فیضان رضا
غزل
تار حیات زیست کا محور بنے ہوئے
آجائے کوئی میرا مقدر بنے ہوئے
آداب قید و بند میسر نہیں مجھے
مدت ہوئی قفس کو مرا گھر بنے ہوئے
اس نے کہا تھا ٹھوکروں سے سیکھتے ہیں لوگ
سارے پڑے ہیں راہ میں پتھر بنے ہوئے
کیسے قرار جان و جگر بن گئے ہیں آپ
حالانکہ آپ تو ہیں ستمگر بنے ہوئے
اک تیرے چاہنے کے سوا اس جہان میں
سارے کے سارے کام ہیں دوبھر بنے ہوئے
جاتے ہی ان کے زندگی ہو جاتی ہے نئی
کچھ لوگ تو ہیں جیسے دسمبر بنے ہوئے
جیسا بنا دیا تھا ہمیں اس نے ایک روز
فیضان آج بھی ہیں برابر بنے ہوئے