You are currently viewing فارسی تذکرہ نویسی اورمصحفی

فارسی تذکرہ نویسی اورمصحفی

طاہرعلی

  ریسرچ اسکالر شعبہ فارسی جواہرلعل نہرو یونیورسٹی

فارسی تذکرہ نویسی اورمصحفی

تذکرہ ایک مرکب صنف ادب ہے۔ اصطلاحاً اس لفظ کا اطلاق اس کتاب پر ہوتا ہے جس میں شعرا کے مختصر احوال اور ان کا منتخب کلام درج کیا گیا ہو علاوہ ازیں شعرا کے کلام پر مختصر الفاظ میں تنقیدی رائے بھی دی گئی ہو۔سب سے پہلے شعراکے حوالے سے جو تذکرہ لکھا گیا وہ سرزمین ملتان میں ’’لباب الالباب‘‘ کے نام سے عوفی نے لکھا۔یہ روایت ایران سے زیادہ ہندوستان میں پروان چڑھی اور عہد مغلیہ میں زبان فارسی میں کچھ اہم تذکرے لکھے گئے۔’’طبقات اکبری‘‘ اور ’’منتخب التواریخ‘‘وغیرہ میں شعراکے احوال وکوائف ملتے ہیں۔ تاریخوں کے علاوہ دوسرے فنون میں کچھ کتابیں اہمیت رکھتی ہیں اور ان میں’’ ہفت اقلیم ‘‘کا نام سرفہرست ہے۔فارسی شعرا کے تذکروں کی طرح اردوشعراکے تذکرے بھی اسی طرزپرلکھے گئے۔

اصولی طور پر تذکرہ ذکر کے معنی سے مربوط ہے، عربی سے اردو میں مروج ہونے والا یہ لفظ مجرب حیثیت سے اردو میں رواج پایا اور فارسی کے زیر اثر اردو ادب میں اس لفظ کو صنف کی حیثیت حاصل ہوئی۔معنوی طور پر تذکرے سے مراد ذکر کو لیا جاتاہے لیکن اصطلاحی اعتبار سے تذکرہ متعدد اشخاص کے حالات اور کارناموں کو ایک کتاب میں جمع کرنے کی شہادت دیتا ہے۔ یعنی تذکرہ ایک ایسی صنف ہے جس میں فن کے جلیل القدر شخصیات کی سوانح اور انفرادی خصوصیات کو واضح کیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے تذکرہ کتاب کا محتاج ہوتا ہے یعنی جب تک کہ اہم شخصیتوں کو مربوط نہ کیا جائے اس کی حیثیت تذکرہ نہ ہوگی۔عام طور پر ایسی تمام تحریریں تذکرے کے ضمن میں آتی ہیں جن میں ایک سے زیادہ شخصیات کے حالات اور کارنامے کوکتابی شکل میں جمع کر دیاگیاہو۔ اس عمل کے لیے لازمی نہیں ہے کہ وہ شخصیتیں صرف ادبی حیثیت کی حامل ہوں بلکہ مذہبی، سیاسی، سماجی، ثقافتی غرض کہ ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کے حالات اور کارنامے کو کسی ایک کتاب میں جمع کر دینا ’’تذکرہ‘‘کہلاتا ہے۔ ہندوستان میں فارسی کے تذکرے خاصی تعداد میں ملتے ہیں کچھ تذکرے مندرجہ ذیل ہیں۔

۱ ۔لباالالباب              نورالدین محمدعوفی  ۶۱۸ھ۔۱۲۲۱ء

۲۔روضتہ السلاطین          مولانا سلطان محمد فخری ۹۳۵ھ۔۹۶۱ء

۳۔عرفات العاشقین تقی الدین محمد اوحدی                  ۰۲۲ا۔۱۰۲۴ء

۴۔ عالم آرا                   سکندر منشی                            ۱۰۲۲ھ۔ ۱۰۲۴ء

۵۔رسالہ                    چندربھان برہمن                          ۱۰۲۵ھ

طبقات الشعرا  از  قدرت اللہ شوق:

       طبقات الشعر۱  ۱۷۷۵ ء میں چار طبقات کی تقسیم کے ساتھ ۳۱۳شعراکی تعداد سے مکمل ہوا۔ طبقہ اوّل میں ریختہ گوئی کے موجدین، شعرائے دکن اور اُن کے بعض معاصرین کا ذکر ہے طبقہ دوم میں ایہام گو شعراکو جگہ دی گئی ہے۔

       طبقہ سوم میں شعرائے متاخرین اور بعض نو مشق شعرا مذکور ہیں۔ طبقہ چہارم  یہ تذکرہ امیر خسرو سے شروع ہوکر قدرت اللہ شوق کے تذکرے پر ختم ہوتا ہے۔

گلشنِ گفتار از حمید اورنگ آبادی:

 یہ تذکرہ۳۰ شعرا  پر مشتمل ہے۱۱۶۵ء میں مکمل ہونے والے  اس تذکرے کی اہمیت دو خاص سبب سے ہے ۔ پہلے یہ ہے کہ شمالی ہند کی طرح دکن میں بھی تذکرہ نگاری کی رسم بارہویں صدی ہجری کے وسط میں پڑ گئی تھی۔دوسرے یہ کہ دکنی شعرا کے متعلق ایسی بہت سی معلومات ہیں جن سے شمالی ہند کے تذکرہ نگار پہلے واقف نہیں تھے۔ انتخاب کلام میں متفرق اشعار کے بجائے پوری پوری غزلیں ملتی ہیں۔ یہ تذکرہ ’نصرتی‘ سے شروع ہوکر ’عزلت‘ کے ترجمے پر مکمل ہوتا ہے۔

تحفتہ الشعرا  از مرزا  افضل بیگ قاقشال:

       فارسی زبان کا یہ تذکرہ۲۶  شعرا کے تراجم کے ساتھ۱۱۶۵ ھ میں مکمل ہوا۔ اِس میں ریختہ گو اور فارسی گو دونوں شعراشامل ہیں۔ تذکرے میں شعراکی ترتیب میں کوئی اُصول نہیں برتاگیا ہے۔ شعراکی تاریخ پیدائش اور وفات پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ تذکرے کے پہلے شاعر غلام حسین قادری اور آخر میں مرزا جان جاناں مظہر ہیں۔

چمنستان شعرا  ز لچھمی نرائن شفیق:

       عربی، فارسی اور علوم متداولہ میں مہارت رکھنے والے مصنف نے یہ تذکرہ۱۷۶۱ ء میں مکمل کیا۔ فارسی زبان کا یہ تذکرہ ۳۱۳شعراکے ذکر کے ساتھ بلحاظِ حروفِ ابجد مرتب ہوا۔ تذکرہ آرزو سراج خاں سے شروع ہو کر غلام سیّد غلام کے ذکر پر ختم ہوتا ہے۔

شعرائے فارسی کے  ان تذکروں کی طرح’’عقدثریا‘‘ سے قبل اردو شعراکے مندرجہ ذیل تذکرے  وجود میں آچکے تھے۔

۱۔تحفتہ الشعرا                      میرتقی میر                          ۱۱۶۵ھ۔۱۷۵۲ء

۲۔مسرت افزا                      ابولحسن                            ۱۱۹۳ھ۔۱۷۷۹ء

۳۔گلشن سخن                     مردان علی خاں مبتلا                   ۱۱۹۴ھ۔  ۱۷۸۰ء

۴۔ریاض حسنی                 عنایت اللہ شوق                        ۱۱۶۸ھ۔۱۱۷۳ھ

ان تذکروں کی بدولت ایران اور ہندوستان دونوں ملکوں میں فارسی تذکرہ نویسی کی روایت کافی مستحکم ہوئی اورایسی صورت میں کسی بھی مصنف  کے لیے تذکرہ نگاری کے فن میں امتیاز حاصل کرنا خاصا مشکل تھا۔ مصحفی  فارسی تذکرہ نویسی کی دنیا میں عقد ثریا، تذکرہ ہندی، ریاض الفصحا، کی وجہ سے ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ مختصرا مگر جامع طور میں ان تذکرہ پرروشنی ڈالی جائے گی۔

