ڈاکٹر صائمہ اقبال
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردوگورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد
نازیہ مقصود
ایم فل اسکالر، شعبہ اردوگورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد
غالب کے خطوط کا ادبی مطالعہ
A literary study of Ghalib , s letters
Dr.Saima Iqbal
Assistant Professor, department of Urdu Government college University, Faisalabad
Nazia Maqsoods
M.Phil scholar, department of Urdu Government college University, Faisalabad
Abstract:
Letters are the greatest reflection of human nature.Because through them we see many glimpses of the personal life of the author and more and more colors of life come before us.Most of Ghalib’letters are something between speech and writing . Ghalib makes his letters so close to speech and conversation by using words,Narration and oratorical style that a meeting and collective atmosphere is created.It seems that Ghalib Maktoob is addressing many people, not just IIya.This effort has made the literary between of Ghalib’s letters shine.He has created that uniqueness in his voice that even today his voice has established its identity in thousands of voices.Its literary importance is beyond any doubt.This article presented the literary study of Ghalib’ s letters.
Keywords:Literary Letters , Importance of letters,Ghalib, Ghalib’s literary letters, style, Detailing, imagery, satire, similes, metaphors.
بلاشبہ ادب اور زندگی لازم و ملزوم ہیں۔ خطوط انسانی فطرت کے سب سے بڑے عکاس ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ذریعے ہم مکتوب نگار کی ذاتی زندگی کی بہت ہی جھلکیاں دیکھ لیتے ہیں اور زندگی کے مختلف اور زیادہ سے زیادہ رنگ ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔
مولوی عبدالحق کے خیال میں:
’’ زندگی خطوں میں اور خاص کر ان خطوں میں جو اپنے عزیز اور مخلص دوستوں کے لکھے جاتے ہیں ایک خاص دلچسپی ہوتی ہے۔ جو دوسری تصانیف میں نہیں ہوتی۔ان کی سب سے بڑی خوبی بے ریائی ہے۔ تکلف کا پردہ بالکل اٹھ جاتا ہے اور مصلحت کی دراندازی کا کھٹکا نہیں رہتا۔ گویا انسان اپنے سے خود باتیں کر رہا ہے۔ جہاں اندیشہ علائم نہیں ہوتا۔ یہ دلی جذبات اور خیالات کا روزنامچہ اور اسرار حیات کا صحیفہ ہیں۔ پھر کون ہے جو اس خاموش آواز کے سننے کا مشتاق نہ ہوگا۔ یہ ہماری فطرت میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم روز نامچوں، آپ بیتیوں اور خطوں کو بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔‘‘([1])
کسی مصنف کے خطوط سے جاذبیت اور دلکشی اس بنا پر ہوتی ہے کہ ان خطوں سے ان کی ذات کا صحیح عکس ملنے کے ساتھ ساتھ اس کے کلام اور تصانیف کے متعلق اس کے خیالات سے بھی واقفیت ہو جاتی ہے۔ اسی طرح مصنفین کی زندگی کہ بہت سے پوشیدہ پہلو ان کی بدولت منظر عام پر آ جاتے ہیں جو عموماً ان کی عام تحریروں سے ظاہر نہیں ہو سکتے۔
خط کو صنف کا درجہ اٹھارویں صدی میں ملا۔ یہ صنف دیگر اصناف کی طرح اردو میں عربی سے آئی۔ عربی مکتوبات کی اشاعت کے بعد یہ صنف ترقی کی منازل طے کرنے لگی اور مختلف زبانوں میں خط کا رواج عام ہونے لگا اور آج مکتوب نگاری تحقیق و تدوین میں ایک مستند ماخذ کی حیثیت حاصل کر چکی ہے۔
اردو کے شائع ہونے والے خطوط میں سب سے زیادہ اہمیت غالب کو حاصل ہوئی۔ کیوں کہ نجی نوعیت کے ہونے کے باوجود بھرپور بےتکلفی سے اپنے دور کی سیاسی سماجی و ادبی حالات کی ایسی عمدہ عکاسی کرتے ہیں۔ جو اس دور کے دوسرے ادیبوں کی تحریروں میں مفقود نظر آتی ہے اور یہی چیز ان کے خطوط کو منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ بعد میں مختلف افراد کے مجموعہ ہائے خطوط منظر عام پر آئے۔ جن کی حیثیت تاریخ ادب میں مسلم ہے:
