You are currently viewing “لوگ در لوگ” ایک جائزہ

“لوگ در لوگ” ایک جائزہ

کومل شہزادی

پاکستان

“لوگ در لوگ” ایک جائزہ

 اس دور میں قلم کا مثبت استعمال کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ۔اسی طرح کتاب لکھنے کے کئی فائدے ہیں۔آپ کی آواز لوگوں تک پہنچتی ہے، جو پیغام آپ لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں وہ ان تک پہنچتا ہے۔ انسان پیدا ہوتے ہیں ، بڑے ہوتے ہیں اور پھر اس دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ لیکن کتاب میں لکھا ہوا اگلی نسل تک منتقل ہونے کا بہترین ذریعہ ہہ کتابیات ہی ہیں۔قرة العین حیدر کہتی ہیں: ”پتھر وقت کی منجمد صورت ہیں۔“ اور اگر یہی بات کسی اچھی کتاب کے بارے میں کہی جائے تو کچھ ایسا غلط نہیں۔

کتاب “لوگ در لوگ” جس کے مصنف فرح سہیل گوئندی ہیں۔جن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔”تاریخ سازشخصیات اورواقعات”پر مشتمل کتاب ہے۔اہم شخصیات جن کے متعلق اس کتاب میں تحریر کیا گیا جس سے اس کتاب  میں مزید پائیداری کا ثبوت ملتا ہے۔ملاقاتوں اور مکالموں  کا احوال بھی مصنف نے اس تصنیف میں شامل کیا ہے۔ فرخ سہیل صاحب کالم نگار،پولیٹیکل ایکٹوسٹ اور قلم کار ہونے کے تمام نقوش اس کتاب میں موجود  تحاریر سے نمایاں ہیں۔فرح سہیل گوئنڈی صاحب ان لوگوں سے نہیں جو دو تین ادب پاروں کو جنم دے کر راتوں رات بلند پایہ بننے اور مشہور ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔وہ لکھتا بھی ہے اور لکھنے کی ترغیب بھی دیتا ہے اور لکھنے لکھانے کے لیے وہ کئی ادبی انجمنوں کا سرگرم رکن بھی ہے اور عہدیدار بھی۔”لوگ در لوگ ” کے علاوہ بھی ان کی اہم تصانیف جن میں چوتھا مارشل لاء،بکھرتا سماج،حریت فکر کا مجاہد،میرا لہو وغیرہ شامل ہیں۔کتابیات کے عنوان سے ہی نمایاں ہے کہ ان کی دلچسپی سیاسیات میں قدرے زیادہ ہے۔

کتاب ” لوگ در لوگ” ١٩۵ صفحات پر مشتمل ہے۔جس میں ٣٢ شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔سماجی،ادبی،سیاسی شخصیات کے متعلق معلومات بخوبی اس کتاب میں موجود ہے۔اس میں اول مضمون “میں نے بھٹو کو دیکھا” اس میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی ہمہ جہت شخصیت کے سحر کا تذکرہ بہت عمدگی سے کیا ہے۔دومّ مضمون”بے نظیر بھٹو سے پہلی ملاقات” جس میں ان سے ملاقات کے احوال  قلمبند کرنےکے ساتھ ایک بیٹی کی اپنے باپ کے حوالے سے فریاد کو بھی اعلیٰ انداز سے تحریر کیا ہے۔چند لائن احباب کی نذر:

“وہ تحریر کیے جارہی تھیں۔ٹوٹی پھوٹی اردو اور ٹوٹے چھوٹے جملے،اور شکستہ آواز۔”

“شرم کرو،حیا کرو،بھٹو کو رہا کرو۔فوجی آمریت ،مردہ باد ۔جیوے جیوے بھٹو جیوے۔”

 اسی طرح کتاب میں موجود ایک مضمون” میں تے منو بھائی ہے”منو بھائی جیسی شخصیت سےکون واقف نہیں۔ ڈرامہ نویس شاعر اورکالم نگار منو بھائی  معاشرتی رویوں پر گہری نظر رکھنےوالے منو بھائی کے ڈرامے سونا چاندی نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔

منو بھائی نے اپنی تحریروں میں معاشرے میں پائی جانے والی ناہمواریوں کو اجاگر کیا۔ان کے لکھے ہوئے ٹی وی ڈراموں کی وجہ شہرت سماج کے مسائل کو گہرائی سے مشاہدہ کے بعد قلم سے صفحہ پر اُتارنا تھی۔زیر نظر کتاب میں منو بھائی سے متعارف کا احوال،بھٹو پر لکھی کتاب “میرا لہو ” لکھنے پر اور پبلش جیسے مشکل مراحل کا تذکرہ،کتاب شائع ہونے کے بعد مصنف کو کن مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔ایک مختصر اقتباس احباب کی نذر جس سے اس کتاب کو شائع کرنے سے آخر تک مصنف کن کیفیات سے گزرا۔