عقد ثریاـ:

’’ عقد ثریا‘‘ ایران و ہندوستان کے  ایک سو باون ۲ ۱۵ فارسی گو شعرا کا تذکرہ ہے۔ مصحفی نے یہ تذکرہ مرز ا محمد قتیل کے اشارہ پر لکھا تھا۔ عقد ثریا کی تفصیلات و شواہد کی بنا پر یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس کی ترتیب کا آغاز ۱۱۹۴ھ میں ہوا اور اس کا  نقش اول ۱۱۹۹ھ میں تیار ہوا۔ ۱۲۰۵ تک اس میں ترمیم و اضافے بھی کیے گئے۔ بنیادی طورپر یہ فارسی گوشعرا کا تذکرہ ہے لیکن اس میں چوالیس (۴۴) شعرا ایسے بھی ہیں جنھوں نے فارسی او ر اردودونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔

       مصحفی نے بہت سے شعرا کا مختصر طور پر ذکر کیا ہے۔ کچھ مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔

   ’’ذہین:  ـبرادر محمد برہان علی خان رہین

   سوز:  میرسوز، شاعر ریختہ گو است

    سرور: سرور صفا ہانی، اسمش بہ سمع نہ رسیدہ

    نیازی:  نیازی تخلص احمد مرزا و صفو یست‘‘ ص۴۱

 عقدثریا کے سلسلے میں مولوی عبدالحق رقمطراز ہیں۔

 ’’اس میں تین قسم کے شعرا کا ذکرہے۔اوَل شعراے ایران جو ہندوستان میں کبھی نہیں آئے۔  دوسرے شعرائے ایران جو ہندوستان آئے ۔تیسرے ہندوستانی فارسی گو شاعر‘‘ص۴۳۔  لیکن در اصل اس میں چار طرح کے شاعروں کا ذکر ہے:

۱۔ وہ ایرانی شعرا جوہندوستان کبھی نہیں آئے مثلا: آذربیگدلی، میرزا اشرف مشرف عابری، میرسید علی مشتاق اصفہانی۔

۲۔ وہ شعرائے ایران جو ہندوستان آئے اور یہیں رہ گئے مثلا: دیدہ (اعزاں) اور صیاد صفاہانی

۳۔ وہ شعرا جن کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی لیکن ان کے اجداد ایرانی تھے اور ہندوستان آگئے تھے مثلاَ: مرزا جان بیگ سامی اور حشمت(محتشم علی خاں)

۴۔  ہندوستانی فارسی گو شعرا

شعرا کے کلام پر مصحفی نے جو رائے دی ہے اسے بھی عمومیت اور اختصار کے باوجود نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ کیوں کہ چند لفظوں میں کسی شاعر کی نمائندہ خصوصیات کی نشان دہی بھی کوئی  آسان کام نہیں تھا اس زمانے کے حوالے سے کیوں کہ اس وقت  اسی طرح مختصر انداز میں لکھنے کارواج تھاایک لفظ اور کچھ مختصر جملوں سے بہت سی باتیں سمجھ میں آجاتی تھیں۔ عقد ثریا میں مصحفی نے شعرا کے بارے میں جو رائے دی ہیں کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں۔