’’ جنگ آزادی کے بعد لکھنے والوں میں ابوالکلام آزاد، مہدی افادی، نیاز فتح پوری، سلیمان ندوی، عبدالماجد دریابادی کے خطوط میں ادبیت کی خاص شان ہے۔ مولوی عبدالحق، اقبال، خواجہ حسن نظامی کے ہاں دبستان سرسید کی سی خالص مدعا نگاری باقی رہتی ہے۔ چنانچہ ان کے خطوط اسی لیے بالعموم مختصر ہوتے ہیں۔ مکاتیب کے مجموعے شائع کرنے کا رواج اسی دور میں زیادہ ہوگیا۔ دوسرے سرسید کے خطوط بھی اسی دور میں اشاعت پذیر ہوئے۔ مجموعی لحاظ سے اس دور میں نثر کے اسلوب میں یہ تبدیلی نظر آتی ہے کہ سرسید کے زمانے کی مدعا نگاری کاروباریت، منطقیت، سادگی و بے تکلفی جو کہ ان کی عقلیت وافادیت کی تحریک کے لازمے کے طور پر وجود میں آئی تھی۔ اب جذباتیت و تخلیقیت کی وقعت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث قدرےراستہ پیراستہ بیان میں بدل گئی۔ بعض ادیبوں نے رنگینی کو اپنایا بعض نے خطابت و علمیت کو، بعض نے ادبیت و لطافت کو اور بعض نے محاورہ روزمرہ اور زبان کے چٹخارے کو۔‘‘ ([2])
اردو خطوط نگاری کا اولین دور فارسی سے متاثر تھا۔ جس کےبنیادی عناصر تکلف ، رنگینی اور آداب و القاب تھے۔ تاہم انیسویں صدی میں سادگی کا میلان ہوا جس کا نقطہ آغاز مرزا اسد اللہ خان غالب کے خطوط ہیں۔ اردو خطوط نگاری کو مختلف ادوار میں تقسیم کر کے خطوط نگاری کے رجحانات کو بخوبی جانا جا سکتا ہے۔
مکاتیب غالب کی علمی، ادبی اور سماجی اہمیت
غالب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ یہ ادب کی دنیا میں ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے اور شاعری کے لطیف جذبات و احساسات کے سمندر میں ایک انمول موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہ موتی ہمیشہ سےانمول ہے۔ اور ہمیشہ انمول رہے گا۔ اور یہ چمکتا ہوا ستارہ ہمیشہ چمکتا رہے گا اور آنے والی نسلیں ہمیشہ کلام غالب سے استفادہ کرتی رہیں گی۔
مرزا اسد اللہ بیگ خان۲۷ دسمبر۱۷۹۷ء میں کالا محل آگرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تخلص اسدؔ اور پھر غالبؔ رہا ہے آپ کا تعلق مغل خاندان سے تھا۔ آپ کے آباو اجداد سمرقند سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ آپ کے پردادامرزا قوقان بیگ خان سلجوق ترک تھے۔ مرزا عبداللہ بیگ خان کی شادی عزت النساء بیگم سے ہوئی جو خالص کشمیری تھیں۔ غالب نے کبھی اپنا مکان نہیں بنایا بلکہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ اور کرایہ کی کتابیں لے کر پڑھتے تھے۔ ضعیفی کی حالت میں آپ بہت لاچار اور بے بس نظر آتے ہیں۔ آپ کی بے بسی خطوط میں بھی نظر آتی ہے۔ آخریہ چمکتا ہوا ستارا ۱۸۶۹ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔ لیکن آج بھی غالب کی عظمت زندہ اور ہمیشہ رہے گی۔
اسلوب اس زبان کے غیر رسمی روایتی استعمال کا نام ہے۔جو زبان کے عام اور مخصوص معیار سے مختلف ہو۔ مثال کے طور پر اگر یہ کہا جائےکہ ’’ان کا انتقال ہو گیا۔‘‘تو گو یا یہ زبان کا روایتی استعمال ہے ۔ اس میں کسی کی وفات کی اطلاع دینے کے لیے مخصوص معیاری الفاظ سے فقرے کی ساخت مرتب ہوتی ہے۔ یہی بات غالب جب اپنےالفاظ میں لکھتے ہیں۔
’’ ہائے ہائے وہ نہ بچی‘‘ تو اس میں غالب کا اسلوب بھی شامل ہوگیا۔ اب یہ محض اطلاع نہیں رہی بلکہ اس میں غالب کی نفسیاتی، سماجی اور ادبی شخصیت بھی شامل ہے۔ مرنے والی سے غالب کا ذہنی رشتہ، منشی نبی بخش حقیر جن کے نام خط میں یہ فقرہ لکھا گیا ہے غالب کے تعلقات غالب کا احساس اور جذبہ اس موقع پر استعمال ہونے والی مخصوص معیاری زبان سے انحراف لفظ’ ’ہائے‘‘ کی تکرار اس کا انتقال ہوگیا کی بجائے’’ وہ نہ بچی‘‘ لکھنا غرض ان سب چیزوں نے مل کر چھوٹے سے فقرےکو اسلوب دیا ہے۔ یہاں زبان کے تمام اجزاءکا جائزہ لینا ممکن نہیں۔ جن سے اسلوب بنتا ہے۔ مختصر یہ کہ زبان کی مخصوص لغوی ترتیب مفہوم کی ادائیگی کے لیے مخصوص الفاظ کا استعمال بعض ایسے الفاظ کا استعمال جو متروک ہو گئے ہوں یا زبان میں کم استعمال ہوئے ہوں۔ یا تحریر میں نہیں صرف گفتگو میں مشتمل ہوں۔
