You are currently viewing مثنوی مولائے  روم کا اردو ترجمہ: مختصرتعارف اورجائزہ

مثنوی مولائے  روم کا اردو ترجمہ: مختصرتعارف اورجائزہ

محمداحمد واحدؔ۔  اور

ڈاکٹر فہیم الدین احمد

ایسوسی ایٹ پروفیسر،شعبۂ ترجمہ، مانو ، حیدرآباد

مثنوی مولائے  روم کا اردو ترجمہ: مختصرتعارف اورجائزہ

صاحب مجمع الفصحاء (رضاقلی خان ہدایت) کا یہ مشہور قول ہے کہ ایران میں چار کتابوں کو جس قدر شہرت حاصل ہوئی اس قدر شہرت دیگر ایرانی کتابوں کو حاصل نہیں ہوئی، ان میں 1)شاہ نامہ فردوسی 2)گلستانِ سعدیؔ 3)دیوانِ حافظ اور 4)مثنوی مولانا روم کتابیں شامل ہیں۔ اِن کتابوں میں بھی مثنوی مولانا روم کو سب سے زیادہ شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی اس کا ثبوت یہ ہے کہ جس قدر علماء، صلحاء ، مشائخین عظام، محققین اور مترجمین نے مثنوی مولانا روم کے تراجم اور شروحات پر توجہ دی ہے اتنی توجہ ان بقیہ کتابوں کے ترجمہ و تشریح پر نہیں دی۔ دراصل مثنوی مولانا روم تربیتِ نفس اور تہذیبِ اخلاق کے مضامین پر مشتمل ایک بہترین مثنوی ہے۔مثنوی مولانا روم کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس مثنوی کو پہلوی زبان کا قرآن بھی کہا جاتاہے۔ مولانا روم کے مرید باصفا حسام الدین چلپی اس مثنوی کی تصنیف کا سبب بنے۔
مثنوی معنوی کی غیر معمولی اہمیت کی بنا پر اردو میں بھی اس کے مختلف ترجمے ہوئے۔ چنانچہ محمد افضل الٰہ آبادی، ولی محمد، محمد عبدالعلی بحرالعلوم، محمد رضا، مولانا نذیر عرشی نقشبندی مجددی، علامہ محمد فیض احمد اویسی رضوی، حکیم اختر، محمد عالم امیری نے مثنوی مولانا روم کے عمدہ ترجمے کئے اور شرحیں لکھیں۔ مشہور عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی نے کلیدِ مثنوی کے نام سے 24؍ضخیم جلدوں میں اس کا ترجمہ کیا اور صوفیانہ تشریح لکھی ہے۔ یہ مثنوی مولانا روم کی سب سے ضخیم اور طویل شرح ہے۔
مثنوی مولانا روم کا ایک اردو نثری ترجمہ مشہور مترجم قاضی سجاد حسین نے بھی کیا ہے۔ قاضی خاندان سے تعلق رکھنے والے مولانا قاضی سجاد حسین عالم و فاضل اور ایک ماہر مترجم کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں۔ فارسی ادب کی اہم اہم کتابوں کو اردو ترجمہ کے قالب میں ڈھالنے کے اعتبار سے ان کی منفرد شناخت ہے اور ان کے تراجم آج پوری اردو دنیا میں نہ صرف مشہور و معروف ہیں بلکہ مقبولیت کی بنا پر بارہا اشاعت پذیر ہوئے اور آج بھی یہ تراجم ہر جگہ بآسانی دستیاب ہیں۔
قاضی سجاد حسین کا تعلق کرت پور کے قاضی خاندان سے ہے۔ ان کی پیدائش 3؍نومبر 1910ء کو ہوئی۔ ان کا تاریخی نام قاضی خلیل الرحمن ہے۔ ان کے والد بزرگوار کا نام قاضی شمشاد حسین تھا جو اپنے وقت کے عالم و فاضل اور شاعر تھے۔ بنیادی طور پر پانی پت کے انصار خاندان سے ان کا تعلق ہے۔ اس خاندان کے جداعلیٰ راحت پور (نزد نجیب آباد، ضلع بجنور، یوپی) میں اقامت پذیر ہوئے۔ بعدازاں راحت پور سے کرت پور ان کے جداعلیٰ قاض رضی آئے۔ قاضی شمشاد حسین کی اولاد میں قاضی جواد حسین، قاضی سجاد حسین، قاضی شمشاد حسین، قاضی امداد حسین اور قاضی ارشاد حسین ہیں جبکہ بیٹیوں میں حلیمہ خاتون اور خدیجہ خاتون ہیں۔ کرت پور میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد قاضی سجاد حسین کا داخلہ 1344ء میں دارالعلوم دیوبند میں ہوا پھر 1348ھ مطابق 1928ء کو وہاں سے سندِ فضیلت حاصل کی بعدازاں مدرسہ عالیہ فتح پوری میں نہ صرف مدرس، صدرمدرس بلکہ شیخ الحدیث کے معزز منصب پر فائز ہوئے اور 1947ء میں مدرسہ عالیہ کے پرنسپل کی حیثیت سے ترقی ہوئی۔ تحصیل علم کی مزید رغبت بڑھی تو الٰہ آباد یونیورسٹی سے فاضل ادب اور 1934ء میں پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل کا امتحان کامیاب کیا اور امتیازی کامیابی حاصل کرنے کی بنا پر گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ 24 ؍دسمبر 1990 ء، دوشنبہ 5 جمادی الآخر 1411ھ کو مولانا کا وصال ہوگیا اور حوض رانی مالویہ نگر نئی دہلی کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
