You are currently viewing غضنفر سے سدرہ کرن کی بات چیت

غضنفر سے سدرہ کرن کی بات چیت

سدرہ کرن

ریسرچ اسکالر

جی سی ویمن یونیورسٹی ،سیالکوٹ

غضنفر سے سدرہ کرن کی بات چیت

 

سدرہ کرن: میں سب سے پہلے آپ سے یہ گزارش کرتی ہوں کہ آپ یہ بتائے آپ نے اردو فکشن ناول ،افسانہ ،ڈرامہ اور شاعری  کئی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔آپ کی پسندیدہ صنف کونسی ہے؟

غضنفر:میں نے  تقریبا تمام  اصناف میں  لکھنے کی  کوشش کی ہے۔لوگوں کا خیال ہے اور  مجھے  بھی  لگتا ہے  کہ میں  ہر طرح کے  اظہار پر  قادر ہوں۔ میرے ناول  افسانے،خاکے، تنقیدی اور  تدریسی نوعیت کے مضامین، شعری فن پارے سبھی  پسند  کیے  جاتے ہیں۔سبھی  کے نمونوں پر داد ملتی ہے۔ کسی بھی  صنف کے  اظہار  میں  مجھے کوئی دقت  نہیں ہوتی مگر  ناول  لکھتے وقت  میں زیادہ کمفرٹیبل محسوس کرتا ہوں۔اس میں  تفصیل اور  اختصار  دونوں  طرح  کے ہنر  دکھانے کا موقع  ملتا ہے ۔اور  کسی طرح کی تشنگی کا احساس  نہیں ہوتا۔

سدرہ کرن : ناول لکھتے وقت  آپ کو زیادہ لطف کیوں آتا ہے ؟

غضنفر:شاید اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بڑے کینوس پر دور تک جانے اور  دیر تک سفر کرنے کا موقع ملتا ہے اور اس سفر  میں طرح طرح کے دلچسپ  موڑ آتے ہیں اور طرح طرح کے لوگوں سے ملنے ،ان کے باطن میں جھانکنے اور نہاں خانوں میں چھپی باتوں کو بھی جاننے کے مواقع  ہاتھ آجاتے ہیں اور ایک بات اور بھی ہے کہ تجربات کے وسیع و عریض آسمان میں قوت متخیلہ اور قوت ممیزہ دونوں  کو اڑان بھرنے کا خوب خوب موقع ملتا ہے ۔

سدرہ کرن :غضنفر صاحب !آپ نے ادب کا آغاز  تو شاعری سے کیا پھر شاعری سے فکشن کی طرف کیسے آئے؟

غضنفر:آپ کے  سوال سے  ایسا لگتا ہے  کہ  میں  شاعری چھوڑ کر فکشن کی طرف  آگیا  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ  میں  فکشن کے  ساتھ ساتھ شاعری  بھی  کرتا رہا البتہ فکشن  کے  بڑے کینوس کو سنبھالنے میں شاعری کو اتنا وقت  نہیں دے سکا جتنا کہ  مجھے دینا  چاہیے تھا۔تو فکشن اور  شاعری  ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ شاعری کو چوں کہ  میں  زیادہ  پرسنل  فن مانتا ہوں اس لیے  اس کی  اشاعت کی طرف  میں  زیادہ دھیان نہ دے  سکا۔

سدرہ کرن :میرا اگلا سوال آپ سے یہ ہے کہ اردو ادب میں تین واضع رجحانات نظر آتے ہیں ۔ترقی پسندی ،جدیدیت ،مابعدجدیدت آپ کس کو ترجیع دیتے ہیں ؟خود کو کس رجحان کے قریب پاتے ہیں؟

