You are currently viewing مظہر امام کے خطوط نذیر فتح پوری کے نام

مظہر امام کے خطوط نذیر فتح پوری کے نام

ڈاکٹر احسان عالم

پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ

خطو ط نگاری کا منفرد رنگ و آہنگ

مظہر امام کے خطوط نذیر فتح پوری کے نام

         ‘‘مظہر امام کے خطوط نذیرؔ فتح پوری کے نام’’ خطوط پر محیط ایک ایسی کتاب ہے جسے ڈاکٹر منصور خوشتر نے ترتیب دیا ہے۔ کتاب کے سلسلہ میں کچھ تحریر رقم کروں اس سے قبل خطوط نگاری کی روایت پر کچھ باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کردینا لازمی سمجھتا ہوں۔

         خطوط نگاری کی روایت کافی پرانی ہے۔ اسلام سے قبل بھی اس کا رواج تھا۔ حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں کے خطوط جو اشاعت دین کے لئے لکھے گئے وہ آج بھی موجود ہے۔ حضور ﷺ نے کئی حکمرانوں کو دین کی دعوت کے لئے خطوط لکھوائے۔ وہ تمام خطوط سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ عہد خلافت راشدہ ، عہد امیہ اور عہد عباسی میں بھی اس طرح کے خطوط کی روایت ملتی ہے۔ ہندوستان میں عہد مغلیہ میں رقعات نگاری کا باضابطہ شعبہ قائم تھا۔ اس کے علاوہ بھی خطوط لکھے جاتے رہے ہیں۔

         خطوط کی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں۔ مذہبی، سیاسی، شاہی خطوط، ادبی خطوط وغیرہ ۔ ہر قسم کے خطوط مختلف زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔ اردو زبان میں بھی خطوط نگاری کی مستحکم روایت موجود ہے۔ غالب کے خطوط کو بڑی شہرت حاصل رہی ہے۔ ان کے خطوط کے دو مجموعے ‘‘عود ہندی’’ اور ‘‘اردوئے معلی’’اردو ادب کے شاہکار ہیں۔ اسی طرح خطوط سرسید ، خطوط نواب محسن الملک ، خطوط محمد حسین آزاد، خطوط ڈپٹی نذیر احمد ، خطوط علامہ شبلی نعمانی وغیرہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے وہ خطوط جو ‘‘غبار خاطر’’ میں ہیں ان خطوط کو بھی بڑی ادبی حیثیت حاصل ہے۔

         خطوط کے کوئی خاص اصول اور اسلوب متعین نہیں ہیں۔ خصوصاً نجی خطوط سادہ اسلوب میں لکھے جاتے تھے۔ یہ مکتوب نگار کے مزاج اور اسلوب نگارش پر منحصر کرتا ہے۔ خطوط سے مکتوب نگار کی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے ۔ ہم کسی مصنف کے خطوط سے ان کے خیالات اور دلی کیفیات و جذبات سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ بات جو عام طور پر نہیں کہی جاتی ہے وہ خطوط میں بے تکلف لکھے جاتے ہیں۔ خطوط نگاری میں مکتوب نگار اور مکتوب الیہ دونوں کی شخصیت اہم ہوتی ہے۔ لیکن عام طور پر مکتوب الیہ کی شخصیت زیادہ اہم ہوتی ہے اس لئے بعض موقعوں پر مکتوب نگار مکتوب الیہ کی شخصیت کے اہم گوشوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ادبی خطوط نگاری میں اس کی مثال دیکھی جاسکتی ہے۔