قاضی سجاد حسین نے اپنے آپ کو علم وادب کے لئے وقف کردیا تھا۔ ترجمہ ان کا اصل میدان تھا۔ خصوصاً فارسی سے اردو ترجمہ نگاری میں ان کی جدوجہد اور سعی قابلِ رشک ہے۔ انہوں نے فقہ حنفی کی مرجع کی حیثیت رکھنے والی اہم کتاب ‘‘فتاویٰ تاتارخانیہ’’ کی ایڈیٹنگ اور حواشی کا کام انجام دیا۔ یہ فتاویٰ9؍جلدوں پر مشتمل ہیں۔ ہمدرد دواخانہ کے استحکام کے لئے بھی ان کی اہم خدمات رہیں۔ غالبؔ اکیڈمی کے لئے قاضی سجاد حسین نے اپنا تعاون پیش کیا اور وہاں خطاطی کی کلاسیس شروع کرکے اس اہم فن کے بقاء کی فکر کی۔ اعلیٰ منصب کی حامل مختلف شخصیات سے ان کے بڑے گہرے مراسم تھے جس کی بنا پر بہت سے حضرات کو انہوں نے روزگار فراہم کرنے میں کافی تعاون کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑی سماجی خدمت ہے۔
چوں کہ قاضی سجاد حسین کا اصل میدان ترجمہ نگاری تھا، اس حوالہ سے انہوں نے بر صغیر میں رائج مختلف فارسی کی یاد رکھے جانے والی اور مختلف مدارس اور جامعات میں پڑھائی جانے والی فارسی ادب کی عظیم کتابوں کا اردو میں نثری ترجمہ کیا جن میں پندنامہ (مولانا عطار) گلزار دبستاں، گلستانِ سعدیؔ،بوستانِ سعدیؔ، کریما سعدیؔ، دیوانِ حافظؔ، وغیرہ متعدد کتابیں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ قاضی صاحب نے جلال الدین مخدوم جہانیان جہاں گشت کے ملفوظات کو بھی مرتب کرکے جامع العلوم اور سراج الہدایہ کے نام سے شائع کیا۔
اردو ترجمہ کے حوالہ سے قاضی سجاد حسین کی ایک بڑی خدمت مثنوی مولانا روم کے 6؍دفتروں کا اردو ترجمہ ہے جو نثر میں ہے۔ یہ ترجمہ بھی 6؍جلدوں میں ہے۔ قاضی سجاد حسین کا اردو ترجمہ اس قدر مشہور و معروف ہے کہ آج یہ ترجمہ بآسانی دستیاب ہے۔ مثنوی مولائے روم اور مثنوی مولوی معنوی کے نام سے یہ ترجمہ ملتا ہے۔ اس ترجمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ قاضی سجاد حسین نے اس میں فارسی متن، اردو ترجمہ اور مختصر وجامع اردوحاشیہ کو شامل کیا ہے۔ ہر شعر کے نیچے اردو ترجمہ موجود ہے۔ ہر فارسی شعر کے نیچے اس کا اردو ترجمہ ہونے کی وجہہ سے پڑھنے والوں کو بھی کافی سہولت ہوتی ہے کہ شعر اور ترجمہ دونوں کو بیک وقت ملاحظہ کیاجاسکتا ہے۔ قاضی سجاد حسین نے ہر دفتر کا ترجمہ الگ الگ جلد میں کیا ہے اور ہر دفتر کے لئے ایک علاحدہ مقدمہ تحریر کیا ہے۔ 6؍جلدوں میں موجود ان کے سارے مقدمے نہایت پُرمغز اور معلومات افزا ہیں جن میں قاضی صاحب نے ہر دفتر میں استعمال ہونے والی اہم اور بڑی شخصیات کے نام، تاریخی مقامات یا اسلامی اور تصوف و طریقت کی خصوصی اصطلاحات کی ضروری وضاحت کردی ہے اور بہت جامعیت کے ساتھ کی ہے۔ مثنوی مولانا روم کے جملہ اشعار کی تعداد قاضی سجاد حسین نے 2666لکھی ہے جو دراصل 26660 ہے۔
قاضی سجاد حسین نے دفترِ اول کا ترجمہ 1974ء میں مکمل کیا۔ دفترِاول کا ترجمہ ایک سال میں مکمل ہوا۔یہ ترجمہ 408 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے شروع میں 29؍صفحات پر مشتمل ان کا تحریر کردہ قیمتی مقدمہ ہے۔دفترِاوّل کے ترجمہ میں جملہ 344 عنوانات موجود ہیں جن کے تحت قصے، حکایتیں، تصوف و طریقت اور معرفت کی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ دفترِ اول کے ترجمہ کی تکمیل پر مشہور شاعر قمر سنبھلی نے قطعہ تاریخ کہا تھا جو یوں ہے ؂
سیدی سجاد حسین ائے عالمِ شیریں سخن
آپ کے زورِ قلم سے زندہ ہیں کچھ علم و فن
اک نئی تخلیق کا ہے ائے قمرؔ یہ سالِ طبع
مثنوی روم کا ہے خوب اردو پیرہن
1974ء
قاضی سجاد حسین کی وضاحت کے مطابق مثنوی مولانا روم کے اردو ترجمہ کے لئے انہوں نے مختلف کتابوں سے استفادہ کیا جن میں کلیدِ مثنوی (ازاشرف علی تھانوی) مفتاح العلوم (نذیر احمد خاں عرشی نقشبندی) سوانح مولانا روم (شبلی) مراۃ المثنوی (قاضی تلمذ حسین)حکمتِ رومی (ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم) نقدِ اقبال (میکشؔ اکبرآبادی) رودِ کوثر (شیخ محمد اکرام) اور رسالہ از سپہ سالار شامل ہیں۔ قاضی سجاد حسین نے خدا کا نام لے کر ناسازگار حالات ہی میں یہ ترجمہ کا کام شروع کیا تھا مگر جب اس کام کی شہرت ہوئی تو خدا کے فضل و کرم سے ان کو وزارتِ تعلیم ہند کی طرف سے تعاون فراہم کیا گیا اور دفتر اول کے ترجمہ اور اشاعت کے بعد اس قدر شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی کہ اہلِ علم نے خطوط اور مختلف تبصروں کے ذریعہ اس کام کی کافی حوصلہ افزائی کی اور کتابوں کی خریداری کے ذریعہ بھی علٰحدہ طور پر مزید تعاون کیا گیا جس کی وجہہ سے قاضی سجاد حسین کے حوصلوں میں مزید تقویت آئی اور ان کو یکسوئی حاصل ہوئی اور ترجمہ کے لئے انہوں نے روزانہ 4؍5 ؍گھنٹے صرف کئے اور بالآخر اس ترجمہ کے کام کو مکمل کیا۔
