نجمہ عثمان- برطانیہ
قصہ ولایتی شیر خرمہ کا
عید میں ابھی پورے دس دن باقی تھے اور فرید صاحب کے تردد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا ۔نفیسہ بیگم نے انہیں ابھی تک
عید کے خاص پکوان کی شاپنگ لسٹ نہیں پکڑائی تھی۔ اس شام پوچھ ہی بیٹھے ’’ کیا اس سال شیر خورمہ بنانے کا پروگرام
نہیں ہے ‘‘؟
نفیسہ بیگم نے اس سوال کو آغاز جنگ کا اعلان سمجھتے ہوئے جھٹ مورچہ بندی کر لی۔
’’ آپ سوال میں بھی نفی کا پہلو کیوں لے آتے ہیں ؟ ایک تو سردیوں کے ٹھنڈے ٹھنڈے روزے اور نگوڑ مارے چھوٹے
چھوٹے سے دن۔ سحری اور افطاری کے بیچ اس مختصر سے وقفے میں سو طرح کے کام ہوتے ہیں۔ اوپر سے آپ کا
یہ نیگیٹو انداز !‘‘
فرید صاحب ان نوکیلے جملوں کی چبھن سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے بولے ’’ میں نے تو صرف دریافت کیا تھا کہ۔۔۔۔۔‘‘
ان کا ادھورا جملہ جوابی حملے کی تیز دھار تلوار کی زد میں آ کر کٹ گیا ۔
’’ آپ کسی کو بولنے کا موقع دیں تو بتائوں کہ اس سال کیش اینڈ کیری جاکر میں خود سارا سامان خرید لائی ہوں ۔ وہ
نگہت جارہی تھی اسی کے ساتھ چلی گئی۔‘‘
فرید صاحب کے چہرے پر سوچ کی لکیریں اور گہری ہوگئیں۔ تو گویا نگہت فیاض علی نے یہاں بھی سخاوت کے
دریا بہادئے۔ زبانی مشوروں اور نکتہ چینی میں تو وہ ہر فن مولا تھیں اب عملی طور پر بھی دریا دلی دکھانے لگیں۔ ان کی
دیکھا دیکھی یہ نفیسہ بیگم نہ جانے کیا کیا بٹور کر لے آئی ہونگیں۔
نفیسہ بیگم نے انہیں خاموش اور سوچ میں ڈوبا ہوا دیکھ کر جنگ کا بگل پھر سے بجایا َ۔
’’ یہ نگہت کا نام سن کر آپ کو سانپ کیوں سونگھ گیا۔ جتنی بچت اس نے کروائی ہے کوئی اپنا سگا بھی نہیں کرتا۔ اور سب چیزیں
اتنی سستی ہیں کہ آپ قیمتیں سن کر ہی دنگ رہ جائنگے۔‘‘
فرید صاحب نے نگہت کی فیاضی کو نظر انداز کرتے ہوئے بے یقینی کے انداز میں پوچھا ’’ وہ شیر خورمے کا سامان
سب مل گیا نا‘‘؟
نفیسہ بیگم مزید کچھ کہے بغیر اٹھیں اور ان کے آگے بادام، پستے ،کشمش، کاجو ، چھوہارے اور ثابت کھوپرے کے
پیکٹ لاکر رکھ دئے۔
فرید صاحب کے چہرے پر طمانیت آگئی اور بیگم کے چہرے پر فتح مندی کے آثار۔
’’ میوے کی ساری کٹائی آپ حسب روایت اس ناچیز پر چھوڑ دیں ‘‘ ۔ فرید صاحب گرما گرم شیر خورمے کے تصور سے
سرشار ہوکر بولے۔
’’ نہیں جناب اب آپ کو یہ تکلیف اٹھانے کی مطلق ضرورت نہیں۔ نگہت نے جو ترکیب بتائی ہے وہ آسان بھی ہے اور
