You are currently viewing فروغِ اردو میں شعبۂ اردو گورنمنٹ آرٹس کالج کوٹہ کی ادبی خدمات

فروغِ اردو میں شعبۂ اردو گورنمنٹ آرٹس کالج کوٹہ کی ادبی خدمات

ڈاکٹرترنم

کوٹہ ، راجستھان

فروغِ اردو میں شعبۂ اردو گورنمنٹ آرٹس کالج کوٹہ کی ادبی خدمات

         سر زمین ِ راجستھان ایک طرف جہاں اپنے ریگستانی مزاج کے لیے مشہور ہے وہیں دوسری طرف اس کی سر سبزی اور شادابی بھی ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔راجستھان کا مشرقی علاقہ ندیوں کی روانی کی بدولت سر سبز و شاداب ہے۔کئی ضلع ان ندیوں کے ساحلوں پر آباد ہیں جن میں کوٹہ بھی شامل ہے۔یہ ضلع کئی خصوصیات کے باعث ہندوستان میں اپنی مخصوص پہچان بنا چکا ہے۔ان میں کوٹہ ڈوریہ ،کوٹہ اسٹون،کوٹہ کچوری،اور آئی آئی ٹی،جے ای ای اور نیٹ NEETکے لیے کوچنگز خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔اس کے ساتھ ہی یہاں تعلیمی ادارے بھی ہیں جو میدانِ تعلیم میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔انہیں میں سے ایک ادارہ گورنمنٹ کالج کوٹہ ہے۔

         یہ کالج ۲۵ مارچ ۱۹۰۹ء کو ہربرٹ ہائی اسکول کی شکل میں کوٹہ کے مہاراؤ عمید سنگھ جی دوم کی متحرک قیادت اور پہل کے تحت قائم ہوا۔ہربرٹ اسکول کی عمارت کو ہاڈوتی علاقے کی سب سے شاندار عمارتوں میں سے ایک کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔موجودہ دور میں اسے ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا گیا ہے۔

         ۱۹۲۴ء تک آتے آتے اس اسکول نے انٹر مڈئیٹ کالج کی شکل اختیار کر لی۔پھر ۱۹۴۸ء میں ڈگری کالج تسلیم کیا گیا۔۲۰۱۴ء میں گورنمنٹ کالج سے آڑٹس کالج کو علاحدہ کر دیا گیا اور تب سے یہ کالج گورنمنٹ آرٹس کالج کے نام سے اپنی ایک منفرد پہچان قائم کر چکا ہے۔

         آزادی کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ یہ کالج ترقی کی منازل طے کرتا گیا اور کئی شعبے قائم ہوتے چلے گئے۔۱۹۷۱ء میں اس کالج میں شعبۂ اردو قائم ہوا اور بی۔ اے۔ کی تعلیم کا آغاز ہوا۔پھر ۱۹۸۱ء میں ایم۔ اے۔ کی سطح پر اردو کی تعلیم شروع ہوئی۔اس کے ساتھ ہی کوٹہ شہر اور اس کے اطراف و جوانب میں اردو پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

         اس شعبہ کے اساتذہ نے اپنی محنت اور قابلیت کے دم پر شعبے کی ترقی میں اپنا تعاون کیا۔ان اساتذہ میں جناب احتشام اختر پاشہ ،جناب رفعت اختر،ڈاکٹر قمر جہاں بیگم،ڈاکٹر فاروق بخشی،جناب ارشد سراج،ڈاکٹر حسن آراء اورڈاکٹر نادرہ خاتون شامل ہیں۔دورِ حاضر میں ڈاکٹرمحمد نعیم(صدر ِ شعبۂ اردو) ڈاکٹر نصرت فاطمہ ،محمد ابراہیم ،ڈاکٹر فخرالنساء بانو،اور علی رضا شعبے کے وقار کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔

         اس شعبہ سے اب تک ہزاروں طلبہ علم حاصل کر کے اپنے مستقبل کو سنوار چکے ہیں۔ڈاکٹر طاہرہ بانو،ارشد سراج،ڈاکٹر شیریں فاطمہ، ڈاکٹر اشفاق منصوری،شمشاد بیگم،ڈاکٹر ایوب خان،آمنہ خاتون،ڈاکٹر صدرالنساء،روبینہ ،نوربی،تاج رضا، اظہر بیگ،عرفان انصاری،عبدالحمید سلطان پوری، محمد حمزہ،اور ان کے علاوہ سینکڑوں طلبہ ہیں جو سرکاری ملازمت میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

         ملازمت کے علاوہ میدان ِ شعر و ادب میںبھی اس شعبے کے طلبہ اپنی صلاحیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ ان میں شکور انور،ظفر غوری،ابرار دانش، عبدالحمید سلطان پوری،پرشوتم یقین،شاہد پٹھان، ریاض انصاری ،بے بی شبانہ ،ارشاد غوری،وغیرہ کے نام خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔

         اس شعبے سے ایم ۔فل۔ اور پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کی سطح پر تحقیقی کارنامے بھی انجام دئیے گئے ہیں۔۲۰۰۴ء میں شعبۂ اردو میں ایم۔ فل۔ کا سلسلہ شروع ہوا۔یہ اساتذہ کی کاوش کا نتیجہ تھا۔یہ سلسلہ دو سیشن تک قائم رہا جس کے تحت مندرجہ ذیل طلبہ نے ایم فل کی سند حاصل کی۔

         انجم آراء (موضوع۔عبدالجبار راہی کی علمی اور شعری خدمات،۲۰۰۹ء )،سیدہ انجم(موضوع۔راجستھان کے نامور نظم گو شاعر ملک الشعراء منشی شمبھو دیال دانش،۲۰۰۹ء )،ثمینہ(موضوع۔ راجستھان میں تذکرہ نگاری کی روایت اور تذکرے،۲۰۰۹ء )،عنبرین رحمٰن(موضوع۔مولانا اسد الدین حیات اور خدمات،۲۰۰۹ء )،آمنہ خاتون (موضوع۔فضا جوکالوی فن اور شخصیت،۲۰۰۱۰ء)،شاہین پروین(موضوع۔کوٹہ کے نوجوان شعراء کی شعری خدمات،۲۰۱۰ء)،صادقہ انصاری(موضوع۔حضور احمد شفق کی شعری و ادبی خدمات،۲۰۱۰ء ) ان سبھی طلبہ کی نگراں ڈاکٹر قمر جہاں بیگم ہیں۔

         ڈاکٹر فاروق بخشی کے زیر نگرانی بے بی شبانہ(موضوع۔راہیؔ شہابی بحیثیت شاعر،۲۰۱۰ء) نے اپنا ایم فل کا مقالہ مکمل کیا۔

         شمشاد بیگم(موضوع۔مولانا روحی ۔بحیثیت شاعر ایک مطالعہ،۲۰۰۹ء )،رفیعہ تبسم(موضوع۔اردو میں منظوم داستانوں کی روایت،۲۰۰۹ء )، نعیم پٹھان(موضوع۔پرشوتم یقین ۔حیات اور شعری خدمات،۲۰۰۹ء )ناظمہ بانو(موضوع۔مولانا محمد عمران خان کی حیات،علمی و ادبی خدمات،۲۰۰۹ء  )،نیلوفر اکرام(موضوع۔توفیق کوٹوی کی حیات اور شعری خدمات،۲۰۰۹ء )کوثر جہاں (موضوع۔عمر حیات خان غوری کی حیات،علمی و ادبی خدمات،۲۰۱۰ء)، فوزیہ حسینی(موضوع۔مولانہ احتشام الدین شوکت عثمانی حیات اور ادبی کارنامے،۲۰۱۰ء )ان سبھی طلبہ نے ڈاکٹر حسن آراء کی زیر نگرانی اپنا ایم۔ فل۔ کا مقالہ مکمل کیا۔

         شاہراہ بانو(موضوع۔گیان چند جین کی تصنیف۔ایک بھاشا دو لکھاوٹ دو ادب کا تنقیدی جائزہ،۲۰۰۹ء ) ،شاہ نواز اختر(موضوع۔عزیز مانگرولی شخصیت اور شعری خدمات ،۲۰۰۹ء )،صابر احمد(موضوع۔اسحاق محمد روشن کوٹوی کی شعری خدمات،۲۰۰۹ء )،محمد اشفاق منصوری(موضوع۔میکش اجمیری شخصیت،شعری خدمات اور انتخاب ِ کلام،۲۰۰۹ء )،ناز پروین(موضوع۔کمل شبنم حیات اور شعری خدمات،۲۰۰۹ء )،شیخ شبنم(موضوع۔ناول چاندنی بیگم ایک مطالعہ،۲۰۱۰ء)،عبد الحفیظ(موضوع۔ظفر غوری شخصیت،شعری خدمات اور انتخابِ کلام،۲۰۱۰ء)ان سبھی طلبہ کے نگراں ڈاکٹر محمد نعیم ہیں۔ یہ تقریباً ۲۲ طلبہ ہیں جنہوں نے ۲۰۰۹ء او ر۲۰۱۰ء میںاس شعبے سے ایم۔ فل۔ کی اسناد حاصل کیں۔