گفتگو میں جملے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اردو میں مکتوب نگاری کے دور میں غالب اوسطاً ایک دو صفحے روز خطوط کی شکل میں لکھتے تھے، لیکن اردو نثر میں دیباچے اور تقریظیں لکھتے ہوئے گھبراتے تھے۔ کیونکہ بقول ان کے، ان میں ذہنی مشقت کی استعداد نہیں رہی تھی۔ اگرچہ ابتدامیں غالب پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کے اردو خطوط شائع کیے جائیں۔ لیکن کچھ عرصے بعد وہ خود کوشش کر تے رہے کہ ان کے خطوط کا مجموعہ جلد چھپ جائے۔ ان حالات میں بھی جب خواجہ غلام غوث خان بے خبر نے خطوط غالب پر دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی تو غالب نے اپنی بیماری کا بہانہ کرکے ٹال دیا۔ کچھ دن بعد بے خبر نے پھر تقاضا کیا تو غالب جواب دیتے ہیں:
’’ اگر ایک بندہ قدیم، کہ عمر بھر فرما ں پزیر رہا ہو، بڑھاپے میں ایک حکم بجا نہ لاوے، تو مجرم نہیں ہو جاتا۔ مجموعہ نثر اردو کا انطباع اگر میرے لکھے ہوئے دیباچے پر موقوف ہے، تو اس مجموعہ کا چھپ جانا بالظم چاہتا ہوں۔‘‘([3])
غالب خطوط لکھنے میں غیر معمولی دلچسپی لیتے تھے لیکن اردو اور فارسی نثر لکھنے سے اتنا کتراتے تھے کہ کبھی کبھی اپنے عزیز شاگردوں کو سخت سست بھی کہہ دیا کرتے تھے۔ مرزا ہر گوپال تفتہ نے جب اپنے دوسرے دیوان کی تقریظ کی فرمائش کی تو غالب اپنے مخصوص انداز میں لکھتے ہیں۔
’’ دیباچہ و تقریظ کا لکھنا ایسا آسان نہیں ہے کہ جیسا تم کو دیوان کا لکھ لینا کیوں روپیہ خراب کرتے ہو اور کیوں چھپواتے ہو۔۔۔۔ اب یہ دیوان چھپوا کر اور تیسرے دیوان کی فکر میں پڑو گے۔ تم تو دو چار برس میں ایک دیوان کہہ لو گے، میں کہاں تک دیباچہ لکھا کروں گا۔‘‘([4])
اگرچہ فورٹ ولیم کالج میں اردو نثر سادہ اور سلیس ہونی شروع ہو گئی تھی۔ لیکن نثر کی سادگی کا حسن غالب ہی کے ہاتھوں نکھرا۔
غالب چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی بات کہنے پر قادر ہیں۔ ان جملوں کی ساخت سے اثر آفرینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ غالب جو بات کہنا چاہتے ہیں وہ مخاطب کے دل نشیں ہو جاتی ہے۔
مرزا علاءالدین خان علائی کے نام خط میں غالب نے چھوٹے چھوٹے جملے استعمال کیے ہیں:
’’ میاں! میں بڑی مصیبت میں ہوں۔ محل سرا کی دیواریں گر گئی ہیں پاخانہ ڈھ گیا، چھتیں ٹپک رہی ہیں۔ تمھاری پھوپھی کہتی ہیں ہائے دبی! ہائے مری۔ دیوان خانے کا حال محل سرا سے بدتر ہے۔ میں مرنے سے نہیں ڈرتا فقدانِ راحت سے گھبرا گیا ہوں۔ چھت چھلنی ہے۔ ‘‘([5])
غالب کے چھوٹے جملے عام طور پر چار لفظوں سے لے کر سات لفظوں تک ہوتے ہیں۔ وہ جملہ طویل ہوتا ہے۔ جس میں وضاحت کے طور پر فقرے شامل ہوتے ہیں۔
غالب کے بیشتر خطوط تقریر اور تحریر کے درمیان کی چیز ہیں۔ ندائیہ الفاظ، بیانیہ اور خطیبانہ انداز اختیار کرکے غالب اپنے خطوط کو تقریر اور گفتگو سے اتنا قریب کر دیتے ہیں کہ مجلسی اور اجتماعی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ غالب مکتوب الیہ ہی کو نہیں بلکہ بہت سے افراد کو مخاطب کر رہے ہیں۔ اسی کوشش نے خطوط غالب کے ادبی حسن کو چمکایا ہے۔ اور ان کی آواز میں وہ انفرادیت پیدا کی ہے کہ آج بھی ہزاروں آوازوں میں ان کی آواز اپنی شناخت قائم کی ہوئی ہے:
نواب علاؤالدین خان علائی کے نام خط جو غالب نے لکھا ہے۔ غالب کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’ کل تمہارے خط میں دو بار یہ کلمہ مرقوم دیکھا کہ دلی بڑا شہر ہے، ہر قسم کے آدمی وہاں بہت ہوں گے۔ اے میری جان! یہ وہ دلی نہیں ہے، جس میں تم پیدا ہوئے ہو، وہ دلی نہیں ہے، جس میں تم نے علم تحصیل کیا ہے، وہ دلی نہیں ہے، جس میں سات برس کی عمر سے آتا جاتا ہوں، وہ دلی نہیں ہے جس میں تم شعبان بیگ کی حویلی میں مجھ سے پڑھنے آتے تھے، وہ دلی نہیں ہے جس میں اکیاون برس سے مقیم ہوں، ایک کیمپ ہے: مسلمان: اہل حرفہ یا حکام کے شاگرد پیشہ۔ باقی سراسر ہنود معزول بادشاہ کے ذکور، جو بقیتہ ایسف ہیں، وہ پانچ پانچ روپیہ مہینا پاتے ہیں۔ اناث میں سے جو پیر زن ہیں وہ کٹنیاں اور جو جوان ہیں وہ کسبیاں۔ امرائے اسلام میں سے اموات گنو حسن علی خاں، بہت بڑے باپ کا بیٹا، سو روپے روز کا پینشن دار، سو روپے مہینے کا روزینہ دار بن کر نامرادانہ مر گیا ۔‘‘([6])
