ڈاکٹر محمد سہیل اقبال
ڈاکٹر محمد راشد اقبال
اسسٹنٹ پروفیسر( اُردو) گورنمنٹ اسلامیہ گریجویٹ کالج، قصور
By, Dr. Muhammad Sohail Iqbal
Dr. Muhammad Rashid Iqbal
Govt. Islamia Graduate College, Kasur.
m.rashidiqbal1981@gmail.com
قلعہ جنگی : 9/11اور سیاسی علائم و استعارات
The Calamity of the September 11 and Political Symbolism and Metaphors in
The Qalah Jangi
The tradition of using symbols in literature is ancient. Critics have been bringing forth new dimensions in the field of critical examination of literature on the basis of symbols. The author has revealed many hidden facts while paying the right to use symbols, but on the other hand, he has wrapped the complex political and economic interests in the layers of symbols. The writer uses these political symbols and metaphors to point out complex issues with great skill. This type of situation is more common in third world countries. Symbolism means to attaches additional meanings to the routine actions and objects. Symbols and metaphors become important when the target is to convey hidden and complicated messages in an indirect way. While talking about the use of symbols in novels, Mustansir Hussain Tarar’s Novel Qalah Jangi is hard to be unnoticed. Qalah Jangi; explores the political interests of America in a symbolic way. The dynamic and lively symbol of horse keeps roaming through the entire plot of Qalah Jangi and makes it easy for the reader to encompass and comprehend the complex situation. This research article aims at exploring critically, the resemblance and parallels between the horse as a vibrant character in Qalah Jangi and American interests in Afghanistan.
Keywords: Novel, qilah janggi, Symbolism, horse, Afghanistan., American, character, Attack, Mustansir Hussain Tarar, war
یونانی لفظ symballeion کا مطلب ہےساتھ رکھنا ۔اسی سے لفظ symbolon بنا۔symbol کے لیے اردو میں علامت کا لفظ رائج ہے۔اردو فکشن میں اور شعریات میں ”اشارہ“نشان اور رمز کے الفاظ بھی علامت کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ادب میں علامت ایک شے اپنے لغوی معنی کی بہ جائےمجازی کسی اور شے کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔اردو شاعری میں استعمال کیے گئے استعاروں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔یورپی ادبیات میں بودلیرمیں راں بو،والیری اور میلارمے کے نام قابل ذکر ہیں۔ میلارمے کی علامت نگاری کو اردو میں میرا جی نے متعارف کروایا۔علامت نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر سہیل احمد اپنی کتاب ”منتخب ادبی اصلاحات ”میں بیان کرتے ہیں:
رمز یا علامت کسی وقت مطلب کو خفیہ یا پوشیدہ رکھنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً طریقت میں اِس طریقے سے مقدس علوم کی حفاظت کی ہے نا اہلوں سے انھیں بچایا جاتا ہے۔اصل مفہوم سے رمز شناس ہی واقف ہو سکتے ہیں۔دوسرے ظاہری سطح پر ہی اُلجھے رہتے ہیں اسی طرح کسی دہشت ناک،سیا سی سماجی ماحول میں یہ سچی بات کہنے اور پھر بھی مخفی رہنے کا ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے۔مگر علامت کو بزدلی سمجھنا (جیسا کہ اُردو کے بعض سادہ لوح ناقدین نے کہا ہے)رموز کی معنویت سے مکمل بے خبری کی دلیل ہے۔(۱)
