ڈاکٹر آفرین شبّر
دہلی
مجتبیٰ حسین : ایک خاکہ گار
مجتبیٰ حسین اردو ادب کے بہت بڑے مزاحیہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں گرچہ انہوں نے مختلف اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔مجتبیٰ حسین نے ابتدا میں کبھی خاکے نہیں لکھے تھے وہ تو صرف مزاحیہ مضامین ہی لکھتے تھے لیکن خاکہ نگاری میں ان کی آمد ایک الگ انداز میں ہوئی ۔اگریوں کہا جائے کہ ایک ترنگ کی انگلی پکڑ کر آئے اور یہ ترنگ تھی ان کے دوست حکیم یوسف حسین خاں جن کی فرمائش پر انہوں نے خاکہ نگاری کی شروعات کی اورپھر کبھی نہیں روکے اور کامیابی پر کامیابی حاصل کی ۔اس بات کا ذکر خود مجتبیٰ حسین اپنے خاکے’’ آدمی نامہ ‘‘ میںیوں بیان کرتے ہیں :
’’میں نے پہلا خاکہ۱۹۶۹ء میں اپنے بزرگ دوست حکیم یوسف حسین خان کا لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔جب ان کی کتاب ’’خواب زلیخا‘‘کی تقریب رونمائی کا مرحلہ آیا تو نہ جانے ان کے جی میں کیا آئی کہ مجھ سے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کر بیٹھے ۔ اس وقت تک میں نے مزاحیہ مضا مین ہی لکھے تھے ۔کسی کا خاکہ نہیں لکھا تھا ۔بہت عذر پیش کئے ۔پہلے تو اپنی کم علمی اور کم مائیگی کا حوالہ دیا۔یہ عذر قابلِ قبول نہ ہوا تو عمر کے اس فرق کا حوالہ دیا جو میرے اورا ن کے بیچ حائل تھا ۔اس پر بھی وہ مُصر رہے کہ مجھے خاکہ لکھنا ہی ہوگا ۔یہ پہلا خاکہ تھا جسے سامعین اور صا حب ِخاکہ دونوں نے پسند فرمایا تھا ۔‘‘ ۱
اس اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مجتبیٰ حسین کو اس صنف کی طرف مائل کیاگیا ۔وہ خود اس صنف کی طرف نہیں آئے ۔لیکن انہوں نے اپنے فن کی چابکدستی سے اس صنف میں بہت نام پیدا کیا ۔اور جو انہوں نے خاکہ نگاری کی شروعات کی وہ پھر بنا روکے چلتی ہی گئی ۔کوئی بھی چیز کسی کے بھی زور زبردستی کرنے سے نا تو پیدا کی جا سکتی ہے اور نہ ہی سیکھی جا سکتی ہے۔مجتبیٰ حسین کو اس صنف کے لئے بھلے ہی مائل کیا گیا ہو لیکن ان میں یہ خوبی پہلے سے ہی موجود تھی جس کی بنا پر انھوں نے حکیم یوسف خاں کا خوبصورت خاکہ پیش کیا ہے ۔اس کے مطالق وجاہت علی سیندیلوی فرماتے ہیں :
’’مجتبیٰ حسین کوئی حادثہ نہیں بلکہ حالات کا ایک تسلسل ہے ۔اس کے پس پشت تابندہ ادبی روایت اور نظریاتی اقدار بھی ہیں ۔وہ ایک گل سرسید ہے جس نے اپنا جدا گانہ رنگ و بو رکھتے ہوئے بھی اپنے چنم سے اپنا رشتہ نہیں توڑا ہے ۔یہ ایک صحت مند علامت اور مجتبیٰ حسین کی راست بینی کی دلیل ہے ‘‘۔ ۲
مجتبیٰ حسین نے بھلے ہی فرمائش پر خاکہ نگاری کی ابتدا کی ہو لیکن وہ ایک بہترین خاکہ نگار ہے ۔اور اس خاکے میں بھی خاکہ نگاری کے سبھی پہلو کو ساتھ لے کر خاکہ نگار نے اسے ایک تحریری روپ بخشا ہے ۔محمد حسین خاکہ کی وضاحت کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں :
’’خاکہ صفحہ قرطاس پر نوک قلم سے بنائی ہوئی ایک مشبہ ہے یہ بے جان ساکت اور گم سم نہیں ہوتی یہ بولتی ہوئی متحرک پُر کیف تصویر ہوتی ہے ‘‘۔ ۳