بنام نواب علاءالدین خان علائی غالب نے پورے خط میں ہندوستانیوں سے اپنی ہمدردی اور برطانوی سامراج کے خلاف براہ راست ایک لفظ بھی نہیں کہا لیکن واقعات کے بیان کے لیے ایسے الفاظ کا انتخاب کیا ہے کہ غالب کے ذہنی اور روحانی کرب کو مکمل طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ تمام خصوصیات ہیں۔ جنھوں نے غالب کے اسلوب کو انفرادیت بخشی ہے۔
’’ کسی واقعے یا امیج کو شاعری افسانے میں بیان کرتے وقت اس کے نہایت معمولی حصے کو مدنظر رکھنا جزئیات نگاری کہلاتا ہے۔‘‘
مرزا کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جزئیات کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ مفصل بیانات عموماً بے لطف ہو جاتے ہیں لیکن مرزا جزئیات کو اس ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ تحریر بے مزا ہونے کے بجائے زیادہ پرلطف بن جاتی ہے۔
غدر کے بعد نواب مصطفی خان شیفتہ قید سے رہا ہوئے۔
مرزا مہدی مجروح کو لکھتے ہیں:
’’ میں یہ مجرد استماع اس خبر کے ڈاک میں بیٹھ کر میرٹھ گیا، ان کو دیکھا چار دن وہاں رہا، پھرڈاک میں اپنے گھر آیا، تاریخ آنے جانے کی یاد نہیں، مگر ہفتے کو گیا منگل کو واپس آیا۔ آج بدھ 2۲فروری ہے۔ مجھ کو آئے ہوئے نواں دن ہے۔‘‘([7])
’’ میرٹھ سے آکر دیکھا کہ یہاں بڑی شدت ہے اور یہ حالت ہے کہ گوروں کی پاسبانی پر قناعت نہیں ہے۔ لاہوری دروازے کا تھانے دار مونڈھا بچھا کر سڑک پر بیٹھتا ہے جو باہر کے گورے کی آنکھ بچا کر آتا ہے۔ اس کو پکڑ کر استعمال میں بھیج دیتا ہے۔ حاکم کے ہاں پانچ پانچ بید لگتے ہیں یا دو دو روپے جرمانہ لیا جاتا ہے۔ آٹھ دن قید رہتا ہے۔‘‘([8])
ان جزئیات نے ان کے خط کو ایک زندہ اور جاندار شخص بنا دیا۔ جس پر ثاقب نے مرزا کے سفر کو اس رنگ میں دیکھ لیا گویا وہ ساتھ تھا۔اس تاریخی پرداز نے علائی کی مصیبتوں کا جو نقشہ پیش کر دیا، اسے کوئی تفصیل زیادہ جامع اور پرتاثیر نہیں بنا سکتی۔
اسی طرح ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’ ہمارے دستخطی خط نے میرے ساتھ وہ کیا جو پیراہن یوسف نے یعقوب کے ساتھ کیا۔‘‘([9])
’’ الفاظ میں نقشہ کھینچنا یا بیان کرنا۔‘‘
مرزا کا ایک کمال یہ ہے کہ وہ جو کچھ بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح اس کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں کہ شاید رنگ و روغن کی تصویر میں نہ وہ جزئیات سما سکیں اور نہ ہی اس میں وہ روح تاثیر پیدا ہو۔
میر مہدی مجروح کے نام:
’’ برسات کا حال نہ پوچھو، خدا کا قہر ہے۔ قاسم جان کی گلی سعادت خان کی نہر ہے۔ میں جس مکان میں رہتا ہوں عالم بیگ کے کٹڑے کی طرف کا دروازہ گر گیا۔ مسجد کی طرف کے دالان کا جو دروازہ تھا گر گیا سیڑھیاں گرا چاہتی ہیں۔ صبح کے بیٹھنے کا حجرا جھک رہا ہے، چھتیں چھلنی ہو گئی ہیں۔ مینہ گھڑی بھر برسے تو چھت گھنٹہ بھر بر سے۔‘‘([10])
مرزا حاتم علی بیگ مہر کے نام:
’’ ہمارا حلیہ دیکھ کر تمہارے کشیدہ قامت ہونے پر مجھ کو رشک نہ آیا، کس واسطے کے میرا قد بھی دارازی انگشت نما ہے۔ تمہارے گندمی رنگ پر رشک نہ آیا۔ کس واسطے کہ جب میں جیتا تھا تو میرا رنگ چمپئ تھا اور دیدہ ور لوگ اس کی ستائش کیا کرتے تھے۔ اب جو کبھی مجھ کو اپنا وہ رنگ یاد آتا ہے تو چھاتی پر سانپ سا پھر جاتا ہے۔ ہاں مجھ کو رشک آیا اور میں نے خون جگر کھایا تو اس بات پر کہ داڑھی گھٹی ہوئی ہے وہ مزے یاد آ گئے کیا کہوں، جی پر کیا گزری بقول شیخ علی حزیں:
تا دسترسم بود ز دم چاک گریباں
شرمندگی از خرقۂ پشمینہ نہ دارم
جب داڑھی مونچھ میں بال سفید آگئے، تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے، اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے۔نا چار مسمی بھی چھوڑ دی اور داڑھی بھی مگر یاد رکھیئے، اس بھونڈ ے شہر میں ایک وردی ہے عام ملا، حافظ، بساطی، نیچہ بند، دھوبی، سقا بھٹیارہ جولاہا، کنجڑا، منہ پر داڑھی سر پر بال، فقیر نے جس دن داڑھی رکھی، اسی دن سر منڈایا۔‘‘([11])
غالب سے قبل اردو زبان طبع زاد اور تخلیقی نثر سے محروم تھی۔ داستانوں اور مذہبی موضوعات پر بہت کچھ لکھا جا چکا تھا۔ لیکن یہ نثر فارسی یا دوسری زبانوں سے ترجمہ تھی یا پھر دوسری زبانوں کے مذہبی اور داستانوی ادب پر مبنی تھا۔ ہاں اردو شاعری میں طنز و مزاح بھرپور شکل میں موجود تھا۔
