You are currently viewing محمد عاصم بٹ کے افسانوں میں عہد جدید کے اثرات ایک جائزہ

محمد عاصم بٹ کے افسانوں میں عہد جدید کے اثرات ایک جائزہ

سدرہ کرن

ریسرچ اسکالر,جی سی ویمن یونیورسٹی ،سیالکوٹ

محمد عاصم بٹ کے افسانوں میں عہد جدید کے اثرات ایک جائزہ

 

               اردو افسانہ نگاری کا آغاز بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ہوا بطور ایک صنف اردو افسانہ مغربی صنف ادب شارٹ سٹوری کی پیروی میں شروع ہوا لیکن کہانی کہنے ، سننے اور لکھنے کی روایت برصغیر میں قدیم سے موجود ہے ۔ رگ وید ، مہا بھارت ، ارتھ شاستر،  کتھا سرت ساگراسی روایت کی بنیادیں ہیں ۔ مسلمانوں کے دور حکومت میں عرب کی داستانوی روایت کو فروغ ملا ،  جب اردو زبان کو وسیلہ اظہار بنایا گیا تو یہی روایت اردو میں بھی منتقل ہوئی ۔ اردو میں داستان نویسی کا رواج دکن میں سب رس سے  ہوتا ہے اس کے بعد باغ و بہار، آرائش محفل ، رانی کیتکی کی کہانی ، فسانہ عجائب ، طلسم حیرت ، گل صنوبر اور داستان امیر حمزہ زیادہ مشہور ہوئیں ۔ یہ داستانیں قدیم دور کے انسان کی سوچ اور عمل کی بھرپور ترجمانی کرتی ہیں ۔

١٨۵٧ء کے بعد جب برصغیر پاک و ہند میں حالات میں تبدیلی آئی ۔اب اکٹھے بیٹھ کر خوش گپیاں کرنے اور دل بہلانے ، تفریح طبع کے لیے داستانیں سننے سنانے کے موقع کم ہوتے گئے اور داستانوں کا زور بھی ٹوٹ گیا ۔ اب نئے حالات میں کہانی کا نیا روپ ناول کی صورت میں سامنے آیا ۔ ناول منضبط دائروں میں زندگی کے حقائق کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کا عمل ہے ۔ واقعات میں ترتیب و تنظیم ، آغاز ، پھیلاؤ ، سب سائنسی دور کے میکانکی  تقاضوں کا پرتو  ہے ابھی تقاضوں نے مختصر افسانے کے لئے بھی راہ ہموار کی ، مختصر افسانے میں کہانی ایک اکائی کو ابھارتی اور ختم کرتی ہے ۔

بقول پروفیسر وقار عظیم :

“کسی ایک واقعے ، ایک جذبے ، ایک احساس ، ایک تاثر ایک اصطلاحی

مقصد ایک رومانی کیفیت کو اس طرح کہانی میں بیان کرنا کہ وہ دوسری

چیزوں سے الگ اور نمایاں ہو کر پڑھنے والے کے جذبات احساسات

پر اثر انداز ہو ۔ افسانے کی وہ امتیازی خصوصیات ہے جس نے اسے داستان

اور ناول سے الگ کیا “(١)

زندگی کی برق رفتاری مختصر افسانے کے آغاز کا محرک بنی ۔ معاشی الجھنوں اور ترقی کے مادی نظریے کی بدولت فرصت کے لمحات رفتہ رفتہ کم ہونے لگے ۔ سیاسی و سماجی اُلٹ پھیرنے مسائل کا دائرہ وسیع کردیا ۔ اب زندگی کی گہما گہمی میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ ایسی صورتحال میں طویل قصوں کہانیوں کی بجائے ایسی کہانیوں کی ضرورت تھی جو کم سے کم وقت میں ذوقِ جمال کی تسکین کا باعث بنے ۔ مختصر افسانے نے اسی ضرورت کو پورا کیا۔  یہی وجہ ہے کہ یہ صنف ابتدا ہی میں عوام و خواص میں مقبول ہوگی اور سب کی دلچسپی کا ذریعہ بنی۔  مختصر افسانہ چونکہ کم جگہ گھیرتا اور ایک ہی نشست میں پڑھے جانے کی خوبی رکھتا تھا ۔ لہذا اردو افسانے نے کم عمر میں ہی بہت سی منازل کامیابی سے طے کیں ۔

