نذیر احمد کمار
ریسرچ اسکالر ،شعبۂ اردو،کشمیر یونیورسٹی
ماحولیاتی تنقید اور اردو شاعری:پروین شاکر کے خصوصی حوالے سے
ماحولیاتی تنقید کیا ہے ؟اس کے حدودد و دائرہ کار کیا ہیں ؟یہ متن سے کس طرح کا مطالبہ کرتی ہے؟اردو ادب میں بالخصوص اردو شاعری میں کیا اس طرح کی مثالیں ملتی ہیں بھی یا نہیں ؟اس طرح کے کئی سوالات پر روشنی ڈالی جائے گی اور ساتھ ہی اس امر کی وضاحت ہوگی کہ پروین شاکر نے اپنی شاعری میں ماحولیاتی تنقید کے عناصرکوکس طرح برتنے کی کوشش کی ہے۔اس ضمن میں پہلی بات یہ عرض ہے کہ مغرب میں جو بات پچاس سال پہلے شروع ہوتی ہے وہ ہمارے یہاں اُس کے بعد پروان چڑتی ہے جبکہ آخر میں ہمیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس کا اصل سر چشمہ مشرقی علوم ہی ہے نیز وہ اسلامی تاریخ ہوں یاہندووں کی مقدس کتابیں ۔تو فطرت کے متعلق کئی مثالیں ملتی ہیں یہاں پر چند ایک مثالوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ فرمان الٰہی‘‘فلمااضاء ت ماحولہ’’ ترجمہ جب اس نور نے اپنے ماحول(آس پاس کی چیزوں)کو روشن کردیا۔(البقرہ۔۔۱۷)۔قرآن کی مذکورہ آیت میں ‘ماحول’کالفظ صراحت کے ساتھ آیا ہے ،‘ماحولیات’ اسی سے منسوب ہے،جس سے مراد ہمارے اردگرد کے عناصرحیات ہیں،جن پر ہماری زندگی کا دارومدار ہے،فطری آب و ہوا،زمین اور اس کے درختوں کا لامتناہی سلسلہ اور جنگلات جن سے زندگیاں آباد ہیں اور جنھوں نے زندگی کو توازن عطاکررکھا ہے۔غرض قرآن کریم ماحولیات کے باب میں پاک وصاف آب و ہوا کو حیاتیات اور زندگی کے جملہ تصورات کی بنیاد قرار دیتاہے:
‘‘اور وہی ذات ہے جس نے اپنی رحمت سے ہوائیں بھیجیں جو بارش کی خوشخبری لے کر آتی ہیں،اور ہم نے آسمان سے پاک و صاف پانی اتارا تاکہ ہم بے جان زمینوں کو زندگی عطا کریں اور اس سے ہم اپنے پیدا کردہ چوپائے اور بے شمار انسانوں کو سیراب کریں’’(الفرقان۔۔۔۴۸۔۴۹)
ہندو ازم کی تاریخ میں ‘پاروتی دیوی’’کو کون نہیں جانتا وہ دیودار کے درخت اور ‘‘گنیش’’ میں کوئی فرق نہیں کرتی تھی۔‘‘سیتا’’کے دُکھ میں درخت اورپودے بھی شامل تھے۔غرض ہندی اساطیر میں اس طرح کی کئی مثالیں پیڑ پودوں کے حوالے سے مل جاتی ہیں۔حال ہی کی مثال لیجئے‘‘سوچھ بھارت ابھیان’’ ایک ایسا مشن جس کو جناب نریندرمودی نے۲اکتوبر ۲۰۱۴ء ایک قومی تحریک کے طور پر شروع کیا تھااور اس کا مقصد صاف ستھرے بھارت کے وژن (ماحولیاتی تحافظ)کو حاصل کرناہے۔اشارہ کافی ہے اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔
ماحولیاتی تنقید کی اصطلاح پہلی بار ۱۹۷۸ء میں ولیم رئیکرٹ نے اپنے مقالے ‘‘ادب اور ماحولیات:ماحولیاتی تنقید میں ایک تجربہ’’میں استعمال کی تھی۔بعد ازاں۱۹۹۲ء میں ادب اور ماحول کے مطالعے کے لئے ادبی تنظیم ((ASLEکے نام سے بنائی گئی،جس میں یورپ اور ایشا کے ادیبوں اور دانشوروں کو شامل کیا گیا۔اس سلسلے میں ہمیں نظریہ ساز نقادوں اور مفکروں کے بجائے محض چنددرد مند ادیبوں،استادوں اور دانشوروں کے خیالات ملتے ہیں جو فطرت اور ادب کے تعلق سے ظاہر کئے گئے ہیں ۔