زندگی کی پیچیدگیوں اور مشکلات اور ان کے تضادات کے عرفان سے ایک ایسا ادبی رویہ بھی جنم لیتا ہے جسے ہم طنزومزاح کا نام دیتے ہیں۔
غالب کے سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے ابتدائی دور کےفارسی خطوط میں طنز و مزاح کی چاشنی نہیں ہے جو آگے چل کر ان کے اردو مکتوبات کی ایک امتیازی خصوصیت قرار پائی۔ غالب کے فکر و خیال میں گہرائی اور گہرائی پیدا ہوتی گئی اور وہ زندگی کے تلخ حقائق سے دوچار رہنے کی کیفیت کا احساس شدید ہوتا گیا۔ غالب تقریباً ساری زندگی مصائب و آرام سے نبرد آزما رہے۔ عمر کے آخری حصے میں ان کے بہترین ہتھیار طنز و مزاح تھے۔ یہ تلخیاں انسانی زندگی کا ایک حصہ ہیں جو زندگی بھر ہمارے ساتھ رہتا ہے اور جس کے لیے غالب نے مختلف اشعار میں یہ بات کہی ہے کہ موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟ یا وہ مصرع’’ شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک‘‘
یا وہ شعر:
نغمہ ہائے غم کو ہی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن([12])
غالب ساری زندگی پورے توازن کے ساتھ غم و آرام سے نبرد آزما رہے۔ جس کی مکمل تصویریں ہمیں ان کے طنز و مزاح میں نظر آتی ہیں۔ ان کے مصائب و آرام کی داستان اس وقت سے شروع ہوتی ہے۔ جبکہ وہ ابھی جوان تھے ۔عمر کے ساتھ ساتھ ان کی مصیبتوں میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ پینشن کے مقدمے میں ان کی شکست، دو دفعہ کا حادثہ اسیری،۱۸۵۷ء کا ناکام انقلاب اور اس میں بے شمار دوستوں عزیزوں اور شاگردوں کا قتل، جو باقی بچے تھے ان کی مفارقت زندگی بھر کی تنگدستی اور بڑھاپے کی مسلسل بیماریاں غالب جیسے حساس دل کو پاگل کر دینے یا کم سے کم انھیں دنیا سے متنفر کردینے اور قنوطی بنانے کے لیے کافی تھیں۔
لیکن زندگی کے آخری دنوں تک غالب کے ہوش و حواس اس لیے قائم رہے کہ ان میں غیر معمولی قوت ارادی تھی۔ جس کی وجہ سے انھوں نے زندگی کے ساتھ مکمل طور پر مفاہمت کر لی تھی۔ یہ صرف ان کا خیال ہی نہیں تھا۔ بلکہ عقیدہ تھا کہ زندگی کا پودا حقیقی معنوں میں غم اور خوشی کی دھوپ چھاؤں میں ہی پروان چڑھتا ہے۔ اور ان میں کبھی دھوپ یعنی غم کو ہی خوشی پر فوقیت اور برتری حاصل ہے۔ غالب کا ایک شعر ہے:
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں([13])
اس شعر میں محض شاعرانہ مضمون نہیں باندھا گیا بلکہ یہ غالب کی زندگی کی ایک تفسیر ہے۔ غالب زندگی اور اس کے مسائل کو ایک باشعور اور دانشور انسان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ زندگی کے مصائب و آرام نے ان کی فکر میں بالیدگی پیدا کی اور ان میں زندہ رہنے کا عزم اور حوصلہ جگایا اور وہ صبر و تحمل اور استقلال پیدا کیا جوہر کڑی سے کڑی مصیبت کو ہنس کر جھیلنا سکھاتا ہے۔ ایسا ہی آدمی یہ شعر کہہ سکتا تھا:
تاب لائے ہی بنے گی غالب
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز([14])
غالب نے جان عزیز کے لیے آرزو اور شکست آرزو، خوشی اور غم کامیابی اور ناکامی کے درمیان زندہ رہنے کا سلیقہ سیکھ لیا تھا۔غالب خط لکھتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ اپنی مصیبتوں کے بیان سے دوسروں کو بے وجہ پریشان نہ کریں۔ وہ اپنے دکھڑے بڑے مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں میر سرفراز حسین کے نام خط میں اپنی تنہائی کا ماتم کرتے ہیں، ان دوستوں کا ذکر کرتے ہیں جنھیں انقلاب زمانہ نے ان سے جدا کردیا پھر ایک دم بات کا رخ بدل دیتے ہیں۔
’’ اللہ، اللہ، اللہ ہزاروں کا میں ماتم دار ہوں، میں مروں گا تو مجھ کو کون روئے گا۔
سنو غالب! رونا پیٹنا کیا، کچھ اختلاط کی باتیں کر۔‘‘([15])
غالب کی ساری زندگی اپنی انا کی نگہداری میں گزری۔ لیکن عملی زندگی میں جب غالب کی انا باد حوادث کے تھپیڑے کھاتی ہے تو غالب اپنا مذاق اڑانے سے بھی باز نہیں آتے۔
مرزا علی قربان بیگ خان کو اپنے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ یہاں خدا سے بھی توقع باقی نہیں، مخلوق کا کیا ذکر، کچھ بن نہیں آتی۔ اپنا آپ تماشائی بن گیا ہوں۔ رنج و ذلت سے خوش ہوتا ہوں، یعنی میں نے اپنے آپ کو اپنا غیر تصور کیا ہے۔ جو دکھ مجھے پہنچتا ہے، کہتا ہوں کہ غالب کے ایک اور جوتی لگی، بہت اتراتا تھا کہ میں بڑا شاعر اور فارسی دان ہوں۔ آج دور دور تک میرا جواب نہیں۔ لے اب تو قرض داروں کو جواب دے ‘‘([16])
