردو غزل کو ایک نئی سمت اور نئی جہت سے روشناس کیا ہے۔ آپ کو فارسی اور اردو، دونوں زبانوں پر قدرت حاصل تھی۔ انھیں اُردو سے زیادہ اپنی فارسی دانی پر فخر تھا۔ انھوں نے کبھی اپنی فارسی شاعری پر ناز کرتے ہوئے اُردو شاعری کو ’’بے رنگِ من است‘‘ کہا تو کبھی اُردو شاعری کو رشکِ فارسی قرار دیا۔ اگر چہ اُردو کے دیگر شعراء نے اُردو شاعری کو بڑی حد تک کامیابی کی منزل سے ہمکنار کیا لیکن غالبؔ کا انداز سخن اور انداز بیاں کچھ اور ہی تھا۔ جس پر غالبؔ کو فخر بھی تھا اور جس کی وجہ سے اُردو شاعری عالمی شاعری کے ساتھ آنکھ سے آنکھ ملانے کے قابل ہوگئی۔ شعر ملاحظہ ہے
؎ ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیان اور
غالبؔ فی الحقیقت ایک ایسے شاعر ہیں جو آج بھی اہل قلم اور صاحب علم حضرات کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ غالبؔ ایک تہذیب ، ایک کلچر اور ایک عہد کا نمائندہ شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ حالیؔ نے غالبؔ کی شاعرانہ خصوصیت کا تجزیہ اس طرح کیا ہے:
’’جدت مضامین، طرفگی خیالات، نئی اور موزوں تشبیہات کا استعمال، استعارہ، کنایہ کا برمحل برتائو اور شوخی و ظرافت یہ سبھی کلام غالبؔ کے عناصر ترکیبی ہیں‘‘۔
غالبؔ کی ہر دلعزیری کا بنیادی سبب ان کی شاعری کا تنوع اور طرز ادا ہے۔ مضامین کے اعتبار سے کلام غالب میں جتنی رنگا رنگی پائی جاتی ہے شاید ہی کسی دوسرے شاعر کے یہاں نظر آئے۔ جہاں تک اسلوب اور لب و لہجہ کا تعلق ہے غالبؔ کی شاعری ایک گلدستہ صد رنگ ہے جس کا ہر رنگ اپنی جگہ اتنا تابناک اور شوخ دکھائی دیتا ہے کہ نگاہیں وہیں ٹھہر کر رہ جاتی ہیں۔ عبد الرحمن بجنوری نے غالبؔ کے کلام کو الہامی کتاب کے نام سے موسوم کیا ہے۔
مرزا کے کلام میں شیرینی اور تغزل کے ساتھ ساتھ دقیق فلسفیانہ اشکار اور تصوف کی آمیزش بھی ہے۔ ان کا تخیل بڑا بلند پرواز تھا۔ وہ روش عام سے ہٹ کر اعلیٰ تخیلات کو نظم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ شوخی، غنائیت، تفکر، دلکشی، پُرشکوہ الفاظ اور لطیف تراکیب ان کا طرۂ امتیاز ہیں۔ ان کے کلام کا حسن اس کی گیرائی اور گہرائی میں ہے۔ غالبؔ کی کامیابی کا باعث ان کے عام فہم الفاظ، تراکیب اور سیدھے سادے طرز کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کا ڈکشن ہے جو پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ الفاظ کا انتخاب ، مصرعوں کی در و بست، زندگی اور زمانے کے تعلق سے ان کا رویہ، انسانی جذبات و احساسات کا دُرک، ان کے اشعار کی معنویت اور تہہ داری، ان کا پیرایۂ اظہار اور ان کا اندازِ بیان، ان کے کلام کو وزن و وقار بھی عطا کرتا ہے اور مقبولیت اور محبوبیت بھی۔ غالبؔ کو الفاظ کے انتخاب میں بڑا کمال حاصل تھا ؎
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