عاشق:    شاعرشیریں زبان بلکہ بلبل ہزار داستان گزشتہ۔

قتیل: شعرعاشقانہ را بسیاربہ صفا می گوید۔

سامی:  در قصایدوغزل وشاہنامہ بطورخود استاد است ودر تاریخ گویی بے نظیر۔

غلام ہمدانی مصحفی نے تذکرے کی روایت کو آگے بڑھانے میں بہت ہی ذوق و شوق سے حصہ لیا۔ انھوں نے شعرائے اردو اورفارسی دونوں کے تذکرے لکھے ’’عقدثریا‘‘ ان کا پہلاتذکرہ ہے ۔شعرا کے حالات زندگی بیان کرنے کا جہاں تک معاملہ ہے، اس میں ہو سکتا ہے کہ مصحفی نے اپنے پیش رو تذکرہ نویسوں کے بیانات پر کوئی اضافہ نہ کیا ہو لیکن شعرا کے انتحابِ کلام پر خصوصی توجہ صرف کی ہے وہ قابلِ دادہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ مصحفی کی تنقیدی بصیرت اور شائستہ شعری ذوق کی نمائندگی ہوتی ہے بلکہ ایسے قابلِ ذکر فارسی شعرا کا منتخب اور جید کلام اس تذکرے کی بدولت سامنے آیا ہے جن کے دواوین ابھی اشاعت سے محروم ہیں ’’عقد ثریا‘‘ میں مصحفی نے بیشتر شعرا کے اشعار از خود منتخب کیے اوراس سلسلے  میں دوسرے تذکروں سے بہت کم مددلی ہے۔اسی لیے مصحفی کے یہاں انتخابِ اشعار میں شاذونادرہی تکراردکھائی دیتی ہے۔ اس تذکرے میں مصحفی نے بعض جگہ ہندی لفظ بھی استعمال کیے ہیں مثلا آزاد کے ترجمے میں ’’درزمین پورب‘‘ کی ترکیب لے آئے ہیں۔

تذکرہ نگاری کے میدان میں عقدثریا مصحفی کی پہلی کاوش ہے۔ اس کے باوجود ’’عقد ثریا‘‘فارسی اور اردو شعرا کے مطالعے کے سلسلے میں اہمیت کا حامل ہے۔ تذکرہ نگاری کی روایت کو خود مصحفی نے اس کے بعد اور آگے بڑھایا۔ تذکرہ نگاری نے۱۲۲۹ء میں شعرا کا نہ صرف اپنے دور کے بلکہ اپنے دور سے پہلے کے شعرا کا بھی ذکر بلحاظِ حروفِ تہجی کیا ہے۔  غلام ہمدانی مصحفی کا ذکر ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے دہلی کی سکونت ترک کی اور لکھنو کو آباد کیا۔ مصحفی صرف شاعر نہیں، اعلی پائے کے ناقد بھی تھے۔ انھوں نے اپنے اردو فارسی کے تذکروں میں شعروشاعری پر اظہارخیال کیا ہے۔ انھوں نے ایہام گوئی کو ناپسندکیااور فصاحت اور بلاغت کی ستایش کی۔مصحفی فارسی او ر ا ردو کے ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے۔فارسی  کا یہ تذکرہ ریختہ گو شعرا کے تذکرے کے ساتھ۱۲۶۳ء میں مکمل ہوا۔

علاوہ ازیں عقدثریاکی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ مصحفی نے خواجہ میر درد، میرتقی میر، مرزا محمد رفیع سودا، ظہورالدین حاتم اور مظہر جاناں جاناں جیسے مشہور شعرائے ریختہ گو فارسی گو شاعر کی حیثیت سے پیش کیا اور ان کا عمدہ کلام انتخاب کرکے شامل کیا۔ خود مصحفی کے فارسی اشعار کا ایک قابل قدر انتخاب (اور وہ بھی ان ہی کے قلم سے) اس تذکرے کی بدولت سامنے آیا ہے۔

عقد ثریا سے ہمیں کچھ ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں اگرمصحفی ا س کا تذکرہ  نہ کرتے تو بہت سی معلومات سے محروم رہ جاتے۔ جیسے

میر تقی میر کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’می گفت کہ دو سال شغلِ ریختہ موقوف کردہ بودم درایَام قریب    دو ہزار بیت فارسی صورتِ تدوین یافتہ۔‘‘ ص۵۱

  محتشم کے ترجمے میں بتایا ہے کہ میں نے خود اپنی شاعری کے ابتدائی زمانہ میں انھیں قصبہَ امروہہ میں دیکھا تھاِ۔ اس بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ مصحفیَ کا وطن امروہہ تھا اور شعر وسخن کی ابتدا انھوں نے وہیں رہتے ہوئے کی تھی۔