دفترِ دوم کا ترجمہ 1296ھ مطابق 1976ء میں مکمل ہوا۔ اس کی فہرست میں جملہ 126 عنوانات شامل ہیں۔قاضی صاحب نے ان عنوانات کا پتہ نہیں کیوں اردو ترجمہ نہیں کیا بلکہ ان کو فارسی ہی میں علی حالہٖ باقی رکھا ہے۔ دفترِ دوم کا مقدمہ جملہ 14؍صفحات پر مشتمل ہے جس میں مختلف اسلامی معلومات اور تصوف کی چند اصطلاحات کی مختصر وضاحت کی ہے۔ دفتر سوم کا ترجمہ 1396 ھ مطابق 1976ء میں مکمل ہوا۔ اس میں 367 صفحات ہیں اور فہرست مضامین 239؍عنوانات پر مشتمل ہے۔ دفترِ سوم کا مقدمہ 10؍صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں قاضی صاحب نے وزارتِ تعلیم ہند کی طرف سے مالی اعانت کے حصول کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی ذکر کیا کہ وزیر تعلیم حکومتِ ہند پروفیسر سیدنورالحسن صاحب کے ہاتھوں دفترِ دوم کے ترجمہ کی رسم اجرائی عمل میں آئی۔ اس میں بھی تصوف کی چند اصطلاحات کی تعریف بیان کی گئی ہے بعدازاں فہرستِ مضامین شامل ہے پھر باضابطہ ترجمہ شروع ہوتا ہے۔ دفترِ چہارم 368 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 160 ؍عنوانات ہیں۔ اس کا مقدمہ 12 ؍صفحات پر مشتمل ہے جس میں قاضی سجاد حسین نے یہ ذکر کیا کہ 1976ء میں مولانا روم کے فکروفن پر قونیہ میں منعقدہ ایک سمینار کے سلسلہ میں ترکی حکومت کی طرف سے حکومتِ ہند کی معرفت ان کو مدعو کیا گیا تھا۔ قاضی سجاد حسین نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ممبئی، استنبول ، قونیہ، مصر، سعودیہ عربیہ اور عراق کے سفر کا قصہ کیا اور قاضی صاحب نے وہاں فارسی میں اپنا مقالہ پڑھااور قونیہ میں ان کے مزار کی زیارت کی اسی طرح ان کے پیرومرشد حضرت شمس تبریزی کے مزار پر بھی حاضری دی اور مشہور مفسر علامہ لغوی کے مزار پر حاضری دینے کا ذکر کیا۔ وہاں کے میوزیم میں قاضی سجاد حسین نے مثنوی مولانا روم کے دیگر نسخوں کو بھی دیکھا اور ان میں بعض اشعار کے سلسلہ میں اختلاف بھی پایا۔ اس سفر میں قاضی صاحب نے مختلف مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کی۔ مقدمہ میں ان تمام باتوں کا قدرے تفصیل سے ذکر ہے۔ اس میں تصوف کی بعض اصطلاحات جیسے طیّ الارض، لطائف عشرہ، تجددِ امثال، مسئلہ سماع، مسجدِ اقصیٰ، مسجد حرام وغیرہ کا مختصر تعارف بھی پیش کیا۔
دفترِ پنجم 424؍صفحات پر مشتمل ہے جس میں 192؍عنوانات شامل ہیں۔ اس کے شروع میں ہندوستان کے عظیم خطاط و خوش نویس جناب خلیق ٹونکی کا قطعۂ تاریخ شامل کیا گیا ہے جو یوں ہے ؂
دورۂ تہران و ترکی ، مصر و بغداد و عرب
ہو مبارک صاحبِ عز و شرف یہ فضلِ رب
مثنوی کے شارح و فاضل مترجم مرحبا
مولوی سجاد بحرِعلم ، صد رشکِ عرب
96ھ13
پیش کنندہ احقر خلیق ٹونکی
76ء19
اس کے بعد 8؍صفحات کا مقدمہ ہے۔ اس میں بھی دفترِ پنجم میں موجود مختلف اسلامی اور تصوف وطریقت کی اصلاحی تعریف و وضاحت کی گئی ہے جیسے نفس اور اس کی اقسام، انسان کی تین طاقتیں، وقوفِ قلبی، کرامت کی قسمیں، علمِ باری تعالیٰ، معیتِ حق وغیرہ۔ مقدمہ کے بعد فہرستِ مضامین ہے۔ بعدازاں ترجمہ شروع ہوتا ہے۔ دفترِ پنجم کا ترجمہ 1978ء میں مکمل ہوا۔
دفترِ ششم 536؍صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا مقدمہ 11؍صفحات پر مشتمل ہے جس میں مثنوی مولانا روم کے 6؍دفاتر کا ترجمہ مکمل ہونے پر خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں فریضۂ تشکر ادا کیا گیا نیز اس کام میں معاون قاضی سجاد حسین کی دختر بلند اختر اور کاتب کا بھی شکریہ ادا کیا۔ بعدازاں مثنوی کے خاتمہ کے عنوان کے تحت چھٹے دفتر کے ناتمام قصہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ چھٹے دفتر کی تکمیل کے لئے مفتی الٰہی بخش نے خاتمہ لکھا اور مولانا شیخ محمد تھانوی نے دفترِ ہفتم تحریر کیا۔ اس میں مفتی الٰہی بخش کا تعارف بھی شامل ہے اس کے بعد دفترِ ششم کے اشعار میں موجود تصوف کی اصطلاحات جیسے ہمت، توحید فی الذات، توحید فی الصفات، توحید فی الافعال، مراقبۂ موت، عروج ونزول، عمل خطائین جبروقدر، عبادت تسخیری وتشریعی، عالمِ خلق وامراور قُلّہ وغیرہ کی جامع انداز میں وضاحت فرمائی ہے۔ دفترِ ششم کا ترجمہ 1978ء میں مکمل ہوا۔ دفترِ اوّل کے ابتدائی اشعار سے ترجمہ کا نمونہ ملاحظہ کیجئے ؂