غالبؔ کو فلسفی شاعر اس مفہوم میں تو نہیں کہہ سکتے جس مفہوم میں یہ اصطلاح ہم اقبالؔ کے لیے استعمال کرتے ہیںکیونکہ غالبؔ نے کسی مرتب فلسفیانہ نظام کا سہارا نہیں لیا اور نہ ان کی شاعری کا محرک کائنات کا کوئی فلسفیانہ شعور قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ان کے یہاں بے شمار ایسے اشعار ملتے ہیں جن کی خصوصیت اور فنی لطافت ذہن انسانی کو دعوت فکر دیتی ہے۔ یہ وہ مقامات ہیںجہاں وہ زندگی اور کائنات کے رموز کو آشکار کرنے کے لیے بعض اقداراور تصوارات کا سہارا لیتے ہیں جو فارسی شاعری اور ہندو فلسفہ میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے لیے پوری کائنات ایک سوالیہ نشان تھی اور اس کے اسرار و رموز کی پردہ داری وہ کسی بندھے ٹکے نظریہ یا مسلمہ نظام کی مدد سے نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کا حکیمانہ ذہن ان مختلف مسائل کی توجیہہ، زیادہ تر اپنی توانائی کے بل بوتے پر کرنا چاہتا تھا۔
نہ ستائش کی تمنا ، نہ صلے کی پروا
نہیں ہے گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی
غالبؔ کے زمانے کی شاعری الفاظ اور محاورات کی شاعری تھی۔ روز مرہ ضرب المثل، سلاست، روانی اور بندش الفاظ ان کی شاعری کا خاص جوہر تھا۔ غالبؔ کا کلام گونا گوں خصوصیات کا بہترین نمونہ ہے۔ آزردہؔ اور شیفتہؔ جیسے باکمال سخنور اور ساتھ ہی ساتھ متمول حضرات غالبؔ کے قدر داں تھے۔ مغلیہ دربار بہادر شاہ ظفر کی نگاہ میں غالبؔ کی خوب قدر و منزلت اور عزت و تحسین تھی ۔ رفتہ رفتہ غالبؔکی شہرت و مقبولیت بڑھتی گئی اور انہوں نے مستقبل کے شعلے سے حرارت
حاصل کی ہے اور تصور کی مدد سے اس حرارت کو حال کے جسم میں منتقل کردیا ہے۔
؎ ہوں گرمی ٔ نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں
غالبؔ اپنے عہد میں بھی عزت و افتخار کی زندگی جی رہے تھے، بڑے بڑے لوگ ان سے ملنے کی تمنا کرتے تھے، ان کی گفتگو سننے اور انہیں قریب سے دیکھنے کے متمنی رہتے تھے، ایوان حکومت میں بھی ان کے نام کا دبدبہ تھایہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جب کسی فنکار کی شہرت ہوجاتی ہے اور اس کے نام کی گونج ہر جگہ سنائی دینے لگتی ہے ، تو وہی لوگ جو کل تک اسے نظر انداز کرتے تھے، اس کا مزاق اڑایا کرتے تھے۔ اس پر طرح طرح کے طنز کرتے تھے، پھر وہی اس سے تعلقات پر فخر کرنے لگتے ہیں۔ وہ تمام دوست رشتہ دار اس کے نام سے رشتہ جوڑنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی عظیم ہستی کی وجہ سے ہی اس کے شہر کا نام ، اس کے دوستوںکے نام، حد تو یہ ہے کہ ان کے نوکروں کے نام کتابوں میں آنے لگتے ہیں، اس کے نام پر شہروں، گلیوں، بازوروںکے نام رکھے جاتے ہیں، اس کے نام سے جگہ جگہ ادارے، انجمنیں قائم ہونے لگتی ہیں۔۔۔۔ کہاں کہاں قیام کرتا ہے، کس کس سے ملاقاتیں کیں، آج ان سب کے نام کتابوں میں محفوظ ہیں۔ یہ اس شخصیت کی عظمت، شہرت کا کھلا اعتراف ہوتا ہے۔ جہاں تک غالبؔ کی شاعری کا تعلق ہے ، تو وہ خوش نصیب شاعر ہے کہ جن پر اب تک سینکڑوں مضامین اور کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی۔ اس لئے کہ زیادہ تر شاعر اپنے عہد سے متاثر ہوتا ہے اور اپنے آ س پاس کے ماحول کی عکاسی کرتا ہے، جیسے حالات ہوتے ہیں، ویسے ہی شاعری ہوتی ہے۔ اپنے حال کی عکاسی کرنا شاعر کا پہلا فریضہ بھی ہوتا ہے کیونکہ اپنے حال سے بیگانہ رہ کر بڑا ادب تخلیق نہیں کیا جاسکتا لیکن غالب کا معاملہ دوسرا ہے۔ غالبؔ حال، ماضی اور مستقبل تینوں ادوار کا شاعر ہے۔اور لہذا ہر زمانے کے لئے غالبؔ اس کا عکاس نظر آتا ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی ’’ غزل اگر اُردو شاعری کی آبرو ہے تو غالبؔ اُردو غزل کی آبرو ہیں‘‘۔