یہ بات مجتبیٰ حسین کے خاکو ںپر صادق نظر آتی ہے۔ان کے خاکو ں میں تصویر چلتی پھرتی اور بولتی ہوئی نظر آتی ہے جو ان کی عمدہ خاکہ گاری کو واضح کرتے ہیں ۔ اپنے پہلے خاکے کے لیے خاکہ نگارآدمی نامہ کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں :
یہ پہلا خاکہ تھا جسے سامعین اور صاحب خاکہ دونوں نے پسند فرمایا تھا۔اب بھی ایک لحاظ سے یہ پہلا خاکہ ہی ہے بعد میں جتنے بھی خاکے لکھے انہیں اگر سامعین پسند کرتے تھے تو صاحب خاکہ کو ناگوار گزرتا اور اگر صاحب خاکہ خوش ہوتے تھے تو سامعین نا خوش ‘‘۔ ۴
حکیم یوسف حسین خاں کے خاکے میں جس طرح ان کی کمیوں کو اجاگرکیا ہے اسی طرح ان کی خوبیوں کو بھی بتایا ہے ۔اس خاکہ کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے کہ مجتبیٰ حسین نے اپنے دل و دماغ سے دوستی تعلقات اور عقیدت جیسے سارے جذبات اور خیالات کو محوکر یہ خاکہ لکھا ہے تو یہ غلط نہ ہوگا ۔
کیوں کہ انھوں نے اپنی قلم سے موضوع خاکہ کے حقیقی روپ کو قاری کے سامنے جیوں کا تیوں بڑی ایمانداری کے ساتھ پیش کیا ہے ۔
قطع کلام میں مجتبیٰ حسین کے دو خاکے شائع ہوئے ۔جن میں ایک او رخاکہ طبیب انصاری کا ہے جس میں بھی خاکہ نگار اپنے مقصد میں کامیاب نظر آتا ہے ۔اور یہ خاکہ بھی خاکہ نگاری کے سارے اُصولوں پر کھرا اترتا ہے ۔مجتبیٰ حسین اپنے تحریری انداز میںطبیب انصاری کی تنقید نگاری کے بارے میں اس طرح فرماتے ہیں کہ اس کے حوالے سے ان کی عادت و اطوار پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔ملاحظہ ہو :
’’وہ جب کسی ادیب یا شاعر پر تنقید کرتا ہے تو اس قدر جوش میں آجاتا ہے جیسے وہ ابھی قلم رکھ کر اُٹھ جائے گا اور اس ادیب کے گھر پہنچ کر اس کا گلا پکڑ یگا اور بقیہ تنقید کو ہاتھا پائی کے ذریعہ مکمل کر دے گا ۔‘‘ ۵
مجتبیٰ حسین نے جن جن شخصیات کے خاے لکھیں ہیں ان میں اگر ان کی خوبیوںکو بتایا ہے تو خامیوں کو بھی بے نقاب کیا ہے اور اس طرح سے اس کا بیان کیا ہے کہ یہ احساس نہ ہو کہ کمزوریوں کا بیان ہو رہا ہے ۔یہ فن ان کے یہاں باقاعدہ موجود ہے ۔ان کے مطابق انسان کو انسان کی نگاہ سے دیکھنا،سمجھنا ،اور پرکھنا چاہیے۔جس سے ایک مکمل اور زندہ جاوید خاکے وجود میں آسکے ۔انہوں نیاپنے خاکوں میں ہمیشہ دلچسپی کو برقرار رکھا ہے جس سے قاری بنا بھٹکے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے ۔اور یہ دلچسپی ان کے مزاحیہ بیان سے پیدا ہوتی ہے۔انہوں نے مزاح کے پہلوکو ہمیشہ اپنی تحریر میں اہمیت کے ساتھ روا ںرکھا ۔
مجتبیٰ حسین نے وہی بیان کیا جو انہوں نے دیکھا اور سمجھا جس سے ان کے ذہن میں جو بات آئی انہوں نے وہی تاثرات کو اپنے لفظ دے کر واقعات میں تبدیل کر کے شخصیت کی عکاسی کا کام کیا۔آدمی نامہ میں کنہیا لال کپور کا خاکہ ’’کنہیا لال کپور۔ایک لمبا آدمی ‘‘کے عنوان سے پیش کیا ہے ۔ اس میں انھوں نے کس طرح اپنے خیال کو اپنی قلم کے حوالے سے پیش کیا ہے فرماتے ہیں :