بشنو از نے چوں حکایت می کند
-01-01-00-00-00
-01–00-00-00وزجدائیہا شکایت می کند
-01=-00-00-00بانسری سے سن! کیا بیان کرتی ہے
-01-01-00-00-00
-01I-00-00-00(اور جدائیوں کی (کیا) شکایت کرتی ہے؟
-013-00-00-00کزنیستاں تامرا ببریدہ اند
-01-01-00-00-00
-017-00-00-00ازنفیرم مرد و زن نالیدہ اند
-01=-00-00-00کہ جب سے مجھے بنسلی سے کاٹا ہے
-01-01-00-00-00
-01I-00-00-00میرے نالہ سے مرد و عورت (سب)روتے ہیں
-019-00-00-00سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
-01-01-00-00-00
-01/-00-00-00تابگویم شرح دردِ اشتیاق
-01a-00-00-00میں ایسا سینہ چاہتی ہوں جو جدائی سے پارہ پارہ ہو
-01-01-00-00-00
-01G-00-00-00تاکہ میں عشق کے درد کی تفصیل سناؤں
-01A-00-00-00ہر کسے کو دُور ماند از اصلِ خویش
-01-01-00-00-00
-015-00-00-00باز جوید روزگارِ وصلِ خویش
-01C-00-00-00جو کوئی اپنی اصل سے دور ہوجاتا ہے
-01-01-00-00-00
-01K-00-00-00وہ اپنے وصل کا زمانہ پھر تلاش کرتا ہے
-011-00-00-00من بَہر جمعیتے نالاں شدم
-01-01-00-00-00
-019-00-00-00جُفتِ خوشحالان و بدحالاں شدم
-01)-00-00-00میں ہر مجمع میں روئی
-01-01-00-00-00
-01O-00-00-00خوش اوقات اور بداحوال لوگوں کے ساتھ رہی
-017-00-00-00ہر کسے از ظنِ خود شدیارِ من
-01-01-00-00-00
-01;-00-00-00وزدرونِ من نہ جُست اَسرارِ من
-01M-00-00-00ہر شخص اپنے خیال کے مطابق میرا یار بنا
-01-01-00-00-00
-01U-00-00-00اور میرے اندر سے میرے رازوں کی جستجو نہ کی
-015-00-00-00سِرِ من ازنالۂ من دورنیست
-01-01-00-00-00
-017-00-00-00لیک چشم و گوش راآں نورنیست
-01E-00-00-00میرا راز، میرے نالہ سے دور نہیں ہے
-01-01-00-00-00
-01Q-00-00-00لیکن آنکھ اور کان کے لئے وہ نور نہیں ہے
-01-B1-04-00-00اس ترجمہ کے نمونہ کو ملاحظہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ترجمہ آزاد ترجمہ نہیں ہے۔ یہ ترجمہ مکمل طور پر لفظی ترجمہ بھی نہیں ہے اگرچہ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ قاضی سجاد حسین کا یہ ترجمہ لفظی ترجمہ ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ قاضی سجاد حسین نے یہ بامحاورہ ترجمہ کیا ہے البتہ انہوں نے بہت سے مقامات کا ترجمہ لفظی بھی کیا ہے یا ایسا لگتا ہے کہ لفظی ترجمہ کے قریب قریب ان کا ترجمہ نظر آتا ہے یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ترجمہ ادبی یا بامحاورہ اور لفظی ترجموں کی مثال ہے اگر اس ترجمہ کو ادبی ترجمہ تسلیم کیا جائے تو یہ ایسا ادبی اور بامحاورہ ترجمہ ہے جس میں قاضی صاحب نے حد درجہ فن کاری کا ثبوت فراہم کیا ہے۔
اس ترجمہ کی ایک اہم خصوصیت ایجاز و اختصار اور حد درجہ جامعیت کو ملحوظ رکھنا بھی ہے۔ یہ اردو نثری ترجمہ قاضی صاحب نے کم سے کم لفظوں میں کیا ہے اور بڑی کامیابی کے ساتھ کیا ہے جیسے ؂
من بَہر جمعیتے نالاں شدم : جُفتِ خوشحالان و بدحالاں شدم
ترجمہ :۔ میں ہر مجمع میں روئی : خوش اوقات اور بداحوال لوگوں کے ساتھ رہی
اسی طرح ایک اور مثال دیکھئے ؂
سر پنہان ست اندر زیرو بم : فاش اگر گویم جہاں برہم زنم
ترجمہ :۔ زیروبم میں راز چھپا ہوا ہے : صاف صاف بیان کردو ں تو دنیا کو درہم برہم کروں
یہ مثال بھی دیکھئے ؂
درنیا بدحالِ پختہ ہیچ خام : پس سخن کوتاہ باید والسلام
ترجمہ :۔ کوئی ناقص کامل کا حال نہیں معلوم کرسکتا : پس بات مختصر چاہئے، والسلام
اس ترجمہ کی ایک اہم خصوصیت آسان اور صاف زبان بھی ہے۔ قاضی سجاد حسین کو عربی، فارسی اور اردو زبان پر بھرپور عبور حاصل تھا مگر اس کے باوجود انہوں نے ترجمہ میں معرب اور مفرس زبان استعمال نہیں کی جیسے ؂
دیدنِ دانا عبادت ایں بود : فتح ابوابِ سعادت ایں بود
ترجمہ :۔ عالم کو دیکھنا بھی ایک عبادت ہوتی ہے : اس سے نیک بختی کے دروازے کھل جاتے ہیں
مومناں را برد باشد عافیت : برمنافق مات اندر آخرت
ترجمہ :۔ انجام کار مومنوں کی جیت ہوگی : آخرت میں منافق کو ہار ہوگی
ہرچہ مردم می کند بوزینہ ہم : آں کنداز مرد بیند ، دم بہ دم