مرزا سامی کے مدفن سے متعلق لکھا ہے کہ: ’’بیرون ترکمان دروازہ در مقبرہَ خواجہ میر درد واقع شدہ‘‘۔ ص۵۳

ادبی تاریخ کے سلسلے میں اس طرح کی جستہ جستہ معلومات بھی بسا اوقات بڑی کار آمد ثابت ہوتی ہیں۔’’ عقدثریا‘‘ میں جابجا ایسی بہت سی کام کی باتیں مل جائیں گی۔ بعض شعرا کی سیرت و شخصیت کو بھی مصحفی نے اس قدر دلچسپ اورغیر معمولی اوصاف کا حامل بنا کر پیش کیا ہے ۔عہد محمدشاہ سے عالم بادشاہ کے دور تک کے ہندوستانی فارسی گو شعرا میں مرزا عبدالقادر بیدل سے لے کر اور فصیح جیسے شخصیتوں کا ذکر بھی ’’عقدثریا‘‘میں موجود ہے۔ بیدل کا شمار قدما کے زمرے میں ہوتاہے اور محمد شاہ کے سالِ جلوس (۱۱۳۱۔۱۷۱۰ء) کے بعد مرزا بیدل تقریباَ ایک سال ڈھائی مہینے تک ہی زندہ رہے۔ لیکن عقدثریا میں ان کا احوال درج کرتے ہوئے مصحفی نے وجہ جواز بھی بیان کردی ہے:

’’اگر چہ ذکرِایں بزرگ دریں تذکرہ آوردن واجب نبود، امٗا چوں بناےایں عمارت ازشاعرانِ احیایعہدفردوس آرامگاہ است ومشارَ الیہ ہم تا اوائل جلوس والا بقیدِحیات بود لہذا ضرور افتادہ کہ اگر برخے از احوال و اشعار اونیزصورتِ تسطیر یابد،خوب است۔‘‘ ص۵۰

تذکرہ ہندی:

عقد ثریاـــ کے بعد فارسی زبان میں لکھا گیا دوسرا تذکرہ’’ تذکرہ ہندی ‘‘ہے جس میں محمد شاہ کے عہد سے لے کر شاہ عالم کے زمانے تک کے ۱۸۸ شاعروں اور پانچ شاعران کا احوال اور نمونۂ کلام شامل ہے۔’’ تذکرہ ہندی‘‘   میں اردو  شعرا کا تذکرہ ہے۔ مصحفی نے اس تذکرہ میں زیادہ تر معاصر شعرا کا تذکرہ کیا جن سے وہ بخوبی واقف تھے۔ لیکن  ایسا بھی نہیں ہے کہ انھوں نے صرف معاصر شعرا کو ہی شامل کیا بلکہ ان کے تذکرے کے مطالعہ کے بعدیہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے ذاتی معلومات کے علاوہ گردیزی، قائم چاندپوری اور میر حسن وغیرہ کے تذکروں سے بھی استفادہ کیا تھا۔

تذکرہ ہندی میں مصحفی نے شعرا کے کلام پر جو رائے دی ہے اس سے ان کی تنقیدی بصیرت اورمنصفانہ حیثیت کا پتا چلتا ہے۔ بعض ایسے شاعروں کے تذکرے ملتے ہیں جن سے ذاتی طور پران کے تعلقات اچھے نہیں تھے لیکن جب ان کے کلام کی بات آئی تو اپنی دیانت داری کاثبوت دیا تذکرہ ہندی کی زبان بھی تکلف و تصنع اور عبارت آرائی سے پاک ہے۔

’’تذکرہ ہندی ‘‘کوسب سے پہلے مولوی عبدالحق نے ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کے قلمی نسخے کی بنیادپر مرتب کیا۔ متن کی تصحیح اور مقابلے کے لیے رضا لا ئبری رام پور اور خدابخش اورینٹل پبلک لائبری پٹنہ کے قلمی نسخوں سے بھی مدد لی گئی۔ مولوی صاحب کے مقدمہ کے ساتھ ۱۹۳۳ ء میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد دکن سے شایع ہوا۔