یہ جو ہاتھ سے گھنٹوں میوے کی کٹائی کرنی پڑتی ہے یہ بھی ختم۔ اب کوئی تام جھام کرنے کی ضرورت نہیں‘‘۔
فرید صاحب یہ سوچ کر ہی دہل گئے کہ گھنٹوں میں تیاری کا کام جس میں میوہ دھونا ،خشک کرنا، باریک باریک کاٹنا اور
الگ الگ بھوننا شامل ہے منٹوں میں کیسے ہو جائے گا۔ تو گویا ان کی سالانہ خوشی پر بھی نگہت فیاض علی کی ولایتی ریسیپی
نے پانی پھیر دیا تھا۔
چاند رات کو نفیسہ بیگم کا کچن ٹی وی پر کسی پکوان پروگرام کا منظر پیش کر رہا تھا۔ دھلا ہوا میوہ مائکرو ویو میں گھوم گھوم کر
سوکھ رہا تھاپھر الیکٹرک اوون میں رکھ دیا گیا۔نفیسہ بیگم بار بار اوون کا دروازہ کھول کر میوے پر سرخی تلاش کرتیں۔ اس
دوران کئی مرتبہ نگہت کو فون دوڑایا گیا۔ ادھر ان کی پریشانی کی تفصیلات ادھر نگہت فیاض علی کا اطمینان بخش انداز۔گھبرائو نہیں
سب ٹھیک ہو رہا ہے کاجو اور بادام اوپر کی ٹرے میں رکھو اور کھوپرہ وغیرہ نیچے کی ٹرے میں۔
نفیسہ بیگم اوون سے فارغ ہوئیں تو کچن کے سارے بلینڈر اور جوسر الماری سے نکل نکل کر ورک ٹاپ پر سجا دئے
گئے۔ کچن سے مائکرو ویو کی گھوں گھوں اور مشینوں کے چلنے کی آوازیں آتی رہیں ۔ساتھ ساتھ فون پرنفیسہ بیگم اور نگہت
کی تفصیلی گفتگو۔
فرید صاحب نے زندگی میں پہلی بار اتنی کوفت اور جھنجھلاہٹ اٹھائی۔ وہ جب بھی کچن کا رخ کرتے نفیسہ بیگم بڑے
پیار سے انہیں وہاںسے چلتا کر دیتیں۔ ’’ آپ آرام سے بیٹھیں میں سب خود کر لونگی۔چلیے چلیے یہاں سے نکلیں او ر
ذرا اسموک الارم پر نظر ڈال لیں۔ کچن میں دھواں بھرے تو فوراًبجنے لگتا ہے ‘‘
فرید صاحب کے دل سے وسوسوں، اندیشوں بیچارگی اور تلملاہٹ کا جو کڑوا کسیلا دھواں اٹھ رہا تھا اس کانفیسہ بیگم
کے ذہن کے اسموک الارم پر کوئی اثر نہ تھا اور وہ اسی شد مد سے بیچارے شیر خورمے پر مشینی دائو پیچ استعمال کرتی رہیں۔
کچن میں نو انٹری کا سائن بورڈ لٹکا دیکھ کر فرید صاحب کمرے میں آکر بیٹھ گئے تھے اور اپنے ایک بے تکلف
دوست سے فون پر کہہ رہے تھے ’’ ہاں بھئی حسب روایت عید کی دعوت ہمارے یہاں ہے۔ تمہیں فیاض علی سے
بھی ملوائنگے۔۔۔ارے وہی نگہت فیاض علی کے شوہر نامدار۔۔ اس مرتبہ تمہیں ولایتی شیر خورمہ ملے گا۔۔۔۔۔۔
اور ہاں۔ایک بری خبر ہے۔ بیچارہ سروتہ۔۔اتنے برسوں کی ریاضت اور محنت کے بعد جبری طور پر ریٹائر کردیاگیا۔۔۔۔۔‘‘