You are currently viewing فراق ؔ گورکھپوری غزل کی آبرو

فراق ؔ گورکھپوری غزل کی آبرو

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

نیو کریم گنج، گیا(بہار،انڈیا

فراق ؔ گورکھپوری غزل کی آبرو

        فراق گورکھپوری کی تاریخ ولادت  28؍اگست1896ء  ہے اور تاریخ وفات  3؍مارچ1982ء ہے ۔ فراق کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف معیاری اردو شاعری کے اعتراف کئے جانے کے مترادف ہے ۔ گیان پیٹھ ، پدم بھوشن اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ لے کر انھوں نے اردو شاعری کی شان میں اضافہ کیا ہے ۔ ایسے بڑے اور معتبر شاعر کو ان کے یوم ولادت اور یوم وفات پر ضرور یاد کیا جانا چاہئے ،تاکہ نئی نسل ایسے عظیم شاعر کو نہ صرف واقف ہو بلکہ ان کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے اردو زبان و ادب میں اضافہ کرے ۔ افسوس کہ فراق کا یوم وفات آکر گزر گیا ،لیکن اس مارچ ماہ میں انھیں اپنے ہی ملک میں انھیں یاد نہیں کیا گیا ۔ اس سلسلے میں امریکہ کے شہر نیؤ یارک کی ایک اہم ادبی تنظیم کاروان فکر و فن ، جس کے روح رواں معروف صحافی اور شاعر وکیل انصاری ہیں۔انھوں نے پیش رفت کرتے ہوئے فراق کی یاد میں بڑا جلسہ منعقد کیا ۔ جس میں کئی مشایر ادب کے ساتھ ساتھ میںمعروف ادیب ڈاکٹر سید تقی عابدی نے  سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے فراق کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ۔

         ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ اردو شاعری کی آبرو اگر غزل ہے تو غزل کی آبرو فراقؔ ہیں ۔ انہوں نے اردو غزل کو نیا انداز ، نیا لب و لہجہ اور نئی قدروں سے رو شناس کرایا ۔خاص طور پر رومانی اور عشقیہ شاعری میں مطالعہ و مشاہدہ کی گہرائی و گیرائی اور خیالوں کا نیا پن ، لب و لہجہ میں بے ساختگی ، حسن و عشق، وصل و ہجر ۔ وفا اور جفا کی بیشتر داستانیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ ان میں فراقؔ نے ایک نئی روح پھونک دی ہے اور تکلف و تصنع کو ختم کرکے ایسی سادگی ، شادابی اور شگفتگی بخشی کہ وہ پوری اردو غزل پر چھاگئے اور جس غزل کو کلیم الدین احمد نے آرام کا مشورہ دیا تھا ۔وہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ سامنے آئی اور فراقؔ کے کلام کو دیکھ کرکلیم الدین احمد کو یہ کہنا پڑا کہ :

  ’’ان (فراق) کے شعروں میں خیالات کی گہرائی ہے ،وہ زندگی اور محبت کے نکات پر ’’تبصرے‘‘ کرتے ہیں ،اوراتنا لطیف و عمیق کرتے ہیں کہ شاعری سے علیٰحدہ ایک مستقل لذت محسوس ہونے لگتی ہے۔‘‘

         دلچسپ بات یہ ہے کہ کلیم الدین احمد نے فراق گورکھپوری کی غزلوں کے بارے میں اس زمانہ میں ان خیالات کا اظہار کیا تھا، جب فراقؔ کی غزل گوئی بالیدگی کی سرحدوں میں داخل نہیں ہوئی تھی اور وہ ندرت اور کیفیت پیدا نہیں ہو ئی تھی جنہیں آج شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے ۔

         فراق کی غزلوں میں دو عناصر نمایاں طور پر نظر آتے ہیںاوّل حسن و عشق کی کیفیتیں اور دوئم دردو کرب کا احساس۔