غالبؔ کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری میں ہی نہیں ہے بلکہ ان کی گفتگو، ان کی زندگی، دوستوں، اور عزیزوں سے تعلقات ، ان کے خطوط، انسانی ہمدردی کا جذبہ ساری خصوصیات جب کسی ایک انسان میں یکجا ہوجائیں تو پھر ایسی شخصیت ابھرتی ہے کہ وہ عظیم مرتبہ حاصل کرلیتی ہے۔ غالبؔ ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے جس میں یہ تمام خصوصیات یکجا ہوگئی ہیں۔ غالبؔ ایک عظیم شاعر کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مفکر سیاستداں اور یاروں کے یار تھے۔سیاسی تنقیدی شعور اتنا تھا کہ کسی دوسرے میں دیکھنے میں نہیں آیا۔ کس سے تعلق رکھنا ہے، کس کو شعر سنانا ہے، کونسی محفل میں جانا ہے، کونسا لباس پہننا ہے، قلعہ تک رسائی کس طرح حاصل کرنا ہے، کہاں کس سے کس طرح فائدہ اٹھانا ہے۔ یہ تمام خوبیاں اور صلاحیتیں غالبؔ میں موجود تھیں، جس سے ان کی دور اندیشی اور ان کے فہم وادراک کا اندازہ لگایا جاسکتا ۔
ہزاروں خواہشیں ایسی ہیں کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
کلام غالبؔ میں ہر رنگ کے اشعار جلوہ گر ہیں۔ شوخ، ظریفانہ، سنجیدہ، عارفانہ، دقیق اور فلسفیانہ۔ مختصراً ان خصوصیات کو تغزل، تصوف اور تفلسف (حکمت آموزی) کے تین بڑے زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ غالبؔ کی شاعری کو مشہور و مقبول بنانے والی دوسری اہم صفت ان کی شوخی و ظرافت ہے۔ شیخ محمد اکرام کے الفاظ میں :
’’مرزا کی ظرافت بہت پاکیزہ اور فحش سے پاک ہے اور تبسم زیر لب سے آگے کبھی نہ
بڑھی ، لیکن اس میں رعایت کسی کی نہ تھی۔ گاہے بگاہے اپنے اور پر بھی ہنس لیا کرتے تھے‘‘۔ ( اشعار غالب از عبد المنان بیدل ، ص: ۲۲)
تصوف ، فلسفہ، اخلاق اور حکیمانہ افکار کو بھی انہوں نے اپنی غزلوں میں پیش کیا ہے۔ وہ فطرتاً ایک ظریف الطبع انسان تھے اور بات سے بات پیدا کرنے میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ مرزا نے اُردو غزل میں جدت پسندی سے کام لیتے ہوئے غزل کے مضامین میں وسعت اور گہرائی پیدا کی اور اپنے فلسفہ و فکر اور حکیمانہ افکار و خیالات کے ذریعہ غزل میں چار چاند لگا دئیے۔ یہی وہ خوبی ہے جس کی بنا پر حالیؔ نے انہیں ’’حیوان ظریف‘‘ کہا۔ اُردو شاعری میں غالبؔ سے قبل پھٹکر ہجوم اور مسخرگی کے نمونے ملتے ہیں لیکن اعلیٰ درجہ کی شوخی و ظرافت کا پہلا نمونہ سب سے قبل غالبؔ کے یہاں ملتا ہے۔ رشید احمد نے بہت صحیح کہا ہے:
’’اُردو شعر وادب میں ہی نہیں طنز و ظرافت کی محفل میں غالبؔ اس طرح داخل ہوئے جیسے فلمی گانوں کے درمیان پکے گانے کا کوئی استاد وارد ہوجائے‘‘۔
غالبؔ کی شاعری میں صنف غزل کی لطافت و نفاست، نازکی و دلبری، شیرنی اور حلاوت اور سرمستی و سرشاری فراواں ہے۔ اپنی عناصر سے غالبؔ کے تغزل کا خمیر تیار ہوا ہے۔ اُردو شاعری میں غالبؔ کی شائستہ شوخی و ظرافت کی چند مثالیں ملا حظہ فرمائیے :
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