      محمد عاصم بٹ لاہور میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے فلسفہ کے مضمون میں ایم اے کرنے کے بعد انگریزی صحافت میں کیریئر کا آغاز کیا ١٩٩٦ء  سے آپ سرکاری ملازم ہوئے اور اکادمی ادبیات پاکستان کے ساتھ بطور مدیر سہ ماہی ادبیات میں کام کیا ۔ انھوں نے ادبی زندگی کی شروعات شاعری سے کی تاہم جلد ہی میلان طبع کی وجہ سے کہانی کاری کی طرف متوجہ ہوئے ۔ محمد عاصم بٹ کے اردو کے ناول نگار افسانہ نگار مدیر نقاد اور مترجم ہیں ۔

اردو ادب کے موجودہ عہد میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو نثر کے ساتھ انتہائی سنجیدگی سے وابستہ ہیں انہیں چند لوگوں میں محمد عاصم بٹ کا شمار ہوتا ہے محمد عاصم بٹ نے 90 کی دہائی میں افسانہ نگاری شروع کی ان کے پہلے افسانوی مجموعہ ١٩٩٨ء “اشتہار آدمی ” نے ادبی حلقوں میں خصوصی توجہ حاصل کی ۔ وہ جدید انداز فکر کے لکھنے والوں میں شمار کیے جانے لگے ۔  ابھی محمد عاصم بٹ کے افسانوی اسلوب اور موضوعات کی پرکھ جاری تھی کہ انہوں نے ٢٠٠١ء میں ” دائرہ ” کے عنوان سے ایک خوبصورت ناول لکھ کر اپنی شناخت کو وسعت  دی ۔  یہ ناول عام آدمی کی زندگی پر محیط ایک خوبصورت اور دلچسپ کہانی ہے جو خصوصی طور پر اندرون لاہور میں ہونے والے دن با دن کی ثقافتی،  سماجی اور تہذیبی رنگارنگی سے مرصع ہے ۔  اس کے بعد ٢٠٠٩ء میں اُن کا دوسرا افسانوی مجموعہ “دستک “ شائع ہوا  جس نے نئی نسل اور ادبی حلقوں کو چونکا دیا ۔

پھر یکایک محمد عاصم بٹ نے اپنے لاہوری ہونے سے فائدہ اٹھایا اور جدید انسان کے وجود دیاتی مسائل کو شہری زندگی کے پس منظر میں نہایت چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ۔ انہوں نے ٢٠١۴ء میں “ناتمام ” ناول شائع کیا تو اس ناول نے یو بی ایل ایوارڈ ٢٠١۵ء پروین شاکر ایوارڈ حاصل کیا ۔

٢٠١٨ء میں ان کا ایک ناول ” بھید”  شائع ہوا جو کہ خالصتاً تجرباتی انداز کا ناول ہے جس میں ہیئتی اور اسلوبیاتی تجربات کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔ سیموئل بیکٹ کے شہرہ آفاق ڈرامے ” گوڈو کے انتظار میں ” کے علاوہ کافکا اور بورخیس کی کہانیوں اور جاپانی کہانیوں کے انتخاب کو اردو میں ترجمہ کیا ۔ محمد عاصم بٹ کی اب تک دو درجن کے قریب کتابیں چھپ چکی ہیں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی لکھتے دکھائی دیتے ہیں ۔

