فوزیہ مغل
فرینکفرٹ ، جرمنی
محمد اکرام چغتائی
چراغ نما ہستی محمد اکرام چغتائی نے اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے روشن راہیں ہموار کی۔اور قدرت نے جو نئے مسافروں کے نصیب میں مسافتیں لکھی ہے ان مسافتوں میں محمد اکرام چغتائی کا کام خصر راہ ثابت ہو گا۔
ڈاکٹر محمد اکرام چغتائی
7جنوری 2023 شب گیارہ بجے 82 سال کی عمر شیخ زید ہسپتال کے کمرے سے اپنے حقیقی سفر پر روانہ ہوگئے ہیں۔
لیکچرار سے پنجاب یونیورسٹی میں کام کا آغاز کیا اور ڈائریکٹر اردو سائینس بورڈ کے عہدے پر اختتام کیاآپ نے اس دنیا کے مختصر سے قیام میں بہت سے کام سر انجام دیں بہت سے سفر طے کیں۔
میری روحانی مرشد این میری شمل کے حوالے سے ابھی چند ہفتوں پہلے ہی ڈاکٹر بشریٰ ملک صاحبہ جو کہ یونیورسٹی بون جرمنی میں لیکچرار ہیں سے گفتگو کے درمیان آپ کے حوالے سے بھی بہت اچھی و پر مغز گفتگو ہوئی پھر چند دن پہلے بشریٰ ملک صاحبہ نے مجھے اپنا افسانہ ( ہزاردروں کا محل) اور آپ کی نئی بک ”راوی سے رائن” کا ٹائٹل سنڈ کیا مگر کام کی مصروفیات کی وجہ سے مجھے پڑھنے وقت نہ مل سکا اور ہفتے کی رات تقریباً سات آٹھ بجے افسانہ پڑھتے ہوئے محترم اکرام چغتائی سےملاقات کرنے کا جزبہ دل میں تمام احترام وعقیدت سے ابھرا اور عین اسی وقت آپ اپنی اگلی اڑان بھرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے آج صبح جب میں نے بشریٰ ملک صاحبہ کو ان کے افسانے سے متعلق اپنی رائے کچھ یوں لکھی: ہزاردروں کا محل ۔
پڑھ کر روح کے طاقچے پر کئی انمول چراغ روشن ہو گئے ہیں ،آپ جس مزار کی مجاورن کی آرزو مند تھی
،میں بھی اسی مزار کی ایک عقیدت مند ہوں یہ عقیدت کا تعلق بھی بہت سفر کریں گا ۔۔
سلامت رہئے ۔ مگر جواب میں انکا پر سوز آواز میں ریکارڈنگ میسج آیا جس کا مفہوم کچھ یہ تھا کہ روشن چراغ اپنی لو میں اضافہ کر کے حقیقی سفر پر گامزن ہو گیا ہے ۔ دل کی آہ نے کہا کاش یہ خبر جھوٹی ہو ۔ مگر حقیقت اور سفر سے کوئی آنکھ نہیں چرا سکتا ۔
کچھ تعارف محترم محمد اکرام چغتائی جسے اب مرحوم لکھتے ہوئے جو دل کی کیفیت ہو رہی ہے وہ بیان نہیں کر سکتی آپ بہت سی کتابوں کے مصنف تھے ، تاریخ میں تحقیقی کام میں اپنے ہم عصروں میں ایک الگ منفرد مقام رکھتے تھے مگر اپنی درویشانہ طبعیت کے باعث اپنی تشہیر پہ کبھی توجہ نہ دی صرف عملی کام پر اپنی توجہ مرکوز رکھی اسی لیے بہت قیمتی ادبی سرمایہ اپنی وراثت میں چھوڑ گئے ہیں
ان ادبی اثاثوں کے نام یہ ہیں،
اقبال اینڈ گوئٹے (انگریزی/2000ء)
اقبال اور گوئٹے ( اردو / 2001)
اقبال اور جرمنی (اقبال ایوارڈ یافتہ)
مطالعہ آزاد (2010ء)
1857ء روزنامچے ، معاصر تحریریں یادداشتیں (2007ء)
1857ء مجموعہ خواجہ حسن نظامی (2007ء)
تاریخ مشغلہ نواب آبادی جان بیگم کے نام واجد علی شاہ اختر کے خطوط /1985ء/ مرتب)
سر سید احمد خان: فکر اسلامی کی تعمیر نو (از ڈاکٹر سی ڈبلیو ٹرول / مترجم )
محمد اسد بندہ صحرائی (2011ء)
شاہان اودھ کے کتب خانے (1973ء)
مشاعرے کا ارتقاء اور اس کی اہمیت( داؤد رہبر/ مرتب)
محمد حسین آزاد اور خانوادہ آزاد (2010ء)
ڈپٹی نذیر احمد دہلوی (سوانح حیات و تصانیف کا تنقیدی اور تحقیقی جائزہ/2013ء)
محمد داؤد رہبر بہ معروف ادیب (1926ء تا2013ء) طبع 2015ء
عالم بے بدل ، مولانا مناظر احسن گیلانی
شاہ ولی اللہ (سوانح، تصنیفات وغیرہ،)
تشریحی لغت (اکرام چغتائی ، نذیر حق ، اسلم کولسری)
فرہنگ اصطلاحات (مدیر)
معروف مسلم سائنس دان (مدیر)
گارسین و تاسی (2018ء)
ہفت زبان لغت : اکرام چغتائی, اشفاق احمد، فضل قادری/ 1974ء
اپنی زندگی کے اس علمی تحقیقی ادبی سفر میں آپ بارہا یورپی ممالک کے سیمینارز اور یونیورسٹیز میں لیکچر دینے کے لئیے مدعو کئے جاتے رہے ہیں جرمن اور آسٹریا کی کئی کتب کا ترجمہ اور علامہ اقبال پہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد علامہ صاحب پہ اتھارٹی کا مقام رکھتے تھے ۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ آسٹریلوی تحقیقی کام پر آسٹریلوی حکومت نےہماری حکومت کی طرح محترم سے مرحوم ہونے کا انتظار نہیں کیا بلکہ انہیں انکی زندگی میں ہی آسٹریلوی صدارتی ایوارڈ سے نوازا دیا تھا یوں آپ پہلے اور اب تک کے آخری پاکستانی ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے ۔
پھر کہی جا کر ہماری حکومت کی آنکھیں بھی کھولی یا اپنے ایوارڈز میں کچھ بیلنس کرنے کے لیے جو پانچ فیصد حقیقی حقداروں کی لسٹ بنتی ہے اس میں انہیں بھی شامل کیا گیا اور یوں انہیں علامہ اقبال پہ بہترین کتاب
لکھنے پہ پاکستان کے صدراتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ، اب ایک اور صدارتی ایوارڈ یا تمغہ 23 مارچ 2023 کو اعلان کیا گیا ھے لیکن انہوں نےاس ایوارڈ یا تمغے کی بجائے خواجہ میر درد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے7جنوری کو ہی حقیقی سفر پر روانہ ہونے کو اہمیت دی ۔
***