         خطو ط نگاری ایک اہم صنف ہے لیکن افسوس کہ یہ صنف اختتام پذیر ہوتی جارہی ہے۔ اس کی جگہ واٹس ایپ ، فیس بک، انسٹا گرام، ٹیوٹر، ای ۔ میل اور دیگرکئی انٹرنیٹ اپلیکیشن نے لے لی ہے۔ نئی نسل کو خط کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ خط لکھنے کے لئے وہ کاغذ اور قلم کا استعمال معیوب سمجھتے ہیں ۔ ایسے پر آشوب دور میں مظہر امام کے خطوط جو نذیر فتح پوری کے نام تحریر کئے ہیں ڈاکٹر منصور خوشتر نے یکجا کرکے اسی کتابی صورت عطا کی ہے۔ اس طرح یہ کتاب نئی نسل کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ اور سرمایہ کا درجہ رکھتی ہے۔ ‘‘عرض مرتب ’’ میں ڈاکٹر منصور خوشتر لکھتے ہیں :

‘‘مظہر امام صاحب کے تحریر کردہ خطوط جو نذیر فتح پوری کے نام وقتاً فوقتاً لکھے گئے انہیں شائع کرنے کا حکم نذیر فتح پوری صاحب کا ہے اس لئے میں نے اسے شائع کروانا ضروری سمجھا ۔ نذیر فتح پوری ایک مخلص انسان اور بلند پایہ فنکار ہیں۔ ایک سو سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ اپنی گفتگو کے ذریعہ وہ لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔’’(ص:7)

         نذیر فتح پوری ‘‘مظہر امام پونے میں’’ کے عنوان سے پونے کی یادوں کو سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مظہر امام مظہر امام جب پونہ آئے تومرحوم دلدار ہاشمی کے ساتھ میں ان سے ملاقات کے لئے ان کی قیام گاہ پر حاضر ہوا۔ تعارف کے بعد پونہ کے علمی، ادبی ، ثقافتی و سیاسی حالات جاننے کے لئے انہوں نے مختلف سوالات کئے۔ دلدار ہاشمی نے ان کے اکثر سوالوں کا تفصیلی جواب دیا۔ انہوں نے بتایا پونہ میں تقریباً چالیس شاعر موجود ہیں۔ یہاں مشاعرے ہوتے ہیں۔ ادبی محفلوں کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔ مظہر امام کو یہ جان کر بیحد مسرت ہوئی کہ پونہ میں اردو اسکول کثرت سے موجود ہیں اور ان اسکولوں کا خرچ پونہ کارپوریشن کی جانب سے ادا کیا جاتا ہے۔

         مظہر امام کی شعری اور تنقیدی تخلیقات کے علاوہ پونے سے متعلق ایک مضمون ‘‘پونے : بکھری بکھری یادیں’’ کا تذکرہ نذیر فتح پوری صاحب بڑے خوبصورت الفاظ میں اس طرح کرتے ہیں:

‘‘مظہر امام کی شعری اور تنقیدی دونوں حیثیت مسلم ہے ۔ ان کی شاعری کے پانچ مجموعے چھپ چکے ہیں۔ ان کے تنقیدی اور تحقیقی مضامین اردو کے مؤقر رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ تنقیدی مضامین کی دوکتابیں چھپ چکی ہیں۔ ان کی ملاقاتوں اور یادداشتوں کا ایک مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔ رابطہ دہلی نے خوبصورت ‘‘مظہر امام نمبر’’ شائع کیا ہے۔ ‘‘نصف ملاقات’’ کے عنوان سے ڈاکٹر امام اعظم نے مشاہیر کے ان خطوط کو مرتب کیا ہے جو مظہر امام کے نام ہیں۔ ‘‘مظہر امام کی تخلیقات کا تنقیدی مطالعہ’’ بھی ڈاکٹر امام اعظم نے پیش کیا ہے۔ پروفیسر محمد رضا کاظمی نے مظہر امام کی تنقید نگاری پر کتاب شائع کی ہے ۔مظہر امام کو ملک کی اردو اکیڈمیوں نے ان کی کتابوں پر انعام سے نوازا۔ دلّی اردو اکیڈمی نے ایوارڈ دیا۔یہاں سے جانے کے بعد بھی پونہ سے مظہر امام کا تعلق کم نہیں ہوا ۔ وہ اپنی مراسلت کے توسط سے آج بھی اپنی خیریت دیتے ہیں اور پونہ والوں کی خریت معلوم کرتے رہتے ہیں۔ پونہ سے متعلق ایک مضمون ‘‘پونے۔ بکھری بکھری یادیں’’ بھی لکھا ہے۔ ’’(ص:10)