 غضنفر :تینوں  رجحانات کی  اپنی اپنی اہمیت ہے۔ان میں  سے  ایک نے تو تحریک کی صورت اختیار کر لی تھی۔میری مراد ترقی پسندیت سے ہے۔ تینوں کی خوبیاں سامنے  آئیں اور خامیاں بھی۔ میں  ان میں سے  کسی کےساتھ بھی خود کو وابستہ  نہیں  کرتا۔در اصل  میں  ادب میں وابستگی کا  قائل نہیں ہوں  حالانکہ   یہ عجیب بات ہے  کہ  کچھ نقاد مجھے  ترقی پسند سمجھتے ہیں اور  کچھ لوگ  میرا رشتہ جدیدیت سے جوڑتے ہیں۔اسی  طرح  کچھ لوگوں نے  مجھے مابعد جدیدیت فن کار بتایا ہے۔   میرا ماننا ہے  کہ  ادب  ادب  ہوتا ہے۔ اس میں  طرح طرح کا رنگ ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے۔اسے کسی ازم یامسلک سے  جوڑ کر  ہم اس کے  دائرے کو محدود  کر دیتے

ہیں۔

سدرہ کرن :آپ  نے کئی اصناف میں طبع آزمائی کی ،مثلا  شاعری کی ہے،ناول ،افسانے لکھے ،ڈرامے تحریر کیے ،لیکن آپ کے کہانی نویس بننے میں کیا محرکات کارفرما ہیں؟

غضنفر:سدرہ صاحبہ !کہانی کار بننے کا کوئی ایک محرک نہیں  ہوتا۔ الگ اگ افسانہ نگاروں کے الگ الگ محرکات  ہوتے ہیں۔کسی  کا محرک اس کا مطالعہ  ہو جاتا ہے۔ بچپن میں  کوئی اتنی  کہانیاں پڑھتا ہے کہ وہ  خود  بھی  ان کہانیوں سے متاثر ہو کر کہانی  لکھنے لگتا ہے۔کسی  کو  ماحول کا دباؤ  اسے  کہانی کار بنا دیتا ہے۔مجھے کہانی کار بنانے میں سب سے زیادہ میری قوت متخیلہ نے کردار نبھایا ،خدا نے میرے تخیل کو بہت ہی بلند پرواز بنایا ہے۔اس میں ایسا جو ہر بھرا ہے کہ جو نئی نئی کہانیاں  گڑھ لیتا ہے ۔یہاں تک  کہ متھ بھی لیتا ہے ۔مجھے کہانی لکھنے پر معاشرے کا دباو بھی مجبور کرتا ہے جس کے  جبر کے سبب میرا احساس بھی شدت اختیار کرتا ہے ۔اور تخیل بھی اڑان بھرتا ہے۔

سدرہ کرن :آپ نے بہت سی کہانیاں لکھیں لیکن اپنی کہانیوں میں پسندیدہ کونسی ہے؟ اس میں آپ نے کس معاشرتی پہلو کو منعکس کرنے کی کوشش کی ہے ؟

غضنفر :جس طرح  ایک  ماں کے لیے  یہ کہنا مشکل ہے  کہ اسے  کون سی اولاد  سب سے اچھی ہے  اسی  طرح ایک تخلیق کار کے بھی  یہ فیصلہ  مشکل ہے  کہ  اس کی کون سی سب میں  بہتر ہے۔ماں کی مانند تخلیق کار کو بھی  اس سبھی تخلیقات عزیز ہوتی ہیں، پھر بھی  کچھ تخلیقات ایسی ہوتی ہیں جو  اپنی خصوصیات کی بدولت قارئین کے ساتھ ساتھ تخلیق کار کی توجہ کا بھی مرکز بن جاتی ہیں۔ لہذا مجھے بھی میری جو کہانی  زیادہ  متوجہ کرتی ہے، وہ ہے کڑوا تیل۔اس کہانی  میں اس حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان جانور  سمجھ لیا گیا ہے، بلکہ بنا  دیا گیا ہے، کہنا  چاہیے۔رات دن اس سے  جان توڑ محنت کرائی جا تی ہے۔اس کے خون پسینے کی کمائی سے اپنی تجوریاں بھری جاتی ہیں  اور بدلے  میں  اسے بھر پیٹ کھانا بھی نہیں دیا  جاتا ہے۔حسّاس فنکار اور ادیب بھی صرف اس کی  حالت بیان  کر پاتے ہیں، اس کی  حالات  کو  سدھارنے کے لیے وہ بھی  نہیں کچھ کر پاتے۔

سدرہ کرن :غضنفر صاحب ! آپ اب تک بہت سی کہانیاں تخلیق کرچکے ہیں ۔اور یہ کہانیاں مختلیف موضوعات پر لکھی جا چکی ہیں ۔ لیکن کوئی ایسا موضوع جو آپ  کو بہت پسند ہو آپ کے دل کے قریب ہو؟

