ڈاکٹر نورالحق
شعبہ اردو،بریلی کالج بریلی، اترپردیش
فیض احمدفیض: افکار ونظریات
فیض بیسویں صدی کا ایک مقبول اور ہر دلعزیز شاعر ہی نہیں بلکہ ایک مختلف الالعباد شخصیت کا نام ہے جس نے استاد فوجی، صحافی ، آزادی کا سپاہی اور امن عالم کے علمبر دار کی حیثیت سے مختلف طرح کے کارنامے انجام دینے اور عالمگیر شہرت و مقبولیت حاصل کی ۔ فیض نے طالب علمی کے زمانے سے ہی شاعری کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری کا محرک بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’شعر گوئی کا کوئی واحد عذر گنا تو مجھے معلوم نہیں۔ اس میں چین کی فضائے گردو پیش میں شعر کا پر پا، دوست احباب کی ترغیب اور دل کی لگن بھی کچھ شامل ہے۔ نقش فریادی‘‘ کے پہلے حصے کی بات ہے جس میں ۲۹۔ ۱۹۳۸ سے ۹۳۵ ایک تحریریں شامل ہیں جو ہماری طالب علمی کے دن تھے یوں تو ان سب اشعار کاکی دینی اور جذبات و واردات سے تعلق ہے اور اس واردات کا ظاہری محرک تو وہی ایک حادثہ ہے جو اس عمر میں اکثر نوجوان دلوں پر گزر جاتا ہے۔‘‘(نسخہ ہائے وفاص۱۳۱۴)
جس عہد میں فیض کے ادبی شعور نے آنکھیں کھولیں اس میں دو طرح کی شاعری زوروں پرتھی ۔
ایک طرف اقبال کی قومی شاعری کا چرچا تھاتو دوسری طرف اختر شیرانی کی گیت مانظموں کی لطافت میں عذر اور سلمی کی دھوم مچی تھی۔ اس دور کے تعلق سے فیض خود ہی قمطراز ہیں۔
’’یہ دور بھی ایک دور نہیں تھا بلکہ اس کے بھی دو حصے تھے۔ جن کی داخلی اور خارجی کیفیت کافی مختلف تھی ۔ وہ یوں ہے کہ ۲۰ سے ۳۰ تک کا زمانہ ہمارے ہاں سایتی طور سے کچھ عجب طرح کی بے فکری ، آسودگی اور ولولہ انگریزی کا زمانہ تھا جس میں اہم قومی اور سیاسی تحریکوں کے ساتھ ساتھ نثر و نظم میں بیشتر مجید فکر و مشاہد ہ کی بجائے کچھ رنگ رلیاں منانے کا سا انداز تھا۔ شعر میں او لأ حسرت موہانی اور ان کے بعد جوش،حفیظ جالندھری اور اختر شیرانی کی ریاست قائم تھی ، افسانے میں یلدرم اور تنقید میں حسن برائے حسن اور ادب برائے ادب کا چیر دیا تھا نقش فریادی کی ابتدائی نظمیں’’خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہوتو مری جان اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو تہ نجوم ہیں چاندنی کے دامن میں وغیرہ وغیرہ اسی ماحول کے زیراثر مرتب ہوئیں اور اس فضا میں ابتدائے عشق کا تھی بھی شامل تھا لیکن ہم لوگ اس دور کی ایک جھلک بھی ٹھیک سے نہ دیکھ پائے تھے کہ حکمت یار آخرشد‘‘
(ص ۱۴نسخہ ہائے وفا دست تہہ سنگ)
مذکورہ اقتباس میں رنگ رلیاں منانے کا سا انداز پر اعتراض ہو سکتا ہے اور ہوا بھی ہے کیونکہ اقبال
نے اس زمانے میں بہت ہی سنجیدہ شاعری کی ہے لیکن یہ مصرع بھی اسی زمانے میں بہت مشور ہوا تھا۔
آہ! بیچاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار۔
دوسری بات یہ ک فیض نے جہاں دوسروں پر انگشت نمائی کی ہے وہیں خود بھی اسی گروہ میں شامل کیا ہے۔ یہاں حالی کے اس قول کی بھی تائید ہوتی ہے کہ شاعری سوسائٹی کے تابع ہوتی ہے۔
فیض کی نظر میں بڑی تبدیلی اس وقت آتی ہے جب وہ استاد کی حیثیت سے ایم اے او کالج امرتسر پہنتے ہیں اور ان کی ملا قات صاحبز ادہ محمود الظفر اور رشید جہاں سے ہوتی ہے۔ فیض نے لکھا ہے۔