اردو فکشن میں سیا سی علائم و استعارات کا استعمال بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اِن سیا سی علائم و استعارات کا استعمال پیچیدہ قسم کے مسائل کی طرف نشاندہی کرنے کے لیے مصنف بڑی مہارت سے استعمال کرتا ہے۔یہ روایت قدیم عہد سے ہی مستحکم ہے۔ سیاسی علائم کا استعمال اُس وقت بڑی اہمیت رکھتا ہے جب اپنی بات یا مدعا کسی وزیر،بادشاہ یا پھر جابر و ظالم حکمران کے سامنے پیش کرنے کا معاملہ ہو۔علامت میں بات کنایہ کے انداز میں کی جاتی ہے یعنی بات کو کسی کے ڈرکی وجہ سے پردے میں چھپا کر بیان کیا جاتا ہے۔اس قسم کی صورتِ حال تقریباََ تیسری دنیا کے ممالک میں زیادہ عام ہے۔ اس طرح پاکستان کے اندر بھی کئی دور آمروں کے زیرِ نگرانی گزرے ہیں۔اس دور میں پاکستانی ادیب بات کو پردوں میں چھپا کر بیان کرتے تھے کیونکہ حاکمِ وقت کا خوف ہوتا تھا ۔مشہور فلمی جملہ ”نواں آیاں ایں سونیا“اس کی عمدہ مثال ہے۔
علامت نگاری کے حوالے سے مستنصرحسین تارڑ کا ناول” قلعہ جنگی ”مشہور ہے جس میں گیارہ ستمبر کے بعد امریکی انتقام اور افغانستان کی صورتِ حال کو نہایت ہی موثر علامتی تناظر میں بیان کیا گیا ہے۔ ناول میں گھوڑا کی علامت کو بنیاد بنا کر افغانستان پر امریکی حملہ اور افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کو بیان کیا ہے۔گھوڑے کی علامت سارے ناول پر محیط ہے ۔سوویت یونین کے بعد امریکہ کے لیے افغانستان ایک قیمتی گھوڑے کی اہمیت رکھتا تھا ۔جس طرح پرانے زمانے میں گھوڑا ایک قیمتی اور کار آمد تصور کیا جاتا تھا، اسی طرح امریکہ کے لیے افغانستان قیمتی اور کارآمد تھا ۔اس کو حاصل کر کے معدنی ذخائر کا کنٹرول اہم مقصد تھا،جس کی بدولت بے پناہ معاشی فوائد حاصل کیے جا سکتے تھے۔ یورپ خصوصاََ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ یورپی بینکوں کی نظر افغانستان پر بہت پہلے سے ہی مرکوز تھی۔اس حوالے سے ڈاکٹر مجاہد کامران،جان کے کولی (، (John K. Cooleyنوم چومسکی (,(Noam Chomskyارون دھتی روئےArundhati) Roy)کی تحریریں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ جس طرح یورپی ملکوں اور بینکوں کی نظر افغانستان پر مرکوز تھی اسی طرح قلعہ جنگی کے تہہ خانے میں موجود کردارو ں کی نظر گھوڑے پر مرکوز ہے جن کے وہی مقاصد ہیں جو امریکہ کے ہیں اس مماثلت کو سیاسی استعارہ بنا کر یوں پیش کیا ہے:
گھوڑا ہے
کہاں ہے؟
اوپر…قلعہ جنگی کے صحن میں…
وہاں گھوڑا کیسے ہو سکتا ہے…لاشوں کو کھانے آیا ہے؟
نہیں ہے…سچ مچ کا گھوڑا ہے…کان لگا کر سنو….
تہہ خانے میں اترتی پہلی تین سیڑھیوں پر چاندنی بچھی تھی…اُن سب کی نظریں اُن تین سیڑھیوں تک اُٹھی ہوئی تھیں..
اوپر کوئی نہیں….ہے…میں نے خود سنا ہے
وہ کان لگائے اتنی دیر منتظر رہے کہ اونگھنے لگے اور پھر ایک مدہم سی ہنہناہٹ تہہ خانے کی سینتیس سیڑھیاں اُترتی اُن کے کانوں تک آئی اور آتے ہی مزید مدہم ہو گئی۔
میں نے کہا تھا ناں کہ ہے….سنو اگر ہم اسے پکڑلیں تو کھا سکتے ہیں کس کو؟
گھوڑے کو…(2)
گیارہ ستمبر کے واقعہ کا انتقام لینے کے لیے امریکا افغانستان پر حملہ کرنے کی سوچ بچار میں پڑ گیا۔اس حوالے سے وہ اپنے اتحادیوں سے صلاح مشورے کرتا رہا۔شاید اُن کو ڈر تھا کہ افغانستان پر حملہ اُن کی معاشی صورتِ حال کو خراب نہ کر دےاگر امریکہ افغانستان پر حملہ کرتا ہے تو اس کا ردِعمل کیا ہو سکتا ہے؟ ان سب باتوں نے امریکہ کو To be or not to be کے چکر میں ڈال دیا۔گھوڑے کو مارتے وقت ناول کے کرداروں میں بھی To be or not to be کا تجسس موجود ہے اس صورتِ حال کو سیاسی علائم کے ذریعے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
گھوڑے کو کون مارے گا؟چی چی نے کہا
مرتضیٰ نے کہا تم گل شیر….
نہیں یارا ہمارا طبیعت خراب ہے….کلاشنکوف چلانے کو جی نہیں چاہ رہا.