غضنفر:سدرہ جی آپ  نے درست فرمایا کہ  میرے  افسانوں کے  موضوعات میں  تنوع موجود ہے، یہ تنوع اس لیے ہے کہ مسائل  مجھے چاروں  طرف سے  کچوکے لگاتے ہیں۔اور  روز ہی کوئی نیا  مسئلہ آندھی کی  طرح آٹھ کھڑا  ہوتا اور  ذہن و دل کو  گرد و غبار سے اس قدر بھر دیتا ہے کہ میری تخلیقیت چھٹپٹا اٹھتی ہے اور  میرا قلم حرکت میں  آجانا ہے۔ہر ایک جھکڑ سے  چوٹ لگتی ہے  دل خون ہوتا ہے۔اور  اس خون سے  رنگی ہوئی میری ہر تخلیق عزیز  ہوتی ہے۔لہذا  میرے لیے  یہ کہنا  مشکل ہے  کہ کون سا موضوع مرغوب ہے۔

سدرہ کرن :آپ کی تخلیقات میں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے ۔لیکن پہچان ،کڑوا تیل ،تیزابی محبت جو کہ سیاست پر مبنی کہانیاں ہیں ۔ان میں آپ نے سیاست کو موضوع تو بنایا  لیکن ایسا کیوں سمجھا جاتا ہے کہ ان میں سیاسی پہلو پر بہت کم بات کی گئی ہے ۔آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

غضنفر: پہچان، کڑوا تیل اور  تیزابی محبت، ان تینوں کہانیوں کو  آپ نے  سیاسی  کہا  مگر  یہ کہانیاں  پورے طور پر  سیاسی  نہیں  ہیں۔ ان میں کچھ دوسرے مسائل  بھی  ہیں۔ مجھے  جس پہلو پر  جتنی  بات کرنی تھی  اتنی  کی  ہے۔

سیاسی پہلو کا  جو مطالبہ تھا  یا کہانی  کا جتنا  تقاضا تھا  اتنی بات  میں  نے  کی ہے   ۔۔در اصل  آپ کو کمی کا  احساس  اس لیے  ہوا  کہ بات  کھل  کر  نہیں  کی گئی ۔ اگر  واضح  الفاظ میں  بات  کی گئی ہوتی تو  شاید یہ  سوال آپ  کے  ذہن میں اٹھتا بھی  نہیں  مگر  میرا طریقہ ٗ کار یہ ہے  کہ  موضوع  خواہ سیاسی ہو یا کوئی اور  میں  کھلے  ڈلے  انداز  میں  بات  نہیں  کرتا،  میں  ڈھک چھپے ڈھنگ  سے  بات  کرنے  کا حامی ہوں اس لیے کہ  میرا ماننا یہ ہے  کہ دکھانے سے  زیادہ  چھپانے  کا آرٹ ہے۔

سدرہ کرن :آپ  کے مکمل  فکشن پر نظر ڈالتے ہیں  تو فکشن  کی زبان  و بیان میں  اردو اور ہندی  کے  لفظوں کی آمیزش ملتی ہے  اس کا کوئی  خاص سبب؟

غضنفر: ادب  کے اظہار کی  وہی زبان  کامیاب  ہوتی ہے جسے  خواص و عوام  آسانی سے  سمجھتے ہیں ۔ہندوستان  میں  اس وقت جو  زبان  بولی جا رہی ہے  اس میں اردو اور ہندی کے  عام فہم الفاظ  کثرت سے  بولے جا رہے ہیں۔اس لیے  کچھ الفاظ غیر محسوس  طریقے سے  تخلیقات میں داخل ہو جاتے ہیں۔اور کچھ لفظوں کو کہانی کی صورتِ حال کے  پیش  نظر لانا پڑتا ہے  مگر میری  کوشش ہوتی ہے کہ  وہی  لفظ لائے جائیں جو اردو  لفظوں کے ساتھ ہم آہنگ  ہو جائیں اور  جن کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔

سدرہ کرن :حیرت فروش  جو کہ آپ کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے  اس میں شامل کہانیوں میں علامتی رنگ پایا جاتا ہے ۔یہ بتائیے کہ اس انداز بیان کو اپنانے کی کیا وجوہات ہیں؟

غضنفر :آپ کا  یہ  سوال بھی  آپ  کے پہلے  والے  اس سوال  سے  جڑا ہوا ہے  جس  میں  سیاسی  موضوع سے  متعلق  پوچھا گیا  تھا  جس  کا  جواب  آپ  کے  اس سوال سے  بھی  جڑ جاتا ہے۔ میری خالص بیانیہ  کہانیاں بھی  اکثریت نہیں  ہوتیں  ۔ ان کہانیوں  میں  بھی  میں  بہت  کچھ  چھپا  دیتا ہوں تاکہ قاری  یا سامع جب اپنا دماغ لگا  کر کھولے تو  اسے  بھی  اپنے  طور  پر  کچھ پانے  کا احساس  ہو۔ مجھے علامتی کہانیاں  اس لیے پسند  ہیں کہ  علامتیں کہانی کو اکہری ہونے سے  بچا لیتی ہیں  اور  کہانی کے فن میں  حسن پیدا  کرنے کے  ساتھ ساتھ  قاری کے لطف میں  بھی  اضافہ  کر تی ہیں۔

سدرہ کرن : اب میں چاہتی ہوں افسانہ سے ہٹ کر دیگر اصناف کی طرف آجاوں ،آپ سے یہ جانوں کہ اردو ناول جس کو لکھتے وقت آپ  کمفرٹیبل محسوس کرتے ہیں  مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ ناولوں کی ایک علحدہ اور ذاتی زبان خلق کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔کیا اس اسلوبیاتی تجربہ پسندی کو آپ اپنے ناولوں کی داخلی دنیا کے حوالے سے واضع کرنا چاہیں گے ؟

غضنفر :میں نے اپنے پہلے ناول “پانی”میں ازل سے ابد تک کی انسانی پیاس کی کہانی لکھی ہے ۔موضوع کے اعتبار سے میں نے داستانی اور تمثیلی رنگ کو آزمایا ہے لیکن جیسے ہی موجودہ زمانے کا حوالہ آتا ہے ،ایک نئی زبان آپ کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔حضرت خضر اور شیوساگر کے واقعات لکھتے ہوئے میں نے مختلف اسلوبیاتی جزیرے خلق کرنے کے کوشش کی ہے۔”کہانی انکل” میں چونکہ بچوں کو کردار بنایا گیا ہے ۔اس لیے ان کی مناسبت سے ایک نئی زبان ڈھونڈی گئی ہے ۔”دویہ بانی “ میں ویدک عہد سے موضوع کا رشتہ ہے اس لیے اس میں سنسکرت کے اثرات والی ہندی دکھائی دے گی ۔ہر تخلیق میں میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ اسلوب کے ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کا بھی ایک نیا طبقہ پیدا ہو ۔ان دونوں باتوں کو مرکز میں رکھ کر ہی میں اپنی تخلیقات رقم کرتا ہوں ۔پڑھنے والے میری تخلیقات کو قبول کریں ،یہی میرا مقصد ہے جس کے حصول کے لیے ساری کوششیں جاری رہی ہیں ۔

سدرہ کرن :ایک سوال جو آپ کی درس وتدریس کے حوالے سے ذہن میں آرہا ہے کہ آپ تخلیق کار ہونے کے ساتھ ماہر تعلیم بھی ہیں ۔اردو زبان کے فروغ توسیع و اشاعت کے لیے آج کونسا عمل ہونا چاہیے؟

غضنفر:نئے تناظر اور تقاضوں کے تحت نصاب کی جدید کاری اور ضروری ترمیم آج سب سے پہلا کام ہے ۔پرانا نصاب ہماری ضرورتوں کا ساتھ نہیں دے رہا ہے ۔اس میں نئے رجحانات اور تازہ تبدیلیوں کی نمائندگی نہیں ہو رہی ہے۔معاصر ادب کا تناسب موجودہ نصاب میں کافی کم ہے جب کہ اس کا حصہ زیادہ ہونا چاہیے ۔ہماری کتابوں میں قدیم سے جدید ادبی نمونوں کا سلسلہ پڑھایا جاتا ہے ۔جب کہ اس کی ترتیب کو بلکل الٹ دینے کی ضرورت ہے ۔پڑھنے والا چوں کہ آج کی زبان سے واقف ہے  اس لیے اسے آج کی زبان پڑھانے کے بعد مرحلہ وار پیچھے کی طرف لے چلنا چاہیے ۔اس سے پڑھنے والوں کو زیادہ آسانی ہوگی ۔