       آج ہم جس دور میں زندہ ہیں وہ بعض حوالوں سے منفرد خصوصیات کا حامل ہے موجودہ صدی میں سائنس کی تیزرفتاری ترقی نے انسان کی فکر پر اثرات مرتب کیے ہیں ۔ تہذیبی حوالے سے آج کی دنیا اتھل پتھل کا شکار ہے انسان اور کائنات کے بارے میں پرانے تصورات شکستہ واہموں کا روپ دھار چکے ہیں ۔ اور انسانی عظمت کے خواب  پریشاں ہو چکےایسے میں نئے لکھنے والے بے یقینی کی صورتحال کا شکار ہیں۔  آج کے لکھنے والوں کے ہاں جو سب سے بڑی کمی وہ حیات و کائنات کے بارے میں بڑے سوالوں کا نہ ہونا عظیم تخلیقی فن پاروں کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بڑے فکری سوالات ہی بڑی تخلیقات کو جنم دیتے ہیں ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ایسے دور میں آنکھ کھولی ہے جسے معلومات کے عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے ہمارے اردگرد معلومات کے انبار لگے ہیں میڈیا ہر روز سینکڑوں خبریں   ہمارے کانوں میں انڈیلتا ہے یہ سب آرام دہ زندگی کے لیے کافی ہے ایسے میں سنجیدہ اور گہرے فکری سوالات کے لئے جگہ ہی کہاں بجھتی ہے ۔ پھر بھی کبھی کبھی کوئی سنجیدہ اور فکری سوالات پر غور کرنے والا ذہن سامنے آتا ہے تو ہم اُسے خوشگوار حیرت کے ساتھ قبول کرتے ہیں ۔عاصم کا شمار ایسے ہی اذہان میں ہوتا ہے جو آسان راہوں پر چلنے کے برعکس مشکل راہوں کا انتخاب کرتے ہیں۔  عاصم بٹ نے اپنے افسانوں میں نہ صرف سامنے کے مظاہر کو اپنا موضوع بنایا ہے بلکہ ماورائےخواص دنیا کو بھی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے ۔ محمد عاصم بٹ کو معمولی باتیں ، عام لوگ اور غیر اہم واقعات متاثر نہیں کرتے بلکہ انہیں ایسی چیزوں سے رغبت ہے جن میں کوئی نئی جہت نظر آئے۔  وہ اپنی ذات میں گم رہنے والے تخلیق کار ہیں جو خارجی حالات سے کم اور باطنی  تلاطم سے زیادہ متاثر ہیں ۔عاصم بٹ  ایک فلسفیانہ ذہن رکھنے اور اسے زندگی میں برتنے والے انسان ہیں ان کے افسانوں میں عہد جدید کے اثرات نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں ۔

عاصم بٹ کی کہانیاں عہد جدید کے مسائل کے گرد گھومتی ہیں ۔وہ وسیع مطالعہ اور مشاہدہ رکھتے ہیں سو ان کے فن میں عصری شعور واضح ہے اور ان کے ادراک کی سمت درست ہے عاصم بٹ نے مارشل لاء کے فورا بعد کی صورتحال کو گرفت کرنے کی کوشش کی ہے اس کے افسانوں کا بنیادی مسئلہ فرد کی بے سمتی ،خود فریبی اور تنہائی ہے ۔

البتہ “اشتہار آدمی اور دوسری کہانیاں “ اس افسانوی مجموعہ کا پہلا افسانہ اس صورتحال سے قدرے مختلف ہے ۔ “تیز بارش میں ہونے والا واقعہ “ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جو وقت سے آگے نکل جاتا ہے اور آنے والے واقعات کا ادراک حاصل کرلیتا ہے ۔  مگر وہ انہیں یا ان کی ترتیب بدلنے پر قادر نہیں ہوتا ۔ یوں اس کا المیہ جنم لیتا ہے اس افسانے کا ہیرو ایک متوسط طبقے کا فرد ہے اور اس طبقہ کے افراد کی یہ خواہش  ہوتی ہے کہ ان کی زندگی میں کوئی معجزہ رونما ہو جائے جو ان کی زندگی کے حالات بدل دے چونکہ ان کے اردگرد کے ماحول میں ایسے مواقع موجود نہیں ہوتے کہ جو تبدیلی میں ان کے معاون کا کردار ادا کر سکیں ۔ افسانے کا ہیرو حمید ناصر بظاہر زندگی سے معمور شخص نہیں لگتا ۔ زندگی سے اکتاہٹ اور بیزاری اس کے کردار سے جلتی ہے تاہم ایک بوڑھی خاتون کے مر جانے پر وہ چونکتا ہے گویا اسے کچھ دیر کے لیے احساس ہوتا ہے کہ اس کا ماضی ناکارہ ہو چکا ہے اسے یہ احساس بھی ستاتا ہے کہ وہ اس مری ہوئی عورت کی کوئی مدد نہیں کر سکتا اس کہانی میں ہیرو حمید ناصر وہ مرکزی کردار ہے جس کی زندگی ماضی حال اور مستقبل سے جڑی ہوئی ہے تاہم وہ وقت کے ہاتھوں بے بس ہے طے شدہ عمل کو ایک ذرہ بھر بھی اِدھر اُدھر سر کا نہ کسی کے بس میں نہیں ۔جبریت کا یہ عالم کہانی کے زندہ مناظر میں ایک عجیب و غریب وحشت بڑھ دیتا ہے لیکن مجموعی سطح پر جو المیہ جنم لیتا دکھائی دیتا ہے ۔وہ افسانہ ختم ہونے پر لفظ میں تھکن اتارتا محسوس ہوتا ہے ۔

