You are currently viewing فکرِ اقبال کا امتیاز

فکرِ اقبال کا امتیاز

پروفیسر عبد الحق

پروفیسر ایمٹس ، دہلی یونیورسٹی

فکرِ اقبال کا امتیاز

         اقبال کی شخصیت افکار کے حسین امتزاج سے عبارت ہے قلندر کے کشکول میں فکرو فلسفہ کے مختلف سرچشموں کا اجتماع ایک مرقع کی مانند ہے جس میں مشرق ومغرب کے دین ودانش کے لطیف نقش ونگار کی نورفشاں صورتیں موجود ہیں ۔فکرونظر کے دبستانوں کی اجتماعیت کی یہ تصویر کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ اقبال کا فکری امتیاز ہے ۔اور اعزاز بھی ۔افکار کی آمیزش نے ان کے قلب ونظر میں طوفان وتلاطم کا اضطراب پیدا کیا ہے مشہور نظم ساقی نامہ میں اس خلش کا اظہار ہوا ہے ۔

مری فطرت آئینہ روزگار

غزالانِ افکار کا مرغزار

         اس نظم میں شمع نفس کا فروزاں ہونا اور تابِ گفتار کی بے بسی کا اقرار دوسرا اشارہ ہے ۔قلب ونظر کی دنیا دگرگوں حالات سے دوچار ہے ۔ ان کے دل میں غوغا ئے رُشتاخیز کی گردش تیز اور طوفاں بدوش ہے ۔بت کدۂ تصورات کے ہجوم روزوشب کے پیچ وتاب کی کشمکش میں اضافہ کیا ہے ۔ اس رازِ دروں کو سینا وفارابی بھی سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ اقبال نے اپنے قارئین سے ان کے دل میں اتر کر جھانکنے کی درخواست کی ہے ۔ ان کا اصرار ہے کہ اس تفکیری طوفان کے اظہار کے لیے کئی سمندر درکار ہیں ۔ اسرارِ خودی کی تمہید کے یہ اشعار اسی حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں۔

برقہا خوابیدہ درجانِ من است

کوہ وصحرا بابِ جولانِ من است

درنمی گنجد بجو عُمّان من

بحرہا باید پئے طوفانِ من

         اقبال نے فکرو فلسفہ کے تعلق سے ایک بڑی تاریخی ادراک کا اشارہ کیا ہے۔ کہ انسانی فکر ہر دور میں نئے بت تراشتا ہے اور پرستش کے لیے صنم کدے آباد کرتا ہے۔

فکرِ انساں بت پرستے بت گرے

ہر زماں در جستجوئے پیکرے

         فلسفہ کی بت تراشی نے نسلِ انسانی کو بہت نقصان پہنچایا ہے حقیقتِ اولیٰ کا ادراک وعرفان نہ ہو تو یہ گمراہی اور ہلاکت کا باعث بنتا ہے ۔ اسی لیے اقبال دانشِ نورانی اور دانشِ برہانی کو ملزوم قرار دیتے ہیں ۔فکر ونظر کی آزادی عفتِ فکر کے تابع ہے ۔جاوید نامہ میں یہ نکتہ بیان ہوا ہے ۔

زندگی از گرمئ ذکر است وبس

حریت از عفتِ فکر است وبس

         عفتِ فکر لازمۂ حیات ہے ۔ اقبال فکر ونظر کی پاکیزگی یعنی تفکیری تطہیر پر زور دیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ دل ودماغ کا ایمان ویقین کے نور وسرور سے منور ہونا ضروری ہے ۔ نتشے کی تنقید میں یہی نکتہ پیشِ نظر ہے ۔

قلبِ او مومن دماغش کا فراست

         اقبال کے فلسفہ وفکر کی روح میں دینِ جبین کی جلوہ نمائی ہے ان کا نظام فکر جاوداں اقدار کا متحمل ہوسکا ہے ۔اقبال کے خیال میں مجرد فکر حقائقِ زندگی کا ادراک کرنے سے قاصر ہے ۔فلسفہ زندگی سے دوری کا نام اور زہر ہلاہل ہے اگر یہ دین کے تابع ہو تو۔

