ڈاکٹر قمر النسا ۔کے
اسسٹینٹ پروفیسر
کالیکٹ ، کیرلا
قرۃ العین حیدر کے ناول ’چاندنی بیگم‘ میں جادوئی حقیقت نگاری
بیسویں صدی کے رُبع آخر میں لاطینی امریکہ کے ناول نگاروں کے یہاں پہلی بار جادوئی حقیقت نگاری کی عکاسی کی گئی۔ بعد ازاں اس کا اثر دنیا بھر کے ناول نگاروں نے قبول کیا۔ اردو میں قرۃ العین حیدر واحد خاتون ناول نگار ہے جس کے یہاں جادوئی حقیقت نگاری کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ادبی اسلوب ہے جو عالمی سطح پر جدید فکشن نگاروں کے ناولوں اور افسانوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ لاطینی امریکہ کے نو آبادیاتی دور میں مستقبل کی غیر یقینی صورت حال اور مقامی حالات کے مابین کشمکش نے ایسی سماجی صورت حال کو جنم دیا جس کے بارے میں پہلے سے موجود ادبی سانچوں میں اظہار اس عہد کے فن کاروں کے لیے مشکل تھا، لہذا اس سماجی اور فکری صورت حال کے لیے ایک نئے بیانیہ اور نئی تکنیک کی ضرورت محسوس ہوئی جو جادوئی حقیقت نگاری کے نام سے موسوم ہوئی۔
جادوئی حقیقت نگاری انگریزی اصطلاح Magic Realism کا اردو ترجمہ ہے۔ جادوئی حقیقت نگاری دراصل بیانیہ کی پیشکش اور اس مخصوص انداز کا نام ہے جس میں حقیقی منظر نامے میں جادوئی واقعات یک بہ یک اس فطری انداز میں بیانیہ کا حصہ بنتے ہیں کہ پورا بیانیہ حقیقت نگاری کا تخلیقی کمال نظر آتا ہے۔ یہاں جادوئی سے مراد وہ جادو نہیں جو عام معنوں میں اردو میں استعمال ہوتا ہے۔ بلکہ یہاں جادوئی سے مراد زندگی کے وہ اسرار و رموز ہیں جو منطقی یا استدلالی سائنسی رویے کی حدود سے پرے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ایسے غیر معمولی واقعات جن کو مادی قوانین کے احاطے میں نہیں لایا جاسکتا جادوئی کہلاتے ہیں۔ زندگی کے ان اسرار و رموز کا اظہار فکشن نگار حقیقی ماحول میں کچھ اس طرح کرتا ہے کہ قاری یقین کرلیتا ہے کہ یہ غیر معمولی صورت حال حقیقی زندگی کے مطابق ہے۔
جادوئی حقیقت نگاری کی تکنیک کا بنیادی ادبی مقصد بھی وہی ہے جو عام طور پر فکشن نگاروں کے فن پاروں میں حقیقت نگاری کا ہوتا ہے۔ یہ تکنیک حقیقت نگاری کی بنیادوں پر ہی استوار کی جاتی ہے۔ حقیقت نگاری راست زندگی کی آئینہ دار ہے اور یہ شناسا ماحول سے تشکیل پذیر ہوتی ہے جبکہ جادوئی حقیقت نگاری حقیقت پسندی پر انحصار کرتے ہوئے استدلالی و عقلی حدود سے تجاوز کرنے سے گریز کرتے ہوئے اسلوب کو ذرا سا اجنبی بنادیتی ہے۔ اسلوب کی اس بنیادی خصوصیت کے سبب یہ تکنیک اساطیر، لوک کتھا اور داستانوں کے قریب ہوجاتی ہے۔
جادوئی حقیقت نگاری کی اس مختصر تعریف کے بعد قرۃ العین حیدر کا ناول ’چاندنی بیگم‘ میں اس تکنیک کا استعمال کیسے اور کس طرح ہوا ہے اسے ناول کی روشنی میں دکھانے کی سعی کی گئی ہے۔ ناقدین ادب نے ’چاندنی بیگم ‘ کو جادوئی حقیقت نگاری کی ایک بہترین مثال قرار دیا ہے۔ اس ناول کے موضوعات میں بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔ روحانی آشوب، تنہائی ، موت ، تاریخ، ثقافت، پامال ہوتی ہوئی اقدار کا نوحہ، تقسیم ہند کے بعد اترپردیش کے مسلمانوں کا سماجی المیہ اور زمین کی ملکیت کا مسئلہ جیسے موضوعات نے بیانیہ میں لوک داستانوں کے چنیدہ اجزاء، منتخب اشعار اور اساطیر کے ساتھ مل کر جادوئی حقیقت نگاری کی بنیادی خصوصیات کو مکمل کیا ہے۔ اس تکنیک کا حقیقت نگاری سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ حقیقت نگاری حقیقی اور معروض دنیا کی پیشکش ہے جو حواس خمسہ کے ادراک میں آسکتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ حقیقت نگاری ٹھوس دنیا کی آئینہ دار ہے اور یہ شناسا ماحول سے تشکیل پذیر ہوتی ہے۔ جادوئی حقیقت نگاری بھی اسی معروف حقیقت پسندی پر انحصار کرتے ہوئے استدلالی و عقلی حدود سے تجاوز کرنے سے گریز کرتے ہوئے ایسے واقعات کو بیانیہ کا حصہ بناتی ہے جن کی حسی ادراک سے تصدیق کرنا ناممکن ہے۔
ناول چاندنی بیگم میں مختلف مقامات پر جادوئی حقیقت نگاری کے یہ سارے بنیادی عناصر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ناول کی کہانی میں مرے ہوئے لوگ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اور پرندے گفتگو کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ بیانیہ میں یہ واقعات حقیقی دنیا میں اس طرح وقوع پذیر ہوتے دکھائی دیتے ہیں جیسے یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ ’چاندنی بیگم‘ کا یہ اقتباس دیکھئے جو جادوئی حقیقت نگاری کی تکنیک سے عبارت ہے :
’’یک لخت سیاہ ساری میں ملبوس آنچل سے سر ڈھانپے سپید صورت والی ایک عورت ، چینی کی مورت، چاندنی میں چمکتے چبوترے پر نمودار ہوئی۔ چھپ کر ریڈ روس اٹھایا۔۔۔۔ پلٹی۔۔۔۔صفیہ سلطانہ کو نگاہ بھر کے دیکھا ۔۔۔۔آنکھیں چمکیں ، چہرے پر جیسے سفید پائوڈر ۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔ صفیہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔۔۔ بیلا رانی وہ فراٹے کے ساتھ چبوترے پر سے گذری اور باغ کے سنہرے دھندلکے میں غائب ہوگئی۔ تیز رفتار جیسے بادِ صرصر۔۔۔۔ صفیہ ہیبت زدہ رہ گئی۔ گھگھی بندی، حلق میں کانٹے چھبے۔۔ لرزہ چڑھا۔۔۔۔ ٹھنڈے پسینے آئے، پنڈلیوں پر چیونٹیاں رینگیں۔۔۔۔‘‘
’’چاندنی بیگم‘‘ میں اس تکنیک سے متعلق شمیم حنفی لکھتے ہیں کہ اچانک واقعات کی وقوع پذیری اور ناقابل فہم اتفاقات کی رونمائی جو حقیقت سے ماورا بھی نہیں ہیں لیکن ان کو ماننے میں بھی مشکل درپیش آتی ہے۔ جادوئی حقیقت نگاری کی بنیادی صفات میں شامل ہیں۔
ایک اور جگہ مردہ لوگوں کی اچانک آوازیں اور سرگوشیاں ناول ’’چاندنی بیگم‘‘ میں جس طرح حقیقت پسندانہ سیٹنگ میں ملفوف کرکے پیش کی گئی ہیں ملاحظہ کیجئے :
’’دفعتاً صفیہ کے اندر اس آواز نے جو برسوں سے اس کو تنگ کررہی تھی بہت دنوں بعد نمودار ہوئی اور کہا۔۔ ۔۔ آداب عرض ہے، اس کا رنگ فق ہوگیا۔۔۔ ۔ وہ دم بخود ہوگئی۔۔۔۔ کئی ماہ سے یہ آواز خاموش تھی ۔ اس وقت یکایک اس نے اپنی موجودگی کی یاد دلائی ، چند منٹ بعد اس نے سرگوشی بھی کی ۔۔۔۔ جیسے کوئی راز دارانہ بات کہی جاتی ہے۔۔۔۔ صفیہ لرزہ بہ اندام ہوگئی اسے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔۔۔۔ جب کوئی بری بات ہونے والی ہوتی ، آواز پہلے سے صفیہ کو مطلع کردیتی تھی۔ اب معمولی واقعات سے بھی آگاہ کرنے لگی۔‘‘