         مظہر امام اردو زبان وادب کا ایک توانا نام ہے۔ موصوف نے نذیر فتح پوری کے نام بہت سے خطوط لکھے۔ اس کی وجہ موصوف کا نذیر فتح پوری صاحب کی شخصیت سے متاثر ہونا بھی ہے۔نذیر فتح پوری کی شخصیت اور فنکارانہ صلاحیتوں پر قلم فرسائی کرتے ہوئے مظہر امام لکھتے ہیں:

‘‘نذیر فتح پوری اردو شعر وادب کی ایسی شخصیت ہیں جن سے ایک بارملنے کے بعد ہی ان کے ادبی اور علمی خلوص کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ میں انہیں ۱۹۷۸ء سے جانتا ہوں جب چند ماہ کے لئے میرا قیام پونا کے ‘‘فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ ’’ میں تھا ۔ میں نے ہمیشہ انہیں اپنے آپ سے قریب محسوس کیا ۔ وہ سرتاپا ادب ہیں اور پونے میں اردو زبان وادب کی ترقی اور ترویج میں ان کی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ ان کی تصنیفات و تالیفات کی ایک بڑی تعداد ہے۔نذیر فتح پوری کی نئی کتاب ‘‘پونے میں اردو افسانہ : ایک تحقیق’’ (۱۹۲۳ء تا حال) ایک بالکل نئے موضوع کا احاطہ کرتی ہے اور مصنف کی دقّت نظر اور صلابت فکر کی آئینہ دار ہے۔’’(ص:15)

         اس کے بعد مظہر امام کے خطوط کا سلسلہ ہے جو انہوں نے نذیر فتح پوری کے نام لکھا ۔ کل خطوط کی تعداد 31ہے۔ زیادہ تر خطوط ادبی نوعیت کے ہیں ۔ کچھ خطوط میں ذاتی باتیں بھی ہیں۔ نمونے کے طور پر مظہر امام کے دو مختصر خطو ط نقل کرتا ہوں جس سے قارئین اور نئی نسل کے نوجوان خط لکھنے کے طریقے سے محظوظ ہوسکیں:

٭مظہر امام ، پونا            ۷؍ دسمبر ۷۸

         برادرم نذیر صاحب ! سلام خلوص

         آپ کا نوازش نامہ سری نگر سے روانگی کے عین قبل مل گیا تھا۔ شکر گذار ہوں۔

         میں ۳؍ کو یہاں پہنچا۔ اس دوران کچھ طبیعت سست رہی۔ میں یہاں اجنبی ہوں ۔ اس لئے خود آپ کے پاس حاضر ہونے سے قاصرہوں۔ اگر آپ زحمت کریں تو بڑی عنایت ہو۔ میں اتوار کو تین اور پانچ کے درمیان آپ کا انتظار کروں گا۔ بمبئی یا اجنتا ایلورا جانے کا پروگرام بھی بن رہا ہے۔ کیوں کہ تین دن کی چھٹیاں ہیں۔ لیکن میرے جانے کا امکان کم ہے۔ اگر بہ فرض محال میں موجود نہ رہا تو مجھے معاف کر دیجئے گا۔ لیکن ۹۰؍ فیصد امکان ہے میں اتوار کو وقت مقررہ پر موجود رہوں گا۔ اور دنوں میں بھی عموماً چھ اور آٹھ بجے شب کے درمیان ملاقات ہوسکتی ہے۔

         میں تیسری منزل پر کمرہ نمبر 36میں ہوں کوئی دشواری نہ ہوگی۔ اگر دلدار ہاشمی صاحب بھی زحمت کریں تو بہت اچھا ہے۔