سدرہ کرن : اردو ادب کے علاؤہ آپ نے اردو زبان کی بہتری ،نصاب میں ترمیم ،درس تدریس پر لیکچر دیے اردو زبان کے لیے مختلف طرح سے خدمات کی کیا آپ کو اردو زبان میں بہتری کے اقدامات محسوس ہو رہے ہیں ؟

غضنفر:اس میں  کوئی  شبہ  نہیں  کہ  میں  اردو زبان  کی  تعلیم و تدریس اور  متعلمین کے لیے میی  نے  بہت  سارے  بنیادی  نوعیت کے کام کیے ہیں اور  اس میدان  میں  علمی و عملی دونوں  طرح کے  تجربات مجھے  حاصل ہیں۔ میں نے  چھوٹے بچوں، نوجوانوں اور  بڑے بوڑھوں سبھی  کاگنیٹ، نان کاگنیٹ  سبھی  کے لیے  نصابات بنائے ہیں  اور ان  کے  لیے درجہ بند (گریڈیڈ)مواد و متون یعنی  اسباق  بھی  تیار کیے ہیں  اور  مشق و مہارت  کے  لیے  مختلف اور  مختلف نوعیت کے  سوالات  بھی  مرتب کیے ہیں۔ اور  مختلف گروپ کے  لرنرس کو کلاس روم میں  پڑھایا بھی  ہے۔ رہنمائی کے لیے  تدریسی نامہ  کے عنوان سے خالص تدریسی نوعیت کا  ایک جریدہ بھی  نکالتا رہا ہوں تو اس  سلسلے  میں  زیادہ  وثوق  کے ساتھ کوئی  بات  کہہ سکتا ہوں۔ میرا تجربہ  اور  مشاہدہ بتاتا ہے  کہ اس میدان  میں بہت  کام کرنےکی ضرورت ہے۔ ہر سطح پر  اپنے  نصابات کو روائز کرنے کی ضرورت ہے۔ تعین قدر  پر  سوچنے اور  محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔درسیات کو نئے زمانے کے  تقاضوں کی روشنی میں  از سرِ نو پڑھنے اور اس میں ترمیم و تنسیخ کی  ضرورت ہے۔

سدرہ کرن :میرا آپ سے آخری سوال یہ ہے کہ   دونوں  پڑوسی ملکوں  کی خیر سگالی بحال کرنے اور  ٹوٹے ہوئے  رشتوں کو جوڑنے  کی  آپ کے خیال میں  کیا  صورت ہو سکتی ہے ؟

 غضنفر:میرے  خیال میں  اس کے  لیے  ادب  کارگر رول ادا کر سکتا ہے۔یہی سرحدوں پر  بندھے باندھ کو توڑ سکتا ہے  دلوں کی  تنگی کو دور کرسکتا ہے۔ ذہنوں  میں  وسعتیں  پیدا  کر سکتا ہے۔ادب  ہی وہ قوت ہے جو  احساس کو  جگا سکتا ہے۔جذبوں کو بیدار  کر سکتا ہے  ۔دلوں  میں  پریم رس گھول سکتا ہے۔ قدروں کو  بحال  کر سکتا ہے۔ بچھڑوں کو  ملا سکتا ہے۔ کتھارسس کر سکتا ہے۔اس لیے  دونوں  ملکوں  کو چاہیے  کہ  مختلف  زبانوں میں  چھپے ادب  پاروں  کو ایک دوسرے  کی طرف مختلف صورتوں میں روانہ کریں۔

سدرہ کرن :غضنفر صاحب !بہت بہت شکریہ  کہ آپ نے میرے  اور اپنے قارئین  کے لیے وقت نکالا اور ہم سے بات چیت کی ۔

غضنفر :آپ کا بھی شکریہ سدرہ صاحبہ !

***

Leave a Reply