آپ زرا ساغور کریں ساختیات،پس ساختیات،نومارکسیت،تانیثیت ،مابعد نوآبادیات کا نام لیتے ہی آپ کے ذہن میں بڑے مفکروں کے نام آئیں گے لیکن ماحولیاتی تنقید جس قدر بڑا ہے،اس قدر کوئی بڑا ذہن اس طرف متوجہ نہیں ہواحالانکہ ماحولیاتی تنقید کا سروکار ماحول کی بقاء سے ہے جس سے انسانی بقا براہراست تعلق رکھتی ہے۔اس حوالے سے یہاں پر چند دانشورں کا نام لینا چاہوں گا جنھوں نے ماحولیات کے حوالے سے قلم اٹھایا ہے۔مغرب میں اس حوالے سے ۔۔ایلڈولیو پولڈ،ارنس نائس،جارج سیشنز،بیری کامز،کارل کروبر،وین ڈیل ہیرس،شیرل گلاٹفیلٹی،ایلن شوالٹر،رچل کیرسن،لائین وائٹ مین،لیو مارکس،ولیم بارٹرم،جوناتھن بیٹ اور سکاٹ سلووِک وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
ماحولیاتی تنقیدایک زمین اساس نظریہ ہے جس میں ادب اور فطرت کے آپسی تعلقات ،رشتوں اور وابستگی کوزیر بحث لایا جاتا ہے اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ ادبی متون میں فطرت کے متعلق گوناگوں اظہارات کی کیفیت اور نوعیت کو تنقیدی عمل سے گزارکر، اس عمل سے باقاعدہ طور پر ماحولیاتی معاملات کو تنقیدی ڈسکورس کا حصہ بنانا ۔شیرل گلاٹفیلٹی ماحولیاتی تنقید کے حوالے سے یوں لکھتے ہیں:
‘‘ماحولیاتی تنقید کیا ہے؟عام لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ماحول اور ادب کے
رشتے کا مطالعہ ہے جیسے تانیثی تنقید زبان اور ادب کی جانچ پرکھ صنفی افتراقات
کی بنیاد پر کرتی ہے اور مارکسی تنقید پیداوار کے ذرائع اور اقتصادی طبقات کی تلاش
متن میں کرتی ہے،اسی طرح ماحولیاتی تنقید ادب میں ‘‘ارض مرکزی’’
Earth Centered کے طریق مطالعہ پر زور دیتی ہے’’۔(۱)
پیٹر بیری اس تناظر میں کیا کہتے ہیں آئے دیکھتے ہیں:
“Simply defined Ecocriticism is the study
of the relationship between literature and
physical environment(Cherlly Glotfelty).
But should we call it,ecocriticism or’Green’
Studies?Both terms are used to denote a
critical approach which began in the USA
in the late 1990,and UK in early 1990,and
since it is emergent movement.”(2)
غرض ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ماحولیاتی تنقید ایک ایسے طرز مطالعے کا نام ہے جوزبان،ثقافت ،جنس یا تاریخی و سماجی عوامل اور محرکات کے ساتھ ساتھ زمین مرکز یا ماحول اساس منہاج اختیار کرتی ہے۔یہ فطرت کے مساوی حقوق کو نظر انداز کرنے والے فرسودہ تصورات کو مرکز مطالعہ بناتی ہے اور یہ مکالمہ قائم کرتی ہے کہ متن میں فطرت بذات خود کہاں ہے۔چاہے پھر ادیبوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر اسے برتا ہے ماحولیاتی تنقید فطرت کی بحالی پرر زور دیتی ہے۔
اُردو ادب میں ماحولیاتی تنقید کی بات کی جائے تو ہمارے یہاں یہ نظریہ اکیسویں صدی میں متعارف ہوا۔ لیکن ابھی تک اس حوالے سے بہت کم لکھا جاچکا ہے لکھنے والوں میں نسترن احسن فتیحی،پروفیسر ارباب رضوی،ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی ،پروفسر عتیق اللہ،ڈاکٹر مولا بخش،ڈاکٹر ناصر عباص نیر،ڈاکٹر ضیاالحسن وغیرہ خاص طور پر شامل ہیں ۔واضح رہے کہ ماحولیاتی تنقید پر مفصل تعارف دینے والوں میں ڈاکٹر اورنگ زیب نیازیـ‘‘ماحولیاتی تنقید :نظریہ و عمل’’کا نام بہت اہم ہے۔بقول پروفسیر عتیق اللہ:
ـ‘‘اردو میں مجید امجد غالباََ پہلے شاعر ہے جنھیں Ecocentricکہا جاسکتا ہے ۔
جن کی شاعری میں فطرت بیان سے پرے ہوکر روح کا کلمہ بن گئی ہے۔۔۔۔
فطرت کو اس نے روح کی سیرابی کا وسیلہ بنانے کے بجائے اپنی گو نا گوں اغراض
کی تکمیل کا وسیلہ بنا لیا۔پہاڑ کاٹے ،درخت چھانٹے ،دھرتی کو چھلنی کیا، جنگل
کے جنگل صنعتوں سے پاٹ دئے ۔توسیع شہر کے نام پر میلوں پھیلے ہوئے
سبزہ زاروں کو اینٹوں پتھروں سے لاددیا۔’’(۳)
عتیق اللہ کی اس عبارت کا نقل کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ماحولیاتی نقاد کائنات میں موجود توازن کے مطالعے پر زور دیتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ایسا ادب سامنے آئے جس میں فطرت کے ختم ہونے پر کیا اثرات مرتب ہونگے مصنفین ان مسائل کو اپنی تحریروں کا موقف بنائیں اور آنے والی تباہی سے دنیا کو آگاہ کریں اور ماحولیاتی تنقید کو صرف ان تحریروں تک محدود نہ رکھے جو فطرت کے بارے میں واضح طور پر ہیں بلکہ کسی بھی متن میں اسے ایک لینس کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔مجموعی طور پر اگرماحولیاتی تنقیدکااحاطہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل نکات کو ہم صرف نظر نہیں کرسکتے ہیں:
۱۔ماحولیاتی نقاد کے لئے علاقہ،مقام اور مقامی یا علاقائی ادب اہم ہے جہاں فطرت اپنی اصل شکل میں نظر آتی ہے۔
۲۔ماحولیاتی نقاد کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُن چیزوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھے جنھیں فطرت کا نام تو دے دیا گیا ہے ۔ حالانکہ وہ یاتو ثقافتی عمل کا دوسرا روپ ہوتاہے یا سیاست کی طاقت کا زائیدہ۔
۳۔معاشی ،تکنیکی اور آیڈیالوجیکل ساختوں پر اثر انداز ہونے والی پالیسیوں کو تبدیل کرنا ۔
۴۔ماحولیاتی تنقید کے نقطہ نظر سے عظیم ادبی کارناموں کی قرات(روایتی ہو یا عصر حاضر کے)اور یہ دیکھنا از حد ضروری ہے کہ ان فن پاروں میں فطرت کو کس طرح سے پیش کیا گیا ہے۔
۵۔ماحولیاتی نقادادب میں ماحول کی ایسی پیشکش پر زور دیتا ہے کہ جس میں فطرت کسی پس منظر کے طور پر یا ضمنی طور پر نہ ہو بلکہ بطور مرکزی موضوع ہو۔
۶۔ماحولیاتی تنقید میں ماحول کا ہر عنصر برابر کی اہمیت کا حامل ہوتا ہے یہاں ‘بشرمرکزیت ’کے بجائے ‘حیات مرکزیت’کی فکرپر زور دیا جاتا ہے۔اور یہی اس کا وہ بنیادی فرق ہے جو اسے باقی تنقیدی دبستانوں سے الگ کرتا ہے۔
الغرض ماحولیاتی تنقید اپنے دامن میں وسعت کے پیش نظراس کرۂ ارض کے بہت سے مسائل کو اپنے اندر سموتی جارہی ہے عصر حاضر کے ماحولیاتی بحران کے ساتھ ساتھ طاقت کے عدم توازن اور انسان کی پیدا کردہ طبقاتی تقسیم نے معاشی اور معاشرتی سطح پر انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔اس وقت ان دونوں حوالوں سے زندگی کے ہر شعبہ میں آگاہی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ اس قسم کے بحرانوں سے اس طرح نمٹا جانا ضروری ہے کہ اس استحصال کے نظام کو رد کیا جاسکے۔ اس کی اگر کوئی صورت ہے تو وہ ماحولیاتی انصاف ہی ہے جو اس قسم کے بحرانوں سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اردو شاعری کی بات کریں تو شعراء نے بطور شعری استعارہ اپنے متون میں زمین اور اس سے جڑے مسائل کو بخوبی برتاہے۔نظم ہو یا غزل آپ کو ضرور ایسے ا شعار دیکھنے کو مل جائیں گے جن کو ماحولیاتی تنقید کے تناظر میں پرکھا جاسکتا ہے۔اس حوالے سے چند شعرملاحظہ فرمائیں:
میری زمین میرے ساتھ ساتھ چلتی ہے وگرنہ میرے لئے تھا تو دربدر ہونا (مہتاب حیدر)
کبھی زمین کبھی آسمان سے لڑ تا ہے عجیب شخص ہے سارے جہاں سے لڑتا ہے (جبار واصف)
یہ دنیا اب کسی قابل نہیں ہے قیامت کو بلانے جا رہا ہوں (فرحت احساس)
ٹھہر گئی ہے طبیعت اسے روانی دے زمین پیاس سے مرنے لگی ہے پانی دے (شہزاد احمد)
سر کو نہ پھینک اپنے فلک پر غرور سے تو خاک سے بنا ہے تیرا گھر زمین ہے (میر حسن)
فطرت نگاری اور ماحول میں موجود عناصر کی تصویر کشی اردو شاعری میں جا بجا نظر آتی ہے اس حوالے سے کئی نظمیں ہیں جن میں ماحولیاتی عناصر دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہاں صرف نظموں کا حوالہ پیش کرتاہوں:شب قدر،موسم زمستان،ابر کرم ۔۔محمد حسین آزاد،برکھارت ۔۔حالی ،برسات ،ہوا۔۔اسماعیل میرٹھی،ہمالہ ،شبنم اور تارے،بزم انجم۔۔علامہ اقبال ،توسیع شہر،سوکھاتنہاپتا۔۔مجید امجد،مجھے اپنے جینے کا حق چاہئے۔۔امجد اسلام امجد،پہاڑ،درخت،جھیل۔۔سید شکیل دسنوی،کل جب درخت نہ ہوں گے۔۔اشرف جاوید ملک،شہر کا نوحہ،جنگلوں کا سفر،جنگل کی تہذیب،گھنے بنوں میں شام۔ان کے علاوہ جمال اویسی،نعمان شوق،پرتپال سنگھ بیتاب،ظفر گھورکھپوری،راشد انور راشد،عرفان صدیقی،فریاد آذر وغیرہ کے کلام میں میں ماحولیاتی شعور دیکھنے کو ملتا ہے۔
پروین شاکر کی شاعری میں ماحولیاتی فکر و شعور کو دیکھنے سے پہلے اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے، ماحولیاتی تنقید محض یہ نہیں دیکھتی کہ کسی ادب پارے میں پیڑ،پرندے،پھول،جانور،بادل،صحرا،دریا،اور سمندر وغیرہ کی ترجمانی کس ڈھب سے کی گی ہے ،بلکہ وہ ادب میں ظاہرہونے والے اس تجربے کا تجزیہ اور تعبیر کرتی ہے،جو سماجی و نفسی و طبعی منطقوں سے وجود پذیر ہوتاہے ۔اسی طرح پروین شاکر کی شاعری میں صرف ان کے دل کا معاملہ ہی نہیں کھلا،ان کی ذاتی زندگی کے حوالے کے کئی دوسرے معاملات اور واقعات بھی سامنے آئے ہیں یا یوں کہے کہ وہ خودانھیں سامنے لائی ہیں۔معاملات حسن و عشق کے علاوہ معاشرت و سیاست میں پائی جانی والی ناانصافی و نابرابری ،استحصالی سسٹم،بکھرے ہوئے خوف ،زیردستوں کے تیئں زبردستوں کے آمرانہ و ظالمانہ رویے کے خلاف کھلااحتجاج بھی ان کی شاعری میں دیکھنے کو ملتا ہے۔قرونِ اولیٰ سے عورت کو کہیں چھوٹا اور ناقص العقل سمجھا گیا ہے ،کہیں ‘‘حور’’ تو کہیں شمعِ محفل بنایا گیا ،کہیں وجود کائنات کا رنگ تو کہیں دو بھائیوں کے بیچ فساد کی جڑ،کہیں پاؤں کی جوتی تو کہیں شوہر کو اس کا مجازی خدا ٹھہرایا گیا ۔غرض مرد افضل تو وہی عورت شجرِممنوعہ،لیکن ہم یہ شاید بھول چکے تھے کہ انسان اور ماحولیات کا جنم جنم کا ساتھ ہے دنیا کا ہر انسان فطرت کی جس آغوش میں آنکھ کھولتا ہے تو وہ اس کی ماں کے روپ میں ایک عورت ہی ہوتی ہے۔بیسویں صدی کے نصف آخر میں جب ‘‘ایکوفیمینیزم’’(ماحولیاتی تانیثیت)سامنے آئی تو عورت نے یقینا راحت کی سانس لی ہوگی کیونکہ عورت اور ماحول کا یہ رشتہ صدیوں تک گم نام رہا۔‘بریٹینیکاکے مطابق‘‘Ecofeminism ’’۔