’’کنہیا لال کپور کو جب بھی دیکھتا ہوں قطب مینار کی یاد آتی ہے اور جب قطب مینار کو دیکھتا ہوں تو آپ جان گئے ہوں گے کہ کس کی یاد آتی ہوگی ۔چونکہ دہلی میں ایسی جگہ رہتا ہوں جہاں سے ہر دم قطب مینار سے آنکھیں چار ہوتی رہتی ہیں ۔اس لئے کپور صاحب بے تحاشہ لگاتار اور بنا کوشش کے یاد آتے رہتے ہیں ‘‘۔ ۶
اس اقتباس سے خاکہ نگار کی مزاح نگاری کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی تحریروں میں کس قدر مزاحیہ رنگ موجود ہے ۔وہ اپنے خیالاتوں کو ایک تحریری روپ دینے میں کامیاب نظرآتے ہیں انھوں نے یہاں کپور صاحب کی لمبائی کا ذکر تلمیح دیتے ہوئے کیا ہے ۔جس سے ان کی لمبائی کا معلوم ہوتا ہے اور جب بھی وہ قطب مینار دیکھتے ہیں تو کپور صاحب کی یاد آجاتی ہے ۔وہ اتنے لمبے تھے کہ کئی بار انہیں دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا ۔مجتبیٰ حسین کے خاکوں کا مطالعہ کرنے سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ انھوں نے اشخاص کی سچی اور غیر جانبدارانہ تصویر کیھنچی ہے جس سے ان اشخاص کا ظاہر و باطن دونوں سامنے آجاتے ہیں راجندر سنگھ بیدی اور اعجاز صدیقی کے خاکے میں یہ خوبیاں بتدریج موجود ہے۔
’’اکثر بیماریوں کے بارے میں میری معلومات میں اضافہ اعجاز صاحب کے خطوط کے ذریعہ ہی ہوا ۔میں اکژ مذاق میں اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ اعجاز صاحب نے بیماریوں کا اتنا عملی تجربہ حاصل کر لیاکہ کوئی یونیورسٹی انھیں اس تجربے کی بنا پر ایم بی بی ایس کی ڈگری دے سکتی ہے ۔‘‘ ۷
مذکورہ بالا اقتباسات سے اعجاز حسین کی بیماری اور انداز خطوط نگاری کا پتا چلتا ہے جس میں ان کے ہر خطوط میں بیماری کا ذکر لازم ہوتا تھا ۔اسی کو خاکہ نگار نے بڑے ہی چٹخارے لے لے کر بیان کیا ہے ۔لیکن اس خاکے میں نہ صرف ان کی کمزوریوں پر روشنی ڈالی ہے بلکہ ان کی خوبیوں سے بھی قاری کو روبرو کروایا ہے ۔مجتبیٰ حسین کے مطابق :
’’وہ ہر ادیب سے یکسا ں برتاو کرتے تھے ادیب چھوٹا ہویا بڑا اسے وہ ایک آنکھ سے دیکھتے تھے ۔چھوٹوں سے ملتے بھی تو ان پر اپنی بزرگی کو لادنے کی کوشش نہیں کرتے تھے ۔ادب کے دیگر بزرگوں کی طرح نہیں کہ جہاں کوئی چھوٹا دکھائی دیا اس کے سر پر اپنی بزرگی کا بھاری پتھر لاد دیا جائے ۔ اور چھوٹو کی قوت ِ برداشت کا تماشا دیکھتے رہے ۔اعجاز صاحب میں یہ سب کچھ نہیں تھا ۔وہ رسالوں کے دیگر مدیر کی طرح نہیں تھے کہ اپنے قلمکاروں سے ناز اٹھواتے پھریں غالباََ یہی وجہ تھی کہ انھیں اپنے ماہنامہ ’’شاعر ‘‘ کے لئے برحلقے سے بھرپور تعاون ملتا تھا ۔‘‘ ۸
مذکورہ بالا اقتباس میں جو خوبیاں بیان کی گئی اور اس سے پہلے ان کی کمزوری کا خاکہ جس قدر خاکہ نگار نے پیش کیا ہے اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ مجتبیٰ حسین خوبی اور خامی دونوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں ۔اور کمزوریوں کا بیان بھی اس طرح کرتے ہیں کہ موضوع خاکہ سے ایک ہمدردی محسوس ہوتی ہے ۔ان پہلؤں میں مجتبیٰ حسین اپنے مزاح اور لفظوں کی چابکدستی سے ایک الگ ہی رنگ بھرتے ہے اور اس میں ان وہ قدرت حاصل ہے ۔