غالبؔ نے کسی خاص فلسفے یا نظریے کو اختیار نہیں کیا۔ زندگی کے مختلف نظریوں ، فلسفوں پر ان کی نظر ضرور تھی جن سے وہ متاثر بھی ہوئے لیکن حیات و کائنات کے بارے میں ان کی فکر خود ان کے اپنے مشاہدات و تجربات کا نچوڑ ہے۔ زندگی کو انھوں نے ہر رنگ میں دیکھا ، اس کا جائزہ لیا اور اس کے تعلق سے ایک باشعور انسان کی طرح ردِ عمل کا اظہار کیا۔تصوف کے مسائل کے تعلق سے بھی ان کا یہی حال رہا۔ ان کے عہد میں تصوف کو زندگی کی ایک اہم قدر کی حیثیت حاصل تھی۔ صوفیانہ مسائل اور موضوعات پر غالبؔ کی نگاہ تھی۔ ملاحظہ کیجئے
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
غالبؔ کے اسی پختہ شعور نے انہیں اس عظیم مرتبہ پر پہنچایا۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ جس (شاعر، ادیب )نے بھی غالبؔ کے ذہن تک رسائی حاصل کر لی سمجھئے کہ اس نے ترقی کی ساری منزلیں طے کر لیں اور وہ کامیابی اور بلندیوں سے ہم کنار ہوئے۔غالبؔ وحدت الوجود کے قائل تھے اور وحدت الوجود کے عقیدے کو غالبؔ کے تفکر میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس عقیدت کی بنیاد یہ ہے کہ کائنات خدا سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتی ہے اور وجود صرف ایک ہے جس کو غالبؔ نے اس طرح پیش کیا ہے ؎
شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالم لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں منظور نہیں
حیات کی ابتدا اور انتہا چونکہ خدا کی ذات سے ہی ہے اس لیے مادی زندگی کے اس خیال کو انھوں نے اس طرح کہا ہے ؎
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
غالبؔ غزل کے شاعر ہیں اور انھوں نے غزل کے بنیادی موضوع حسن و عشق کے جذبات کی بھرپور تصویر کھینچی ہیں۔ ان کی عشقیہ شاعری زندگی آمیز بھی ہے اور زندگی آموز بھی۔ اس لیے وہ زندگی سے بے زاری نہیں سکھاتی ۔ اس میں جذبات کی بڑی اہمیت ہے لیکن وہ تمام تر جذباتی نہیں ہے۔ اس میں روایت کے اثرات ہیں لیکن روایتی ہونے سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس میں ایک انفرادی کیفیت کی ترجمانی ضرور ہے ساتھ ہی وہ ایک سماجی پس منظر بھی رکھتی ہے۔ وہ اپنے زمانے کی پیداوار ہے اور اس میں زمانے کے مخصوص حالات کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ ایک تہذیب کی عکاس اور آئینہ دار ہے۔ اس میں بڑی صاف ستھری فضا ہے اور زندگی میں شمعیں فروزاں کرتی اور دلوں میں دیے جلاتی ہے۔ یہ عشقیہ شاعری سیدھی اور سپاٹ نہیں ہے، اس میں پیچ و خم اور نشیب و فراز ہیں۔ اشارہ کنایہ رمز و ایما ہے اور کچھ نہ کہنے پر بھی نہ جانے کیا کیا کہتی ہے۔ ان کی شاعری ایک مضبوط بنیاد رکھتی ہے۔ وہ محض خیالی نہیں ہے، بلکہ اس میں حقیقت و واقعیت کی گہرائی، خلوص و صداقت کی گرمی اور اپنا ایک نظام ہے۔ اس کا آغاز حسن پرستی سے ہوتا ہے جس نے اس کے دل کو لبھایا اور ان کی زندگی میں رنگینی پیدا کی اور اسی لیے یہ زندگی ان کے لیے بلا کی حسین اور یہ دنیا غضب کی دلآویز ہوگئی ہے۔ ان کی حسن پرستی میںان کی نسل، خاندان ، ماحول اور گرد و پیش کے اثرات کو بھی دخل ہے۔ مغلوں کی روایتی حسن پرستی اور امیرانہ ماحول کی تعیش پسندی نے اس احساس کی تشکیل کی اور اس کو ان کی شخصیت اور کردار کا بنیادی جز بنا دیا ۔ حسن نہ صرف غالبؔ کو مدہوش اور سرشار کرتا ہے بلکہ وہ اس کو دیکھ کر مبہوت ہوجاتے ہیں اور تعجب سے پوچھتے ہیں ؎
یہ پری چہرہ لو گ کیسے ہیں غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