ورنہ ہمارا لوگ تو انسان کو بے دریغ مارتا ہے جانور کیا چیز ہے۔ بہانے نہیں بناؤ خاں صاحب…گھوڑوں کے بارے میں تمہارا تجربہ بہت وسیع ہے…تمہارا باپ بھی تو نواب کے بیمار گھوڑوں کو کرتا ہو گا۔تو تم بھی کر سکتے ہو۔
….چی چی کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا…
بولو چی چی
مرتضٰی بیگ ادھر ہمارے چیچنیا میں گھوڑوں کو اولاد کے برابر درجہ دیتے ہیں بلکہ اُس سے بھی بلند….اولاد کو مارنا مشکل ہوتا ہے…کوئی اوربے شک مار دے خود مارنا مشکل ہوتا ہے،عبدالوہاب کو بولو…یہ بدو لوگ عادی ہوتے ہیں۔
عبدالوہاب بھی چپ رہا….بولو عبدالوہاب
اخی چی چی کہتا ہے اُن کے ملک میں گھوڑا اولاد کے برابر ہوتا ہے لیکن ایک عرب کے لیے گھوڑا عزتِ نفس ہوتا ہے…(3)
تیسری علامت مغربی پالیسی سازو ں کے حوالے سے ہے۔گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ اور مغربی پالیسی سازوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا علان کردیا۔اس بات پر تنقید کرتے ہوئے نوم چومسکی اپنی کتاب” گیارہ ستمبر ”میں بیان کرتے ہیں:
افغانستان پر حملہ کے نتیجے میں بہت سے معصوم شہری ہلاک ہو جائیں گے ممکنہ طور پر ایک بڑی تعداد۔ایک ایسے ممالک میں جہاں وہ بھوک کے مارے پہلے ہی موت کے کنارے پر ہیں،معصوم شہریوں کا بے دریغ قتل دہشت گردی کےزمرے میں آتا ہے۔یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں۔(4)
مغربی پالیسی سازوں نے نام نہاد جنگ کے بہانے تراشنے شروع کردیے کبھی گھبراہٹ میں صلیبی جنگوں کا نام لیا گیا،کبھی مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیا گیا ۔یہاں تک کے پاکستان کو واضح طور پر دھمکی دی گئی جبکہ گیارہ ستمبر کے سانحہ میں کوئی پاکستانی بھی ملوث نہ تھا۔ اس سب کے باوجود مسلمانوں کو مجرم گردانا جانے لگا۔ بنیاد پرستی کے بعد،انتہا پسندی اور مسلمانوں کو خصوصاََ افغانستان کو دہشت گردی کا محور قرار دیا گیا۔یہ سب جھوٹ تھا جس کو امریکی عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ امریکہ کی افغان جنگ کے جھوٹ پر Craig Whitlock نے سرکاری رپورتوں پر مشتمل جامع کتاب لکھی ہے:
The only tough question came when Williams asked Rumsfeld if he was ever tempted to lie about the war during his frequent press conferences at the Pentagon. How often are you forced to shave the truth in that briefing room, because American lives are at stake.(5)
ان سب کے پسِ پردہ حقائق یہ ہیں کہ مسلمان دنیاکے ساٹھ ستر فیصد وسائل کے مالک ہیں۔ امریکہ ان وسائل کو اپنے کنٹرول میں کرکے واحد عالمی حکومت One world government کا قیام چاہتاہے۔اس لیے امریکہ نے مسلمانوں کو عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دے دیا۔اس حوالے سے ثروت جمال اصمعی اپنی کتاب ”دہشت گردی اور مسلمان ”کے تعارف میں بیان کرتے ہیں:
مغربی پالیسی سازوں نے ایک مدت سے مسلمانوں کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر رکھا ہے۔بنیاد پرستی اور انتہا پرستی جیسے الزامات کے بعد گزستہ کئی برس سے دہشت گردی کا ٹھپا لگا کر انہیں عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دے دیا گیا ہے اسی الزام میں مسلم ملکوں کو تاخت وتاراج کیا جا رہا ہے اور ان کی آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ الزامات وہ طاقتیں لگا رہی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے سو فیصد جائز حقوق علی الاعلان غصب کر رکھے ہیں۔یہ طاقتیں اپنی ظالمانہ اور غیر منصفانہ پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج اور مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دے کر اپنی غاصبانہ کاروائیوں کے لیے جواز مہیا کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہیں۔تاہم وقت نے ان کے الزامات کا سراسر کھو کھلا ہونا پوری طرح ثابت کردیا ہے۔یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو چکی ہے کہ عالم ِاسلام کے خلاف مغربی پالیسی سازوں کی جارحانہ کاروائیاں کسی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے نہیں بلکہ اس کے وسائل پر قبضہ کے لیے ہیں…..(6)