اس خط میں غالب کی انا کے شیش محل کے چکنا چور ہونے کی جھنکار صاف سنائی دے رہی ہے۔ بظاہر غالب نے اپنی کمزوریوں، معاشی بدحالیوں اور محرومیوں کا مضحکہ اڑایا ہے۔کامیاب ترین طنز وہی ہے جس کا شکار طنز نگار کی اپنی ذات ہو۔ دوسرا شخص ایسی بے رحمی سے غالب کا مذاق نہ اُڑا سکتا تھا جیسا کہ اس خط میں خود غالب نے اپنا مذاق اڑایا ہے۔ غالب نے نواب علاؤالدین خان علائی کے نام ایک خط میں اپنی غربت اور معاشی بدحالی کا اس طرح مضحکہ اڑایا ہے۔
’’ بھائی کو سلام کہنا اور کہنا کہ صاحب زمانہ نہیں کہ ادھر متھر اداس سے قرضہ لیا۔ ادھر درباری مل کو مارا۔ ادھر خوب چند چین سکھ کی کوٹھی جا لوٹی۔ ہر ایک پاس تمسک مہری وجود شہد لگاؤ، چاٹو، نہ مول نہ سودا۔ اس سے بڑھ کر یہ بات کہ روٹی کا خرچ بالکل پھوپھی کے سر۔باایں ہمہ کبھی خان نے کچھ دے دیا۔ کبھی الور سے کچھ دلوا دیا۔ کبھی ماں نے کچھ آگرے سے کچھ بھیج دیا۔ اب میں اور باسٹھ روپیہ آٹھ آنے کلکڑی کے سو روپے رامپور کے قرض دینے والا ایک میرا مختار کار۔ وہ سود ماہ بہ ماہ لیا چاہیے۔ مول میں قسط اس کو دینی پڑے انکم ٹیکس جدا چوکی دار جدا، سود جدا، مول جدا، بی بی جدا، بچے جدا، شاگرد پیشہ جدا آمد وہی ایک سو باسٹھ تنگ آ گیا۔ گزارا مشکل ہوگیا۔ روز مرہ کا کام بند رہنے لگا۔ ‘‘([17])
غالب کے ایک دوست مرزا حاتم علی مہر نے غالب کو خط لکھا اور خط میں کچھ ایسی باتیں لکھیں جن سے غالب کو اندازہ ہوا کہ مہر کو کسی معاملے میں اور غالباً عشق میں ناکامی ہوئی ہے۔ اس لیے غم و اندوہ کا شکار ہے۔ غالب خط کا جواب لکھتے ہیں اور اپنے خط کے پہلے فقرے ہی سے مہر کا موڈ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں لکھتے ہیں:
’’ بندہ پرور! آپ کا خطّ ملا۔ آج جواب لکھتا ہوں۔ داد دنیا کتنا شتاب لکھتا ہوں۔ مطالب مندرجہ کے جواب کا بھی وقت آتا ہے۔ پہلے تم سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ برابر کئی خطوں میں تم کو غم و اندوہ کا شکوہ گزار پایا ہے۔ پس اگر کسی بے درد پر دل آیا ہے تو شکایت کی کیا گنجائش ہے۔ بلکہ یہ غم تو نصیب دوستاں درخور افزائش ہے۔‘‘ بقول غالب
کسی کو دےکے دل کوئی نواسج فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو([18])
غالب نے اس خط میں جو کچھ لکھا ہے۔ وہ مہر کو تسلی دینے کی باتیں ہیں یہ ان کا عقیدہ ہے وہ واقعی بڑے سے بڑے غم کو مردانہ وار جھیل جاتے ہیں۔غالب کے ایک دوست تھے امراؤ سنگھ ۔ ان کی دوسری بیوی کا بھی انتقال ہو گیا۔ غالباًمرزا تفتہ نے غالب کو لکھا کہ امراؤ سنگھ تیسری شادی کر رہے ہیں۔ غالب جواب میں لکھتے ہیں:
’’ امراؤ سنگھ کے حال پر اس کے واسطے مجھ کو رحم اور اپنے واسطے رشک آتا ہے۔ اللہ اللہ ایک وہ ہیں کہ دوبارہ ان کی بیڑیاں کٹ چکی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ایک اوپر پچاس برس سے جو پھانسی کا پھندا گلے میں پڑا ہے نہ تو پھندا ہی ٹوٹتا ہے، نہ دم ہی نکلتا ہے، اس کو سمجھاؤ کہ تیرے بچے میں پال دوں گا تو کیوں بلا میں پھنستا ہے۔‘‘([19])
طنزومزاح سے کام لے کر غالب اپنے چھوٹے چھوٹے مسئلے حل کر لیا کرتے تھے. مرزا ہر گوپال تفتہ کا پہلا دیوان مرتب ہوا تو غالب نے اس کا دیباچہ لکھا۔ لیکن جب تفتہ نے دوسرا دیوان مرتب کرکے غالب سے دیباچے کی فرمائش کی تو غالب نے معذرت کر لی ۔ منشی نبی بخش حقیر نے دیباچے کی سفارش کی تو غالب انھیں لکھتے ہیں:
’’ واللہ تفتہ کو میں اپنے فرزند کی جگہ سمجھتا ہوں اور مجھ کو یہ نازہے کہ خدا نے مجھ کو ایسا قابل فرزند عطا کیا ہے ۔ رہا دیباچہ تم کو میری خبر ہی نہیں میں اپنی جان سے مرتا ہوں۔
گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑانکل
کہاں کی رباعی، کہاں کی غزل
یقین ہے کہ وہ اور آپ میرا عذر قبول کریں اور مجھ کو معاف رکھیں۔ خدا نے مجھ پر روزہ نماز معاف کر دیا ہے کیا تم اور تفتہ ایک دیباچہ معاف نہ کرو گے۔‘‘([20])