’’۳۵ء میں میں نے ایم اے او کا بے امرتسر میں ملازمت کر لی ۔ یہاں سے مری اور میرے بہت سے ہمعصر لکھنے والوں کی دینی اور جذباتی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دوران کا بچ میں اپنے رفقاء صاحبز ادمو الظفر مرحوم اور ان کی بیگم رشید جہاں سے ملا قات ہوئی اور پھر ترقی پنتر بک کی داغ بیل پڑی ، ز دورتر یوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں لگا کہ میراشن میں ایک نہیں کئی دبستان کھل گئے ہیں۔ اس دبستان میں سب سے پہلاسبق جو ہم نے سیکھا تھا کہ اپنی ذات باقی دنیا سے الگ کر کے سوچنا اول ممکن ہی نہیں، اس لئے کہ اس میں بہر حال گردوبیش کے بھی تجر بات شامل ہوتے ہیں اور اگر ایسا ممکن ہو بھی تو انتہائی غیر سودمند حل ہے کہ انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اور کدورتوں یا مسرتوں اور رنجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی اور بہت ہی محدود اور حقیر شے ہے۔ اس کی وسعت اور پنہائی کا بیان تو باقی عالم موجودات سے اس کے ذہنی اور جذباتی رشتے ہیں خاص طور سے انسانی برادری کے مشتر کہ دکھ درد کے رشتے ۔ چنانچینم جاناں اور غم دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلوں ہیں ۔ اس نئے احساس کی ابتد القش فریادی کے دوسرے حصے کی نظم سے ہوتی ہے اس نظم کا عنوان ہے مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگے اور اگر آپ خاتون ہیں تو مرے محبوب نہ مانگ‘‘
(نسخہ ہائے وفا دست تہ سنگم ۱۶۔۱۵)
اقتباس کی روشنی میں فیض کا وہ شخص قائم ہوتا ہے جو ان کی شاعری کی پہچان ہے کہ فیض نے فرد اور جماعت ، ذات اور کائنات نغم جاناں اور غم دوراں یا رومان اور انقلاب کی ایسی حسین اور کش آمیزش کی کہ اقبال کے بعد وہ اپنے دور کے بڑے فنکار تسلیم کر لیے گئے۔ فیض نقش فریادی میں دو حصوں میں بنئے دکھائی دیتے ہیں جس کی طرف خود انہوں نے بھی اشارہ کیا ہے۔ نظم گو فیض اورغزل گو فیض دور سے پہچانے جاتے ہیں ۔ نظموں میں انہوں نے زیادہ تر خارجی دنیا کے غم و الم اور اجتماعی دکھ درد کو موضوع بنایا ہے تو غزلوں میں رات کا اظہار اور دل کی دنیا بسائی ہے۔
نقش فریادی کے بعد فیض بقول ان کے’’ تیرہ چودہ برس‘‘ کیوں نہ جہاں کاغم اپنائیں میں گزرے اور پھرفوج بافت ،ٹریڈ یو مین وغیرہ میں گزارنے کے بعد ہم چار برس کے لئے جیل چلے گئے‘‘(ص ۱۷ نسخہ ہائے و فادست تہ سنگ)
مذکورہ اقتباس میں’’ کیوں نہ جہاں کا غم اپنالیں‘ میں بڑی وسعت ہے۔ اگر فیض کی نظم ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘ کے ان اشعار میں
ان گنت صدیوں کے تار یک بہمانہ طلسم
ریشم و اطلس وکمخواب میں بنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کو چہ بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے تز احسن مگر کیا کیجئے
پر غور کریں تو اس میں تاریخی مادیت جدلیاتی مادیت طبقاتی کشمش ظلم و بر بر میت مزدور اور تھا اور جبرو استحصال کے ساتھ ہی فاشزم اور نازی ازم سب کچھ شامل ہو جاتے ہیں۔
۱۹۳۹ء میں فیض کی زندگی میں ایک اور اہم موڑ آتا ہے تعلیم کے لئے کیمبرج روانہ ہونے ہی والے تھے کہ دوسری جنگ عظیم کا بگل بن گیا اور بٹلر کی فاشزم کا خوفناک چہرہ عالمگیر سطح پر دکھائی دینے لگا۔ یہاں پر ورلڈ پروگریس رائٹرس ایسوسی ایشن کی پریس کانفرنس کا ذکر بجا ہوگا جس نے ۱۹۳۵ء میں ہی فاشزم کے خلاف آواز اٹھانے کا اعلان کیا تھا کہ رفتیان قلم ! موت کے خلاف زندگی کی ہمنوائی کے اور جس کے نتیجے میں ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کی بنیاد پڑی ۔ فیض فاشزم اور نازی ازم کے خلاف لکھتے رہے تھے۔ فوج میں شامل ہو کر ملی طور پر نازی بر بریت کو شکست دینے کی سوچ ان میں پیدا ہوئی اور انہوں نے فوج میں ملازمت کر لی ۔ اندر کمار گجرال نے لکھا ہے کہ