        ڈاکٹرجمیل جالبی نے تذکرہ ہندی کو اردو شعرا کا اہم تذکرہ قرار دیا ہے کیوں کہ اس میں اکثر شعرا کے حالات بیان ہے جس کے مصحفی عینی شاہد ہیں یا انھوں نے خود اپنے معاصرین سے دریافت کیے ہیں۔ انھوں نے کچھ شاعروں کے بارے میں ایسی باتیں لکھی ہیں اگر وہ نہ لکھتے تو ہم بہت سی باتوں سے محروم رہ جاتے۔

یقین کے ذیل میں لکھتے ہیں:

’’ در دورہ ایہام گویاں اول کسے کہ ریختہ را شستہ و رفتہ گفتہ ایں جوان بود۔بعد ازاں تتبعش بدیگراں رسید۔‘‘  ص۱۵

اسی  طرح میر عبدل الحی تاباں کے بارے میں  لکھتے ہیں۔

’’تصویر آں آفت جاں در چاندی  چوک  بر دوکان پارچہ فروش کہ مرقع تصاویرگوناگوں داشت بملاحظہ رسیدہ ۔ والحق کہ از دیدن آں معنی عین الیقین بہ مشاہدہ افتاد۔‘‘

ریاض الفصحا:

ـ    ریاض الفصحا  مصحفی کا یہ تیسرا اور آخری تذکرہ بھی فارسی زبان میں ہے۔ یہ تذکرہ ۳۲۲ شاعروں کے حالات اور نمونۂ کلام پر مشتمل ہے لیکن اس میں فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے شعرا کی تعداد دوسو بہتر (۲۷۲) اور فارسی شعرا کی تعداد صرف سینتیس (۳۷) ہے۔ان دونوں کے علاوہ تیرہ(۱۳)شاعر ایسے ہیں جن کا اردو اور فارسی دونوں کلام شامل ہیں۔ ریاض الفصحا اس کاتاریخی نام ہے جس سے ۱۲۲۱ ھ سال بر آمد ہوتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ تذکرے کا نام مصحفی کے شاگرد لالہ چنی لال حریف کے قطعہ سے ماخوذ ہے مولف تذکرہ نے دیباچہ کے آخر میں درج کیا ہے ا۔

                                     ’’ صد شکر کہ اں ذخیرۂ اہل سخن      شد انجمن سپہر را رشک افزا

                                  از خامۂ فکر خود بر آورد حریف      سال تاریخ او ’’ریاض الفصحا‘‘ ص ۱۶

        ریاض الفصحا کی زبان تصنع اور عبارت آرائی سے پاک ہے یعنی اس کی زبان رواں دواں اور شستہ ہے۔ مصحفی نے شعرا کے کلام کی تعبیر و تشریح کرنے کے بجائے سیرت و شخصیت کونمایاں کرنے کی زیادہ کوشش کی ہے اور شاعروں کے خاکہ نگاری کے ابتدائی  نقوش کی جھلک بھی ملتی ہے۔ مصحفی نے ریاض الفصحا میں بہت سے شاگردوں اور اپنے احباب و معاصر شعرا کے تلامذہ کو بھی متعارف کرایا ہے۔ انھیں ساری باتوں کے پیش نظر ان کا یہ تذکرہ اہمیت سے خالی نہیں ہے۔ ڈاکٹر حنیف نقوی اس تذکرہ کی خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوے لکھتے ہیں۔

  ’’زبان کی سلاست و سادگی۔۔ اس تذکرہ میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ ہم طرح غزلیں اور اشعار بھی مصحفی نے بکثرت نقل کیے ہیں جن کی مدد سے مختلف مشاعروں کے طرحی کلام کی دریافت اور زمانہ تصنیف کے تعین کا مرحلہ بھی کسی حد تک آسان ہو جاتا ہے۔ شعرا اور منتظمین مشاعرہ کہ عمر اور مدت مشق سے متعلق بیانات تحقیق کی اس منزل میں کافی دور تک ہماری رہبری کرتے ہیں‘‘  ص۱۷