         فراق رومان پسند اور حسن پرست تھے جس نے ان سے کئی عشق کرائے، عشق میں انہوں نے حسن کو قریب سے دیکھا ، اس کے لمس کو محسوس کیا اور پھر وفا اور جفا کے مرحلوں سے دوچار ہوئے ۔ اس لئے جہاں ایک طرف حسن کی گرمی نے انہیں سکون ، اطمینان اور راحت پہنچائی تو دوسری طرف محبوب کی بے وفائی نے انھیں آٹھ آٹھ آنسو رُلایا ۔ تڑپایا اور بے قرار کیا ۔ فراق نے اپنے ایک خط میں اپنے کئی عشق کا ذکر اس طرح کیا ہے  :

  پہلا عشق ۱۲ دسمبر ۱۹۱۴ء کو ہوا جو چند ہفتوں کی خوشگواریوں کے بعد ناقابلِ برداشت ناکامی میں تبدیل ہوگیا اور یہ پہلا عشق دس بارہ برس تک مسلط رہا۔

       دوسرا زبردست عشق دیڑھ برس تک رہا پھر کسی ان بن یا ناخوشگواری کے بغیر ہم دونوں کو ایک دوسرے سے جدا ہونا پڑا۔

        تیسرا عشق کئی برس بعد ہوا (تقریباً ۱۹۲۹ء میں) جو اندازاً سال بھر اسی طرح چلتا رہا کہ کبھی انتہائی خوش اور کبھی انتہائی ناکامی۔

         اس کے تین برس بعد ایک زبردست عشق ہوا جس میں اندازاً سال بھر خوش رہ کر بعد میں آٹھ آٹھ آنسو رونے کی نوبت آئی۔

     پھر سات برس کے بعد ایک بہت زبردست عشق ہوا جو پانچ یا چھ ماہ تک خوشگوار رہ کر ایک مستقل عذاب میں بدل گیا ۔’’شام کی عبادت‘‘ اسی عشق کی دین ہے۔

      اس کے بعد میرا موجودہ رومان ۱۹۵۰ء میں شروع ہوا اور یہ رومان شدید ہونے کے بجائے گہرا اور خاموش ہے اور جذبۂ محبت بہت مستقل اور متوازن ہے ۔ہوتا یہ رہا کہ جب کسی معشوق سے تعلقات ٹوٹنے لگے یا ٹوٹ گئے ہیں تو ایک لمبے وقفے کے لئے کسی اور سے محبت کرنا ناممکن ہوجاتا تھا ۔ بچھڑے ہوئے معشوق کو بھلائے بغیر بھی جھک مار کر یا آزمایشاً کچھ لوگوں سے میں نے محبت کی ہے لیکن یہ تجربے قبل از وقت ہوتے تھے۔‘‘

         اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ فراقؔ نے اپنی حسن اور رومان پسندی اور پرستی کی وجہ سے کئی عشق کئے  ۔ اور جو بھی عشق کیا وہ بقول فراقؔ ’’زبر دست ‘‘’’شدید‘‘ اور ’’گہرا‘‘ کیا ۔

         اس لئے ان زبردست، شدید، اور گہرے عشق کا اثر بھی فراق کے دل و دماغ نے ’’ز بردست‘‘ ، ’’شدید‘‘ اور ’’گہرا‘‘ قبول کیا     ؎

تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو

تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں

٭

جسم نازنیں میں سرتا پا نرم لویں لہرائی ہوئی سی

تیرے آتے ہی بزم ناز میں جیسے کئی شمعیں جل جاتیں

٭

کون اے دوست اتنا پیارا ہے

ہم سوا تیرے کسی کو پیار کریں

٭

دل میں یوں بیدار ہوتے ہیں خیالات غزل!

آنکھیں مَلتے جس طرح اٹھے کوئی مست شباب

٭

قیامت ہے کہ کہسار پہ چڑھتا ہوا دن ہے

جوبن ہے کہ چشمۂ خورشید میں طوفان

٭

چپکے چپکے اٹھ رہا ہے مد بھرے سینوں میں درد

دھیمے دھیمے چل رہی ہے عشق کی پر وائیاں

٭

حیات ہے محبت سر بہ سر محبت       محبت زندگی کا دوسرا نام ہے

شاخِ گل جس طرح ہوا سے مُڑے

یاد ہے تیرے روٹھنے کی ادا

٭

کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں

عشق توفیق ہے گناہ نہیں

         فراقؔ جب عشق کی گرمی ، حسن کی شعلگی کو قریب سے دیکھنے، محسوس کرنے اور پھر لمس کے حدود سے بھی آگے بہت آگے بڑھ جاتے تو وہ اس کی قربت اور خود سپردگی کے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں اس کا اظہار یوں کرتے ہیں    ؎