تشبیہ کا لفظ’’ شبہ‘‘ سے نکلا ہے، جس کے معنی مماثلت کے ہیں تشبیہ کے لفظی معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز کے مانند قرار دینا۔ علم بیان کی رو سے تشبیہ سے مراد ہے:
’’ کسی ایک چیز کو کسی مشترک خوبی یا صفت کی بنا پر کسی دوسری چیز کے مانند قرار دینا جبکہ دوسری چیز میں وہ وصف یاخوبی زیادہ پائی جائے تشبیہ کہلاتا ہے۔‘‘
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
وضاحت
زندگی کی مشکلات و مصائب کو طوفان سے تشبیہ دی گئی ہیں۔
غالب اپنی اردو نثر میں استعارہ کا جس قدر استعمال کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ تشبیہ کا استعمال ان کے ہاں ملتا ہے۔
’’ ایک مدت سے میرا پاؤں پھل رہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے دانے اطریق دائرہ کف پا کے محیط تھے۔ ناگاہ جیسے ایک قوم میں سے ایک شخص امیر ہو جائے۔ ایک دانہ ان دانوں میں سے بڑھ گیا اور پک گیا اور پھوڑا ہوگیا۔‘‘([21]) بنام منشی نبی بخش حقیر
’’ بے درد( مکان مالک) نے مجھ کو عاجز کیا اور مدد لگا دی۔ وہ صحن بالاخانے کا جس کا دو گز کا عرض اور دس گز کا طول، اس میں پاڑ بندھ گئی ۔ رات کو وہیں سونا گرمی کی شدت پاڑ کا قرب۔ گماں یہ گزرتا تھا کہ کٹگھر ہے اور صبح کو مجھ کو پھانسی ملے گی۔‘‘([22]) بنام مرزا ہرگوپال تفتہ
’’ لا حول ولا قوۃ، کس ملعون نے بہ سبب ذوق شعر اشعار کی اصلاح منظور رکھی۔ اگر میں شعر سے بیزار نہ ہوں، تو میرا خدا مجھ سے بیزار، میں نے توبہ طریق قہر درویش بہ جان درویش لکھا تھا۔ جیسے اچھی جورو برے خاوند کے ساتھ مرنا بھرنا اختیارکرتی ہے۔ میرا تمہارے ساتھ وہ معاملہ ہے۔‘‘([23]) بنام مرزا ہر گوپال تفتہ
’’ آپ کی محبت دل و جان میں اس قدر سما گئی ہے جیسا اہل اسلام میں ملکہ ایمان کا۔‘‘([24]) بنام میر غلام بابا خان
’’ ایک امیر کے ہاں پتہ لگا ۔ دوڑا ہوا گیا کھپچی موجود پائی لیکن کیا کھپچی، جیسے نجف خاں کے عہد کے تورا نیوں میں ہماری تمہاری ہڈی۔‘‘([25]) بنام نواب علاؤالدین خان علائی
’’ اس قصیدے کا ممدوح شعر کے فن سے ایسا بیگانہ ہے جیسے ہم تم اپنے اپنے مسائل دینی سے۔‘‘([26]) بنام مرزا ہر گوپال تفتہ
’’ اس نامہ مختصر نے وہ کیا جو پارۃ البرکشت خشک سے کرے۔‘‘([27]) بنام میر مہدی مجروح
’’ تمہارے دستخطی خط نے نےمیرے ساتھ وہ کیا جو بوئے پیرہن نے یعقوب کے ساتھ کیا۔‘‘([28]) بنام میر سرفراز حسین
’’ میں شاعر سخن سنج اب نہیں رہا۔ صرف سخن فہم رہ گیا ہوں۔ بوڑھے پہلوان کی طرح پیچ بتانے کی گوں ہوں۔‘‘([29]) بنام مرزا ہر گوپال تفتہ
’’ عاشقانہ اشعار سے مجھ کو وہ بعد ہے، جو ایمان سے کفر کو۔‘‘([30]) بنام علاؤالدین خان علائی
استعارہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی مستعار لینا یا ادھار لینا کے ہیں۔ علم بیان کی رو سے
’’ اگر کوئی لفظ اپنے مجازی معنوں میں اس طرح استعمال ہو کہ اس کی حقیقی اور مجازی معنوں میں تشبیہ کا تعلق ہو تو اسے استعارہ کہتے ہیں۔‘‘
پلکوں سے گر نہ جائیں یہ موتی سنبھال لو
دنیا کے پاس دیکھنے والی نظر کہاں
وضاحت
آنسو کے لیے لفظ’’ موتی‘‘ بطور استعارہ کے استعمال ہوا ہے۔
غالب کی اردو نثر میں استعاروں کا بڑا ا برجستہ استعمال ملتا ہے۔ غالب استعارے کی مدد سے پورا واقعہ اور اس سے متعلق اپنی ذہنی اور جذباتی کیفیت بھی بیان کر دیتے ہیں۔ ان استعاروں سے ان کی نثر میں اختصار بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اس تفصیل کی جانب بھی پڑھنے والے کا ذہن منتقل ہو جاتا ہے۔ جو غالب بیان کرنا چاہتے تھے۔ نواب انوار الدولہ شفق کو لکھتے ہیں:
’’ نہ تم میری خبر لے سکتے ہو، نہ میں تم کو مدد دے سکتا ہوں۔ اللہ، اللہ، اللہ دریا سارا تیر چکا ہوں، ساحل نزدیک ہے، دو ہاتھ لگائے اور بیڑا پارہے۔‘‘([31])
زندگی کے لیے دریا کا استعارہ کیا خوب ہے۔ اس سے ان کی بات میں جدت بھی پیدا ہوگئی اور ایجاز بھی آخری عمر میں غالب بیماری اور ضعف سے تنگ آ گئے تھے۔ خطوں میں بارہا انھوں نے موت کی تمنا کا اظہار کیا ہے۔ اپنی اس دلی تمنا کا اظہار’’ دو ہاتھ لگائے اور بیڑا پار ہے‘‘ کہہ کر، کیسے خوبصورت انداز میں کیا ہے۔
