جاوید احمد خان جاویدؔ
پربھنی ٬ مہاراشٹر ٬ بھارت
غزل
کرنوں کے فقط ایک اشارے میں پڑھا ہے
جب جب بھی میں نے دُھوپ کے بارے میں پڑھا ہے
دُکھ درد کے گھیرے میں خُوشی رہنے لگی اب
کُچھ دیر ہُوئی غم کے شُمارے میں پڑھا ہے
کل شام میں نے دیر تلک اپنے خُدا کو
اُس کے ہی حسیں ایک نظارے میں پڑھا ہے
میں اُس کے تعلق سے بتاؤں کہ پڑھا جو
لکھا ہے صدی میں نہ ہزارے میں پڑھا ہے
بستی نے تو اپنی ہی تباہی کا فسانہ
چھوٹی سی شرارت کے شرارے میں پڑھا ہے
انجام سے واقف نہ ہو تو لوٹ ہی جانا
ہم نے یہ صداقت کے دوارے میں پڑھا ہے
جاویدؔ سُنادو وہ مُحبت کا قصیدہ
جو ٹُوٹ کے گرتے ہُوئے تارے میں پڑھا ہے
***