You are currently viewing فائر ایریاایک تنقیدی مطالعہ

فائر ایریاایک تنقیدی مطالعہ

ڈمپلا دیوی

ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جموں یونیورسٹی

فائر ایریاایک تنقیدی مطالعہ:اہم کرداروں کی روشنی میں

         الیاس احمد گدی ناول نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔اُن کی شہرت کا باعث اُن کا مشہور ناول’’فائر ایریا‘‘بنا۔اُن کا شمار بیسویںصدی کے نامور فکشن نگاروں میں ہوتاہے۔اُنھوں نے اپنی زندگی میںہی شہرت کی بلندیوں کو چھو ا۔الیاس احمد گدی کا بچپن اور جوانی علمی اور ادبی ماحول میں گزرا۔اُن کے بڑے بھائی غیاث احمد گدی اُردو کے نامور افسانہ نگار تھے ۔۲۴ اپریل ۱۹۳۴؁ء کو ضلع دھنباد کے محلہ گدی میں پیدا ہوئے اور۲۷ جولائی ۱۹۹۷؁ء کو اس دارِفانی سے کوچ کیا ۔اُنھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں مزدوروں ، لاچاروں،بے بسوں اور دبے کچلے انسان کے مسائل کو پوری شدّت سے اُٹھایا ہے ۔اُنھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ایک افسانہ ’’سُرخ نوٹ ‘‘لکھ کر شروع کیا جو ماہ نامہ’’افکار‘‘بھوپال میں ۱۹۴۸؁ء میں شائع ہوا تھا ۔اُن کے دو افسانوی مجموعے ’’آدمی‘‘۱۹۸۰؁ء اور ’’تھکا ہوا دن‘‘۱۹۸۹؁ء میں شائع ہو کر ادبی حلقوں میں دادِ تحسین حاصل کر چکے ہیں ۔

         الیاس احمد گدی نے تین ناول لکھے ۔۱۔زخم(۱۹۵۳)،۲۔مرحم(۱۹۵۴)اور ۳ ۔فائر ایریا(۱۹۹۴)

         ناول فائر ایریا پر الیاس احمد گدی کو سن۱۹۹۷؁ء میں ساہیتہ اکیڈمی انعام سے نوازا گیا ۔اُن کا یہ ناول بنیادی طور پر سیاسی ناول ہے جس میں آگ کو استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔۳۶۷ صفحات پر مشتمل یہ ناول کول فیلڈ میں کام کرنے والے محنت کشوں کی سسکتی،بلکتی،بے بسی و لاچار زندگی پر مرکوز ہے۔ناول ’’فائر ایریا‘‘کا موضوع کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا استحصال،کسم پرسی،قتل و غارت گری،سود خوری،دھاندلی،نا انصافی اور عیاشی ہے ۔

         الیاس احمد گدی نے اس ناول کا تانا بانا چھوٹا ناگپور کی تہذیب و معاشرت کے گرد تیار کیا ہے ۔ناول کا آغاز گیا ضلع کے ایک گائوں سے ہوتا ہے اور انجام دھنباد جھریا میں مجمدار کی موت اور اُس کے جلوسِ جنازہ کے ساتھ ہوتا ہے ۔تین ابواب پر مشتمل اس ناول کی خصوصیات میں اختصار بھی شامل ہے جو ناول کے آخر  تک دکھائی دیتا ہے ۔اس کا پلاٹ بہت مربوط ہے ۔کہانی میں آغاز سے لے کر اختتام تک روانی اور تسلسل بر قرار رہتا ہے ۔ناول نگار نے خیالات کی تنطیم و ترتیب میں تناسب اور توازن برقرار رکھا ہے ۔زیرِ بحث ناول کی ہیت اور اسلوب بیانہ ہے ۔الیاس احمد گدی نے اس ناول میں ضرورت کے لحاظ سے فلیش بیک کی ٹیکنیک کا استعمال بھی کیا ہے ۔خاص کر کرداروں کے ماضی کا تعارف پیش کرنے اور اُن کی ذہنی اور نفسیاتی کشمکش کو ظاہر کرنے کے لیے شعور کی رو کی ٹیکنیک کا کامیاب تجربہ بھی کیا ہے ۔

          ناول کا مرکزی کردار سہدیوپرساد رمانی ہے ۔جو ست گانواں ضلع گیا کا رہنے والا ہے ۔وہ

تلاش ِ معاش میں اپنے گائوں اور محبوبہ کو چھوڑ کر کولیری فیلڈ میں ننکو کے ساتھ کام کرنے کے لئے