عاصم بٹ کے افسانوں میں عہد جدید نے جو اثرات مرتب کئے ہیں اُن کی ایک مثال اُن کے افسانہ “اشتہار آدمی ” میں نمایاں طور پر جھلکتی ہے۔  یہ کہانی دراصل ایک شخص کی کہانی نہیں بلکہ ایک ایسے ماحول کی کہانی ہے جسے عہد جدید نے ترتیب دیا ہے ۔  افسانہ “اشتہار آدمی “ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کے لیے زندگی ، زندگی کی بجائے اشتہار میں زیادہ خوبصورت دکھائی دیتی ہے وہ اشتہارات  کی دنیا میں زندہ ہے ایک کے بعد ایک اشتہار اس کی زندگی میں اس طرح شامل ہو جاتا ہے کہ وہ تصورات کی دنیا کو حقیقت سمجھنے لگتا ہے وہ شہری زندگی سے محروم ہے اور اشتہارات  اس کی ان محرومیوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ۔

یوں  وہ خیالی دنیا میں جا کر اپنی  ناآسودہ خواہشات کی تسکین کرتا رہتا ہے ۔ زندگی کے لغویت بھرپوراندازمیں افسانے کے کردار سے ظاہر ہوتی ہےوہ اپنی حقیقی زندگی سے مسلسل رشتہ توڑتا چلا جاتا ہے اور خود کواشتہار  میں موجود حسیناؤں کے سپرد کرتا دکھائی دیتا ہے اس کے لئے اشتہاروں میں موجود زندگی زیادہ متحرک ہو جاتی ہے ۔

بقول سلیم الرحمن :

“اشتہار آدمی ایک شخص کے کردار کی نفسیات کی کہانی ہے ۔وہ خود کو

اپنی پیدا کردہ سحر انگیز تخیلاتی دنیا میں گم کر دیتا ہے جوان ماڈل لڑکیوں

کی وجہ سے ہے جن پر وہ فریفتہ ہو چکا ہے یقین سے یہ کہنا بھی ناممکن ہے

کے ایسی زندگی جس میں وہ اشتہار کے ذریعہ تسکین حاصل کرتا ہے اس زندگی

سے بہتر ہے جو خارج میں موجود اپنی بدصورتی اور انتشار میں حقیقی ہے ۔”(٢)

یہ کہانی دراصل وجودی اور نفسیاتی مسائل پر مبنی ہے جب لوگوں کی زندگی میں محرومیاں بڑھ جاتی ہے تو وہ فرار کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔ افسانہ نگار نے بڑے بے رحم انداز میں ایسے لوگوں کی کیفیات کی عکاسی کی ہے ۔

منشا یاد اس حوالے سے لکھتے ہیں :

“اشتہار آدمی جنسی گھٹن اور نفسیاتی الجھنوں  کی کہانی ہے ۔ایک شخص جس

کی زندگی میں خوابوں اور تصورات کے سوا کچھ نہیں ، وہ ٹی وی اور ریڈیو

پر آنے والے اشتہارات کی لڑکیوں سے محبت کرتا ہے اور انہی کے تصور و

خواب سے اپنی جنسی اشہتا پوری کرتا ہے  ۔”(٣)