اسی بنا پر انھوں نے اتنے خوبصورت اور دلآویزخاکو ںکو تحریری روپ عطا کر ان اشخاص سے قاری کو روبرو کروایا۔ یادوں میں بسا آدمی کے عنوان سے مخدوم محی الدین کا خوبصورت خاکہ پیش کیا ہے ۔جس میں چند واقعات اور تاثرات سے اس شخصیت کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے ۔مجتبیٰ حسین پر جو مخدوم صاحب کے اثرات تھے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’میں اور میرا دوست جو ’’سرخ سویرا‘‘کو رحل پر رکھ کر پڑھتا تھا اسٹیشن کی طرف بھاگے معلوم ہوا کہ شاہ آباد جانے والا مدراس میل ابھی جا چکا ہے ۔انکو ائری سے پوچھا کہ شاہ آباد کا یہاں سے کتنا فاصلہ ہے جواب ملا ۲۵ کلومیٹر ۔ہم نے کہا ٹھیک ہے ۔آج عشق ،آتش نمرود میں کود پڑیگا اور ۲۵ کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کریگا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہماری زندگی کی پہلی اور آخری لانگ مارچ تھی ۔مگر شاہ آباد پہنچے تو معلوم ہوا کہ مخدوم آئے بھی اور چلے بھی گئے ۔ہم دونوں ایک دوسرے کا ماتھا پیٹ کر چپ ہو رہے ۔‘‘ ۹
مذکورہ بالا اقتباس میں مخدوم صاحب کے لوگوں پر جو اثرات تھے اس کا ذکر بہت دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے ۔کہ جس جو ش سے یہ مخدوم صاحب کو ملنے گئے اور ان کے نہ ملنے اور بعد میں ان کے گلبرگا آنے پر جس خوشی کا بیان کیا گیا ہے وہ مخدوم صاحب کی شخصیت اور ان کے لوگوں پر اثرات کو واضح کرتا ہے ۔ان کے علاوہ بھی بہت ایسے واقعات ہیں جن کا ذکر اس خاکے میں ہمیں ملتا ہے ۔جیسے مخدوم صاحب کا اپنے دوست کے وہاں جانا اور کہنا جو ہوا اس کا بیان سب موجود ہے ۔
اس کے علاوہ ان کے دوسرے خاکے بھی ہیں جن کی ابتدا کچھ اسی انداز میںکی ہے جن میں موضوع شخص کی کسی ایک خوبی کو عنوان بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اپنے بڑے بھائی ابراہیم جلیس کا خاکہ جو کی بہ عنوان ’’ابراہیم جلیس ۔مُسکراہٹوں کا آدمی ‘‘ہے ملاحظہ ہو :
’’ابراہیم جلیس افسانہ نگار تھے مگر میرے لئے صرف افسانہ تھے حالانکہ وہ میرے بڑے بھائی تھے ۔وہ پڑوسی ملک کے شہر کراچی میں رہتے تھے ۔مگر لگتا تھا کہ وہ لاکھوں کروڑوں میل دور ہیں ‘‘۔ ۱۰
حسن الدین احمد کا خاکہ’ لفظوں کا آدمی ‘کے عنوان سے ’’آدمی نامہ‘‘ میں موجو د ہے کیوں کی جب خاکہ نگار کی ملاقات موضوع شخصیت سے ہوئی اس وقت حسن الدین صاحب اپنی کتاب’’اردو لفظ شماری ‘‘کی طباعت کے آخری مراحل میں تھی اور وہ ہر وقت اپنی اس کتاب کی ہی بات کیا کرتے اور ہمیشہ اسی کی دھن میں رہتے تھے ۔اسی لئے خاکہ نگار نے اس خاکے کا عنوان ’لفظوں کا آدمی‘ رکھا ۔ خاکہ نگار اس بارے میں فرماتے ہیں :
’’وہ تھوڑی دیر بعد موضوع کو الفاظ شماری کی طرف موڑ کر آتے تھے ۔کہتے ہی کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا یہ کوئی نہیں بتلا سکتا ۔لیکن ان دنوں حسن الدین صاحب کی بات چیت کا اونٹ ہمیشہ ہی الفاظ شماری کی کروٹ میں بیٹھتا تھا۔یہ بات ان کی فطرت کے اس پہلوکی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب وہ کسی کام میں لگ جاتے ہیں تو سدا اسی کی دھن میں لگے رہتے ہیں ۔اور جب تک اُسے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا لیتے تب تک انہیں قرار نہیں آتا۔‘‘ ۱۱