غالب جس مکان میں رہتے تھے۔ اس کی حالت بہت خستہ تھی۔ ایک بار ایسی بارش ہوئی کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ اس بارش کی وجہ سے غالب کو جو پریشانی اٹھانی پڑیں اس کا غالب نے بڑی ہمت سے مقابلہ کیا۔
’’ جولائی سے مہینہ شروع ہوا شہر میں سینکڑوں مکان گرے اور مہینہ کی نئی صورت دن رات میں دو چار بار برسے اور ہر بار اس زور سے کہ ندی نالے بہہ نکلیں بالا خانے کا جو دالان میرے بیٹھنے اٹھنے، سونے جاگنے جینے مرنے کا محل ہے اگرچہ گرا نہیں لیکن چھت چھلنی ہوگئی ۔ کہیں لگن، کہیں چلمچی، کہیں اگال دان رکھ دیا۔ قلمدان کتابیں اٹھا کر توشہ خانے کی کوٹھری میں رکھ دیے۔ مالک مرمت کی طرف متوجہ نہیں۔ کشتی نوح میں تین مہینے رہنے کا اتفاق ہوا۔‘‘([32]) بنام مرزا ہر گوپال تفتہ
غالب سماعت پہلے ہی کھو چکے تھے۔ رفتہ رفتہ بصارت میں بھی فرق آنے لگا۔ مسلسل بیماریوں نے اتنا نحیف و نزار کردیا کہ اٹھنے، بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی مگر جائیں کیسے، بلا خانے سے نیچے اترنا کسی طرح بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اسی نقاہت کا حال اپنے مخصوص استعاراتی انداز میں یوں بیان کرتے ہیں:
’’ بالا خانے پر رہتا ہوں، اتر نہیں سکتا۔ مانا کے دو آدمیوں نے گود میں لے کر اتارا اور پالکی میں بٹھا دیا۔ کہار چلے، راہ میں نہ مرااور رام پور پہنچ گیا۔کہاروں نے جا کر’’ بے نظیر‘‘ میں میری پالکی رکھ دی۔ پالکی قفس اور میں طائر اسیر، وہ بھی بے پروبال۔ نہ چل سکوں، نہ پھر سکوں۔‘‘([33]) بنام نواب کلب علی خان
اس خط میں’’ سک نمبر‘‘ کے استعارے کے استعمال سے غالب نے اپنی سابقہ خدمات نواب رام پور سے اپنے تعلقات اور صحت کی خرابی غرض سب کچھ ہی بیان کردیا ہے۔ اپنی پیرانہ سالی اور خرابی صحت کو دیکھتے ہوئے غالب کو یقین تھا کہ موت ان کے بہت قریب آ گئی ہے۔ تفتہ کے نام اسی خط میں مرزا غالب نے ’’چراغ‘‘ اور’’ آفتاب‘‘ کے استعاروں سے اپنی حالت کا سا مؤثر ا ظہار کیا ہے لکھتے ہیں:
’’ میں تو چراغ دم صبح وآفتاب سر کوہ ہوں انا للہ وانا الیہ راجعون۔‘‘([34]) بنام مرزا ہر گوپال تفتہ
غالب کے خطوط معلومات کا گنجینہ ہیں۔ ان سے اس دور کی سیاسی، سماجی زندگی پر روشنی پڑتی ہے ۔ خاص طور پر ایام غد ر اور اس کے چشم دید حالات اس خطوط میں بیان ہوئے ہیں۔ غالب نے خطوط کو زندگی کی حرارت بخشی۔ سادہ اور عام فہم زبان کو استعمال کیا۔ جس میں بےتکلف عبارتیں ہوتیں۔ بہت سے خطوط شاگردوں کے نام ہیں۔ غالب خط نہیں لکھتے تھے بلکہ بات چیت کرتے تھے۔ گرچہ یہ مکالمہ یک طرفہ ہوتا تھا۔ لیکن مکتوب الیہ کو ایسا محسوس ہوتا تھا۔ گویا غالب ان کے سامنے ان سے گفتگو کر رہے ہیں۔ یہاں تک غالب کی مکتوب نگاری کا تعلق ہے۔ اس کی ادبی اہمیت کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ غالب کے خطوط جدید اردو نثر کی روح بن چکے ہیں۔ غالب کے خطوط پڑھ کر یہ لگتا ہے کہ دو آدمی بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے ہوں۔
حوالہ جات
1 امین زبیری، (مرتب)، خطوطِ شبلی، لاہور: تاج کمپنی، س ن، ص۵
2 پنجاب یونیوسٹی، تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، جلد پنجم، ص۵۱
[3] غالب، غالب کے خطوط ، (مرتب: خلیق انجم ) جلد اول، کراچی: انجمن ترقی اردو ، ۱۹۹۵ء ، ص۱۶۱
[4] ایضاً، ص۱۶۲
[5] ایضاً، ص۱۶۳
[6] ایضاً، ص۱۶۴
[7] انوار احمد، ڈاکٹر، غالب کے بہتر خطوط،لاہور: حنیف اینڈ سنز پرنٹنگ پریس،۲۰۱۵ء، ص۳۸
[8] ایضاً، ص۳۹
[9] ایضاً، ص۴۴
[10] ایضاً، ص۳۷
[11] ایضاً، ص۳۷
[12] خلیق انجم، خطوطِ غالب میں طنز و مزاح،ریختہ ڈاٹ کام، ص۱۸۵
[13] ایضاً، ص۱۱۸۵
[14] ایضاً، ص۱۸۵
[15] ایضاً، ص۱۸۶
[16] ایضاً، ص۱۸۶
[17] ایضاً، ص۱۸۷
[18] ایضاً، ص۱۸۹
[19] ایضاً، ص۱۹۲
[20] ایضاً، ص۱۹۳
[21] غالب، غالب کے خطوط ، (مرتب: خلیق انجم ) جلد اول، کراچی: انجمن ترقی اردو ، ۱۹۹۵ء ،ص۱۷۶
[22] ایضاً، ص۱۷۷
[23] ایضاً، ص۱۷۷
[24] ایضاً، ص۱۷۷
[25] ایضاً، ص۱۷۸
[26] ایضاً، ص۱۷۸
[27] ایضاً، ص۱۷۸
[28] ایضاً، ص۱۷۸
[29] ایضاً، ص۱۷۸
[30] ایضاً، ص۱۷۹
[31] ایضاً، ص۱۷۴
[32] ایضاً، ص۱۷۴
[33] ایضاً، ص۱۷۶
[34] ایضاً، ص۱۷۳
***