“اشتہار آدمی “عہد جدید کے اثرات کے باعث تخلیق میں آیا ہے ۔یعنی اشتہار آدمی نے جدید عہد کی حسّیت،ژولیدگی ، اسراریت اور دھنلکوں سے جنم لیا ہے ۔ یہ عہد اشتہار کا عہد ہے جہاں اشیاء ہی نہیں خیالات و افکار بھی ہم تک اشتہار  کے ذریعے پہنچتے ہیں ۔ ہمارے طرز حیات پر غیر محسوس انداز میں اس کی چھاپ لگ گئی ہے اور ہم غیر اعلانیہ طور پر اشتہارات کے غلام بن چکے ہیں ہماری پسند ناپسند یہاں تک ہمارے جذبے بھی ان کے تابع ہو چکے ہیں ۔

اس حوالے سے ڈاکٹر رشید امجد کہتے ہیں :

“اشتہار آدمی ایک الم ناک ضحکہ خیز ئ سے جنم لیتی کہانی ہے ۔

کہانی کا مرکزی کردار اشتہاربازی کا ایسا اسیر ہوتا ہے کہ اس کے

خواب اور آئیڈیل بھی اس فضا کے اثر میں آ جاتے ہیں بظاہر یہ آج

کے آدمی کا ایک بڑا المیہ ہے ۔”(۴)

یہ کہانی دراصل ایک شخص کی کہانی نہیں بلکہ ایک ایسے ماحول کی کہانی ہے جسے عہد جدید نے ترتیب دیا ہے کردار بے معنی ہیں اصل چیز رویے اور زندگی کو دیکھنے اور برتنے کے طریقے ہیں جو اشتہاری دنیا سے پیدا ہوتے ہیں ۔ افسانے کا ہیرو زندگی کی لغویت اور یکسانیت جیسے وجودی مسائل کا شکار ہے اس کا بنیادی مسئلہ اس کی اقتصادی حالت ہے ۔ اس کے پاس   خو اب تو ہیں لیکن ان کی حقیقت نہیں ہے ۔ اس میں پورے ماحول کا دکھ بھی جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ دوستوں کے رویے سے پیدا ہونے والی مایوسی دفتر کا گھن ذدہ ماحول ،گھر کی سلین ذدہ کس میرسی ، سیاسی و سماجی مسائل میں وجودی کیفیات مل کر اس کہانی کے ماحول کو تخلیق کرتے ہیں ۔ افسانہ اشتہار آدمی میں عاصم بٹ نے عہد جدید میں پروان چڑھتی انسانی خواہشوں تمناؤں اور اداروں کی عدم تکمیلیت کا ماتم کیا ہے ۔

عاصم بٹ پر نئے عہد نےجو اثرات مرتب کئے ہیں ان کی ایک اور جھلک ان کے افسانہ “گڑھے کھودنے والا “ میں نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے “گڑے کھودنے والا ” یہ کہانی روزمرہ کے ایک جیسے مشینی انداز میں انجام دئے جانے والے دفتری کاموں پر ایک گہرا طنز موجود ہے ۔ دوسرے افسانوں کی طرح یہ بھی معاشرتی جبر اور زندگی کی یکسانیت سے اکتائے ہوئے بیزار آدمی کی کہانی ہے ۔کہانی کا مرکزی کردار زندگی کے معمولات سے پیدا شدہ بیزاری اور یکسانیت سے اکتاہٹ کا شکار ہے اور یہی کتا ہٹ اپنی حدود سے گزر کر اسے بے معنویت کا احساس دلاتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ وہ دن میں کئی بار اپنی قبر کھود تا ہے اور ہموار کرتا ہے ۔