’’ فیض کی جنگ میں شمولیت سے بائیں بازو کے فنکار اور سوچنے والے محسوس کرنے لگے تھے کہ پہلی بات نا زری بر بر میت کو ہرانے کی ہے اور ہٹلر کی فتح کے پس منظر میں کوئی انقلانی ترقی پسند طاقت اس اصلیت کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ بیسویچ فیض اور مظہ کی جیسے حساس لوگوں کو فوج میں لے گئی ۔‘‘(ص۸۰ فیض احمد فیض احوال و اذکار )
فوجی ملازمت کے زمانے میں بھی فیش انجمن ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس میں شامل ہوتے رہتے تھے نمبر ۱۹۴۴ء میں تو وہ تیسری کل ہند کانفرنس میں فوجی وردی میں شریک ہوئے تھے۔
فوج کی ملازمت سے مستعفی ہو کر فیض ایک نئی دنیا یعنی صحافت کی دنیا میں داخل ہوئے Pakistan Times کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ اسی دوران انہوں نے ’امروز‘ او رفت روزہ ’لیل و نہار‘ میں بھی چیف ایڈ بیٹری کے فرائض انجام دیے۔ شیر محمد حمید نے ’شام شہر یاراں‘ میں فیض سے مری رفاقت کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ
’’پاکستان ٹائمز کے اجرا پرند بر اعلی مقرر ہوا تو صحافی محاذ قلمی جہاد کے معرکے سرکرتارہا۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو تعمیر وطن کے مراحل سامنے آئے جس پاکستان کے خواب دیکھے تھے ان کی تعبیر حسب مراد نظر نہ آئی تو احتجاج کی صدا بلند کی اور ارباب اقتدار کو بیٹر ز نوا پیند نہ آئی تو سازش کیس میں دھر لئے گئے اور قید و بند کے مصائب جھیلنا پڑے۔“(ص ۲۸ شام شہر یاراں نسخہ ہائے وفا)
حصول آزادی اور تقسیم ملک محض ایک سانحہ نہیں تھا۔ اس واقعے نے افکار ونظریات اور ایمان و یقین کو متزلزل کردیا تھا۔ فیض نے بج آزادی ۱۵ ؍اگست ۱۹۴۷ء میں جونقشہ کھینچا ہے و محض بہترین شاعری یافن کاری کا نمونہ نہیں ہے بلکہ فیض کی پوری فکری دنیا آباد ہے۔اگر چہ سردار جعفری نے صبح یہ آزادی کے ابتدائی دو شعروں
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گذیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں یہ کہیں
پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ
’’یہی بات تو مسلم لیگ اور مہاسبھا والے بھی کہہ سکتے ہیں فیض کو چاہیے تھا کہ ان کا مقصد جس سحرسے ہے اس کی طرف واضح اشارہ کرتے۔“
(ص ۲۰۹ نظیر صدیقی ۔ نقد فیض مرتبہ سلیم عباسی)
صبح آزادی کے آخری تین مصرعے
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
یہاں فیض آزادی کا جوتصور رکھتے تھے اس کی عدم گیل کی تو جب بھی کر رہے ہیں اور کھیل کی طرف گامزن ہونے کی اپیل بھی ۔ فیض جس منزل کی طرف جانا چاہتے ہیں اس کا واضح نقش بھی ان کے پاس تھا۔’’مہ وسال آشنائی‘‘ کے پہلے باب ’’تصور‘‘ کے تحت سویت یونین کی تصویر انہوں نے کچھ اس طرح پیش کی ہے۔
’’ایک آزاد غیر طبقاتی معاشرہ کی تصویر جہاں کوئی سر مایدا نہیں کوئی جاگیردار اور زمیندار نہیں، نہ کوئی آتا ہے نہ بند نہ کی تلاش معاش میں سرگرداں ہے فر د میں گرفتار جہاں مزدور کسان راج کرتے ہیں اور ہر معاملہ ان کی مرضی سے طے پا تا ہے۔‘‘
(ص ۱۳مہ وسال آشنائی ماخوذ از فیض انٹینینٹر میں ص۸۷)
فیض کے فکری سفر میں قید کا زمانہ بھی بہت اہم ہے۔ فیض۵۱ سے ۵۵ ء تک قید رہے ۔ اس عرصے میں انہوں نے کئی طرح کے اتار چڑھاؤ محسوس کئے ۔ انہیں ذہنی اور جذباتی کچوکے لگے تو ان کے ذہن کے نہاں خانے بھی کھلے۔ ہمت و حوصلہ بھی بڑھا اور فکر و نظر میں نکھار بھی پیدا ہوا جس کی مثال میں محض قطع کافی ہے۔