جس طرح امریکہ اور مغربی پالیسی سازوں کا یہ خیال ہے کہ ہمارے معاشروں میں امن اور زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان پر حملہ کرکے اس کے معدنی وسائل پر قبضہ کرلیا جائے اسی طرح قلعہ جنگی میں کرداروں کی بھی یہی ذ ہنی کیفیت ہے کہ اگر گھوڑے کو مار کر کھا لیا جائے تو ہم چند دن اور زندہ رہ سکتے ہیں۔انسانی بقا ء کی اس کشمکش کو سیاسی عالمی تناظر میں کرداروں کے ذریعے یوں بیان کیا گیا ہے:
ہم پر وہ وقت آنے والا ہے جانی جب ہم اس گھوڑے کو زندہ کھا جانے کے بارے میں سوچنے لگیں گے، اپنی تمام ترگھوڑا اخلاقیات کہ یہ ہمیں اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے،ہماری عزت نفس ہے، ہم سب یہ بکواس بھول کر اپنی بھوک اور پیاس کے سامنے سر نگوں ہو کر اسی گھوڑے کی پشت پر اپنے دانت گاڑھ کر منگولوں کی مانند اس کا خون پینے لگیں گے، ہم پر وہ وقت آنے والا ہے…ابھی ہم میں کچھ سکت باقی ہے،اگر اب ہم اس کو ہلاک کرکے اس کا گوشت نہیں نگلتے تو کل تک اگر کل آئی تو…ہم اتنے لاغر اور لاچار ہو چکے ہوں گے کہ اسے مارنے کے لیے ہماری انگلیوں سے کلاشنکوف کی لبلبی بھی نہیں دبائی جائے گی کم آن جانی۔(7)
مغربی معاشروں کو امریکی پالیسی ساز یہ باور کراتے رہے کہ آپ کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کو ختم کیا جائے۔آپ کے پُر امن زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ا فغانستان جیسے مہلک ملک کو ختم کیا جائے ورنہ آپ کے معا شروں اور زندگیوں کو شدید خطرات لا حق ہیں۔پسِ پردہ حقائق یہ ہیں کہ دوسرے ملکوں کے مال کو ضبط کرکے زندہ رہنے کا طریقہ اپنایا جائے۔ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے اس سیاسی فکری استحصالی الجھن کو ایک جملے میں سموکر بین الاقوامی تعلقات کے مابین اخلاقیات کی بھیانک شکل کو ظاہر کیا ہےکہ ”قلعہ جنگی” افغانستان پر امریکی حملے کی کتھا ہے ۔” (8) ڈاکٹر حمیرا اشفاق کا یہ جملہ امریکہ کی عسکری بالادستی کا جامع اشارہ ہے۔
چوتھی علامت افغانستان پر حملے کو ظاہر کرتی ہے۔امریکہ نے گیارہ ستمبر2001ء کو دہشت گردی کا بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ کردیا تاکہ جلد از جلد افغانستان پر قبضہ کر کے معدنی ذخائر پر قابض ہو سکیں اور اپنے پیٹ کی مادی بھو ک کو بھسم کیا جا سکےکیونکہ یہ نام نہاد جنگ تھی جو افغانستان پر مسلط کر دی گئی تھی۔ اِس لیے امریکی بو کھلاہٹ صاف ظاہر تھی۔مبشر حسن اپنی کتاب” شاہراہ انقلاب:امریکہ کی پسپائی” میں بیان کرتے ہیں:
گیارہ ستمبر 2001ء میں امریکی صدر جار ج بش نے دہشت گردی کے خلاف ا علان جنگ کر دیا۔یہ بھی کہہ دیا کہ اس جنگ میں جو ہمارا ساتھ نہ دے گا اسے مخالف تصور کیا جائے گا ۔ بوکھلا ہٹ اور دیوانگی کے عالم میں امریکی صدر نے یہاں تک کہہ دیا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی صلیبی جنگ ہے یعنی عیسائیت کی اسلام سے جنگ ہے۔جب ہوش آیا تو اپنے الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جنگ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے۔ (9)