عاصم بٹ نے اس افسانے میں جدید زندگی کی پچیدہ سے پچیدہ  تر وضعوں  کا انسانی کرداروں پر پڑھنے والے وجودیاتی اثرات کا فنی و جمالیاتی اظہار کیا ہے ۔عاصم کی یہ کہانی عہد جدید میں افراد کو پیش آنے والے مسائل کی عکاسی کرتی ہے ۔ان کی یہ کہانی “فرد “کے مسئلے کو سامنے لاتی ہے فرد مجموعہ میں اکائی کی صورت  رہ رہا ہے لیکن مجموعے کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس کا حصہ نہیں ہے ۔ اسے جو زندگی ملی ہے  اس پر اس کا اپنا آزادانہ اختیار نہیں ہے ۔ سماجی ڈھانچہ بری طرح بکھر چکا ہے ۔ جدید اور بڑے شہروں کی زندگی تنہائی کے آشوب کو پیدا کر رہی ہے ۔”فرد ” کو والیم فائیو کی گولیوں پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے لیکن پرسکون نیند پھر بھی میسر نہیں ۔ ڈراؤنے خواب اور ذہنی کرب ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ۔ فرد پستول کی گولیاں سر میں اتار کر اپنا مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ وہ ولیم فائیو کے مقابلے میں پستول کی گولی والا نسخہ کہیں زیادہ پُرتاثیر ہے ۔

معاشی جبر اور فرد کی بے بسی کہانی کے مرکزی کردار کے لیے ایسا المیہ ہے جو اس کو اول نیند کی گولیاں اور بعد میں پستول کی گولیاں اپنے اندر اتارنے پر مجبور کردیتا ہے ۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ کردار مرتا نہیں اور کہانی کا تسلسل باقی رہتا ہے بحیثیت مجموعی طور پر  یہ افسانہ گہرا المیاتی تاثر لیے ہوئے ہے ۔ انسان کی بے بسی کا اندازہ اس پیرا گراف سے ہوتا ہے ۔

“رات کو چار گولیوں کی خوراک پانی کے ساتھ نگل لینے کے باوجود وہ

حسبِ معمول آدھی رات کو نہایت بے کلی کے ساتھ اٹھ بیٹھا اس بار سرکا

درد  فزوں تر تھا ۔وہ اس کی ٹیس اپنے دل اور پیروں کے ناخن تک محسوس

کر رہا تھا ۔ اس نے کھڑکی کے بھڑے ہوئے پٹ کو دیکھا اور سمجھ گیا کہ

کمرے میں ابھرا شور ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دراز  کھول کر ریوالور نکالا ۔کچھ دیر

اسے ہاتھ میں پکڑے جھلایا ۔ اسے یاد نہیں تھا کہ اس میں گولی موجود ہے یا

نہیں کل اس نے دیکھا تو تھا ۔ ریوالونگ چمیبر خآلی تھا یا ؟ اس نے ریوالور کی نال

ماتھے پر درمیان میں رکھی اور ٹریگر دبا دیا ۔”(۵)

اس افسانے میں فرد کی بے بسی کے ساتھ ساتھ اس کی  بےبرکت اور بے ثمر مشقت کرنے والوں کا دردناک قصہ بیان ہوا ہے کہ جن کی مہارتیں اور صلاحیتیں زندگی کے ارتقاء میں صرف ہونے کی بجائے اپنے اپنے حصے کا گڑھا کھودنے اور پھر اسے بھرنے میں صرف ہو جاتی ہیں۔ گویا اس افسانے میں عہد جدید کے وجودی مسائل کی عکاسی کی گئی ہے ۔

“شکاری “ عاصم بٹ کا علامتی افسانہ ہے ۔عاصم بٹ نے اس افسانے کی مدد سے ہمارے ایک اور معاشرتی رویے کو بھی دکھانے کی سعی کی ہے کہ اس نئے عہد میں جب زندگی کی تیز رفتاری زیادہ ہوگئی ہے ، ہماری ایک خاص کلاس جو بےعمل رہ کر زندگی کی آسائشوں سے لطف اٹھانا چاہتی ہے ۔

