مہرفاطمہ
ریسرچ اسکالر ،دہلی یونیورسٹی
قائم :غالب کا تخلیقی پیش رو
ہند اسلامی تہذیب کے ارتقا کاجو سلسلہ حضرت امیر خسرو کے ساتھ شروع ہوا تھا۔اٹھارہویں صدی اس سلسلے کی آخری مضبوط کڑی ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اٹھارویں صدی کی غزلیہ شاعری اپنی روایت کے تمام ادوار کی بہ نسبت زیادہ ثروت مند اور وقیع ہے۔ انیسویں صدی تخلیق اور تہذیبی سطح پر اپنی تمام کامرانیوں کے باوجود انسانی احساسات سے اٹھارویں صدی جیسا ہمہ گیراور بے میل رابطہ استوار نہیں کرسکی۔ جبکہ اٹھارویں صدی نے جو جگہ بنائی وہ بہت فطری، بے ساختہ اور خود کار ہے۔ جس کے لیے ہمیں کسی طرح کی شعوری کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ اٹھارویں صدی میں میر، سودا، درد، قائم، میر حسن ،اورمصحفی یہاں تک کہ نظیر اکبرآبادی بھی اپنی اپنی منفرد خصوصیات کے باوجود یعنی مذاق شعر کے فرق اور رنگوں کے اختلاف کے باجود بھی ایک ہی صف میں رکھے جانے کے قابل ہیں۔ ان میں سے اگر ایک کو بھی حذف کردیا جائے تو ان کے دور کی تصویر کا ایک رخ چھپ جائے۔ یہ سب کے سب اپنے دور کی رہنمائی اور قیادت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ سب نے اپنے اپنے طور پر کچھ نہ کچھ اثر چھوڑا اور بعد کے ادوار میں کسی نہ کسی سطح پر ان سے استفادہ لازمی کیا گیا۔
پروفیسر شمیم حنفی لکھتے ہیں:
’’میر اور سودا بے شک اٹھارہویں صدی کے نمایاں شناختی نشان (Visible Identification mark) کے طور پر دیکھے جاتے ہیں لیکن ان کے زمانے کی پوری تصویر ان کے جن معاصرین کے واسطے سے سے مکمل ہوتی ہے ان میں سودا، درد، مصحفی، میر حسن، نظیر، قائم یہ سب کے سب ہماری زندہ اور سرگرم یادداشت یا (Active Memory) کا حصہ ہیں۔ غزلیہ شاعری کے سیاق میں انیسویں صدی کے ساتھ غالباً معاملہ کچھ مختلف ہے۔ اس عہد نے اپنی پہچان متعین کرنے کے ساری صلاحتیں بس ایک فردِ بے مثال کی ہستی کے مرکز پر یکجا کی تھیں۔ یہ ہستی غالب کی تھی، ان کے دوسرے معاصرین ۔۔۔۔شاہ ظفر، ذوق، مومن اپنا اپنا شعر کسی اور طولِ موج یعنی (Wave Lenth) کے مطابق کہہ رہے تھے اور غالب سے یکسر الگ کسی اور دنیائے خیال کے باشندے تھے۔ اسی لیے غالب کا نام ہم یا تو ان سے پہلے کے شاعروں میں میرؔ کے ساتھ لیتے ہیں یا پھر اقبال کے ساتھ جو ان کے صف میں ہیں لیکن ان کے بعد کے ہیں۔میر ،سودا ،درد اور قائم اور ان کے ہم عصروں کی غزل غالب، مومن اور ذوق و ظفر کے عہد کی غزلوں سے زیادہ کثیر الجہات ،رنگا رنگ اور زندگی کے اچھے برے، سنجیدہ اور مضحک آثار سے چھلکتی ہوئی جو نظر آتی ہے تو صرف اسی لیے کہ اس کے سامنے مغربی تہذیت کے آوردہ پروردہ حجابات اور امتناعات نہیں تھے۔ اپنے تخلیقی مقاصد میں اٹھارویں صدی تک کی ہماری شعری اور ادبی روایت پوری طرح آزاد اور خود مختار تھی۔ اس لئے جو کھلا پن ہمیں میر اور نظیر کے یہاں ملتا ہے اس کے بعد کی روایت محروم نظر آتی ہے۔‘‘