ترجمہ :۔ جوکچھ انسان کرتا ہے ، بندر بھی کرتا ہے : جوانسان سے پے درپے دیکھتا ہے، وہ کرتا ہے
قاضی سجاد حسین کو قرآن وحدیث کی گہری بصیرت حاصل تھی۔ ان کے علم میں گہرائی اور گیرائی تھی۔ ان کا علمی استحضار لائق داد تھا اس کا ثبوت اس ترجمہ کا جامع حاشیہ ہے جو 6؍جلدوں میں ان کی عالمانہ و فاضلانہ صلاحیتوں کا گواہ ہے ۔ جیسے مثنوی مولانا روم کے یہ ا شعاردیکھئے ؂
زین للناس حق آراستہ است : زانکہ حق آراست چوں تانندرست
چوں پئے یسکن الیھا آفرید : کے تواند آدم از حوّا برید
ترجمہ :۔ زین للناس کو خدا نے آراستہ کیا ہے : جس کو خدا نے آراستہ کیا ہے اس سے چھٹکارا کیسے ہوسکتا ہے
جب اس کو یسکن الیہا کے لئے پیدا فرمایا ہے : تو آدم حوا سے کیسے جُدا ہوسکتے ہیں؟
اس پر قاضی صاحب کا تحریر کردہ حاشیہ ملاحظہ کیجئے:
زین قرآن پاک کی آیت ہے۔ زین للناس حبّ الشہوات من النساء الخ لوگوں کو مرغوب چیزوں یعنی بیویوں کی دل بستگی بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن الیہاوہ اس سے سکون حاصل کرلے۔ حضرت آدم اور حوا کے بارے میں قرآنِ پاک میں فرمایاگیا ہے کہ حوا کو اس لئے پیدا کیا تاکہ آدم اس سے سکون حاصل کریں۔ (دفترِ اول صفحہ نمبر 260)
مختلف احادیث و اخبار کے بارے میں بھی قاضی سجاد حسین نے حاشیہ میں وضاحت کردی کہ ان کے بارے میں محدثین کی رائے کیا ہے یا یہ کہ احادیث کی اصل مراد کیا ہے۔ قاضی سجاد حسین نے حاشیہ میں بعض الفاظ کی صرفی اور نحوی طور پر وضاحت بھی کی ہے اور مشکل الفاظ و معانی یا مولانا روم کے فارسی اشعار کے مقصد اور مشکل مقامات کی تشریح بھی کی ہے۔
غرض اس ترجمہ کے حاشیہ کے مطالعہ سے بھی قاضی سجاد حسین کی عالمانہ و محققانہ شان ظاہر ہوتی ہے۔ مختلف علوم وفنون سے متعلق ان کی قابلیت ظاہر ہوتی ہے جن میں علم فقہ، علم حدیث، علم کلام، علم تاریخ، علم قرآن اور علیم تہذیب و ثقافت وغیرہ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ترجمہ کے ساتھ ساتھ یہ حاشیہ بھی نہایت مفید اور معلومات افزا ہے اس کی روشنی میں مثنوی مولانا روم کو بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے اور مشکل مقامات حل کئے جاسکتے ہیں۔
بہرحال قاضی سجاد حسین نے نہایت محنت سے یہ ترجمہ کیا ہے اور مولانا رومیؔ کے مطلب اور مراد کو اپنے ترجمہ کے ذریعہ واضح کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ یہ ترجمہ بہت مختصر اور جامع ہے۔ کہیں کہیں نمبر دے کر حاشیہ میں مختصراً ضروری وضاحت اور تشریح بھی کردی ہے اور مختلف صوفیانہ اصطلاحات اور ضروری معلومات کو ہر دفتر کے مقدمہ میں لکھ کر مثنوی مولانا روم پڑھنے والوں کے لئے آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ ہر دفتر کے شروع میں تحریر کردہ ان کا مقدمہ ان کی تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ایسی بہت سی خصوصیات کی بنا پر مثنوی مولانا روم کا یہ ترجمہ آج بھی سب سے زیادہ نہ صرف مشہور و معروف بلکہ بے حد مقبول ہے اور ہر جگہ بآسانی دستیاب ہے۔ یہ قاضی سجاد حسین کی نیک نیتی، خلوص، جدوجہد اور اشاعتِ علم و فن کے غیر معمولی جذبہ کی دین ہے جس سے آج تشنگانِ معرفت سیراب ہورہے ہیں۔ مثنوی معنوی کے حکیمانہ وعارفانہ مضامین سے استفادہ کے لئے یہ ترجمہ آج بھی اپنی منفرد شان رکھتا ہے اس لئے یہ ترجمہ مختلف مطابع سے شائع ہوا اور آج بھی شائع ہورہا ہے۔
محمداحمدواحدؔ(ریسرچ اسکالر)
6281636641
 9-2-128 Mustaidpura
NIZAMABAD-503001 . (TS)
 ٭٭٭ دکن کے نامور شاعر، ادیب اور مترجم امجدؔ حیدرآبادی واحدؔنظام آبادی
امجدؔ حیدرآبادی’ حیدرآباد دکن کے ایک مشہورومعروف ادیب، مترجم اور صوفی شاعر تھے۔ اُن کی شاعری قرآن وحدیث اور تصوف و طریقت کے مضامین سے عبارت ہے۔ اردو کے مشہور رباعی گو شاعر کی حیثیت سے انہیں خصوصی طور پر شہرت ومقبولیت حاصل ہے۔ ان کی رباعیات مختلف مدارس اور جامعات کے نصاب میں شامل ہیں اور بعض رباعیات تو زبان زدِ خاص و عام ہیں۔شعرو ادب میں اُن کے مقام و مرتبہ اور اعتباری شان کے پیش نظر تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈیمی ایک اسکیم کے تحت شاعروں کو ‘‘حضرت امجدؔحیدرآبادی ایوارڈ’’ عطا کرتی ہے جو قابلِ ستائش ہے۔
نام اور تخلص :
