فیضان رضا بریلوی
غزل
زندگی مجھ کو ترا کوئی بھروسہ بھی نہیں
اور جیتا ہوں کہ جیسے کبھی مرنا بھی نہیں
یہ تعلق بھی بھلا کوئی تعلق ہے ترا
دور رہتا بھی نہیں پاس بلاتا بھی نہیں
تُجھکو پانے کی تمنّا تو بہت ہے لیکن
حال یہ ہے کہ تمنّا پہ اجارہ بھی نہیں
سب کے سب میرے تماشائی بنے بیٹھے ہیں
جب کہ احوال میرے مثل تماشا بھی نہیں
میں کہ دیوانہ ہوں اک لفظ پہ چل پڑتا ہوں
اس نے حالانکہ کبھی دل سے بلایا بھی نہیں
عشق میں خاک ہوئے اس کے سبھی دیوانے
اور اس خاک کو ظالم نے اڑایا بھی نہیں
برگزیدہ ہوئے وہ لوگ کہ جن کے سر پر
ایک دستار فضیلت کا عمامہ بھی نہیں
جانیں کیوں ہم پہ ہی آیا ہے دل اس کا فیضان
ہم کہ یوسف بھی نہیں اور وہ زلیخا بھی نہیں
***