قائم چاند پوری حیات وخدمات،ص۳۴
ظاہر ہے کہ یہی وہ صدی ہے جب غزل کی شعریات وضع ہوئیں اور اس رسومیاتی تعین میں اس دور کے شاعروں کا بڑا عمل دخل ہے۔ فکری اساس طے کرنی والی صدی بھی یہی ہے۔ حسن کا تصور ہو، تصوف ہو، یا تصور حیات و کائنات یا پھر ایہام کی تحریک یا اصلاح زبان کا رجحان۔ اس صدی نے نقشۂ کار واضح کردیا اوراس سے انکار ممکن نہیں کہ اس شعریاتی تعین میں قائم کا بڑا عمل دخل رہا۔
شمس الرحمن فاروقی خدائے سخن میر کہ غالب جیسے سوال کا جواب دریافت کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بڑا شاعر تو بلاشبہ غالب ہے۔ لیکن اقلیم سخن وری میں شعرکی تمام اصناف کو کمال اور قدرت کلام کے ساتھ برتنے کا ہنر تو میر ہی کے پاس تھا۔ جب کہ غالب کا طرۂ امتیاز ان کی غزل ہی ہے گویا اس طرح شمس الرحمن فاروقی نے خدائے سخن کی ترکیب کے واضح اور غیر متنازع معنی متعین کردیے۔اس اعتبار سے سخنوری کی کسوٹی پر جن شاعروں کو پرکھا جاسکتا ہے ان میں بلا شبہ قائم چاند پوری کا بھی شمار ہوگا۔ غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ ،سلام ، شہر آشوب اور دیگر اصناف سخن میں بھی قائم نے طبع آزمائی کی ہے اور بالخصوص قطعات اور رباعیات کے میدان میں تو قائم نے اپنے معاصرین میں ایک نمایاں نقش چھوڑا ہے۔
قائم نے اپنی کم گوئی کے باوجود بعد کی روایت پر جو اثرات مرتب کئے اس کا سلسلہ کافی وسیع ہے۔جیساکہ کہا جاتاہے کہ بیسویں صدی کی غزلیہ شاعری اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے مقابلے اپنے بدلے ہوئے رنگ سے پہچانی جاتی ہے۔بالخصوص فراق، ناصر کاظمی اور جون ایلیا وغیرہ کی غزل کے مزاج اور آہنگ کی سطح پر اس عہد میں قائم کی شاعری نئے سرے سے توجہ کا مرکز بنی ہے ۔اسی کو دیکھتے ہوئے قائم کوشاعروں کا شاعر poet of poetsکہا گیا۔اس تعلق سے شمیم حنفی صاحب لکھتے ہیں:
قائم کی غزل میں سب سے زیادہ کشش جدید دور کے ان شاعروں کے یہا ں دیکھی جاسکتی ہے جو معینہ مضامین یا تجربوں کے بجائے دراصل moodsکیفیات کے شاعر ہیں۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ نمایاں حیثیت قائم کی ان چھوٹی بحروں کے اشعار نے دی ہے ۔ان کے دیوان میں چھوٹی بحروں والی غزلوں کا تناسب بھی اپنے ہم عصروں کی بہ نسبت شاید زیادہ ہے۔ ان غزلوں میں تجربے کے ایجازاور ارتکاز کا ،تجربے کی تکمیل کا،جذبے اوراحساس کی شدت اوراسلوب پر حاکمانہ قدرت کا تاثر بہت گہرا ،بہت پراثر اور بے ساختہ ہے۔ چھوٹی بحر کی غزل اپنے کہنے والے کی شخصیت کا کوئی حجاب قائم نہیں رہنے دیتی۔ زبان وبیان پر عبور کے بغیر اور بے تکلف اظہار کی صلاحیت کے بغیر چھوٹی بحر شاعر کو راس نہیں آتی۔قائم کا دعویٰ ہے کہ:
قائم میں غزل طورکیا ریختہ ورنہ
اک بات لچر سی بہ زبان دکنی تھی