اصلی نام سید امجد حسین اور تخلص ‘‘امجدؔ حیدرآبادی’’ تھا ۔ امجدؔ حیدرآبادی اپنی علمی و ادبی صفات کی جامعیت کی بنا پر حکیم الشعراء ، شہنشاہِ رباعیات ، سعدئ دکن ، حسان الہند اور سرمدِ ثانی وغیرہ القاب سے نوازے گئے ۔انہوں نے اپنی ایک رباعی میں اپنے نام اور لقب کا اس طرح اظہار کیا ہے ؂
سید احمد حسین ہوں امجدؔ ہوں
حسان الہند ثانئ سرمد ہوں
کیا پوچھتے ہو حسب نسب کو مرے
میں بندۂ لم یلد ولم یولد ہوں
ولادت :
19؍مارچ1878ء کو امجدؔ حیدرآبادی کی پیدائش ہوئی ۔ صغر سنی بلکہ ولادت کے ابتدائی40 دن ہی ہوئے تھے کہ امجدؔ حیدرآبادی کے سر سے والد ماجد کا سایہ اٹھ گیا اور ان کی والدہ محترمہ صوفیہ صاحبہ نے امجدؔ حیدرآبادی کی پرورش و پرداخت میں خصوصی طور پر حصہ لیا ۔ پھر1908ء میں حیدرآباد میں رودِ موسیٰ کی طغیانی کا المناک سانحہ پیش آیا جس میں امجدؔ حیدرآبادی کا خاندان ان کی آنکھوں کے سامنے غرق ہوکر لقمۂ اجل ہوگیا ۔ رودِ موسیٰ کی طغیانی کے روح فرسا احوال کو امجدؔ حیدرآبادی نے ‘‘قیامت ِ صغریٰ’’ کے نام سے ایک نظم میں درد انگیز لہجہ میں بیان کیا ،جیسے ؂
وہ رات کا سناٹا وہ گھنگھور گھٹائیں
بارش کی لگاتار جھڑی سرد ہوائیں
گرنا وہ مکانوں کا وہ چیخوں کی صدائیں
وہ مانگنا ہر ایک کا رو رو کے دعائیں
پانی کا وہ زور اور وہ دریا کی روانی
پتھر کا کلیجہ ہو جسے دیکھ کے پانی
رودِ موسیٰ کی طغیانی کی نذر ہونے والوں میں خود امجدؔ حیدرآبادی کی والدہ ، شریک حیات اور شیر خوار و معصوم بیٹی بھی تھی ، رودِ موسیٰ کی ہلاکت خیزی ایسی رہی کہ امجدؔ کو پھر کسی کا پتہ نہ ملا اسی لئے کہا ہے ؂
مادر کہیں اور میں کہیں بادیدۂ پرنم
بیوی کہیں اور بیٹی کہیں توڑتی تھی دم
عالم میں نظر آتا تھا تاریکی کا عالم
کیوں رات نہ ہو ڈوب گیا نیر اعظم
سب سامنے آنکھوں کے نہاں ہوگئے پیارے
وہ غم تھا کہ دن کو نظر آنے لگے تارے(1)
ملازمت :
ملازمت کے سلسلہ میں یوں تو امجدؔ حیدرآبادی نے بنگلور وغیرہ کا سفر بھی کیا تھا اور وہاں مختصر عرصہ قیام پذیر رہے مگر بنیادی طور پر ریاست حیدرآباد کے محکمہ محاسبی سے ہی ان کا تعلق رہا ۔اس سلسلہ میں ماہرؔ القادری نے اپنے ایک مضمون ‘‘ حضرت امجدؔ حیدرآبادی ’’ میں یوں روشنی ڈالی ہے :
‘‘امجدؔ مرحوم کے سب سے زیادہ قدر شناس سر اکبر حیدری مرحوم تھے ۔ امجدؔ کی ملازمت کا تعلق دفتر صدر محاسبی سے تھا اور سر اکبر حیدری فینانس کے وزیر تھے ۔ انہوں نے حضرت امجدؔ کو تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کئی ترقیاں دیں ۔ انہیں دنوں یہ بھی سننے میں آیا کہ سراکبر حیدری امجدؔ مرحوم سے ملنے کے لئے ان کے مکان پر جایا کرتے ہیں ۔ (2)
علمی و ادبی خدمات :
امجدؔ حیدرآبادی شہرت گریز اور گوشہ نشین واقع ہوئے تھے اسی لئے مشاعروں میں بطورِ خاص جانا اور کلام سنانا انہیں پسند نہ تھا ۔ ملازمت کے اوقات کے علاوہ وہ نہایت یکسوئی سے لکھنے پڑھنے اور تصنیفی و تالیفی کام میں مصروف و مشغول رہا کرتے یا کسی اہم شخصیت سے ملاقات کے لئے وقت نکالتے ۔یہی وجہ ہے کہ امجدؔ حیدرآبادی نے اپنے علمی و ادبی سلسلہ کو برقرار رکھا۔ چنانچہ انہوں نے نظم و نثر میں کمال حاصل کیا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ نہ صرف حیدرآباد دکن بلکہ ملک و بیرون ملک کے مختلف اہل علم و فضل نے ان کے علمی و ادبی کمالات کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ انہیں بھرپور خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ درج ذیل سطور میں ان کی کتابوں کی فہرست پیش کی جاتی ہے جس سے ان کی علمی و ادبی خدمات کا اندازہ ہوتا ہے:
1) جمال امجد ۔مطبوعہ1348ھ ۔ نیشنل فائن پرنٹنگ پریس ۔ حیدرآباد ۔دکن
2) نذر امجد ( میاں بیوی کی کہانی) سن اشاعت ندارد ۔ اعجاز پرنٹنگ پریس ۔ حیدرآباد دکن
3) حج امجد ۔مطبوعہ1379ھ ۔اعجاز پرنٹنگ پریس ۔ حیدرآباد
4) حکایات امجد ۔ بارِ دوم ۔1383ھ م1963ء ۔ نیشنل فائن پرنٹنگ پریس ۔حیدرآباد ۔
5) ریاض امجد(2؍ حصے )2011ء ۔ ملک بک ڈپو ۔ دہلی
6) خرقۂ امجد۔ 1923۔ جدید ایڈیشن2011ء ۔ ملک بک ڈپو ۔ دہلی ۔
7) گلستان امجد1381ھ (بارِ چہارم) اعجاز پریس ۔ چھتہ بازار ۔ حیدرآباد
8) رباعیات امجدؔ (3 حصے)مطبع و سن ندارد