ہو دین کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک

نظم ‘طلوعِ اسلام’ کا یہ شعر بھی دلیل ِ روشن ہے ۔

ولایت پادشاہی، علمِ اشیا کی جہاں گیری

یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں

         ‘ضرب کلیم کلیم ’ کا یہ شعر ذہن میں رہے کہ دین وایمان ہی مسلکِ زندگی کی تقویم ہیں۔

دیں مسلکِ زندگی کی تقویم

دیں سرِّ محمد ؐ و براہیم

         اقبال ایک مفکر شاعر کی حیثیت سے عالمی ادب کے سرمایۂ سخنوری میں ایک خاص امتیاز رکھتے ہیں وہ ایک مربوط اور منظم نظامِ فکرکے مالک ہیں جو شعری اسالیب کے ساتھ نثری پیرایۂ بیان میں بھی محفوظ ہے ۔ ان کی فکر کے کچھ پہلو قابلِ ذکر ہیں ۔ فکر اقبال کا بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ دعوتی اور پیامی ہے ۔ وہ مقاصدِحیات کے تابع ہے۔فکر اقبال متحرک اور فعال ہے ۔جامد یا ساکت نہیں ۔وہ مختلف فکری تصورات پر صرف غور وفکر میں محو نہیں ہے ۔ یا فلسفہ کی پیچیدگیوں میں الجھنے یا خرد کی گتھیاں سلجھانے میں مشغول نہیں ہے بلکہ فکر کی عملی صورت پیش کرنے کو حاصل سمجھتی ہے ۔ وہ تخلیقی ہے ۔وجود ونمود سے ایک ظاہری پیکر میں منتقل ہوتی ہے ۔مجرد فکر میں غرق رہنا خیال ِ خام کے مترادف ہے ۔ اور ہلاکت کاموجب بھی ۔ فلسفہ کو خونِ جگر میں تحلیل کرنا ضروری ہے ۔ خونِ جگر کی اصطلاح کا مفہوم مشقت ومجاہدے کا عمل ہے ۔ اسی عمل سے سنگِ خارہ لعلِ ناب میں بدلتا ہے ۔ بکھرے ہوئے پتھروں کے ٹکڑوں سے مسجدِ قرطبہ ،اہرام ِ مصر اور تاج محل کی تعمیر ہوتی ہے ۔ یہ سب خونِ گرم کی بدولت وجود میں آئے ہیں ۔ خونِ گرم کے چشمے جو انوں کے جسم وجان سے ابلتے ہیں ۔ اسی سے روحِ زمین بھی کانپتی ہے ۔تخلیقی نمو کے تمام مظاہر نسلِ نو کے گرم لہو سے فیضان حاصل کرتے ہیں ۔گویا فکر تخلیق کے تابع ہے اور تخلیق بے اماں لہو کی حرارت کی محتاج ہے ۔ جس کی سرگرمی وسرجوشی سے اسے دوام حاصل ہوتا ہے ۔ تخلیق کی ابد ی تصویریں مردانِ کار کے جہدِ مسلسل سے وجود میں آتی ہے اسی نکتے پر اقبال کی حکیمانہ نظر ہے ۔یہ صرف تخلیق پر ہی موقوف نہیں ہے ۔ بلکہ تغیروتبدیلی ، تحریک وتنظیم انقلاب واصلاح ایمان واقدار ، معاشرہ ومعمولات ِ زندگی میں اسی کی کار فرمائی ہوتی ہے ۔ اس طرح فکر اقبال کا امتیاز اس کی تخلیقی فعالیت ہے ۔ جو خارجی پیکروں کے نمود ووجود کے مضمرات پر مشتمل ہے ۔ یہ صرف تصورات کا مجموعہ نہیں ۔بلکہ یہ فعالیت سے تخلیق وتعمیر کے خارجی پیکروں کا نگار خانہ آباد کرتا ہے ۔فکرِ اقبال کا سب سے گراں قدر مثبت پہلو تعمیر وتشکیل ہے ۔ جو افراد اور معاشرے کے مزاج میں جہانِ نو کا اضطراب پیدا کرتا ہے ۔ بہ الفاظ دیگر یہ فکر تعمیری ہے ۔ اقبال کا قول ہے کہ فطرت جن شاہ کاروں کی تخلیق سے قاصر ہے ۔ا س کی تعمیر ہم پر واجب ہے ۔

بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت

جو اس سے نہ ہوسکا وہ تو کر ۱؂

         انہوں نے افکار کو نمود ِ پیہم اور وجود کی آشکارائی سے موسوم کیا ہے ۔ مردِ ِمومن بذات خود اسی جوہر سے متصف ایک پیکر خاکی ہے ۔ مگر وہ بندۂ مولا صفات بھی ہے ۔ اقبال فکر کے جامد تصور سے گریزاں ہیں ۔ ان کا دوسرا قول بھی حقیقت ِ ابدی کی حیثیت رکھتا ہے کہ جو فلسفہ خونِ جگر کی آبیاری سے عاری ہو وہ نزع کی حالت میں ہے یا مردہ ومردود ۔فلسفہ وفکر کے منکرات سے پرہیز لازم ہے ۔اقبال تسلیم کرتے ہیں کہ انسانی فکر ضدین کا مرکب ہے ۔جس میں پختہ وخام خیال پرورش پاتے رہتے ہیں ۔فکر ِ خام کی گزر گاہ نوعِ بشر کو ہلاکت کی طرف رہ نمائی کرتی ہے ۔ اور شرفِ انسانی کی روح کو سلب کرلیتی ہے ۔ صحائف میں فکروذہن کی زرتاب طہارت پر خاص تاکید قابل ِ غور ہے ۔خیال ہی سے عمل کو تحریک ملتی ہے اور جوش وجذبے کی سرشاری سے مادی مظاہر وجود میں آتے ہیں ۔یہی سرشار ی عشق کے جذب وشوق کی ترجمان بن جاتی ہے ۔اسی سے تخلیق کے مرقعے وجود میں آتے ہیں ۔

اے حرمِ قرطبہ عشق سے تیرا وجود

         خیال کا عمل کی رو سے مادی وجود میں آنا۔ فکرو عمل کے حسنِ ارتباط کا حاصل ہے ۔ فکرِ اقبال کو مادی مظاہر سے سروکار ہے ۔ مابعد الطبیعاتی یا خیال آرائیوں سے نہیں فکروعمل سے تمام وجود سطح زمین سے استوار ہوتے ہیں۔ اسی لیے اقبال کے یہاں ارضی مشاہدات اور مظاہر کا کثرت سے ذکر ملتا ہے ۔ کارِ جہاں کی دراز مصروفیت سے وہ دامن کشاں نہیں ہوتے ۔ گویا ان کی فکر مادی یا ارضی ہے یہی جو انسانوں کی بستی ہے ۔ فکر اقبال کا محور ومرکز یہی انسان ہے جوکائنات کی سب سے برگزیدہ مخلوق اور نیابتِ الٰہی کا سزاورا ہے یہی انسان اقبال کا مخاطب ِ اول وآخر ہے ۔یہیں سے یہ نکتہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ فکر عمل پر منحصر ہے اور عمل انسان کے خونِ گرم کا محتاج ہے ۔ انسان کے تمام مجاہدات معاشرہ کی تعمیر وترقی کے تابع ہیں ۔انفرادی جدوجہد اجتماعی فلاح وبہبود کے لیے وقف ہے ۔ اقبال کی حکیمانہ اصطلاح میں یہی خودی اور بے خودی ہے جو اقبال کا کلمۂ فکر بن کر قلب فکر ونظر کو منور کرتا ہے ۔اس خودی وبے خودی کا پیکر ِ وجود نوجوان ہے ۔ جس کے لیے مقام ومعاشرت ،ملت ومذہب لسان ولباس کی قید نہیں ہے ۔