اس اقتباس میں صاف گوئی اور سادہ پن محسوس ہوتا ہے ۔سیدھے سیدھے الفاظ میں موضوع خاکہ کا بیان کر ان کی خوبی کو بتایاہے ۔کہ کس طرح وہ اپنے کام کو پوری طرح ختم کرکے ہی چین لیتے ہیں ۔’ شیشے کے آدمی‘ میں نریندر لوتھر کا خاکہ تحریر کیا جس میں بھی خاکہ نگار نے دوسرے خاکوں کی مانند اپنی قلم کے جوہر دیکھائے ۔جس میں لوتھر صاحب اور ان کے کتّے کا بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ ذکر کیا گیا ۔لوتھر صاحب سے کتّا کچھ نہیں سیکھتا بلکہ اس کتّے سے لوتھر صاحب سیکھتے ہیں ۔اس طرح کی بات مجتبیٰ حسین ہی کر سکتے ہیں کیوں کی یہی مزاح نگاری کا کمال ہے جس کے ذریعہ سے وہ کسی بھی بات کو ایک مزاحیہ رنگ میں تبدیل کر بڑے بے خوفی کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔ملاحظہ ہو :
’’لوتھر صاحب نے اپنے ایک اور مضمون میں لکھا ہے کہ بڑے عہدیدار کتّے کو صرف اسی لئے رکھتے ہیں کہ وہ انہیں بھونکنا سکھا سکے ۔اس معاملے میں میری رائے یہ ہے کہ لوتھر صاحب اپنے کتّے سے کم سیکھتے ہیں اور کتّا ان سے زیادہ سیکھتا ہے ۔ایک بار جب میں ان کے گھر گیا تو دیکھا کہ ان کا کتّا ایک درخت کے نیچے لیٹا بکری کی طرح جگالی کرتا ہے ۔میں کتّوں سے بہت گھبراتا ہوں۔اسے دیکھ کر واپس جانا چاہتا تھا کہ لوتھر صاحب کے ملازم نے کہا صاحب اس کتّے سے نہ ڈریے ۔یہ کتّا تو بالکل گدھا ہے ۔نہ بھونکتا ہے نہ کاٹتا ہے ۔ایسا اہنسا وادی کتّا آپ کو کہیں نہیں ملے گا ۔یہ چوکیدار ی نہیںکرتا صرف افسری کرتا ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چوکیداری کا کام بھی نہ صرف مجھے ہی کرنا پڑتا ہے بلکہ ہنگامی حالات میں دم بھی ہلانی پڑتی ہے ۔‘‘ ۱۲
ان سب سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ خاکے لکھنے کی وجہ کچھ بھی رہی ہو ۔وہ کسی بھی خاکے میں اپنے فن میں کمزور نہیں نظر آتے ۔کسی کی فرمائش پر لکھا گیا خاکہ بھی اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کی خوشی سے لکھا گیا خاکہ ۔مجتبیٰ حسین اپنے فن پرعبور رکھتے ہیں اور بڑی ہی چابکدستی کے ساتھ طنزومزاح سے کام لیتے ہیں ۔تمام خاکوں میں شخصیت کی تصویر کشی بڑے ہی فن کارانہ انداز میں کی ہے۔ اور جو مقبولیت ادب میں آدمی نامہ کو ملی وہ اور کسی مجموعے کو حاصل نہیں ہوئی۔
حوالہ جات
(۱) آدمی نامہ ،مجتبیٰ حسین ،حُسامی بُک ڈپو ،مچھلی کمان ،حیدر آباد ،ص ۵
(۲) مجتبیٰ حسین نمبر ،جلد نمبر ۲۰
(۳) اردو ادب میں خاکہ نگاری ،صابرہ سعیدی علی گڑھ ایجوکیشنل ڈپو،۶۱
(۴) آدمی نامہ ،ص ۵
(۵) قطع کلام ،مجتبیٰ حسین ،ص ۱۴۷
(۶) آدمی نامہ مجتبیٰ حسین ،ص ۹
(۷) ایضاََ،ص۳۰
(۸) ایضاََ،ص۳۱
(۹) ایضاََ،ص۴۴
(۱۰) ایضاََ،ص۷۱
(۱۱) ایضاََ،ص۱۳۹
(۱۲) ایضاََ،ص۱۶۱