“Ecofeminism,also called ecological feminism,
branch of feminism that examines the connections
between women and nature.Its name was coined
by French feminist Francoise d’Eaubounne in
1974.Ecofeminism uses the basic feminist tenets
of equality between genders,a revaluing of
non-partriarchal or nonlinear structures,and a
veiw of the world that respects organic processes,
holistic and the merits of intuition and collaboration.
To these notions ecofeminism adds both a commitment
and awareness of the associations made between
women and nature Specifically,this philosophy
emphasizes the ways both nature and women
are treated by patriarchal(or male-centered) society.” (4)
پروین شاکر آزادیِ نسواں کی حامی رہیں چند شعر اس حوالے سے جہاں انھوں نے ماحولیاتی تانیثیت کے چلتے پدرسری نظام کو نشانہ بنایا ہے:
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
کھول دیں زنجیر ِدر اور حوض کو خالی کریں زندگی کے باغ میں اب سہ پہر ہونے کو ہے
ہوا کا زور کسی شب تو جا کے ٹوٹے گا بچائے رکھنا ہے کوئی دیا مکاں کے لئے
تجھ کو بھی نہ مل سکی مکمل میں اتنے دکھوں میں بٹ گئی ہوں
جو میرے سر سے دوپٹہ نہ ہٹنے دیتا تھا اسے بھی رنج نہیں میری بے ردائی کا
ان کی شاعری میں جہاں احساسات و جذبات کی بے ساختگی اور فن کی پختگی پائی جاتی ہے وہی ان کی شاعری میں ایسا لفظیاتی ذخیرہ اور تعبیراتی و اسلوبی نظام مل جاتا ہے جسے ہم ماحولیاتی تنقید کے آیئنہ میں دیکھ سکتے ہیں اس حوالے سے ہم یہاں ان کے کلام سے چند مثالیں بطور نمونہ پیش کرتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے فطرت کو اپنی شاعری میں سمویا ہے، آئے دیکھتے ہیں :
وہ سایہ دارشجر
جو مجھ سے دُوربہت دُورہے،مگر اس کی
لطیف چھاؤں
سجل،نرم چاندنی کی طرح
میرے وجود،میری شخصیت پر چھائی ہے!
وہ ماں کی بانہوں کی مانند مہرباں شاخیں
جو ہر عذاب میں مجھ کو سمیٹھ لیتی ہیں
وہ ایک مشفقِدیرینہ کی دعا کی طرح
شریر جھونکوں سے پتوں کی نرم سرگوشی
کلام کرنے کا لہجہ مجھے سکھاتی ہے
وہ دوستوں کی ہنسی مسکراہٹوں کی طرح
شفیق عذار،دھنک پیرہن شگوفے ،جو
مجھے زمیں سے محبت کا درس دیتے ہیں! (۵)
(نظم ۔سرشاخ گل۔۱۴۱)
انسان نے اپنی غذا،وسیع تر مفادات کے علاوہ طاقت کے حصول اور دوسروں سے سبقت لے جانے کی غرض سے زمین کا سینہ چھلنی کر دیا،صنعتی کارخانوں کے بے محابا فروغ اور آج کے غیر معمولی سائنسی تجربات کی ترقی نے نظامِ ماحولیات میں واقع توازن ہی بگاڑ کے رکھ دیا ہے اور نتیجہ اُداسیاں ہی اُداسیاں !