“میرا لہو لہان بدن اور پھٹی قمیض۔مجھ پر شرمندگی طاری تھی کہ گھر کس منہ سے جاوٴ ں۔دوسرے روز منو بھائی نے کالم لکھا،ذوالفقار علی بھٹو کا لہو لکھنے والے فرخ سہیل گوئنڈی کا اپنا لہو بہا دیا گیا۔”

مزید برآں منو بھائی سے اپنے قریبی مراسم اور اُن کی علالت کا تذکرہ عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔

اسی طرح ایک شاندار خاکہ نما مضمون “شہر اندر جلاوطن ،ڈاکٹر انور سجاد” ہے۔انور سجاد اردو کے انتہائی معتبر ادیب، ڈرامہ نگار، نقاد، مصور اور افسانہ نگارہیں۔ان کی تحریریں بھی ان کے محسوسات کی وسعت کی عکاس اور کثیرالجہت ہوتی تھیں۔

ناقدین کے مطابق انور سجاد کے افسانے ہوں یا ڈرامے، ان میں استعاراتی طرزِ فکر کو انتہائی مہارت اور کامیابی سے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کی افسانہ نگاری کو مصنوعی حقیقت پسندی سے دور قرار دیا جاتا ہے۔ابتداء میں مصنف نے شہرِلاہور سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئےکہا ہے کہ” لاہور کا عشق ایک ایسا عشق ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتا چلاجاتا ہے اور اگر اس شہر کی تاریخ سے آگاہی ہو تو عشق لاہور لامتناہی ہوجاتا ہے۔”

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کچھ ادیبوں کی طرح لاہور سے بے پناہ لگاو اور محبت رکھتے ہیں۔انور سجاد سے اپنی والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار،ان کی گرفتاری کا احوال،  انور سجاد کا لاہور سے کراچی منتقل پر مصنف کی  فکر ، ڈاکٹر انور سجاد کا مصنف کے لیے اظہار اپنائیت اور لاہور سے اپنا محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا:

لاہور ابھی زندہ ہے۔

اگر دیکھنا ہے تو ڈاکٹر انور سجاد کو دیکھ کر یقین کر لو،ابھی زندہ ہے۔

کروڑ سے زائد لاہوریو!

تمہیں معلوم ہے ڈاکٹر انور سجاد کون ہے۔۔۔۔۔۔

علاوہ ازیں بہت سی شخصیات کی سرگزشت اس ایک کتاب میں موجود ہے۔جن میں عثمانی شہزادی سےملاقات،مشاہد حسین کی رہائی،باباِے سوشلزم شیخ محمد رشید،یارم ،حنیف رامے،مدیحہ گوہرکا جلوس وغیرہ شامل ہیں۔مختصر جائزے میں ان سب کا فردا فردا  احاطہ کرنا ناممکن تھا۔سادہ اسلوب میں اہم شخصیات سے متعارف کروایا گیا ہے۔کتاب دو سے تین نشستوں میں پڑھنے کے بعد قارئین ایسی شخصیت کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ جن کے متعلق ہم سرسری جانتے ہیں ،اُن کے متعلق صراحت سے جان سکیں گے۔دوسرا  جو سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔مصنف کی مختلف شخصیات کے ساتھ لی گئی تصاویر کی جھلکیاں  بھی قاری کو اس کتاب میں دیکھنے کو ملیں گی۔

ان کی یہ کتاب سیاسی،ادبی اور سماجی عہد کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ مصنف کی سیاست سے خاصی دلچسپی  اس کتاب میں موجود  سیاسی مکالمے سے بھی اندازہ  ہوتا ہے۔

اُن کا اسلوب سادہ و دل نشین ہے، بغیر کسی اُلجھا وکے وہ اپنی بات و سوچ قاری تک پہنچا دیتے ہیں۔ الفاظ کے چناؤ سے لے کر اُس کے سبھاؤ اور بہاؤ کے تیور دیدنی ہیں۔ ہرلفظ  سلیقے اور نفاست سے برتا گیا ہے۔ فاضل مصنف بذات خود عملی اور نظری سیاست میں خاصے فعال ہیں  سیاست کے  پوشیدہ گوشے بھی  ہمارے سامنے آتے ہیں ۔فرخ سہیل صاحب ایک دل نواز شخصیت ،ادیب ،لکھاری،دانشور اور سماجی کارکن ہیں۔ہر صورت مطالعہ کے خوگر ہیں اور یہی اُس کی تحریر کو ایک لازوال چاشنی عطا کرتی ہے۔

نرم دمِ گفتگو،گرم دمِ جستجو

رزم ہویا بزم ہو،پاک دل و پاکباز

***

Leave a Reply