یا
آج قائم کے شعر ہم نے سنے
ہا ں اک انداز تو نکلتا ہے
یہ محض برائے بیت نہیں ہے ،نہ ہی صرف شاعرانہ تعلی کا اظہار ہے۔بیسویں صدی کے ممتاز غزل گو یوں خاص کر فراق ،ناصر کاظمی اوران کی چھوٹی بحروں نے جو جادو جگائے ہیں اسے قائم کا ہی فیضان سمجھنا چاہئے۔اورنہ صرف یہ بلکہ قائم کے سلسلے میں سب سے اہم اور تابناک پہلو تو یہ ہے کہ غالب جیسے انا پرست شاعر نے ان سے بھرپور استفادہ کیاہے۔ غالب کے کلام میں کم از کم سو سے زائد اشعار ایسے ہیں جن کا مرکزی خیال قائم کے اشعار سے اخذکیاگیاہے یا غالب نے ان پر تصرف کیاہے۔کہیں کہیں تولفظیات تک مستعار ہیں،لیکن دلچسپ پہلو یہ ہے کہ غالب نے اعتراف صرف ایک مقام پر کیاہے ، وہ بھی قائم کا نام لیے بغیر۔غالب کے دو خطوط جس میں سے ایک خط غلام غوث بے خبر کے نام ہے جس میں قائم کو’’استاد‘‘ لکھا ہے۔ دوسرا خط بنام چودھری عبدالغفور ہے۔یہ دونوں خطوط مختلف موضوعات پر ہیں۔پہلے خط میں ضمناً قائم کا ذکر آگیاہے،دوسرے خط میں اہل ہند شعراء کی ستائش مقصود ہے اور قائم کا ذکر میر و میرزا کے ساتھ کرتے ہیں اورقائم کے ایک شعر کا حوالہ بھی میر وسودا کے اشعار کے ساتھ دیتے ہیں۔جس سے صاف ظاہر ہے کہ غالب نے قائئم کا شمار میر و سودا جیسے ہم مرتبہ اساتذہ میں کیاہے،لیکن دلچسپ پہلوتو یہ ہے کہ غالب نے قائم کے جتنے اشعار پر تصرف کیاہے اتنے اشعار تو غنی کاشمیری بیدل کے بھی غالب کے تصرف میں نہیں رہے جن کے بارے میں غالب کا خیال تھا :
طرز بیدل میں ریختہ کہنا
اسداللہ خاں قیامت ہے
غالب کے قائم سے متاثر ہونے یااستفادہ کرنے کی طرف سب سے پہلی نشاندہی اثر رامپوری نے اپنے مضمون’’ قائم چاندپوری اوران کا کلام‘‘ میں کیاتھا جو ماہنامہ معارف اپریل 1952میں شائع ہواتھا۔انہو ںنے چند دیگر شعرا کے اشعار کی نشاندہی کی تھی جن کے مضمون قائم سے ماخوذتھے اس کے بعد لکھا تھا کہ اصل حیرت اس وقت ہوتی ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ غالب کے بیشتر اشعار ایسے ہیں جن کا مضمون قائم کے یہاں سے اخذ کیاگیاہے۔
ظاہر ہے کہ اثر رامپوری 1952میں یہ مضمون لکھ رہے تھے اس لئے اس کو پہلی نشاندہی کہنا چاہئے۔اس کے بعد اس میں اضافہ ہوتاگیا۔ خالد علوی صاحب نے اپنے مضمون ’’قائم اورغالب ‘‘ میں سو سے زیادہ ایسے اشعار کی تعداد بتائی ہے جن کا مرکزی خیال قائم کے اشعار سے ماخوذ ہے۔ان اشعار کے علاوہ میں نے تقریباً پچیس اشعار کا اضافہ کیاہے۔ ظاہر ہے کہ ان اشعار کی ایک طویل فہرست ہے جس میں سے میں بطور مثال صرف چند اشعار پیش کرتی ہوں:
قائم کا شعر ہے:
قائم ہو کس طرح سے بہم شکل اختلاط
وہ اس غرور ناز میں ہم ا س حجاب میں
غالب نے کہا:
واں وہ غرورعز وناز،یاں یہ حجاب پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں ،گھر وہ ہمیں بلائے کیوں
یہاں پر نہ صرف مضمون بلکہ ’’غرور ناز‘‘ اور ’’حجاب‘‘ بھی مستعار ہے۔