امجد ؔ حیدرآبادی کی مذکورہ بالا کتابیں متعدد مرتبہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئیں اور عصر حاضر میں ان کی بعض کتابوں کو عادل اسیرؔ دہلوی نے ازسر نو مرتب کرکے دہلی سے شائع کیا ہے ۔ مذکورہ بالا فہرست کتب سے اندازہ ہوتا ہے کہ امجدؔ حیدرآبادی نے نظم و نثر دونوں اصناف میں لکھا ہے اسی لئے مولانا مناظر احسن گیلانی (جو علم و تحقیق کے ایک اہم فرد ہیں) نے ان کے بارے میں یوں لکھا ہے :
‘‘اب ان کی دلکش نثر کے متعلق اپنی آزادانہ رائے کو پابند کرکے صرف اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ مولانا عبدالباری ندوی لکھنوی جیسے نقاد اور نکتہ چیں بزرگ بھی حضرت امجدؔ کی نثاریت پر دیر تک جھومتے رہے ۔ میں نے شاید دو ایک مرتبہ پہلو بدلے بھی ہوں گے مگر مولانا ئے ممدوح الصّدر نے دو سو صفحے کی کتاب ایک ہی بیٹھک میں ختم کردی ۔ کتاب ختم کرنے سے پیشتر اس کا مطالعہ ختم نہ ہوسکا۔ وہ امجد جواب تک شاعر مشہور تھا دیکھو کہ اب انشاء کے ایک جدید اسلوب اور قالب میں کس طرح کامیاب ہوکر نمایاں ہوتا ہے ۔ فالحمد للہ ربّ العالمین ۔ (3)
امجدؔ حیدرآبادی کا فارسی ذوق :
امجدؔ حیدرآباد چونکہ دکن کی دانش گاہ جامعہ نظامیہ کے فارغ التحصیل تھے اور اُس زمانے میں درس نظامی کے نصاب میں خصوصیت کے ساتھ فارسی کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں ۔(4) اس لئے امجدؔ حیدرآبادی کو فارسی کی ابتدائی اور اہم کتابیں پڑھنے کا موقع ملا جس سے ان کی فارسی دانی کو تقویت ملی ۔ علاوہ ازیں امجدؔ حیدرآبادی کو فارسی زبان سے کچھ زیادہ ہی علاقہ رہا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے تعلیمی زمانے ہی میں فارسی کی ایک مشہور کتاب ‘‘اخلاقِ جمالی ’’ کااُردو ترجمہ کیا تھا جو اب نایاب ہے اوراُس زمانے کے استاد علامہ شوستری نے اس کی تعریف بھی فرمائی تھی ۔
امجدؔ حیدرآبادی کے احوال کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے فارسی شاعری کا خصوصی طور پر مطالعہ کیا تھا ۔چنانچہ مثنوی مولانا روم۔ کلیاتِ بیدل اور اسی طرح گلستاں نامی کتابیں اکثر ان کے زیرمطالعہ رہتی تھیں ۔ چنانچہ ‘‘گلستان’’ پڑھتے پڑھتے فارسی میں بھی انہوں نے ایک شعر موزوں کیا ۔ اُن کا پہلا فارسی شعر یوں ہے ؂
بسانِ سایۂ نصف النہارم پیش پا افتد
اگر خورشید محشر را نظر برداغِ ما افتد
دنیا و انسان ان کی پہلی نظم ہے جو20سال کی عمر میں لکھی گئی ۔ انہوں نے اپنی فارسی کی چند غزلیں ترک علی شاہ ترکی کو اور اُردو کی چند غزلیں حبیب کنتوری کو دکھائیں ۔ (5)
گلستانِ امجد کے شروع میں وہ خود یوں رقم طراز ہیں :
‘‘ ایک مدت سے تین کتابیں ہمارے زیرنظر تھیں ،گلستانِ سعدیؔ ، مثنوی مولوی رومی ؔ،کلیاتِ بیدلؔ ۔ ہم چاہتے تھے کہ گلستاں کا اُردو ترجمہ اور مثنوی اور کلیاتِ بیدلؔ کاانتخاب معہ ترجمہ کریں ’’ ۔ (6)
غرض سطور بالا میں ان کی فارسی دانی سے متعلق جن باتوں کا اظہار کیا گیا ہے ان سے پتہ چلتا ہے کہ امجدؔ حیدرآبادی کو فارسی زبان، اس کی نظم اور اثر اور اس سے ترجمہ نگاری کا خصوصی ذوق تھا ، اسی لئے امجدؔ حیدرآبادی نے فارسی کی مشہور کتاب گلستانِ سعدی کا اُردو ترجمہ گلستانِ امجدؔ کے نام سے کیا جو یقینا لائقِ مطالعہ ہے۔
 قدر شناسی :
٭ حیاتِ امجدؔ : امجد حسین امجدؔ حیدرآبادی کی سوانح حیات ہے جس کو محمد جمال شریف ایم ۔ اے نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب کل148 صفحات پر مشتمل ہے ۔ بنیادی طور پر اس کتاب میں امجدؔ حیدرآبادی کے حالاتِ زندگی اور ان کی ادبی خدمات کا جائزہ موجود ہے ۔
٭ 1987ء میں محمد عثمان علی نے امجدؔ حیدرآبادی حیات اور کارنامے کی موضوع پر پروفیسر ابوالفضل سید محمود قادری کی زیرنگرانی اُردو میں پی ۔ ایچ ۔ ڈی کا مقالہ تحریر کیا ہے جو کل 260صفحات پر مشتمل ہے ۔ یہ مقالہ کل 3 ؍ابواب پر مشتمل ہے جس کا پہلا باب حالاتِ زندگی ، دوسرا باب حضرت امجدؔ کی نثرنگاری اور تیسرا باب ان کی شاعری سے متعلق ہے ۔ اس مقالہ پر جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو نے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی ہے ۔
٭ 1891ء میں محمد عثمان علی نے امجدؔ حیدرآباد ی کے نثری کارنامے کے موضوع پر شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ میں تحقیقی کام انجام دے کر ڈگری حاصل کی۔