 آتا ہے ۔سہدیو سمیت دوسرے مزدوروں کے دکھ ،درد،رنج و غم ،محبت و شفقت اور استحصال کو پیش کرنے میں ناول نگار نے زورِ قلم صرف کیا ہے ۔زیرِ بحث ناول میں حقیقت کا عکس دیکھنے کو ملتا ہے۔سہدیو جو ایک سادہ اور درد مند انسان ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے اُس سے بعض ایسی حرکتیں صادر ہوتی ہیں جو کولیری کے کالے قانون کے مطابق معیوب ہوتی ہیں۔ شروعات میں وہ کسی بھی مسئلے میں اپنے اصولوں اور ضابطوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتا ہے ۔وہ کالا چند کو کپل سنگھ کے غنڈوں سے بچاتا ہے جس کی وجہ سے کپل سنگھ جیسا غنڈوںکا سردار اُس کا جانی دشمن بن جاتا ہے ۔حالانکہ ننکو اُس کو کول فیلڈ کے ماحول کے بارے میں کئی طریقوں سے سمجھاتا ہے مگر وہ اپنے اصولوں اور ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور مجمدار کی وساطت سے کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ جُڑ جاتا ہے ۔آخر کار بھاردواج کی وساطت سے انگریزی کمپنی ٹرنرموریسن میں نوکری کے دروان حالات کے ساتھ سمجھوتا کرتا ہے جس سے مجمدار کا دل شکستہ ہو جاتا ہے۔بھاردواج دلت مزدور سنگھ کا سربراہ ہوتا ہے۔

         موجودہ سماج میں ایک عورت کے لئے اکیلے رہنا کس قدر خطر ناک ہے اُس کی جھلک بھی زیرِ بحث ناول میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔ برہمن بیوہ پرتی بالا کی سہدیو سے بات چیت کے دوران عورت کے اس درد و کرب کا اندازہ درج ذیل اقتباس کے ٹکرے سے لگایا جا سکتا ہے ۔

         ’’میں نے شروع شروع میں یہی سوچا تھا اور باہر نکل بھی پڑتی کیونکہ زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ضروری تھا ۔مگر دادا نے روک دیا ۔ بولے تم میری چھوٹی سی بھولی بھالی بہن ہو اور یہ ایک ہولناک جنگل ہے ۔یہاں ہزاروں بھڑیئے،ہزاروں درندے آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں ۔تم کیا کرو گی؟ اچھا ہے اپنے آپ کو بچا کے رکھو ، میں جب تک زندہ ہوں تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا ۔

فائر ایریا ۔ص ۱۹۷)

         زمینداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں ستائے ہوئے مزدور جب وہاں سے پیچھا چھڑوا کر ایک نئی آس لے کر کہیں باہر کام کرنے نکل پڑتے ہیں اور اُنہیں وہاں کیسا درد و کرب اور ظلم و ستم برداشت کرنا پڑتا ہے ،اُس کا ذکر بھی ناول نگار نے بڑی چابکدستی کے ساتھ کیا ہے ۔اس درد و کرب کو رحمت میاں کے ساتھ کول فیلڈ میں کی گئی ناانصافی کے ذریعے بخوبی سمجھا جاتا ہے ۔رحمت ایک دُبلہ پتلہ ،غریب اور کمزور ساخت کا آدمی ہوتا ہے ۔اُس کے گھر میں بزرگ باپ،بیٹاعرفان اور بیوی ختونیا ہوتی ہے ۔وہ رسول پور کا باشندہ اورسہدیو کا قریبی ساتھی ہوتا ہے ۔کول فیلڈ میں ایک حادثہ کا شکار ہو جاتا ہے اور اُس کی لاش کو غائب کر کے اُسے ڈیوٹی سے غیر حاضر دکھایا جاتا ہے ۔الیاس احمد گدی چونکہ اشتراکی نظریے کے حامل تھے ۔مزدوروں کے درد کو شدّت سے سمجھتے تھے کیونکہ وہ خود بھی مزدور طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔

         جگیشر دوسادھ کا کردار کولیری کے ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اور وہاں کے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر کے خوب دولت کماتا ہے ۔اُس کے بچے ایک اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں اور خود کے لیے بنگلہ گاڑی بھی خریدتا ہے ۔ناول نگار نے جگیشر کے کردارکا سہارا لے کر اُن لوگوں پر بھی طنز کیا ہے جو عیش و آرام اور دولت و شہرت کے نشے میں آ کر ظالموں کے ظلم اور رشوت خوری کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتے ہیں ۔مزدوروں کا استحصال نہ صرف کول فیلڈ کولیری میں دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ یہ استحصال مسلسل ہوتا رہتا ہے۔صورتِ حال چاہے کوئی بھی ہو لیکن ہر بار مزدوروں کو مشکلات اور نقصانات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔

         مجمدار ناول ’’فائرایریا‘‘کا ایک ایسا کردارجو ترقی پسند نظریئے کا پرستار ہوتا ہے ۔وہ اپنے کمیونسٹ نظریئے کو فروغ دینے میں ہر ممکن کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کو ہمیشہ جان کا خطرہ رہتا ہے ۔بھاردواج ،جو ناول کا ایک کردار ہے اور جس کے توسط سے سہدیو کو آخر میں نوکری ملتی ہے ،جب اُسے پتہ چلتا ہے کہ جیل سے چھوٹنے والے پانچ آدمیوں کی رہائی مجمدار نے رکوائی کیونکہ اُن میں سے ایک آدمی مجمدار کی پارٹی کا تھا  تو وہ مجمدار کو قتل کرنے کے لیے اپنے آدمی بھیج دیتاہے۔گولیاں چلتی ہیں جس سے مجمدار کی موت ہو جاتی ہے ۔قتل و غارت کی اس بھیڑ میں رحمت کا بیٹا عرفان بھی مجمدار کے ساتھ ہوتا ہے مگر وہ بچ کے نکل جاتا ہے۔ایک بھیڑ جمع ہو جاتی ہے اور اُس بھیڑ میں سہدیو بھی شامل ہوتا ہے ۔وہ روتا ہے اُسے لگتا ہے کہ وہی مجمدار کے خون کا مجرم ہے ۔سماج کے حاکم اور ٹھیکداروں کی حکومت سہدیو جیسے انسان کو بھی سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔’’فائر ایریا‘‘ کے مطالعے کے بعد الیاس احمد گدی کے تخلیقی جوہر کا پتہ چلتا ہے ۔مجمدار کی موت کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس واقعے سے الیاس احمد گدی کے ناول لکھنے کا نکتہ نظر واضع ہو جاتا ہے۔الیاس احمد گدی خود کارل مارکس کے نظریئے کے حامی تھے۔وہ ترقی پسند تحرک کے دلدادہ تھے ۔اس واقعے کی مدد سے اُنھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آج کے اس پُرآشوب دور میں حق کی بات کرنے والوں کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہاں تک کہ بیچ راہ میں گولیوں سے بُھون دیا جاتا ہے ۔

         ختونیا ناول کا ایک ایسا محترک کردار ہے جس میں آگے بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے اور جس کی وجہ سے سہدیو کے اندر بھی جلوس کے ساتھ چلنے کا جذبہ پیداہوتا ہے۔ختونیا کا شوہر کول فیلڈ کی اندھیری کھائی میں مارا جاتا ہے ۔وہ اپنا گزراوقات کرنے کے اپنے کمسن بیٹے عرفان کے ساتھ کوئلہ بیچنے کا کام کرتی ہے ۔کولیری میں سہدیو اور اُس کی برہمن بیوی پرتی بالا اُس کا ساتھ دیتے ہیں ۔جب سہدیو بیمار  پڑتا ہے تو اُس کو بھی سہارا دیتی ہے۔مجمدارکی موت کے بعد جلوس میں شامل ہو کر انصاف مانگنے کے لیے آنکھوں میں آگ لیے پھرتی   ہے ۔

         ’’اور جب ختونیا اس کے ایک دم نزدیک آجاتی ہے تو وہ اچانک اُس کو دیکھ لیتی ہے ۔دیکھ لیتی ہے تو دیکھتی رہتی ہے ۔اور تب اچانک سہدیو دیکھتا ہے کہ اس کی انکھوں میں ایک شعلہ لہک رہا ہے۔

آگ۔۔۔!                          (فائر ایریا۔ص۔۳۶۷)

         زیرِ بحث ناول کے سبھی کردار ہندوستان کے بیسویں صدی کے معاشرے سے وابستہ

رکھنے والے کردار ہیں ۔یہ ناول حقیقت پر مبنی ہے ۔الیاس احمد گدی نے پہلی بارکو فیلڈ میں کام کرنے والے مزدورں کو موضوع بنا کر اُن کے حلِ طلب مسائل کو اُبھارا ہے۔اُن کا یہ ناول اشتراکی نظرئے کی پاسداری کرتا ہے۔اس میں دور دراز علاقوں میں جا کر کام کرنے والے لوگوں کی محنت کشی اور اُس کے بدلے میں ملنے

 والی معمولی مزدوری کو بیان کیا گیا ہے ۔زیرِ بحث ناول میں الیاس احمد گدی نے کوئلے کے خزانے ،کان کنی اور وہاں ہونے والی لوٹ

کھسوٹ وغیرہ کا ذکر کر کے قاری کے دل میں آگے بڑھنے کی خواہش کو پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔اُنھوں نے متوسط اور اس سے نچلے طبقے کے کرداروں کو بنیاد بنا کر کول فیلڈ میں ہونے والے حادثات اور وارداتوں کی تلخ حقیقتوں کو بے نقاب کیا ہے ۔

اکتسابِ فیض:

         ۱۔ناول فائر ایریا۔ الیاس احمد گدی،۱۹۹۴؁ء۔معیار پبلی کیشنز نئی دہلی

         ۲۔رسالہ ساغرِ ادب۔از۔ڈاکٹر سید آل ظفر ۔مظفر پور بہار۔ا کتوبر تا دسمبر ۲۰۱۹؁ء

***

Leave a Reply