قائم کا شعر ہے:
خاک ہے اس مہرگردوں پر یو ںماٹی کے بیچ
صورتیں کیاکیا دیں اتنی خرم وشاداب داب
غالب کے سامنے کے دو اشعار بالکل اسی مضمون کے ہیں:
مقدور ہوتو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
یا
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوںگی کہ پنہاں ہوگئیں
صرف یہی نہیں بلکہ غالب کے یہاں جس بے دماغی اور نازک مزاجی کا باربار ذکر کیاجاتاہے وہ بھی قائم کے یہاں پہلے سے موجود ہے:
قائم کا شعر ہے:
اس چمن میں دیکھیے کیوں کر بسر ہواے نسیم
ہے مزاج نکہت گل شوخ اور ہم بے دماغ
یا
وہ دن گئے کہ اٹھاتا تھا نازِ نکہت گل
ہے بے دماغیِ دل ان دنوں گراں مجھ کو
غالب نے کہا:
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موج بوئے گل سے ناک میں آتاہے دم میرا
اس طرح کی بہت سی مثالیں جابجا بکھری پڑی ہیں۔جس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ کہیں غالب نے پورا کا مضمون بغیر کسی تبدیلی کے اخذ کرلیاہے ،کہیں کوئی شعر ردیف وقافیہ اوربحر کی تبدیلی کے ساتھ موجود ہے،کہیں انہوں نے صرف ایک لفظ کے الٹ پھیر سے شعر کو پر لطف کردیاہے،کہیں ایک مصرعے کی تبدیلی کرکے شعر کو مزیدپراثر بنادیاگیاہے۔کہیں کہیںغالب نے اسی مضمون میں ڈرامائیت پیدا کرکے شعر کو بام عروج پر پہنچا دیاہے۔
’’عنقا‘‘ کا لفظ اور وہی مضمون دونوں ہی قائم کے یہاں موجود ہیں ۔قائم نے ایک شعر میں ’’تبرید‘‘ استعمال کیاہے جس کو خالد علوی صاحب نے غیر شاعرانہ لکھا ہے ۔غالب نے اس کو تبریدیں استعمال کیاہے وغیرہ۔ اس کے علاوہ وہ ا نفرادی خصوصیات جو قائم کا طرۂ امتیاز ہیں غالب کی تخلیقی حسیت اس حوالہ سے بھی قائم سے ہم رشتہ ہوجاتی ہے۔مثلاً خیال بندی اورسہل ممتنع وغیرہ بلکہ ناقدین کا خیال ہے کہ سہل ممتنع کے میدان میں قائم غالب سے آگے نظر آتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک الگ بحث ہے ۔میرامقصد یہاں صرف یہ ہے کہ غالب نے کہاں تک قائم کے چراغ سے اپنا چراغ روشن کیا ۔حالانکہ یہ بات روز روشن کی عیاں ہے کہ غالب نے قائم کی خوشہ چینی ،عجز بیانی یا مضامین کے فقدان کی وجہ سے نہیں کی۔ بلکہ غالب جومعنیٰ آفرینی کو شاعری سمجھتے تھے اس لحاظ سے قائم کو اپنے میزان پر کھرا پاتے تھے اور یہ بھی قابل ذکر ہے کہ غالب جو خود اپنی مشکل پسندی بیدلیت کے خلاف ردعمل ظاہر کررہے تھے جب وہ قائم کی شاعری میں معنیٰ آفرینی ،تسلسل، سہل ممتنع، اور سادگی وغیرہ دیکھتے ہیں تو چار وناچار انہیں سرجھکانا پڑتاہے۔مختصر یہ کہ اس مطالعہ کے پیش نظر یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے کہ جا بجا غالب کی تخلیقی حسیت قائم سے ہم رشتہ ہوجاتی ہے ۔لہذا یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ قائم چاندپوری غالب کے تخلیقی پیش رو ہیں
***
meharekta004@gmal.com