٭ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد دکن کے زیراہتمام ہندوستان کے مایہ ناز شاعر ادیب مترجم ، مفکر ، فلسفی و حکیم ، دانائے راز ہائے انفس و آفاق سرمد ثانی سید احمد حسین امجدؔ کا جشن الماس 31؍ جنوری 1955ء کو نہایت تزک و اہتمام سے منایا گیا ۔ اس موقع پر پڑھے گئے مضامین ہندوستان بھر کے دانشوروں ، شاعروں ، ادیبوں اور سیاست دانوں کے بھیجے ہوئے پیامات وغیرہ ماہنامہ سب رس حیدرآباد کے ایک خصوصی نمبر میں خواجہ حمیدالدین شاہد نے مرتب کرکے ارمغانِ امجدؔ کے نام سے پیش کیا ۔
مکتوباتِ امجدؔ:۔ دکن کے مشہور محقق جناب مولوی نصیر الدین صاحب ہاشمی نے کلیم الشعراء سید امجد حسین امجدؔ حیدرآبادی کے مکتوبات کو مکتوباتِ امجد کے نام سے مرتب کرکے 1354 ء میں شمس المطابع حیدرآباد دکن سے شائع کیا۔ اس کتاب کے شروع میں عالی جناب نواب جیون یار جنگ بہادر (رکن مجلس عالیہ عدالت) کا پیش لفظ ہے اور مولوی نصیر الدین ہاشمی کا قدرے تفصیلی مقدمہ ہے۔ اس کتاب میں حضرت امجدؔ کے قیمتی اور نایاب خطوط جمع ہوگئے ہیں۔ علاوہ ازیں مولوی نصیر الدین ہاشمی نے ‘‘حضرت امجدؔ کے کلام کی خصوصیات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور نمونۂ کلام بھی پیش کیا ہے۔
ایک کتاب ‘‘یاد گارِ امجد’’ کے نام سے بھی ملتی ہے جس کو 1961 ء میں محمد اکبر الدین صدیقی نے شائع کیا ہے۔
امجدؔحیدرآبادی اور ویمنا کا تقابلی مطالعہ: از۔محمد امین اللہ۔ تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی۔ زیر نگرانی پروفیسر بشیر احمد ۔ ایس وی یونیورسٹی، تروپتی۔ 2004ء
 اس کتاب میں امجدؔ حیدرآبادی کی حیات، شخصیت اور شاعری پر اربابِ قلم کے تبصرے، منظوم خراجِ عقیدت اور قطعاتِ تاریخ شامل ہیں۔
امجدؔ حیدرآبادی کی ترجمہ نگاری: مصنف واحدؔ نظام آبادی۔ چوں کہ امجدؔ حیدرآبادی نے شیخ سعدی کی گلستان کا اُردو بامحاورہ ترجمہ گلستانِ امجد کے نام سے کیا تھا، ترجمہ کے اصول وفن کی روشنی میں امجدؔ حیدرآبادی کی ترجمہ نگاری کا مفصل جائزہ اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔جس کے صفحات 196 ہیں۔ یہ کتاب 2018ء میں دارالاشاعت مصطفائی، دہلی سے شائع ہوئی ہے۔
کلیاتِ امجدؔ حیدرآبادی: مرتب ڈاکٹرعطاء اللہ خان۔ شائع شدہ 2020ء
رباعیاتِ امجدؔ حیدرآبادی کا موضوعی تناظر : ڈاکٹر قطب سرشار۔ شائع شدہ 2016ء
 علاوہ ازیں اور بھی مختلف مضامین ملتے ہیں جو امجدؔ حیدرآبادی کی رباعیات اور فکروفن سے متعلق خاصے وقیع اور اہم ہیں۔
علاوہ ازیں دکن میں شعر و ادب سے متعلق تحقیقی و تاریخی کتابوں نیز متعدد تحقیقی مقالوں میں ان کی شخصیت اور فکر و فن سے متعلق تقریباً ہر پہلو پر سیر حاصل لکھا جاچکا ہے اور ہندوپاک کی مؤقر و معتبر اور مستند اہل علم و فضل شخصیات نے ان کی ادبی و شعری خدمات کا بھرپور اعتراف کیا ہے جن میں علامہ سید سلیمان ندوی ، مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مولانا مناظر احسن گیلانی وغیرہ شامل ہیں ۔
وفات :
29؍ مارچ 1961ء کو امجدؔ حیدرآبادی کا انتقال ہوگیا ۔ اور محدث دکن حضرت سید عبداللہ شاہ نقشبندیؒ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور احاطہ درگاہ حضرت شاہ خاموش میں ان کی تدفین عمل میں آئی ۔ (7)
لو ختم ہوا آج کلامِ امجدؔ
امجدؔ کی جگہ رہ گیا نامِ امجدؔ
اب آپ اس پر عمل کریں یا نہ کریں
پہونچا دیا امجدؔ نے پیامِ امجدؔ
٭٭٭٭٭
حوالہ جات :
 (1) جمال امجدؔ ۔ امجدؔ حیدرآبادی ۔ نیشنل فائن پرنٹنگ پریس حیدرآباد ۔1384ھ ۔ صفحہ نمبر 76
(2) امجدؔ سے شاذ تک ۔ مطبوعہ ادارہ ٔ سیاست حیدرآباد 1988ء صفحہ نمبر
(3) گلستانِ امجدؔ ۔ امجدؔ حیدرآبادی ۔ صفحہ نمبر (ابتدائی مضمون)
(4) فرزندان جامعہ نظامیہ کی علمی و ادبی خدمات ۔ فصیح الدین نظامی ۔ سری سائی گرافکس حیدرآباد ۔ 1999ء ،صفحہ نمبر 51
(5) دبستانِ نظامی ۔ فصیح الدین نظامی ۔ (غیر مطبوعہ) ۔ صفحہ نمبر427
(6) جامعہ نظامیہ حیدرآباد کے منتخب ادباء و شعراء کے فکر و فن کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ۔محمد عظمت اللہ خان۔2004ء
(7) روزنامہ سیاست حیدرآباد مورخہ دوشنبہ 10؍ نومبر2003ء
٭٭٭٭٭
 Wahid Nizamabadi
H.No: 9-2-128
Mustaid pura. Nizamabad
Pin No: 503001, Telangana
Cell No: 628163

Leave a Reply