علیزے نجف، اعظم گڑھ
غزلیات
-۱-
تو اک دعا ہے تری جستجو ضروری ہے
کوئی جواز نہیں پھر بھی تو ضروری ہے
ہاں کشمکش سے ہیں آزاد میرے سب احساس
یہی ہے سچ کہ تری آرزو ضروری ہے
کچھ ایسے فرض ہیں جن کی قضا نہیں ہوتی
مرے لئے تو وہ نیکی ہے جو ضروری ہے
میں سارے لفظوں کو ہر زاویے سے سوچا کروں
خیال میں ہی سہی گفتگو ضروری ہے
ہے تیرے ہونے سے احساس میرے ہونے کا
یہ دل کی ضد ہے کہ تو روبرو ضروری ہے
اک کیف دل سے بدل جاتی ہے فضا ساری
نگاہِ عشق میں کب رنگ و بو ضروری ہے
تو میری تیرہ شبی میں ہے روشنی کی طرح
تو ایک جا ہی نہیں کو بہ کو ضروری ہے
-۲-
تو دسترس میں ہو اور تجھ پہ اختیار بھی ہو
اور خود سے زیادہ مجھے تجھ پہ اعتبار بھی ہو
ہاں ضبط حال بھی ہو کچھ غم حیات کے ساتھ
سہل ہے زندگی جو تجھ سا غمگسار بھی ہو
ترا خیال مرے ذہن کے دریچے میں
حد شمار میں ہو اور بےشمار بھی ہو
سوائے میرے تو ہو بے نیاز ہر شئی سے
کچھ اس طرح سے کبھی میرا انتظار بھی ہو
یہ سارے لفظ تو احساس کے لبادے ہیں
خلوص وہ ترے لہجوں سے آشکار بھی ہو
میں تو سفر میں ہوں ان بہتے پانیوں کے ساتھ
تو ساحلوں کی طرح مجھ سے ہم کنار بھی ہو
ہمارا طرز جنوں بھی ہو منفرد سب سے
خرد بھی ہو جو کہیں تو کہیں خمار بھی ہو
****