تیرے بغیر سرد موسموں کے خوشگوار دن اداس ہے
فضا میں دُکھ رچا ہوا ہے
ہوا کوئی اداس گیت گنگنا رہی ہے
پھول کے لبوں پہ پیاس ہے
ایسا لگتا ہے
ہوا کی آنکھیں روتے روتے خشک ہوگئی ہوں
صبا کے دونوں ہاتھ خالی ہیں
کہ شہر میں ترا کہیں پتہ نہیں
سانس لینا کس قدر محال ہے
اداسیاں،اداسیاں!
تمام سبز سایہ دار پیڑوں نے
ترے بغیر وحشتوں میں اپنے پیرہن کو تار تار کردیا
اب کسی شجر کے جسم پر قبا نہیں
سوکھے زرد پتے
کُوبہ کُوتری تلاش میں بھٹک رہے ہیں
اُداسیاں،اُداسیاں!
۔۔۔۔۔
زمین بھی مری طرح ہے
تیرے بغیر اس کی کوکھ سے بھی اب
کوئی گلاب اگ نہ پائے گا
زمین بانجھ ہوگئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔ (۶)
(نظم۔ویسٹ لینڈ۔۔۱۹۳)
فطرت کا تحفظ بہت بڑا مسئلہ ہے فطرت کی طاقت کا احساس آپ کو مندرجہ ذیل نظم میں دیکھنے کو مل جائے گا:
پتھر کاٹ کے اپنا راستہ ڈھونڈنے والے نیلم
تیری نرم آواز کے سائے سائے سپنے بُنتی
تیرے کناروں پر سے سبز کمائی چنتی
۔۔۔۔۔۔۔
بادل کے مٹیالے دُکھ کا سارا بھورا پن اپنائے
چاند کے سینے کے ہر داغ کو اپنے اُجلے من میں چھپائے
سبز کبھی امید کی صورت
زرد فراق کے جیسا
۔۔۔۔۔۔۔۔
سرخ پہاڑ تک آتے آتے وہی جامنی لہریں
پھولوں کے جھرمٹ تک پہنچے جونہی سادہ پانی
کہیں سنہرا کہیں چمپئی کہیں چمکتا دھانی
ھلے رو پہلے آسمان تک آکر پھر وہی نیلا
وہی ازل اور ابد کا رنگ جو کبھی پڑا نہیں پھیکا
۔۔۔۔۔۔۔۔ (۷)
(نظم،نیلم۔۔۔۔تیرے رنگ کتنے،۴۳۶)
غرض اس طرح کی کئی نظمیں مثلاََ‘‘ایک پیغام’’،‘‘بہار اپنی بہار پر ہے’’،‘‘ایک منظر’’،‘‘موسم کی دعا’’وغیرہ جن کو ماحولیاتی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔گوپی چند نارنگ کے اس قول پرمضمون کا اختتام کرتا ہوں ‘‘جدید شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے’’ ۔
حوالہ جات
1.Glotfelty,and fromm H.(eds)1996,The Ecocriticism Reader,landmarks in literary ecology,London University of georgia press,P:XIX)
2.Peter Barry,Begining theory,2004 India Print,Chapter-13,Ecocriticism,P:248
۳۔عتیق اللہ،پروفیسر،بین العلومی تنقید،ایچ ایس آفیس پرنٹرز،دہلی،۲۰۱۹ء،(ص۔۱۶۰)
4.Miles,Kathryn.https://www.britannica.com/topic/ecofeminism.n.d15 october<https://www.britannica.com
۵۔پروین شاکر،کلیات،ماہِ تمام،نعمت کمپوزنگ ہاؤس،دہلی،ایڈیشن ۲۰۲۲ء،ص۔۱۴۱
۶۔پروین شاکر،کلیات،ماہِ تمام،نعمت کمپوزنگ ہاؤس،دہلی،ایڈیشن ۲۰۲۲ء،ص۔۱۹۳
۷۔پروین شاکر،کلیات،ماہِ تمام،نعمت کمپوزنگ ہاؤس،دہلی،ایڈیشن ۲۰۲۲ء،ص۔۴۳۶
***