افسانے کا ہیرو جب اپنی زندگی  میں متحرک تھا تو کچھ نہ کر پایا لیکن اب ریٹائر ہونے کے بعد اسے اس کی خوایش نے ایک بار پھر سے زندہ کر دیا حقیقت یہ ہے کہ جب انسان یا فرد تخلیق کی قوت سے محروم ہوجاتا ہے اور وہ خیالات اس میں عموماً دو طرح کے رجحانات پیدا کرتے ہیں ۔ایک تبدیلی اور دوسرے فراد کی کیفیات ۔”شکاری “کا ہیرو نچلے طبقے کے فرد کی طرح کچھ نہ کر سکنے کا احساس لئے تخیلاتی دنیا میں رنگ برنگی تتلیوں اور کبھی نہ مرنے والی مچھلیوں کی دنیا میں بس جاتا ہے اور اگر عزم سفر کرتا بھی ہے تو اس تخیلاتی  دنیا کا جو کہ بظاہر ناممکن ہے ۔

بقول ڈاکٹر رشید امجد :

“عاصم بٹ اس نسل کا نمائندہ ہے چنانچہ جب وہ اپنےآس پاس پر

غور کرتا ہے تو اس کے نتائج اور رویے پرانے فکری رویوں اور

نتائج سے مختلف ہوتے ہیں ہونے بھی چاہیے اس نے اپنی مختلف

رویوں پر اپنی کہانیوں کی عمارت استوار کی ہے اور یہی ان کہانیوں

کی جدت اور انفرادیت ہے ۔ “(٦)

“آخری فیصلہ “غریب طبقے کے اس فرد کی کہانی ہے جو اپنے ساتھ خواہشات لے کر پیدا ہوتا ہے اور اپنی تمناؤں کے ہاتھوں خودکشی کر لیتا ہے ۔ اسے اس کی اوقات کے مطابق سب کچھ میسر تو ہے لیکن اس کے باوجود اسے اپنی زندگی بے معنی لگتی ہے ۔ کیونکہ زندگی میں اس کی مرضی کو دخل نہیں ہے ۔یہ بات انسانوں کے لیے بہت ہتک آمیز ہیں کہ ان کو پیدا بھی کر دیا جائے اور مرضی بھی چھین لی جائے مثلا :

“خواب ہر شخص دیکھتا ہے اچھے بھی اور برے بھی ۔میں نے بھی ایک خواب دیکھا ہے

اپنی موت کا میں نے یہ خواب دیکھا کہ میں اپنی موت پر قادر ہو ں۔۔۔۔ جو میری اپنی ہے ۔

جو میرے مقرر کردہ وقت پر مجھ تک آئی اور ویسے ہی آئی جیسا میں چاہتا ہوں ۔ کوئی

بھی اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوتا یہ بطور انسان کسی بھی   انسان کی ہتک ہے ۔”(٧)

اس کا بدلہ لینے کے لیے وہ کلرک اپنی مرضی سے تہنائی میں صبح  کے وقت نیند  کی گولیاں  کھا کر سو رہنے اور موت کو بالا رادہ گلے لگانے میں اپنے وجود کا اثبات  سمجھتا ہے وہ اپنی مرضی کی کچھ خرید داریاں بھی کرتا ہے لیکن اس کی “مرضی “کی ہوا اس طرح نکل جاتی ہے کہ بازار سے لوٹتے ہوئے سڑک پار کرنے میں تیز رفتار ویگن اس کو کچل دیتی ہے ۔

“منظر “ایک دلچسپ اور خیال انگیز افسانہ ہے اس میں تین کردار ہیں شاعر، صحافی اور گورکن ۔مگرتینوں ایک ہی بنیادی خیال کو آگے بڑھاتے ہیں کہ زندگی کے حقائق کس قدر سفاک اور تلخ ہیں اور اس کے  بھیدوں کو کوئی نہیں جانتا تینوں کرداروں کی زندگی کی گاڑیاں جیسے رکھی ہوئی ہیں ۔ صحافی کوڈھنگ کی نوکری نہیں ملتی اور شاعر گمنامی کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے اور گورکن کے پاس اپنے بچے کی فیس کے پیسے نہیں ہیں ۔