کافر ومومن ہمہ خلقِ خدا است

         اقبال کی نظر میں صاحب اولی الامر کی غیرموجودگی میں دوسرا انسان قابلِ قبول ہوگا جس کی صفات ہیں ۔

یا جواں مردے چوں صرصر تند خیز

شہر گیرو خویش باز اندر ستیز ۲؂

         فکر اقبال کی یہی آفاقی شناخت ہے جو ہمہ گیر ہے اور جمعیت ِ آدم کی ہم سائگی کا پاسبان بھی ۔ اس میں جوانانِ تتاری ہیں تو نوجوان اقوام ِ نو دولت بھی شامل ہیں۔

جوانانِ تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے

………….

نوجواں اقوامِ نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش

         اقبال کی وسعتِ فکر دیکھیے کہ وہ آفاقی انسان کو مخاطب کرتے ہیں ۔

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں ہوتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد۳؂

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا

نگاہ جس کی ہو بے باک ضرب ہوکاری۴؂

         فکرِ اقبال کا یہی امتیاز ہے جو وسعتِ نگاہ کو آفاقی اقدار سے ہم آہنگ کرتا ہے ۔ ان کے فکرو نظر کی ایک نمایاں جہت اعتدال پسندی ہے مجرد فکر اور مادی پیکر کے ارتباط کا ذکر تھا۔ روح ومادہ بھی اسی حسنِ ارتباط کا مظہر ہے ۔ عقل وعشق ،مشرق ومغرب ،مذہب مابعدالطبعیات ،زمان ومکاں کے اختلاط میں فکر ِ اقبال نے توازن قائم کیا ہے ۔فکر کے اس اہم پہلو کو سمجھے بغیر بڑی بدگمانیاں پھیلائی گئیں ۔ان کی مشرقیت ،مذہبیت اور قدامت پسندی کے خلاف بے سوادی اور کم نگاہی نے تنقیدی آشوب کی مکروہ مثالیں پیش کیں۔جب کہ اقبال کا نقطۂ نظر ہے کہ مشرق ومغرب سے بیزاری فطرت کے تکوینی نظام کے خلاف ہے ۔ان کا مشہور قول ہے ۔

مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر

         انہوں نے بڑی صراحت سے واضح لفظوں میں اپنی فکری پرورش وپرداخت کے بارے میں اعتراف کیا ہے کہ ان کے فلسفہ وفکر میں مشرق ومغرب کا یکساں فیضان ہے ۔

خرد افزودمرا درسِ حکیمانہ فرنگ

سینہ افروخت مرا صحبتِ صاحب نظراں

         اقبال تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی فکرونظر میں مغرب کی حکمت ودانائی کے چراغ روشن ہیں تووہ دوسری جانب مشرق کے صاحبانِ نظر کی صحبتوں کے فیضان سے منور ہوا ہے ۔ اقبال کا یہ اقرار نامہ اتنی قطعیت کے ساتھ کلام میں کہیں اور نظرنہیں آتا۔ اقبال کے فلسفہ وفکر کے مطالعے میں یہ شعر حرفِ تقدیم ہی نہیں فکرِ اقبال کی سرنوشت ہے یہ خیال پیشِ نظر ہو تو تفہیم وترسیل میں تردد نہیں ہوگا ۔ اسی طرح جدید وقدیم کے اعتدال پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ اپنے کو درویش خدامست شرقی ہے نہ غربی کہہ کر متعارف کراتے ہیں وہ بندۂ آفاق ہیں اور مشرق ومغرب کے ہر قید سے آزاد بھی ۔اقبال کی قدامت پسندی یا رجعت پرستی پر بے جا تنقیدکی گئی ۔ حالاں کہ دو ٹوک لفظوں میں اقبال کا اعلانیہ موجود ہے اس بحث کو وہ دلیل کم نظری کہتے ہیں ؂