ا ردو ادب کے ابتدا علما اور شعرا کی تذکرہ نگاری کی ابتدا بھی فارسی تذکرہ نویسوں نے شروع کی یا ان کے پیروکار نے اس کو فروغ دیا۔چناں چہ عہد مغلیہ کے آخری زمانے میں ہمیں ایسے تذکرے ملتے ہیں جن میں اردو اور فارسی زبانوں کے شاعروں کے حالات موجود ہیں اور اس کے بعد ایک ایسا عہد بھی آیا جب ایک ہی تذکرہ نگار نے فارسی اور اردو شعرا کے الگ الگ تذکرے لکھے اور یہی وہ زمانہ بھی تھا جب مختلف مصنفین نے صرف اردو شعراکے تذکرے لکھے۔ جن میں سرفہرست اردو زبان کا پہلا تذکرہ ’’تذکرہ گلشن ہند‘‘(مرزا علی لطف)،’’تذکرہ شعرائے اردو‘‘(میر حسن)، ’’انتخاب یادگار‘‘(امیر مینائی) ،’’آب حیات و سخن دان فارس‘‘(محمد حسین آزاد)، ’’گل رعنا‘‘(مولوی عبدالحی) اور فارسی میں میر تقی میر کا ’’نکات الشعرا‘‘ فتح گردیزی کا ’’تذکرہ ریختہ گویاں‘‘اور قیام الدین قائم کا ’’مخزن نکات‘‘اس کے علاوہ اور بھی  بہت سے تذکرہ نگار قابل ذکر ہیں محمد ابراہیم خلیل، لچھمی نرائن شفیق، قدرت اللہ شوق  وغیرہ کے تذکرے اہمیت کے حامل ہیں۔ ص۱۹

کتابیات۔

ٌ  ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ ،رشید حسن خان ، علی گڑھ،ایجوکیشنل بک ہاوس،۱۹۷۸ا ء، ص۳۵

 اُردو شعراکے تذکرے اور تذکرہ نگاری ،فرمان فتح پوری ڈاکٹر، کراچی،انجمن ترقی اُردو پاکستان،۱۹۹۸ء، ص۷۸،۷۷

 تذکرہَ  ہندی،غلام ہمدانی مصحفی، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنو۱۹۸۵ء،ص۱۱۔۱۲

تذکرہ ریختہ گویاں،فتح علی حسینی،مرتبہ ولوی عبدالحق،انجمن ترقی اردو ادب،اورنگ آباد،۱۹۳۳ء

چمنستان الشعرا، لچھمی نرائن شفیق اورنگ آبادی، مرتبہ مولوی عبد الحق، انجمن ترقی اردو دہلی،

 خزانہٗ عامرہ،غلام آزادبلگرامی،نول کشور پریس،کانپور،۱۸۷۱ء،ص:۱۱۸

عقدثریا، مرتبہ مولوی عبدالحق،جامع برقی پریس،دہلی۱۹۳۴ء، ص ۱۴،۱۵

شعرائے اردو کے تذکرے، حنیف نقوی، اتر پردیش اردو  اکادمی، لکھنو۱۹۹۸ء،ص: ۴۷۵،۴۹۱

 فن تنقید اور اُردو تنقید نگار ی ،نو ر الحسن نقوی، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس،۱۹۹۰ء،  ص۸۹

 مصحفی: حیات اورشاعری ڈاکٹر نورالحسن نقوی،مجلس ترقی ادب،لاہور،جون۱۹۹۸ء،ص:۷۹۔۸۰

 مصحفی حیات اور شاعری نسیم احمد فریدی سہ ماہی اردو ادب،۱۹۵۲ء،ص،۴۱

مصحفی کا  ایک فارسی دیوان۔ احتشام حسین،غالب انسٹی ٹیوٹ، ني دہلی ۲۰۰۵ ، ص:۱۲۔۱۴

مصحفی۔نورالحسن نقوی،ساہتیہ اکادمی،دہلی ۱۹۸۹ء،ص،۷۶۔۷۷

***

Leave a Reply