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

تیرے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

٭

جسم اس کا نہ پوچھئے کیا ہے

ایسی نرمی تو روح میں بھی نہیں ہے

٭

تیرا جمال ہے یا نغمۂ بہشت کی لَے

کہ آج تک تو نہ دیکھا تھا یہ بدن کا رچاؤ

٭

جہاں پڑتی ہیں آنکھیں اس بدن پر

تبسم ہائے پنہاں دیکھتا ہوں

٭

اے جسم نازنیں نگار نظر نواز

صبح شب وصال تیری ملگجاہٹیں

          اس کے بعد جب فراقؔ کو محبوب کی بے وفائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کی یادیں، درد، کرب، گھٹن اور تڑپ بن کر دل کو بے چین اور بے قرار کرتی ہیں پھر دل کی گہرائیوں سے ایسے اشعار نکلتے ہیں جن میں سوزو گداز ، درد و کرب ، احساس کی تڑپ ، جذبات کا بکھراؤ  تمام تر فنی رچاؤ کے ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں   ؎

کوئی افسانہ چھیڑ تنہائی       رات کٹتی نہیں جدائی کی

٭

کیا بزم دوستاں تھی ابھی کل کی بات ہے

معلوم ہو رہا ہے کہ صدیاں گزر گئیں

٭

پھر یہ کیسی کسک سی ہے دل میں        تجھ کو مدت ہوئی کہ بھول چکا

اتنا نہ ہو بے قرار اے دل خود کو بھی تو کچھ سنبھالتے ہیں

٭

یارب جو یہ دی سزائے ہستی

آخر کوئی قصور میرا

٭

تم اپنے جور کو دینا نہ الزام

یہ آنسو اتفاقاً آگئے ہیں

٭

یوں تو رونے سے کچھ نہیں ہوتا

جی نہیں مانتا تو کیا کیجئے

٭

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

٭

غرض کہ کاٹ دیئے زندگی کے دن اے دوست

وہ تیری یاد میں ہوں یا تیرے بھلانے میں

         یہ تمام اشعار ایسے ہیں جن سے فراقؔ کی دردناکی اور کربناکی کا اظہار ہوتا ہے ۔ میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ فراقؔ کی غزلوں میں دو عناصر نمایاں ہیں ،حسن و عشق اور دردو کرب ، لیکن حسن و عشق کی جو کار فرمائیاں ہیں وہ تو ہیں ہی ۔ درد و کرب جو فراق ؔ کی زندگی میں پوری طرح سرایت کیا ،اس کے دو نمایاں سبب نظر آتے ہیں ۔اول تو محبوباؤں کی بے التفاتی کا غم اور دوئم فراقؔ جیسے حسن اور رومان پرست اور حساس انسان کی شادی ایک بدصورت ان پڑھ لڑکی سے ہونا۔ جس نے پیغام مسرت دینے کے بجائے عمر بھر کے لئے فراقؔ کو ایک روگ میں مبتلا کردیا اور اس روگ کو فراقؔ عمر بھر ڈھوتے رہے جھیلتے رہے چاہتے تو وہ اس روگ سے بآسانی چھٹکارا حاصل کرسکتے تھے لیکن فراقؔ کے اندر کے انسان نے ایسا کرنے سے باز رکھا ۔ فراق خود اس کا اظہار یوں کرتے ہیں۔

’’ میری شادی نے زندگی کو ایک زندہ موت بنا کر رکھ دیا۔ زندگی کے عذاب ہوجانے کے باوجود میں نے خود کشی نہیں کی ، نہ پاگل ہوا ،نہ جرائم پیشہ بنا ، نہ زندگی کی ذمہ داریوں سے دست بردار ہوا۔ اس لئے شدید حسن پرستی کے باوجود زندگی کی شرافت کی جو قدریں مان چکا تھا ان کا میں نے سہارا لیا۔۔۔۔۔۔‘‘