عاصم کےاس افسانے میں عہد جدید کے پرہجوم شہروں میں لاکھوں لوگوں کے درمیان فرد کو محسوس ہوتا ہے  کہ وہ تو کچھ بھی ،سائنسی ایجادات سے بھرپور صنعتی معاشرے  کی تیز رومیں غتربور ہستی اسے احساس دلاتی ہے کہ اس کی وقعت کچھ نہیں تو نتیجتاً فرد اپنی ذات سے کٹتا چلا جاتا ہے اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی جدوجہد لا حاصل ہے اور اس کی آزادی محدود ہے تو ایسے میں بیگانگی کی کیفیت جنم لیتی ہے بیگانگی کی یہی وجودی کیفیت اس افسانے کے کرداروں پر مکمل طور پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے ۔

“سایہ کہانی ” بھی ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو دراصل انسانی نفسیاتی الجھنوں کی کہانی میں مکمل طور پر خوف کا عالم چھایا ہوا ہے ۔ سایہ کہانی آسیب کے موضوع پر ہے آسیب میں غالباً وہم کا بھی دخل ہے ۔ اس موضوع پر افسانہ لکھ کر عاصم نے اس عہد جدید میں ہمیں وہم کے ہاتھوں سے فنکارانہ طور پر آگاہ کیا ہے اور بے چہرگی کے مشاہدے کی ٹھوس بنیاد فراہم کی ہے ۔

عاصم بٹ کے افسانوں میں اپنے عہد جدید میں وجودیاتی مسائل میں گرفتار اور پھر ان مسائل کے حل کے لیے جہدوعمل کرتے

دکھائی دینے والے اپنے ارد گرد چار سو پھیلے ہوئے آشوب میں گھرے ہوئےاور ڈراوونے خوابوں سے جاگ اٹھنے والے نفسیاتی

دباؤ تلے سسکتے ہوئے اور ان سے نجات نہ ملنے کی صورت میں خودکشی کرتے ہوئے افراد ان کہانیوں کے بنیادی کردار بنتے ہیں ۔

اس نئے عہد میں مارشل لاء نے سیاسی انتشار کا جو بیج بویا تھا اس نے ملکی سماجی ڈھانچے پر انتہائی مضر اثرات مرتب کیے ۔ہمارے سماجی ڈھانچے میں جہاں انتشار اور خود غرضی کے رویوں نے جڑ پکڑی وہیں فرد کے تنہا ہو جانے اور ڈر اور خوف میں مبتلا ہو جانے کا المیہ انتہائی شدت سے رہا ۔ عاصم بٹ کے افسانے بھی انہی مسائل کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں ۔

لہذا عاصم بٹ باطنی پچیدگیوں ، تاریکیوں لاشعوری گہرائیوں کے پورے نظام کو اپنی منظری اور مبہم عبارت کے ذریعے منعکس کرتے ہیں اور واقعات کی کڑیوں کو معنی خیز انداز میں ملاتے ہیں ۔

حوالہ جات  :

١۔ وقار عظیم ،پروفیسر ،داستان سے افسانے تک ،کراچی :اردو اکیڈمی ،اشاعت ١٩٦٦ء ص١٦

٢۔  سلیم الرحمن ، محمد ،ریویو اشتہار آدمی اور دوسری کہانیاں ، فرائیڈے ٹائمز ، اشاعت ١٩٩٨ء

٣۔منشا یاد ،محمد ،دستک ،محمد عاصم بٹ کی کہانیاں ،کراچی :شہرزاد پبلشرز ،اشاعت ٢٠٠٩، ص٧

۴۔ رشید امجد ، ڈاکٹر ، اشتہار آدمی اور کہانیاں ، مشمولہ : اوراق مدیر وزیر آغا ، لاہور ، سہ ماہی اوراق اشاعت ، س۔ ن ،ص ٢

۵۔  عاصم بٹ ، محمد ، دستک ، کراچی : شہرزاد پبلیشرز ، اشاعت ٢٠٠٩ء ص ۴۵

٦۔  رشید امجد ، ڈاکٹر ، اشتہار آدمی اور کہانیاں ، مشمولہ : اوراق مدیر وزیر آغا ، لاہور : ماہنامہ اوراق،  اشاعت س۔ن ، ص١٠

٧۔  عاصم بٹ ، محمد ، دستک ،کراچی : شہرزاد پبلیشرز، ٢٠٠٩ء، ص ٣تا۴  

***

Leave a Reply