You are currently viewing قومی اتحاد  و اتفاق اور انسان دوستی کا  شاعر: راحت  اندوری

قومی اتحاد  و اتفاق اور انسان دوستی کا  شاعر: راحت  اندوری

 ڈاکٹر تجمل حسین

 صدر،شعبئہ اردو  ۔ گاندھی فیض عام کالج

 شاہجہاں پور  ۔ یوپی

قومی اتحادواتفاق اورانسان دوستی کا  شاعر: راحت اندوری

              اردو شاعری  میں قومی اتحادواتفاق اور انسانی دوستی کا تصور ابتدا سے رہاہے ۔مگر اسے مزید تقویت انگریزوں کے مظالم اور عیساٰئیت کے بڑھتے خوف سے ملتی ہے بقول منظراعظمی پہلی بار قومی یکجہتی کا تصور لاہور کے مصنوعی نظموں نے پیش کیاــــــــــــ۔؎۱   سرسید احمدخان  نے اسے اور مستحکم کیا اور کہا ہندوستان ایک دلہن کے مانند ہے جس کی خوبصورت اور رسیلی دو آنکھیں ہندواور مسلمان ہیں اگر اس میں نفاق رکھیں گے تو پیاری دلہن بھینگی  ہوجائے گی۔ترقی پسندوں  نے قومی شعور کوسب سے زیادہ مستحکم و مظبوطی عطاکی بقول گوپی چند نارنگ ترقی پسند شاعری نے اسے نیا احساس اور نیا ادراک دیا اور عوام دوستی کے وسیع تر بنیادوں پر قائم کیا۔قومی  جدوجہدمیں عوام کا ساتھ دینے کی آرزوکئی گنابڑھ گئی اور انفرادی اور قومی آزادی کی خواہش شدید ترہوتی گئی۔؎۲ مگرجدیدیت کی تحریک سے لے کر۱۹۸۴ء اور۱۹۹۲ء کے فسادات سے لے کر آج تک کے حالات پر غور کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ کس طرح فسطائی طاقتیں پوری شدت اور منصوبہ بند طریقے سے مہذب ،مشترکہ وراثت اورتہذیب پر حملہ کر رہی ہیں۔آج اس مہذب دورمیں بھی زیادہ تر لوگ غلامی کے شکار ہیں۔موب لنچنگ کے واقعات، فسادات، دو قانون، غیرمسلمانوں کے لیے الگ اور مسلمانوں کے لیے الگ،ایسی صورت حال میں جب ہم اردو شاعری  کے منظرنامے پر نظر دوڑاتے ہیں تو اس پر آشوب دور میں راحت اندوری واحدشاعر تھےجو اپنے طمطرا ق ، پر اثر اور بے باک لب ولہجے میں قومی اتحاد و اتفاق ،رواداری اور انسان دوستی کے پیغام کو عام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