’’بیوی کو مستقل طور پراس کے میکے بھیج دینا یہ بھی بڑا ظلم معلوم ہوتا تھا ۔ اس لئے ساتھ رہنا اور برابر غصہ اور نفرت ، بے دلی اور بد دلی کے ساتھ جیتے رہنا میرے حصے میں آیا۔‘‘

(نیا دور، فراق نمبر، عبدالقوی دسنوی)

         فراقؔ کے حصے میں اس طرح درد وکرب ، گھٹن و اضطراب زیادہ آیا۔ بہ نسبت لمحاتی مسرتوں اور خوشیوں کے ۔ اور فراق اپنی پوری زندگی انھیں لمحاتی خوشیوں اور مسرتوں کو سینے سے لگائے جیتے رہے ۔اور بقول کلیم الدین احمد:

    ’’ حسرتؔ و فانیؔ کی طرح فراقؔ کا دل بھی زخمی ہے اور ان کی آواز بھی درد بھری ہے ۔ لیکن وہ بھی حسرت کی طرح کبھی آواز بلند نہیں کرتے ۔ چیخ و پکار سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنی درد بھری داستانوں کو نرم، دھیمی ، شیریں آواز میں بیان کرتے ہیں ۔ درد کی شدت میں وہ بھی اپنی آواز پر قابو رکھتے ہیں اور اسے بلند آہنگ نہیں ہونے دیتے ہیں۔‘‘

         حقیقت تو یہ ہے کہ فراقؔ کے اوپر دکھ درد کے پہاڑ اتنی بار ٹوٹے ،اتنی بار ان سے واسطہ پڑا کہ انھیں اپنے دکھ ،درد ،کرب، گھٹن اور

 غم سے بھی پیار ہوگیا اور وہ عمر بھر انہیں خوشی خوشی جھیلتے رہے،بلکہ یہاں تک کہنے پر مجبور ہوئے کہ    ؎

سوز غم سے نہ ہو جو مالا مال

دل کو سچی خوشی نہیں ملتی

٭

وہ تو کوئی خوشی نہیں جس میں

درد کی چاشنی نہیں ملتی

٭

یہ تو نہیں کہ غم نہیں

ہاں مری آنکھ نَم نہیں

٭

غرض کہ کاٹ دیئے زندگی کے دن اے دوست

وہ تیری یاد ہو یا تیرے بھلانے میں!

٭

اکثر شب ہجر دوست کی یاد       تنہائی کی جان ہوگئی ہے

         یہ تو ہوئی باتیں فراقؔ کی اچھی اور کامیاب غزل گوئی کے محرک کی ۔ اب آئیے دیکھیں کہ وہ کون سی خصوصیات ہیں جن کے سبب فراق ؔیہ کہنے پر خود مجبور ہوئے کہ   ؎

ختم ہے مجھ پہ غزل گوئی دور حاضر کی

دینے والے نے وہ اندازِ سخن مجھ کو دیا

٭

سن لو کہ فراقؔ آج یہاں گرم نوا ہے

اس دور میں اقلیم سخن کا وہ شہنشاہ

٭

غالبؔ، میرؔ، مصحفی ؔ       ہم بھی فراقؔ کم نہیں

         عصر حاضر میں اگر فراقؔ کی عظمت غالبؔ، میرؔ اور مصحفیؔ سے زیادہ نہیں ہے تو کم بھی نہیں ۔ اس لئے کہ فراقؔ جب حسن و عشق کو الفاظ کے ذریعے شعر کا روپ دیتے ہیں تو حسن و عشق اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں ، عشوہ طرازیوں ، نزاکتوں اور لطافتوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں اور آنکھوں کے سامنے ایک نقشہ سا گھوم جاتا ہے ۔اور ایسا سحر پیدا ہوتا ہے ،ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ بس ’’شعلہ سا لپک جائے ہے انداز تو دیکھو‘‘ کا تاثر پیدا ہوتا ہے اور جب فراقؔ دردو غم ، کرب اور گھٹن کو موضوع سخن بناتے ہیں تو دل و دماغ ، ذہن سبھوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ اور ایسا اثر آگیں احساس پیدا ہوتا ہے کہ قاری ان میں ڈوب کر رہ جاتا ہے اور بے اختیار فراق سے ہمدردی کا جذبہ ابھرنے لگتا ہے اور یہ اس لئے بھی ہوتا ہے کہ فراقؔ کے جذبے کی صداقت ، احساس کی شعلگی،مشاہدے کی گہرائی اور مطالعے کی گیرائی کے ساتھ ساتھ نادر تشبیہہ ، استعارے ، علامتیں اور اشارے اور کنائے بڑی سادگی لیکن پرکاری کے ساتھ بغیر کسی تکلف اور تصنع کے ساتھ سامنے آتی ہیں جو سیدھے دل میں اترتی چلی جاتی ہیں۔