زمانہ ایک ،حیات ایک کائنات بھی ایک

دلیلِ کم نظری قصۂ جدید و قدیم ۵؂

         ہم بھول جاتے ہیں کہ اقبال نے ماضی وحال سے گریزاں ہوکر مستقبل پر توجہ دی ہے۔نئے زمانے اور نئے صبح وشام کو پیدا کرنے پر زور دیا ہے ۔ اپنے وجود کو شاعر فردا سے تعبیر کیا ہے روزوشب میں الجھنے سے باز رہنے کی تاکید کی ہے ممکنات کی دنیا کو لبیک کہنے کی دعوت دیتے ہیں ؂

بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا

         بال ِ جبریل میں ساقی نامہ کے یہ اشعار اس خیال کی توثیق کرتے ہیں ؂

جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود

کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود

بڑھے جایہ کوہِ گراں توڑ کر

طلسمِ زمان ومکاں توڑ کر ۶؂

نظم ‘زمانہ’ میں یہ حکیمانہ اشارہ موجودہے ؂

شفق نہیں مغربی افق پر

یہ جوئے خوں ہے یہ جوئے خوں ہے

طلوعِ فردا کا منتظر رہ

کہ دوش وامروز ہے فسانہ

         اقبال مالکِ کون ومکاں سے نئی دنیا کی آرزو رکھتے ہیں

جہاں وہ چاہیے مجھ کو کہ ہوا بھی نوخیز

         اس سلسلۂ کلام سے متعلق اقبال نے کثرت سے بحث کی ہے ۔ وہ مستقبل کے شاعر ہی نہیں اس کو خوش آمد ید کہنے والے فکر ساز حکیم ہیں وہ کہتے ہیں کہ ممکنات سے سرِّ تقویمِ حیات کے راز افشا ہوتے ہیں ۔ اسرار کا تمہیدی شعر ہے ؂

از درونِ کار گاہِ ممکنات

برکشیدم سرِّ تقویمِ حیات۷؂

         ضربِ کلیم میں ایام کی مرکبی نہیں راکبی کے لیے دعوتِ نظردی ہے۔امیدوانقلاب کے شعلۂ سوزاں کو فروزاں کرنے کی ضرورت ہے ۔اس طرح کے مختلف ضدین کے اجتماع کو کوتاہ بینوں نے تضاد تصور کرلیا۔ اور اقبال کو ہدف بنانے کی کوشش کی ان کی اعتدال پسندی کو فراموش کیا۔ حالانکہ فکر کے علاوہ نظم ِ عالم کا انحصار اسی فطرت پر قائم ہے ۔ تمام موجودات اور مظاہر اس کے شاہد ہیں ۔ اس اعتدال پسندی نے فکرِ اقبال کو ہمہ گیری بخشی اور بے راہ روی سے محفوظ رکھا۔ وہ بے پناہ قوت کے حصول کو لازمی سمجھتے ہیں ۔جو خیر کو فروغ اور شر کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے۔نسلِ نو کے خونِ گرم کو پابند اخلاق کیا گیا ہے ۔وہ ضربِ کلیم میں طاقت سے مخاطب ہیں ۔