غالبؔ کی محبت میں وہ پائیداری نہیں، اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کا دل محبت سے نا آشنا ہے۔ درحقیقت وہ عشق کو فلسفی کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اس میں ڈوب کر رہ جانا انہیں گوارہ نہ تھا
؎ عاشق ہوں پر معشوق فریبی ہے میرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ میرے آگے
حسن و جمال کا یہ خیال اور اس کی اہمیت کا احساس غالب کے یہاں اس قدر بڑھا کہ انھوں نے بعض اوقات اپنی ذات کی اہمیت کے احساس کو بھی خیر باد کہا ہے اور یہ صرف ایک ایسی منزل ہے جہاں پہنچ کر غالبؔ اپنی انانیت کو مجروح کرتے ہیں ۔ غالبؔ ان لوگوں کے حسن کا احساس بھی رکھتے ہیں جو اس دنیا میں موجود نہیں ہیں مثلاً
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
غالبؔ ایک رنگین، پُرکار اور پہلودار شخصیت رکھتے تھے۔ ان کی شخصیت میں شوخی کا وہ رچائو ملتا ہے جس نے ان کی شاعری میں گل کاریاں کی ہیں اور اسے زعفران زار بنا دیا ہے۔ ان کے مزاج کی یہ شوخی سب سے زیادہ ان کی شاعری پر اثر انداز ہوئی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں زندگی اور جولانی، جدت اور اپج، رنگینی اور پرکاری پیدا کی ہے۔
عرضِ نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
غالبؔ بڑے پہلو دار شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں تنوع، رنگارنگی اور بڑی گہرائی ہے۔ وہ صرف جذبات کو ہی متاثر نہیں کرتی بلکہ ذہن پر بھی اس کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ وہ ماحول کے مختلف پہلوئوں کا شعور پیدا کرتی ہے۔ اس میں زندگی، حسن اور دلآویزی ہے جس سے غالبؔ کی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ انھوں نے اُردو شاعری کو ایک ایسی زبان دی جو صرف رنگین اور پرکار ہی نہیں تھی ، بلکہ اس میں احساس کی شدت، جذبے کی صداقت، شعور کی گہرائی اور نظریے کی پختگی کے مکمل اظہار و ابلاغ کی بڑی صلاحیتیں تھیں۔ غالب کی شاعری انہی تمام عناصر سے عبارت تھی اور یہی عناصر اس مخصوص زبان کی تخلیق کے محرک ہوئے جو غالبؔ کا ایک اجتہادی کارنامہ ہے۔
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھ کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسہ مرے آگے
مجموعی اعتبار سے غالبؔ کی شاعری ایک گلدستہ ہے جس میں ہر رنگ و بو کے پھول ملتے ہیں جس سے ہر شخص کے ذوق کی تسکین ہوجاتی ہے۔ پروفیسر عبد المنان عظیم آبادی اشعار غالبؔ میں فرماتے ہیں ہر شخص کے مطلب کی بات غالبؔ کے اشعار میں نظر آتی ہے۔ کسی کو مرزا کی شوخی پسند ہے، کسی کو اس کی فلسفیانہ سنجیدگی و متانت، کسی کو اس کے دیوان میں حقیقت عرفان کے اشعار ملتے ہیں۔ کسی کو دین مذہب پر استہزا کے کوئی رند سمجھتا ہے اور کوئی صوفی۔ غرض کہ کلام غالبؔ وہ صاف آئینہ ہے جس میں ہر دیکھنے والوں کو اپنی اصل شکل نظر آتی ہے۔
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
غالبؔ کے یہ وہ اشعار ہیں جن سے کہ ان کی شہرت ہوئی ، اور جن سے ان کی شوخیاں، ذہانتیں اور انداز بیان کے چرچے ہونے لگے اور دنیائے ادب میں ان کی عظمت کا پرچم بلند ہوتا گیا۔ اس لئے اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود غالبؔ آج بھی اُردو شاعری کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں۔
***