                راحت صاب اندور میں ۱ جنوری ۱۹۵۰ء میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد محترم رفعت اللہ نے تعلیم و تربیت بہت اچھے ڈھنگ سے کی، وہ  اپنے والد کی چوتھی اولاد تھے۔ابتدائی تعلیم نوتن اسکول اندور میں ہوئی۔ ۱۹۷۳ء میں بی۔اے کی تعلیم اسلامیہ کریمیہ کالج اندورسے پوری کی،۱۹۷۵ء میں برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے اردو میں ایم۔اے کیا، ۱۹۸۵ء میں مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی سے اردو مشاعرے کے موضوع پر  پی ایچ ڈی  کی ڈگری حاصل کی، وہ دیوی  اہلیہ یونیورسٹی  اندور میں پروفیسر کے وعہدے پر بھی  فائز تھے۔راحت صاحب کی شادی سیما سے ہوئی۔ان کے بطن سے تین لڑکے ہوئے۔بھوپال کی شاعرہ انجم سے بھی ان کا نام جڑا،راحت صاحب نے ۱۸ سال کی عمر سے ہی شاعری کرنا شروع کر دیا تھا۔دھیرے دھیرے ان کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ ان کا نام اردوشاعری کے افق پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکنے لگا۔ان کے ادبی کار ناموں میں شعری مجموعوں میں دھوپ دھوپ، میرے بعد، پانچواں درویش اور ناراض وغیرہ ناقابل  فراموش خدمات ہیں۔انہوں نے فلموں کے لیے بہت سے کامیاب نغمے بھی لکھے۔ جن میں جانم، سر، ٹکر، رام، غنڈہ راج، پریم شکتی، توکھلاڑی میں اناڑی، ہمالیہ پتر، درار، یارانہ، جنٹل مین، آواز، تمنا، ناجائز، عشق، ناراض،بےقابو، خود دار، فریب، پریم آنگن، ہیرو ہندوستانی، خوف، اگر تم نہ آئے، دیوانہ تیرے پیار کا اورمشن کشمیرجیسی فلمیں قابل ذکر ہیں۔ ۰ا/اگست کو راحت اندوری کی کووڈ۔۱۹کی جانچ کی گئی اور رپورٹ مثبت آئی نیز وہ بندش قلب کے مرض میں مبتلا ہوئے۔ علاج کے لیے مدھیہ پردیش کے آربندو ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں۱۱ /اگست ۲۰۲۰ء کی شام کو ان کی وفات ہوگئی۔خیرموت سے کس کو رست گاری ہے۔مگرجانے والوں کی یادیں اور ان کی باتیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔راحت صاحب ایسے شاعر تھے جن کی شہرت اور مقبولیت بلاتفریق مذہب وملت کے ہر خاص وعام میں تھی۔ وہ جتنااردوکے مشاعرے میں مقبول تھے اتناہی کوی سمیلنوں میں مشہور ومقبول تھے۔وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔اچھااخلاق، محبت، اخوت، ہمدردی، رواداری  اور بھائی چارگی ان میں کو ٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی یوں کہیے وہ  فرشتہ صفات کے مالک تھے ۔بقول ساغر خیامی راحت کی شخصیت کے مختلف  پہلو ہیں اگر ان کوانسان کہوں تو پھرفرشتے کیسے ہوتے ہیں اگرفرشتہ کہوں تو انسان کیسے ہوتے ہیں۔وہ انسان اور فرشتہ کی بیچ کی کڑی ہیں۔اپنے سے بڑوں کا ادب کرنا ان کا شیوہ ہے۔چھوٹوں کی ہمت افزائی کر نا ان کے خمیر میں ہے۔؎۳                                    راحت صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں، ان کاقومی شعور اور انسان دوستی بہت بلند ہے ۔ وہ جہاں بھی قومیت یاکسی فرد یا اجتماعی طور پر انسانیت کے ساتھ ظلم وستم ہوتا ہوا  دیکھتے ہیں ان کا دل تڑپ اٹھتا ہے۔ایسی صورت میں ان کا  ذاتی غم  اجتماعی غم میں  تبدیل ہو کر انھیں بے چین کر دیتا ہے۔اور پھر وہ اپنی بلند فکر کو غزل کے پیکر میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔ یہ اشعار کہیں طنز کی صورت میں تو کہیں احتجاج کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہو:

ناموافق مرے اندر کی فضاکیسی ہے

ٹوٹ جانے کی،بکھرنے کی صدا کیسی ہے

سب کے دکھ اس کے چہرے پہ لکھے پائے گئے

آدمی کیا تھا ہمارے شہرکا اخبار تھا

آپ کی نظروں  میں سورج کی ہے جتنی عظمت

ہم چراغوں کا بھی اتنا ہی ادب کرتے ہیں

            دراصل راحت صاحب اپنے کلا م کے ذریعہ سماج میں پیدا ہونے والی ان تمام برائیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو ایک انسان کو  دوسرے انسان سے الگ کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔عصر حاضر کے  منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو اس کا اندازہ  ہو جائے گا کہ کس طرح  ہمارے سماج میں رشتوں کا خون ہو رہا ہے آج ایک بھائی دوسرے  بھائی کےخون کا پیاسا ہے۔کھلے عام لوگوں کی پگڑی  اچھالی جارہی ہے۔ہر انسان اندر سے بکھرا ہے۔موجودہ دور  میں انسان اخلاقی سطح پرزوال پذیری کی طرف بڑھتا جارہا ہے۔انسان کی حیثیت جانوروں سے بھی بدتر ہوتی جارہی ہے۔راحت  اندوری  ایک حساس شاعر ہیں ۔وہ اپنی روایتی قدروں سے عوام کو جوڑنا چاہتے ہیں۔اس لیے وہ گھر کے آنگن  میں دیوار بنانے کے قائل نہیں ہیں یہی وجہ ہے  وہ  اپنے حصے کی زمین  اپنے بھائی کو دے دینا چاہتے ہیں،ہر کسی سے انھیں ہمدردی ہے،کسی کی کوئی پگڑی اچھالے یہ انھیں گوارہ نہیں،وہ سب سے محبت کے طلب گار ہیں ۔کہتے ہیں:

میری خواہش کی آنگن  میں دیوار نہ ہو

میرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے

ہوائیں بازکہاں آتی ہیں شرارت سے

سروں پہ ہاتھ نہ رکھیں تو پگڑیاں اڑجائیں

اس بستی کے لوگوں سے جب باتیں کی تو یہ جانیں

دنیا بھر کے جوڑنے والے اندر اندرٹوٹے تھے

                     ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔اس لیے ضروری ہے اپنے بنیادی حقوق اور حکمرانی کی تحفظ کے لیے ہم ہر وقت تیار رہیں۔اسی میں ہی ملک کی  ترقی اور خوش حالی کا راز مضمر ہے ۔آج جب  تاناشاہی اقتدار کا فروغ ہورہا ہے، بنیادی حقوق کوپامال کیا جارہا ہے، لوگوں کی آوازوں کا دم گھونٹا جا رہا ہے۔ ایسے نا موافق حالات کی چیخیں راحت  اندوری کو سنائی دیتی ہیں ۔اور جب  یہ چیخیں ان کے غزلوں کے سانچے میں ڈھلتی ہیں تو یہ ہندوستان ہی نہیں پوری  دنیا کی چیخ بن جاتی ہے اورخواب غفلت کی نیندسونے والے لوگوں کےضمیرکی آواز بن جاتی ہے ۔وہ کہتے ہیں:

ہے میرے چاروں طرف بھیڑگونگے بہروں کی

کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں

کچھ کام اسے جیسے آتا ہی نہیں

مگر جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے

ہم اپنی جان کی دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں

محبت کی اسی مٹی کو ہندوستان کہتے ہیں

            ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ۔اس ملک میں سبھی قوموں کو ایک ساتھ رہنے کا اختیار حاصل ہے مگرآج حکومت کے زیر اثرملک کو ہندو راشٹر بنانے کی پر زور وکالت ہو رہی ہے۔ ہندوتوا کے ایجنڈے کو کافی تقویت مل رہی ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور نچلی ذات کے لوگوں کو بلاوجہ مذہب کے نام پریشان کیا جارہا ہے۔ایسی صورت میں حکومت کے خلاف زبان کھولنے سے ہر شخص خوف کھاتا ہے۔ ملک اقتصادی بحران سے گزررہاہے۔بے روزگاری کے مسائل تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ اس کےباوجودلوگ چپ ہیں۔راحت صاحب کوعوام سے بے پناہ محبت اورہمدردی ہےاسی لیے وہ ایسی صو رت میں حکومت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر  اپنے پر اثر اور بے باک لہجے سے حکومت پرایسی چوٹ کر تے ہیں جس سے وہ تلملانے تک کا بھی موقع نہیں پاتے ۔ بقول محسن ؔؔؔؔبھوپالی ’’راحت اندوری اپنے گردوپیش سے پوری طرح باخبر ہیں۔وہ سیاست کے بازی گروں کی دکھتی رگوں پر اپنے اشعار کے نشتر اس تواترسے لگاتے ہیں کہ انہیں تلملانے کی بھی مہلت نہیں ملتی‘‘۔ مذکورہ اقتباس کےحوالےسے اشعار ملاحظہ ہو:

اگر خلاف ہے ہونے دو جان تھوڑی ہے

یہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھوڑی ہے

لگے گی آگ تو آئیں گے  گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی  کم نہیں لیکن

ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

سلگتے چیختے موسم کی واپسی ہو گی

نئی رتوں میں نئے غم کی واپسی ہوگی

  ہندوستانی  حکمرانوں کو آگاہ کرتے ہوئے راحت صاحب کہتے ہیں کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اس لیے ہندوستان کی سیاست کسی کے باپ کی ذاتی ملکیت نہیں ہے ہندوستان کے جمہوری  نظام میں الیکشن ہوتے رہتے ہیں اور عوام اپنی اکثریت سے حکومتوں کا انتخاب کرتی ہیں۔اس طرح حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔اگر آج آپ کی حکومت ہے تو کل کسی اور کی ہو گی اور وہ اپنی طرز حکمرانی میں آپ سے مختلف ہو گی ۔اس لیے  وہ  وقت کے بنے بیٹھے حکمرانوں  سے کہتے ہیں سنبھل جاؤ  ورنہ انجام اچھا نہیں  ہو گا۔راحت صاحب مشاعرے  میں ڈائز  پر کھڑے ہو کر ہزاروں کے مجمعے میں کھلی فضا میں ہاتھ کو  لہراتے ہوئے حکومت  سے کہتے ہیں ہے :

جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے

کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

                راحت صاحب کا یہ شعر اتنا مقبول ہواکہ یہ شعر ہر خاص وعام کی زبان پر ہے۔ہندوستان میں دور حاضر کی  سب سے بڑی تحریک  این آرسی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے لیے ان کا شعرسبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں۔ کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے ۔مظاہرین کی آوار ز بن گیا تھا۔ایوانوں میں بھی وقت وقت پر ان کے اشعار گونجتے رہتے ہیں۔سی اے۔اے  اور این آرسی کے مظاہرین  نے یہ شعر  باقاعدہ تختی پر لکھ کر مظاہرہ کیا۔ یقینایہ ملک کسی فرد،کسی خاص پارٹی ،کسی ایک مذہب  کی ملکیت نہیں ہے۔’’سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں۔کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی  ہے‘‘۔

            اگر راحت  صاحب کی شخصیت اور ان کے کلام کا مطالعہ کریں تو آپ اس بات سے بخوبی واقف ہو جائیں گے کہ انھوں نے وطن پرستی ایثار و قربانی کے جذبے کو نہ صرف اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے  بلکہ اسے اپنےعملی زندگی میں پیش کر دیا ہے۔ہندوستان اور ہندوستانیوں سے ان کا گہراوالہانہ محبت لوگوں کے دلوں میں گہرے  نقوش چھوڑتا ہے  یہ نقوش ایسے ہیں جو لوگوں کو وطن پرستی،محبت اخوت  اور  بھائی چارہ کی طرف آمادہ کرتی ہے۔اس حوالے سے ان کے درج ذیل شعر ملاحظہ ہوں:

جنازے  پر میرے  لکھ  دینا  یارو

محبت کرنے والا جا رہا ہے

میں جب مر جاؤں تو میری الگ   پہچان لکھ دینا

لہوسے میری  پیشانی  پہ ہندوستان لکھ دینا

دوگز سہی مگر یہ مری  ملکیت تو ہے

اے موت تو نے مجھ کو زمیں دار کر دیا

محبتوں کا سبق دے رہے ہیں دنیا کو

جو  عید اپنے سگے بھائی سے نہیں ملتے

             اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں  راحت اندوری نے  اپنی عام فہم زبان سے قوم و ملت  کی سیاسی ،سماجی اور ثقافتی  سروکاروں کو  سرفہرست رکھ کر اسے اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے۔اپنی عام فہم  زبان سے  اپنے عہد کے ناسازگار دور میں سماجی اشتراک و ارتباط کو مضبوط  و مستحکم کرنے میں اپنا اہم فریضہ انجام  دیا ہے۔عہد حاضر کے ان کے مشاعرے اس بات کی غمازی  کرتے ہیں کہ انھوں نے  بدلتے ہوئے حالات میں بھی  اپنے  قومی اتحاد واتفاق ،محبت و اخوت اور بھائی چارہ کے رشتہ کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ  تہذیب  کی ارتقا اور سیکولرازم کی روح کو زندہ رکھنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ وہ تمام  بنیادی مسائل جوسماج وثقافت  سے تعلق رکھتے ہیں راحت اندوری انھیں   اپنے کلام میں پیش کرنے  اور لوگوں کو اس کی جڑوں سے آشنا کرانے میں پیش پیش رہے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں راحت صاحب کے اشعار  موقع بر محل  لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن کربے ساختہ زبان سے اداہونے لگتے ہیں۔اردوشاعری میں راحت صاحب کے اس غیرمعمولی کارناموں کواردو دنیا بھلا نہیں پائے گی۔

 حواشی

(۱)منظراعظمی ۔ اردوادب کے ارتقامیں ادبی تحریکوں اور رجحانوں کاحصہ   اترپردیش اردو  اکادمی لکھنئو۱۹۹۶ء ص۲۹۴

(۲)گوپی چندنارنگ ۔ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری ،قومی قونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی۲۰۰۳ء  ص۴۰۷

(۳)ساغرخیامی  ۔مرتبین طارق شاہین عزیزفرمان، لمحے لمحے،  مکتبہ جامعہ لمیٹیڈدہلی۲۰۰۲ ص۲۹۳

(۴)محسن بھوپالی۔ مرتبین طارق شاہین عزیز فرمان ، لمحے لمحے ،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ دہلی ۲۰۰۲ء  ص۳۸۲

***

Leave a Reply