لادیں ہو تو ہے زہر ِ ہلاہل سے بھی بڑھ کر

ہودیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک۸؂

         راہ ِ اعتدال کی ایک دوسری مثال ملاحظہ ہو

قوت بے رائے جہل است وجنوں

رائے بے قوت ہمہ مکر و فسوں ۹؂

         یعنی باہمی مشورے سے حاصل خیر کے نفاذ کے لیے قوت لازمی ہے ۔ اگر یہ نہ ہو تو طاقت جہالت اور دیوانگی کے ساتھ شورش کا باعث ہے ۔ نشۂ قوت نے بارہا زمینوں کو انسانی خون سے لالہ زار کیا ہے ۔ اقبال نے اسی لیے اعتدال قائم کیا ہے ۔خودی آمریت میں بدل سکتی ہے ۔ا س لیے اس کو بیخودی کے تابع کیا ہے ۔ نوجوانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ اگر جنگ وجدل سے نبردآزما ئی ہو تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر حملہ آور ہوں مگر صلح کے وقت رعنا غزالِ تاتاری کی طرح نرم خو بن جائیں۔ فکر کا تخلیقی ، عملی ، تعمیری ، معاشرتی عناصر کے ساتھ اعتدال پسندی ملزوم ہے ۔ یہی مثالی معاشرے کے وجود وبقا کی روح ہے ۔اقبال کا فلسفہ وفکر معاشرتی نظام کے دین ودستور کا ایک گراں قدر دستاویز ہے ۔جس کے نفاذ اور نگہداری کی تمام تر ذمہ داری نوجواں مردانِ کار پر ہے ۔

         فکرِ اقبال کا یہ بھی امتیاز ہے کہ وہ زندگی بخش ہے یعنی وہ اثباتی ہے ۔منفی نہیں اس میں مایوسی اور منکرات کی گنجائش نہیں ۔ یہ رجائیت کا منبع ومخزن ہے ۔ یاسیت وقنوطیت کو مہلک قرار دیا گیا ہے ۔کشتِ ویراں سے بھی ناامید ہونے کی ضرورت نہیں ناامیدی کو زوالِ علم وعرفان کہا گیا ہے ۔نفی کے نقصان پر اسرارِ خودی میں ایک ذیلی عنوان قائم کیا گیا ہے ۔ خاص طور پر اسے محکوم قوم کے لیے ہلاکت آفریں بتایا گیا ہے۔کائناتی حقیقت کا اشارہ ہے ۔

صد مرض پیدا شد از بے ہمتی

کوتہ دستی ، بیدلی دوں فطرتی

         منفی تصورات سے سیکڑوں آزار جنم لیتے ہیں اور فیضانِ فطرت کی بخشی ہوئی نعمتوں سے محروم کردیتے ہیں ۔ آزمایشوں یا مجاہدات سے فرار، زندگی یا اثبات کی علامت نہیں ۔یہ فرار غارت اگردین ودانش ہے ۔ اقوام وافراد کی بقا تصادم سے نبردآزمائی ہے ۔ تاکہ فسادِ خلق کا خاتمہ ہو اور ابنِ آدم سکون وراحت سے رہ سکے وہ جس مردِ دانش مند کے منتظر ہیں اس کی صفات ہیں وہ جنگ جو کو پیغام ِصلح دینے والا اور شورش کو سکون میں تبدیل کرنے والا ہوگا۔

         فکرِ اقبال کی ایک نمایاں خصوصیت اس کا ارتقائی اسلوب ہے ۔ وہ ہمیشہ بہتر سے بہتر صورت گری کی طرف مائل ہے ۔ اس اسلوب ِفکر میں بعض نظریات میں انقلاب انگیز تبدیلی آئی جیسے وجودی اور قومی تصورات سے انحراف اسی ارتقائی عمل کے نتائج ہیں ۔ اقبال نے تشکیل جدید کے دیباچے میں فکر کے ارتقائی عمل پر بڑی عالمانہ گفتگو کی ہے وہ اپنے تصورات کو بھی حتمی اور قطعی تصور نہیں کرتے وہ سلسلۂ فکرِ انسانی کے اس عمل کو ایک دائمی حقیقت تسلیم کرتے ہیں ۔ فطرت کے مظاہر سے مثالیں بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ نظامِ عالم ہر لمحہ تغیر سے دوچار رہتا ہے اور نئی تخلیق وجود میں آتی رہتی ہے ۔ وہ قرآن سے اپنے مشاہدہ کو مستحکم کرتے ہیں ۔

ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود

کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود ۱۰؂

         فکر وفلسفہ کی تقدیر بھی صبح وشام بدلتی رہتی ہے ۔ بانگِ درا کا یہ مصرع ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے ۔