جنگ میں جو ہمارا ساتھ نہ دے گا اُس کو مخالف تصورکیا جائے گا جیسے بیان پر ارون دھتی رائے(Aroundhati Roy (نے تنقید کرتے ہوئے کمال درجے کی تا ثیر اور تجسس پیدا کیا ہے۔ارون دھتی رائے(Aroundhati Roy) اپنی کتاب ”سرمایہ داریت راستی جبر اور مزاحمت“ میں بیان کرتی ہیں:
کسی کو امریکہ دشمن قرار دینا یا پھر ہر حوالے سے امریکی دشمنی پر تل جانا…یاقطعی طور پر ہندوستان مخالف ہو جانا،نہ صرف نسل پرستانہ رویہ ہے بلکہ کسی ادارے یا شخص کی تنگ نظری کی علامت بھی ہے۔یہ ایک خاص قسم کی کوتاہ بینی جس میں معاملات کو اسٹبلشمنٹ کے نقطہ ء نظر سے ہٹ کر دیکھنا نا ممکن ہو جا تا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ بش کی حمایت نہیں کرتے تو پھر آپ طالبان کی حمایت کر رہے ہیں۔یعنی اگر آپ ہم سے محبت نہیں کرتے تو یقینا آپ ہم سے نفرت کرتے ہیں۔اگر آپ اچھے نہیں ہیں تو لا محالہ برائی پر کمر بستہ ہیں۔اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو یقینا دہشت گرد ہیں۔(10)
افغانستان پر امریکی حملہ انفرادی اور اجتماعی طور پر تمام دنیا کو اپنے کنٹرول میں کرکے عالمی سرمایہ داری پر اجارہ داری کو جنم دینے کے برابر ہے۔یہ حملہ امریکی اور مغربی ممالک کی منافقتوں اور غیر منصفانہ پالیسیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔اس کے لیے انکل سام تیسری دنیا کے حکمرانوں کو بھی اپنے سرمایہ دارانہ مفاد کے لیے استعمال کرنے کے بعد جب چاہے راستے کے کانٹا کی طرح راستہ سے دور کر دیتا ہے اور بعض دفعہ امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دے کر صفہ ہستی سے ہی مٹا دیتا ہے۔افغانستان پر حملہ کا منصوبہ امریکہ بہت پہلے ہی بنا چکا تھا جس کے لیے کوئی بہانہ تراشنا ضروری تھا جس کے لیے گیارہ ستمبر جیسی عالم تراکیب بہت اہم تھی۔اس سانحہ کو ہر ایک نے نئے عالمی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
افغانستان پر امریکی حملہ کی نئی عالمی ترکیب اور کرداروں کا گھوڑے کو ہلاک کر دینے میں مماثلت موجود ہے ۔یہاں پر گھوڑے کو ہلاک کرنے کی علامت گیارہ ستمبر کے پس منظر میں افغانستان پر امریکی حملے کو ظاہر کرتی ہے۔کرداروں کے ذریعے گیارہ ستمبر کے اس علامتی تناظر کو یوں ظاہر کیا گیا ہے:
صرف گھوڑا تھا جو منتظر تھا۔
اور وہ جانتا تھا کہ جو اُس کی پشت کو پیار سے سہلانا جانتا ہے بس وہی اُسے اس اذیت سے نجات دلا سکتا ہے….جو زخمی ہونے میں اور اندھیرے میں ہونے سے تھی…سناٹے اوراندھیرے میں جب کہ تہہ خانے میں اُترنے والی پہلی سیڑھی سے بھی مکر چاندنی سمٹنے والی تھی…ایک شعلہ بھڑکا اور ایک بھاری وجود کے گرنے کی آواز نے سناٹے کو پاش پاش کر دیا۔(11)
ایک شعلہ بھڑکنے اور بھاری وجود کے گرنے میں افغانستان پر حملے کا خوبصورت علامتی انداز پنہاں ہے جو عالمی سیاسی استعارے کا علامتی تناظر ہے۔افغانستان پر امریکی حملہ ایک مخفی تناظر ہے جس کو سیاسی شطرنج کے ایک کھلاڑی نے اپنی کتاب The deep Politics of U.S. Interventions میں بخوبی بھانپا ہے:
Today I would speak of ‘Deep Politics’ or deep political processes rather than conspiratorial events, meaning a series of practices, at odds with the laws and mores of society, which are usually repressed rather than acknowledge. Deep political processes include parapolitical ones but are more open ended. Parapolitics is a means of control. Deep politics can refer to any form of sinister, unacknowledged influence. (12)