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبولیں ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھدی ہے
ہرایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
دست تہ سنگ میں ’’فیض از فیض‘‘ میں انہوں نے لکھا ہے کہ
’’جیل خانہ عاشقی کی طرح خودایک بنیادی تجر بہ ہے، جس میں فکر ونظر کا ایک آدھ دریچہ خودبخود کھل جاتا ہے۔ چنانچہ اول تو یہ ہے کہ ابتدائے شباب کی طرح تمام حسیات یعنی Sensations پھر تیز ہوجاتی ہیں اورج کی پو، شام کے دھند لکے، آسمان کی نیلا ہٹ ہوا کے گداز کے بارے میں وہی پہلا سا تصور لوٹ آتا ہے۔ دوسرے یوں ہوتا ہے کہ باہر کی دنیا کا وقت اور فاصلے دونوں باطل ہوجاتے ہیں نزدیک کیا چیز میں بہت دور ہوجاتی ہیں اور دور کی نزدیک او رفرداوری کا تفرقہ کچھ اسطرح مٹ جاتا ہے کہ بھی ایک کی قیا مت معلوم ہوتا ہے اور بھی ایک صدی کل کی بات تیسری بات یہ ہے کہ فراغت ہجراں میں فکر و مطالعہ کے ساتھ عر وسخن کے ظاہری بناؤ سنگار پوجدینے کی زیادہ مہات ی ہے۔‘‘
(ص۱۸-۱۷دست ہند سنگ۔ نسخہ ہائے وفاس ۸۔ ۳۰۷)
قید و بند کی صعوبتوں نے فیض کے افکار ونظریات کو مزید جلا پانے کا موقع فراہم کر دیا۔ آل احمد احمد سرور نے لکھا ہے کہ
’’فیض کو آتش خانوں کی مقدس انچ ملی ہے، مگر اس نے انہیں کھلایانہیں بلکہ ان کی شخصیت کو توانائی اور ان کی شاعری کو تب و تاب عطا کی ہے۔‘‘(۱۸۶ فن اور شخصیت فیض احمد فیض)
فیض کے افکارونظریات کے تعلق سے سب سے بہتر روشنی ان کی اس تقریر سے پڑتی ہے جو انہوں نے لینن امن ایوارڈ حاصل کرنے کے موقع پرکی تھی۔ انہوں نے لکھا
’’اب سے کچھ دن پہلے جب سوویٹ فضاؤں کا تازہ کارنامہ ہر طرف دنیا میں کون رہا تھاتو مجھے بار بار خیال آتارہا کہ آج کل جب ہم ستاروں کی دنیا میں بیٹھ کر اپنی ہی دنیا کا نظارہ کر سکتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی کیئگیاں ،خودغرضیاں پیرزمین کے چند گروں کو بانٹنے کی کوششیں اور انسانوں کی چندٹولیوں پر اپنا سکہ چلانے کی خوابش بینی بعید از قتل باتیں ہیں ۔ اب جبکہ ساری کائنات کے راستے ہم پر کشادہ ہو گئے ہیں۔ ساری دنیا کے خزینے انسانی بس میں آ سکتے ہیں تو کیا انسانوں میں ذی شعور مصنف مزاج اور دیانت دار لوگوں کی اتنی تعداد مو جو نہیں ہے جو سب کومنوا سکے کہ بینی اڑے سمیٹ لو۔ یہ بم اور راکٹ تو ہیں، بندوقیں سمندر میں غرق کر دو اور ایک دوسرے پر قبضہ جمانے کی بجائے سب مل کر تسخیر کائنات کو چلو ۔ جہاں جگہ کی کوئی نئی نہیں ہے۔ جہاں کسی کو کی سےاٹھے کی ضرورت نہیں ہے جہاں لامحدود فضائیں ہیں اور ان گنت دنیا میں۔ مجھے یقین ہے کہ سب رکاوٹوں اور شکلوں کے باوجود ہم اپنی انسانی برادری سے یہ بات منوا کر رہیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ انسانیت جس نے اپنے دشمنوں سے آج تک کبھی ہار نہیں کھائی اب بھی فتح یاب ہوکر رہے گی۔ اور آخرکار جنگ نفرت او ظلم و کدورت کی بجائے ہماری باہمی زندگی کی بنا وہی ٹھہر ے گی جس کی تلقین اب سے پہلے قاری شاعر حافظ نے کی تھی۔
خلل پذیر بود ہر بناکہ می بینی
مگر بنائے محبت کے خالی ازخلل است
(ص ۲ اوست نه سنگ نسخہ ہائے وفا )
غرض فیض حافت کو پارہ نمابتاتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دنیا میں امن و امان اور انسانیت کی بقا کار از جنگ و جدال نہیں بلکہ صرف اور صرف محبت ہے۔
***