You are currently viewing غزل

غزل

جاوید احمد خان جاوید

 پربھنی

                       غزل

                                          آنکھوں کے میکدے میں ہُوا بے حساب رقص

تعبیٖر پاکے کرتے رہے سارے خواب رقص

بے چینیٖوں کا نام غَریٖبوں کی ” ناچ “ ہے

اب تو اَمیٖر لوگوں کا ہے اضطراب رقص

پہلے پہل تھا زندگی کا رقص ایک شوق

آگے چلا تو ہو گیا شوقِ عذاب رقص

معصوم پُوچھتا ہے یہ کثرت کے تار سے

گردش کے ساتھ کیسے ہُوا ہم رَکاب رقص

تہذیٖب سے نہ کوئی تَمدُّن سے واسطہ

دورِ جدید کا ہے سِکھاتا نِصاب رقص

نیروؔ تو بانسری ہی بجاتا رہا فقط

بستی کے میری کرتے رہے ہیں نواب رقص

نغمے مُحبّتوں کے سُناتے رہیں گے ہم

کانٹوں کے بیٖچ کرتے رہیں گے گُلاب رقص

جلتے ہُوئے چراغ نے سُورج سے کہہ دیا

آساں نہیں ہے تیز ہَوا میں جناب رقص

معنیٰ بدل گئے ہیں یہاں اُونچ نیٖچ کے

دُنیا میں ہو گیا ہے جو عِزّت مآب رقص

انجام جانتا ہے وہ کچّے گھڑے کا بھی

جاویدؔ عشق دیکھ چُکا ہے چناب رقص

***

This Post Has One Comment

  1. جاوید احمد خان جاوید

    غزل کی اشاعت کے لیے سپاس گُزار ہُوں __

Leave a Reply