ان اقتباسات کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرۃ العین حیدر نے اس ناول میں کہانی کو فطری یا مروجہ انداز میں لکھنے کی بجائے جادوئی حقیقت نگاری کو نئی تکنیک کے ذریعہ اس طرح پیش کیا ہے کہ عام قاری اس پر معترض نظر آتا ہے۔ اس کی مثال ناول کی ہیروئین اور مرکزی کردار چاندنی بیگم کی غیر متوقع موت ہے۔ لیکن یہی تو قرۃ العین حیدر کی فن کاری ہے کہ ’چاندنی بیگم‘ مرکر بھی پیلی کوٹھی اور تین کٹوری ہائوس والوں کا پیچھا آخر وقت تک نہیں چھوڑتی اور یہ سارا کچھ غیرحقیقی بھی نہیں لگتا۔
ناول کے مرکزی کردار ’چاندنی ‘ کو ختم کردینے کے بعد ناول میں نئی کہانی کا تانا بانا کچھ اس طرح بنا گیا ہے کہ وہ کردار مرکر بھی نہیں مرتے اور ناول کی مرکزی کہانی کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی شکل میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک نئے تجربے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ ایک ایسا تجربہ جو منفرد بھی ہے اور جداگانا بھی۔ کیونکہ اس طرح کا تجربہ اردو ادب کے کسی اور ناول کے اندر پیش نہیں کیا گیا۔ ’چاندنی بیگم ‘ میں اس صورت حال کا اندازہ اس اقتباس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے :
’’تم اکیلی چھوکری ہوٹل میں کیسے رہو گی ہے ۔۔۔۔ ادھر آجائو ۔۔۔۔ لیلی کو اوپر والے گیسٹ روم میں مت ٹہرانا۔۔۔۔ شاطو مارگو نے پر اسرار انداز میں لیلی کو مخاطب کیا اور کہا کہ یہاں کرنل ڈیوڈ رہتے تھے۔ اکثر وہ رات کو پھیرا لگاتے اور ساتھ میں ان کی ڈنپل بھونکتی بھی تھی۔۔۔۔ ‘‘
اسی طرح ایک اور اقتباس بھی ملاحظہ کیجئے جس میں ’چاندنی بیگم‘ کی آتما بھیس بدل کر پیلی کوٹھی میں واردہوتی ہے :
’’رات کے وقت اچانک ایک خوبصورت عورت نمو دار ہوئی اور کہنے لگی میں پیلی کوٹھی کی مالکن ہوں۔ اس پر میرا قبضہ ہے۔ ۔۔۔ ڈیزوزا اسے پہچان نہ سکی۔۔۔۔ مگر اسے محسوس ہوا کہ اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔۔۔۔ اتنے میں ایک طوطا اڑتا ہو اوہاں آیا اور کہنے لگا یہ عورت چاندنی بیگم ہے جو برسوں پہلے مر چکی ہے۔۔۔۔ یہ سننا ہی تھا کہ وہ عورت سمٹ کر کھڑکی سے ایسے گزر گئی جیسے آسمان سے شہابِ ثاقب زمین پر گرتے ہیں۔۔۔۔ ‘‘
مجموعی طور پر ’’چاندنی بیگم‘‘ میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جو کسی جادوئی حقیقت نگاری والے بیانیہ کی اساس ہیں۔ قرۃ العین حیدر نے اس تکنیک کو اپنے ماحول اور سماجی حالات کے مطابق اس کے بنیادی عناصر کو مد نظر رکھتے ہوئے برتا ہے۔ انھوں نے لاطینی امریکہ کے ناول نگاروں کی تقلید کرنے کی بجائے اپنا راستہ خود نکالا ہے اور ’’چاندنی بیگم ‘‘ کے حقیقت نگاری والے اسلوب میں پر اسرار واقعات کی بدولت جادوئی حقیقت نگاری کی تکنیک کو پوری کامیابی کے ساتھ بنھایا ہے۔
……………………………….
Dr.Kamarunneesa.k.
Assistant Professor& HoD
SSUS,Regioal Campus Koyilady, Calicut-Kerala