پانچویں علامت امریکی اتحادیوں کا افغانستان پر حملہ اور گھوڑے کو ہلاک کرنے کے لیے جانے والے کرداروں کی مماثلت ہے۔امریکہ افغانستان کے مقابلے میں طاقتور ملک ہے جس کے پاس لا تعداد کیمیائی ہتھیار ہیں،بم،میزائل ہیں جو معیشت کے لحاظ سے بھی کئی گناہ مضبوط ہے۔ہر طرح کی جدید ٹیکنالوجی اور سہولت سے آراستہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف افغانستان جیسا کمزور،غریب ملک ہے جس کی عوام کے پاس نہ پہننے کو کپڑا ہے اور نہ خوراک،عوام پہلے ہی غربت کا شکار ہے۔ایک طرف دنیا کا طاقتور ملک جبکہ دوسری طرف دنیا کا کمزور ترین ملک۔امریکہ اگر تن تنہا افغانستان پر حملہ کر دیتا تو تب بھی امریکہ کے لیےکوئی مسئلہ نہ تھا مگر اس سب کے باوجود امریکہ نے افغانستان پر تنہا حملہ نہیں کیا بلکہ طاقتور ترین ملک ہو نے کے باجود بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حملہ آور ہوا۔”قلعہ جنگی“ میں اس صورتِ حال کو علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔گھوڑے کو پکڑنے کے لیے ایک مجاہد کا ہونا کافی تھا لیکن گھوڑے کو پکڑنے کے لیے بھی ایک مجاہد نہیں جاتا بلکہ کئی مجاہد ین جاتے ہیں اور گھوڑے کو تہہ خانہ میں لا کر ہلاک کرتے ہیں:
وہ اُٹھے،کیسے اُٹھے؟یہ تو وہی جانتے تھے پیپ سے رِ ستے بدن کو مردہ کرتے زخموں…کی کرچیوں کی چبھن برداشت کرتے،بدن میں آرام کرتے ڈیزی کٹر کے لوہے….بنکر بسٹر کے ٹکڑے…تین دن اور تین راتوں کی نڈھال بھوک اور پیاس کو سہارتے جانے کیسے اُٹھے مگر اُٹھے۔(۱3)
افغانستان پر حملہ کرنے کے بعد امریکہ نے ایک اور نئی الجھا دینے والی،اعصاب شکن نئی عالمی ترکیب Good or Bad Talibanکی اصطلاح استعمال کی۔یعنی جو طالبان سوویت یونین کے دور میں ہمارے ساتھ تھے اگر وہ آج بھی ہمارے ساتھ ہیں تو اُن کے خلاف کاروائی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی اُن پر جنگی مقدمات عائد ہو نگے۔یہ عام ترکیب نہ تھی اس ترکیب کے اندر بہت سے معنی مخفی تھے جن کو ڈی کوڈ کرنا دقت طلب کام ہے۔Good or Bad Taliban کی سیاسی اصطلاح اور ”قلعہ جنگی“کے کرداروں کے درمیان گھوڑے کا گوشت کھانے اور نہ کھانے یا حرام اور حلال کی بحث میں بھی علامتی انداز فکر موجود ہے۔جس طرح امریکہ نے Good or Bad Taliban کی اصطلاح پیدا کرکے نئی صورتِ حال کو جنم دیا تھا اسی طرح ”قلعہ جنگی“کے کرداروں کے درمیان ہونے والی حرام و حلال کی بحث قاری کی توجہ ایک نئی صورتِ حال پر مر کوز کر دیتی ہے:
بیو قوف گھوڑا ہے اور اگر ہم اس کو قابو کرکے تہہ خانے میں لے آئیں
تو اسے کھا سکتے ہیں۔
گھوڑا حلال ہوتا ہے؟
اگر نہیں بھی ہوتا ہے تو کیا تم نہیں کھاو گے۔
تم بتاو عبدالوہاب خادمین حرمین شریفین تم سے بہتر حلال اور حرام کی تمیز کسے ہو سکتی ہے ہم تو تمہارے پیروکار ہیں۔
مکروہ ہے لیکن حرام نہیں کھایا جاسکتا ہے۔(۱4)
ساتویں علامت میں کمال درجے کی تاثیر اور تجسس ہے جو کہ مصنف کی علامت نگاری کی مہارت کو ظاہر کرتی ہے۔امریکہ نے اپنے مخفی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے افغانستان پر بموں کی بارش کردی،ہر طرح کے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے،ڈیزی کٹر جیسے منی ایٹم بم بنکر بسٹر استعمال کیے گئے۔افغانستان کو لاشو ں سے بھر دیا، افغانستان کو لاشوں کے صحرا میں تبدیل کر دیا،جگہ جگہ گہرے گڑھے پڑ گئے،ادھڑی اور کٹی پھٹی لاشوں کے کھیت ہر جگہ نظر آتے ۔معصوم افغانیوں کی لاشوں کو سانسی اور گدھوں کی مقابلہ بازی کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا کہ ان دونوں میں سے کون پہلے ان کی لاش تک پہنچ کر اپنی خوراک کا حصہ بنائے۔افغانستان کی سر زمین کو سروں کے فٹ بال سے بھر دینے کے باوجود بھی امریکہ اپنے مخفی مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکا اور نہ ہی افغانستان پر مکمل طور پر قابض ہو سکا بلکہ سوویت یونین کی طرح وہاں سے بچ نکلنے کی ترکیبیں سوچنے پر مجبور ہو گیا۔با لکل اسی طرح”قلعہ جنگی“میں گھوڑ ے کو مار دینے کے بعد وہ گھوڑے کو نہ کھا سکے جس طرح امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کو ہڑپ نہ کر سکے اسی طرح قلعہ جنگی کے کردار مرتضٰی،گل شیر ولی،ہاشم میر،اور جانی بھی گھوڑے کو نہ کھا سکے۔اس سیاسی علامتی تناظر کا انتہائی بلیغ اور فصیح استعارہ ہے:
گھوڑے کو کیسے اور کہاں سے کھایا جاتا ہے
یارا…گل شیر شاید کوشش کر چکا تھا۔اس کا جلد تو بہت سخت ہے،چمڑے کے موافق ہے اس میں دانت گاڑھ کر گوشت کا بوٹی تو الگ نہیں کیا جا سکتا تم نے کوشش کیا ہے خاں صاحب نہیں یارا…بس ہاتھ لگا کر اندازہ کیا ہے…چمڑے کے موافق..کیسے کھائے گا۔(15)
اسی تسلسل کو مزید یوں بیان کیا ہے:
تم اگر مذاق سے فارغ ہو جاو تو میں گھوڑے کے پارچے تراشنے کی کوشش کروں اگرچہ یہ مکروہ ہے،مرتضٰی شدید غصے میں تھا،اس جانور کی پشت پر بیٹھے ہوئے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ اس کی جلد کا چمڑا اتنا سخت ہو گا کہ اسے ایک خنجر سے کاٹنے کے لیے بھی اتنا زور لگا نا پڑے گا…تم سب خاموش ہو گئے تو میں یہ کوشش دوبارہ کروں گا۔ (۱6)
آخری اور آٹھویں علامت کو بھی بلیغ کنایہ میں پیش کیا ہے۔امریکی حملے کے بعد افغانستان کھنڈر میں تبدیل ہو گیا،زندگی کے تمام آثار ختم ہوچکے تھے،افغانستان میں کسی قسم کی زندگی کی کوئی علامت باقی نہ رہی۔ افغانستان کشف و کرامات کا نمونہ پیش کرتا۔جگہ جگہ لاشوں کے پھڑکنے اور ٹھنڈا ہونے کا عمل جاری تھا۔یہاں تو لا شوں کے سروں پر چراغ روشن نہ ہوتے تھے،افغانستان بھوت گھر کا منظر پیش کررہا تھا۔افغانستان اب کسی طرح بھی کارآمد نہ رہا تھا۔افغانستان کو ہر طرح سے تباہ و برباد کر دیا گیا ۔افغانستان کی تباہی و بربادی اور گھوڑے کا مردہ جسم جو تہہ خانے میں کبھی پانی کی سطح پر نمو دار ہوتا اور کبھی ڈبکی کھا کر پانی کے نیچے چلا جاتا ہے دونوں واقعات میں گہری مطابقت پائی جاتی ہے۔نہ تو افغانستان کسی کے کام آسکا اور نہ ہی کسی کام کا رہ سکا،اسی طرح گھوڑے کا جسم بھی کسی کی خوراک کا حصہ نہ بن سکا اور نہ کسی اور کام کا رہا :
تاریکیوں کے سمندر میں چھ جزیرے ابھرے ہوئے تھے اور ساکت تھے گھوڑے کا ڈھانچہ کبھی جزیرہ بنتا تھا یعنی سطح آب پر نمودار ہوتا تھا اور کبھی ڈوب جاتا تھا اور اللہ بخش تھا جسے وہاب نے تھام رکھا تھا اور وہ بھی ڈوبتا ابھرتا رہتا تھا… چھ جوگی تھے جو اس تاریک گپھا میں دھونی رمائے کھڑے تھے….ان کا ٹھٹھرنا اورکانپنا بھی موقوف ہو چکا تھا او ر وہ سردی میں نیلو و نیل ہوئے ساکت اور منجمد سے ہو چکے تھے…رات ہو چکی تھی۔(۱7)
مستنصر حسین تارڑ نے گھوڑے کے علامتی پیکر میں افغانستان کی سیاسی سماجی معاشی،عصری اور بحرانی کیفیت کا دلکش مرقع پیش کیا ہے۔
”قلعہ جنگی“ میں گھوڑے کی علامت کے علاوہ اور بھی کئی علامتیں موجود ہیں۔اگر ناول کے عنوان ”قلعہ جنگی ”پر غور کیا جائے تو یہ بھی ایک علامتی اور استعاراتی عنوان ہے جو افغانستان کی مضبوطی اور مزاحمت کو ظاہر کرتا ہے۔امریکی آخری لمحے تک قلعہ جنگی کے اندر داخل ہونے میں کامیاب نہ ہو سکے۔آخری لمحوں میں جب چند امریکی تہہ خانے میں اترتے ہیں تو عبدل ا لحمید جان واکر نے کلاشنکوف کا ایسا فائر کرتا ہے کہ ایک امریکی زخمی ہو کر لڑھکتا ہوا تہہ خانے کے پانی میں آگرتا ہے۔اس آخری لمحے کی صورتِ حال کو نا قابلِ یقین حیرت کے ساتھ ان الفاظ میں اجاگر کیا ہے:
وہ بے خطر نیچے اترتے تھے۔جب عبدل الحمید جان واکر کے مر چکے منجمدبدن کی آنکھوں کے علاوہ ایک انگلی بھی زندہ ہو گئی تھی جو لبلبی پر تھی،اسے دبانے میں پہروں لگ گئے،با لآخر وہ دب گئی،گولیوں کی بار نے سیڑھیوں کا پلستر اڈھیڑ دیا اور ان میں سے دھول بلند ہوئی اور اس دھول میں کوئی زخمی ہو کر گرا اور لڑھکتا ہوا نیچے پانی میں آگرا… شِٹ…کسی نے امریکی لہجہ میں تھوکا،ادھر تو اب بھی کوئی ہے، ہاں میں ہوں…ڈونٹ کم ڈاؤن آر،آئی وِل شوٹ…کرائست،اسی لہجے میں ایک بے یقین حیرت کا خوف ابھرا۔یہ تو ہو نہیں سکتا لیکن نیچے ہم میں سے کوئی ہے۔ نو…آئی ایم ناٹ ون آف یو….میں تم میں سے نہیں۔(18)
”قلعہ جنگی“ کی اس علامت میں ا فغانستان کی سوویت یونین سے لیکر گیارہ ستمبر تک کے تاریکی ادوار کے بھید کو ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور علامت کو ایک آتش پرست کے کردار سے بیان کیا گیا ہے:
آتش پرست کے سامنے مرتبان میں جلتی مقدس آگ کا شعلہ تیز ہوا سے بری طرح پھڑپھڑایا…یہ شعلہ بھی ایک زمانے میں ایک تصورِ کامل تھا…بیشتر خداوں کی مانند…بامیان کے بدھ کی مانند…یہ رات اس آتش پرست بوڑھے کے لیے بھی بے حد طویل ہو رہی تھی جس نے اپنے شعلے کو زندہ رکھنے کی خاطر لاکھوں راتیں گزار دی تھیں۔(19)
آتش پرست اور آگ کے ا ستعارے میں مذہبی نظریاتی تصادم کی بنیاد پر غیر ملکیوں کا افغانستان میں آگ بھڑکانا ہے۔ یہ آگ قدیم دور سے ہی بھڑکائی جا رہی ہے اور ا ٓج کے دور میں بھی گیارہ ستمبر کی صورت میں موجود ہے۔سوویت یونین کے دور میں بھی یہی سر زمین کارزار بنی تھی اور گیارہ ستمبر کے بعد پھر ایک مرتبہ افغانستان کی سر زمین کو تختہ مشق بنایا گیا ہے۔ افغانستان کی یہ وہی سر زمین تھی جہاں پہلے کیمیونزم اور اسلام کا تصادم تھا،مگر اب عیسائیت اور اسلام کا تصادم جاری ہے۔اسی موضوع کو بحث بنا کر Samuel P Huntington نے ایک جامع کتاب The Clash of Civilizations تحریر کی ہے۔
ادب میں علامات کے استعمال کی روایت قدیم ہے۔ناقدین علامات کی بنیاد پر ادب پاروں کی تنقیدی جرحی کے شعبے میں نئی جہتیں سامنے لاتے رہے ہیں۔ زیر مطالعہ مقالہ مستنصر حسین تارڑ کی علامت نگاری پر دسترس کا تنقیدی ثبوت ہے۔مصنف نے علامتوں کے استعمال کا حق ادا کرتے ہوئے بہت سے پوشیدہ حقائق کو عیاں کیا ہے تو دوسری طرف گھمبیر سیاسی و معاشی مفادات کو علامتوں کی تہہ میں ملفوف کر دیا ہے۔
حوالہ جات
1۔ سہیل احمد،خان،ڈاکٹر،محمد سلیم الرحمن، منتخب ادبی اصطلاحات، سویرا آرٹ پریس، لاہور، سن، ۲۰۰۵ء، ص،۱۹۷
2۔ مستنصر حسین تارڑ،قلعہ جنگی،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،سن،۲۰۰۸ء، ص،۵3
3۔ ایضاً،ص۳۷،۳۸
4۔ نوم چومسکی،گیارہ ستمبر،مترجم،سید کاشف رضا،شہرزاد،کراچی،سن،۲۰۰۴ء،ص،۹۶
5۔ Craig Whitlock, The Afghanistan papers: A secret history of the war, Simon& Schuster, new York, 2021, P, 5
6۔ ثروت جمال،اصمعی،دھشت گردی اور مسلمان،انسٹی ٹیوٹ آفپالیسی،اسلام آباد، سن،۲۰۰۸ء،ص،۱۰
7۔ مستنصر حسین تارڑ،قلعہ جنگی،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،سن،۲۰۰۸ء، ص،۹۳،۴۰
8۔ حمیرا اشفاق، جدید اُردو فکشن: عصری تقاضے اور بدلتے رجحانات، سانجھ، لاہور،0102ئ، ص، 87۔
9۔ مبشر حسن،شاھراہِ انقلاب،جلد دوئم،شناخت پبلشر،لاہور،سن،۲۰۱۲ء،ص،۱۹۱
10۔ ارون دھتی روئے،سرمایہ داریت،ریاستی جبر اورمزاحمت،مترجم،امجد نذیر، سوجھلا،ملتان، سن، ۲۰۱۲ء، ص،۸۳
11۔ مستنصر حسین تارڑ،قلعہ جنگی،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،سن،۲۰۰۸ء، ص،۵۰
12۔ Peter dale Scott, Drugs, oil And War, Rowman & littlefield Publishers, INC, new York, 2003, p, 1
13۔ مستنصر حسین تارڑ،قلعہ جنگی،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،سن،۲۰۰۸ء، ص،10
14۔ ا یضاً ،ص،۶
15۔ ایضاََ، ص،81
16۔ ایضاََ،ص،۸۲
17۔ ایضاً،ص،۸۹۱،۱۹۹
18۔ ایضاََ، ص، 122
19۔ ایضاً،ص،۲۱۵
***