         چند وجوہات کے باعث یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکااور ایم۔ فل۔ بند ہو گئی۔لیکن تحقیق اور تنقید کا یہ سلسلہ یہاں تھما نہیں اور پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کی اعلیٰ سند کے ذریعہ یہ کارواں آگے بڑھا۔راقمہ یہاں ان طلبہ کا ذکر کر رہی ہے جنہوں نے اس شعبے کے اساتذہ کی نگرانی میں پی ۔ایچ۔ ڈی۔ کا مقالہ مکمل کیا۔ ان میں ڈاکٹر فریدہ بانو (موضوع۔ڈاکٹر ابنِ فرید شخصیت اور ادبی خدمات ،نگراں ۔ڈاکٹر محمد نعیم۔۲۰۱۰ء) ڈاکٹر محمد وسیم اختر(موضوع۔مفتوں کوٹوی حیات و خدمات۔نگراں۔ڈاکٹر محمد نعیم۔۲۰۱۱ء)، ڈاکٹرارشاد علی غوری(موضوع۔مہدی نظمی حیات اور خدمات۔نگراں ۔ڈاکٹر فاروق بخشی۔۲۰۱۳ء)،ڈاکٹر ایوب خان(موضوع۔کلامِ فانی کی تقابلی فرہنگ۔نگراں ۔ڈاکٹر حسن آراء۔۲۰۱۳ء)،ڈاکٹرصدر النساء (موضوع۔راجپوتانہ کی قدیم ریاستوں کے قوانین ِ اردو ۔ایک جائزہ ۱۹۴۷ء تک۔نگراں ۔ڈاکٹر محمد نعیم۔۲۰۱۵ء )،ڈاکٹر پرشوتم سورنکار(موضوع۔شین ۔کاف۔ نظام شخصیت اور فن۔نگراں ۔ڈاکٹر فاروق بخشی۔۲۰۱۶ء)،ڈاکٹر سیدہ انجم(موضوع۔مولانا عبدالسلام بیگشفیق جھالاواڑی ۔حیات اور ادبی خدمات۔نگراں۔ڈاکٹر قمر جہاں بیگم۔۲۰۱۷ء)، ڈاکٹر ترنم(راقمہ نے بھی اسی شعبہ سے پی ۔ایچ۔ ڈی۔ کی سند حاصل کی ہے۔موضوع۔نذیر فتح پوری شخصیت اور ادبی کارنامے۔نگراں ۔ڈاکٹر حسن آراء۔۲۰۱۷ء)،ڈاکٹر بے بی شبانہ(موضوع۔ عقیل شاداب شخصیت اور فن۔نگراں۔ڈاکٹر حسن آراء۔۲۰۱۸ء)،ڈاکٹر محمد انعام الدین خان(موضوع۔جامعہ ۃالفلاح کی علمی اور ادبی خدمات۔نگراں۔ڈاکٹرمحمد نعیم۔۲۰۱۹ء)،ڈاکٹر اشفاق منصوری(موضوع۔راجستھان میں چند اہم ادبی انجمنوں کی ادبی خدمات۔نگراں۔ڈاکٹر قمر جہاں بیگم۔۲۰۲۰)،ڈاکٹر عبد الحفیظ (موضوع۔اردو نثر میں سیرت نگاری کا جائزہ۔نگراں۔ڈاکٹر محمدنعیم۔۲۰۲۱ء )،ڈاکٹر حنا کوثر(موضوع۔محبوب راہی شخصیت اور ادبی خدمات۔نگراں۔ڈاکٹر حسن آراء۔۲۰۲۲ء)نے پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کی اعلیٰ سند حاصل کی۔

         ان کے علاوہ کچھ طلبہ ابھی زیر تحقیق ہیں جن میںآمنہ خاتون(موضوع۔مولانا ایوب خان قمر واحدی حیات اور علمی و ادبی خدمات۔نگراں۔ڈاکٹر قمر جہاں بیگم)،شاکرہ بانو(موضوع۔اردو شاعری میں جدید اصناف کا سرخیل فراز حامدی۔نگراں۔ڈاکٹر حسن آراء)،راحیلہ فاطمہ انصاری(موضوع۔حضرت سید محمود الحسن صولت ٹونکی شخصیت اور شاعری۔نگراں۔ڈاکٹرحسن آراء)،شمشاد بیگم(موضوع۔کوٹہ کے نمائندہ شعراء آزادی کے بعد ۔نگراں۔ڈاکٹر حسن آراء)،روبینہ بانو(موضوع۔شبنم سبحانی کی تنقید نگاری۔ نگراں ۔ ڈاکٹر محمد نعیم)،روبینہ(موضوع۔شفیقہ فرحت حیات اور ادبی خدمات۔نگراں۔ڈاکٹر محمد نعیم)وغیرہ شامل ہیں۔

         حال ہی میں کوٹہ یونیورسٹی میں پی ۔ایچ ۔ڈی۔ کے لیے چار طلبہ اور رجسٹرڈ ہوئے ہیں ۔فی الحال ان کے مقالے کے عنوانات طے نہیں ہوئے ہیں۔ان کے اسمِ گرامی محمد فہیم،سبرینا خان،وشال کنوجیہ اور علی رضا ہیں۔ان سبھی کی نگراں ڈاکٹر نصرت فاطمہ ہیں۔   مختصراً یہ کہ اردو ادب کے فروغ میںاس شعبہ کا اہم کردار رہا ہے۔یہ شعبہ ایک روشن مینار کی مانند ہے جس کی روشنی نے ہزاروں طلبہ و طالبات کے مستقبل کو روشن کیا ہے۔اس کی روشنی بہت دور تک پھیلی ہے اور بہت دیر تک پھیلتی رہے گی انشاء اللہ۔

***

Leave a Reply