         فراقؔ کی ان خصوصیتوں کا ذکر اردو ادب کے تقریباً تمام اہم اور معتبر ناقدوں نے کیا ہے ۔ پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں:

  ’’ اگر احساسات کی لطافت ، جذبات کی شدت اور حسن اظہار کی ندرت غزل میں ایک جگہ دیکھنا ہو تو فراقؔ کی غزلیں دیکھنا چاہئے۔ وہ ان سب کا کیمیاوی امتزاج پیش کرتی ہیں۔‘‘ (شعرستان  ص  ۲)

         فراقؔ نے ہمیشہ اپنے فکرو احساس کے اظہار کے لئے نیا انداز ، نیا اسلوب اور بالکل نیا لب و لہجہ اپنایا ۔ اور برابر ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ روایتی قسم کی فکرو خیال کے بجائے بالکل نئی فکر، نئے احساس کو اپنی غزلوں میں سموئیں جن میں سادگی ، حسن اور شگفتگی کی رنگا رنگ کیفیت ہو۔

         غزل کیسی ہونی چاہئے اس کی تعریف فراقؔ نے اس طرح بیان کی ہے  :

  ’’ غزل انتہاؤں کا ایک سلسلہ ہے A Series of Climatesیعنی حیات و کائنات کے وہ مرکز ی حقائق جو انسانی زندگی کو زیادہ سے زیادہ متاثر کرتے ہیں ۔ تاثرات کی انہیں انتہاؤں کا مترنم خیالات یا محسوسات بن جانا اور مناسب ترین یا موزوں ترین الفاظ و انداز بیان میں ان کی صورت پکڑ لینا اسی کا نام غزل ہے ۔‘‘                (حرمت الاکرام۔ نیا دور  فراقؔ نمبر)

         اپنے اس خیال پر فراقؔ ہمیشہ قائم رہے اور غزل کے پر تکلف اور تصنع بھرے انداز کو بدلا ۔اور نیا انداز ، نیا لب و لہجہ اور مخصوص فکر و آہنگ سے اردو غزل کو روشناس کرایا جن سے متاثر ہوکر نیاز فتح پوری جیسا اردو ادب کا جید عالم اور ناقد یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ  :

   ’’ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ آج کے شعراء میں سب سے درخشاں مستقبل کس کا ہے تو میں تنہا فراق کا نام لوں گا ۔ فراق ؔ کی شاعری میں وہ لطافتیں اور نزاکتیں ہیں ،جن سے زیادہ بہتر لطافتوں یا نزاکتوں کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

         حقیقت یہ ہے کہ فراقؔ نے اپنی غزلوں کو اپنے گہرے مطالعے ، عمیق مشاہدے ، لطیف احساسات و جذبات ، فکر و خیال اور فن کی ندرت ، تازگی ، شگفتگی ، خوب صورت لب و لہجہ نادر تشبیہات ، استعارات اور علامتوں کی جدت طرازیوں سے مالامال کیا ہے۔ اور بے شک پوری ادبی دنیا میں فراقؔ کا نام میرؔ، غالبؔ، مصحفیؔ اور حسرتؔ وغیرہ کے بعد امر ہے اور امر رہے گا ۔ فراقؔ کا یہ شعر جو حقیقت کا آئینہ دار ہے فراقؔ کی یاد دلاتا رہے گا ۔ جو فراقؔ کی عظمت کا بھی نقیب ہے۔

آنے والی نسلیں تم پر رشک کریں گی ہم عصرو!

جب یہ دھیان آئے گا ان کو تم نے فراقؔ کو دیکھا ہے

٭٭٭

Leave a Reply