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

         وہ تسلیم کرتے ہیں کہ بہت ممکن ہے کہ ان کے تصورات بھی نامقبول ہوجائیں کیونکہ ربِّ جلیل کے علاوہ کوئی قطعی اور حرفِ آخر نہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ فکرِ اقبال کا ایک دوسرا امتیاز ایمان وعقائد سے ہم آہنگی ہے ۔اقبال نے تصور ِ توحید ورسالت سے اپنے آئینہ فکر کو فروزاں کیا ہے اور فرزانگی بخشی ہے ۔اللہ کی وحدانیت اور محمدؐ کی رسالت سے متعلق شعری زبان میں ایسے فلسفیانہ خیالات تخلیق نہیں پاسکے تھے یہ مبارک موضوعات خود اقبال کی قلم بند کی ہوئی فکری سرنوشت ہیں فکر کے ریشہ ہائے دل میں ہر جگہ یہی روح موج رواں ہے ۔ جس سے فکر وفیضان سبھی نور فشاں ہوتے ہیں۔دوسرے موضوعات انھیں سے نسبت رکھتے ہیں۔ ان کی فکر کے مرکزی مباحث خودی و بے خودی جیسے نفسیاتی اور غیر مرئی مضامین بھی انھیں عنوانات سے کسبِ کمال کرتے ہیں ۔

خودی روشن ز نورِ کبریائی است ۱۱؂

         جہانِ رنگ وبو اور عالم نازاد کی ہر شے رسالت مآبؐ سے کسبِ نور کرتی ہے یا اس کے لیے چشم براہ رہتی ہے ۔

یا زنورِ مصطفےٰؐؐ اورا بہاست

یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفےٰ ؐ است

         کلام میں ان اسما کی کثرت اور ان کے اشارات حیرت خیز ہیں ذکر الٰہ اور ذکر رسولؐ کی ہم نشینی سے فکر وشعر میں جلال وجمال کی نشاط آفریں کیفیت پیدا ہوئی ہے

         اس حقیقت کو اقرار کیے بغیر تفہیم اقبال ناممکن ہے ۔ انہوں نے مشرق ومغرب یا جدید وقدیم کے تصورات کو اسی سرچشمۂ فیض سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس وجہ سے مذہب وطبعیات کا اختلاط فکرِ اقبال کی نمایاں شناخت بن گئی ہے ۔ آب وخاک ، آتش وآہن، چرند وپرند ،چشمہ و کوہسار ، انسان وحیوان وغیرہ کا اس کثرت سے تذکرہ بے سبب نہیں ۔ ان کے ساتھ لوح وقلم ،عرش وآسماں ، جنت وجہنم ، حوروفرشتہ ،جبریل وابلیس وغیرہ سب انھیں دو مصدر سے متعلق ہیں ۔گویا روحانی اقدار بساطِ زندگی کے مادی آثار سے منسلک ومربوط ہیں ۔ یہ ارتباطِ فکر اقبال کو فلسفہ کی نارسائیوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اسی وجہ سے فلسفہ وفکر میں دلآویز ی وطرب ناکی پیدا ہوئی ہے ۔ فلسفہ کا شعری نغمہ ونشاط کے آہنگ میں ڈھل جانا فکر وفن کا اعجوبہ ہے ۔ جو اقبال ہی کے ساتھ منسوب ہے ۔شعری ثقافت کی اس گراں مائگی نے ہماری کج کلاہی میں غرور ِ عشق کا بانکپن پیدا کیا ہے ۔

حواشی

         ۱۔       بالِ جبریل (غزل)

         ۲۔      جاوید نامہ

         ۳۔      ضربِ کلیم

         ۴۔      ضربِ کلیم

         ۵۔      ضربِ کلیم

         ۶۔      بالِ جبریل

         ۷۔      اسرارِ خودی

۸۔     ضربِ کلیم

۹۔     پس چہ باید کرد

۱۰۔    بالِ جبریل

۱۱۔    ارمغانِ حجاز

Leave a Reply