                                                                        آپ کا اپنا۔مظہر امام

٭٭٭

٭مظہر امام ، دہلی  ۲۰ ؍ مئی ۲۰۰۰ء

         محبی نذیر فتح پوری صاحب ! سلام خلوص

         میں نے ۱۰؍ فروری کو ‘‘رابطہ’’ کا مظہر امام نمبر آپ کو بھجوایا تھا۔ اور ۱۴؍ فروری کو ایک پوسٹ کارڈ بھی لکھا کہ آپ کی رسید سے آگاہ فرمائیں۔ میں اب تک اس کا منتظر ہوں۔ خدا کرے نمبر آپ کو مل گیا ہو۔ اگر مناسب سمجھیں تو اسباق میں اس پر تبصرہ کرادیں۔

         محترمی کالی داس گپتا رضا صاحب سے رابطہ ہو تو میرا آداب کہئے۔ میں انہیں اب تک خط نہ لکھ سکا ۔ جلد ہی لکھوں گا۔

         میں تقریباً سوا دو مہینے سے دہلی سے باہ ررہا۔ ۲۹؍ اپریل کو واپس آیا ہوں۔

         امید ہے آپ مع الخیر ہوں گے۔ ایک کارڈ سے نوازیں گے۔

                                                                        مخلص۔مظہر امام

         پونے کی یادوں کو سمیٹتے ہوئے مظہر امام نے خوبصورت تحریر رقم کی ہے۔ پونے کے حوالے سے موصوف لکھتے ہیں کہ پونا سے میری جذباتی وابستگی یہی کوئی پندرہ سال کی عمر میں ، شالیمار اسٹوڈیو کی وجہ سے ہوئی، جسے ڈبلو۔ زیڈ ۔ احمد نے قائم کیا تھا۔ اور جس کی پہلی فلم ‘‘ایک رات’’ تھی جو ۱۹۴۳ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے ہیرو پر تھوی راج کپور تھے اور ہیروئن نینا۔ نینا کا اصل نام شاہدہ تھا۔ وہ علی گڑھ کی مشہور شخصیت شیخ محمد عبداللہ کے صاحبزادے محسن عبداللہ کی بیوی اور فلم ہیروئن رینو کا دیوی ((خورشید) اور ‘‘انگارے’’کی معروف افسانہ نگار رشید جہاں کی بھابی تھیں۔ محسن عبداللہ بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ نینا نے شالیمار کی کئی فلموں میں بطور ہیروئن کام کیا۔ جن میں ‘‘من کی جیت’’ کی خصوصی شہرت ہے۔ اس کی کہانی ہارڈی کے مشہور ناول Tess of The II URBERVILLES پر مبنی تھی۔ اس کا منظرنامہ اور مکالمے کرشن چند ر نے لکھے تھے ، جو ان دنوں میرے محبوب ترین مصنف تھے۔ کرشن چندر نے اپنے دو مرکۃ الآرا افسانے ‘‘ان داتا’’ اور ‘‘موبی’’ پونے ہی کے دوران قیام میں لکھے۔ اسی زمانے میں کرشن چندر کی مقبولیت اور شہرت اپنے نقطۂ عروج کو پہنچی ۔ شالیمار سے جوش ملیح آبادی ، ساغر نظامی، اخترا لایمان، بھرت ویاس، راما نند ساگر، مسعود پرویز بھی وابستہ تھے۔

         آخر میں نذیر فتح پوری نے منصور خوشتر کے نام دو خطو ط لکھے جس میں انہوں نے لکھا کہ مظہر امام کے مضمون کے مطالعہ کے بعد پونہ کے ادبی خزانے کے تالے خود بہ خود کھلتے چلے گئے۔ اب یہ گراں قدر خزانہ آپ کی تحویل میں دے رہا ہوں۔منصور خوشتر کے نام دوسرے خط میں نذیر فتح پوری لکھتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے ۔پونہ کے تعلق سے مظہر امام کا مضمون تلاش کیا تو مل گیا۔ اس مضمون کی اشاعت سے متعلق مظہر امام صاحب نے اپنے خطو ط میں کئی بار استفسار کیا ہے۔ مضمون واقعی اچھا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ مظہر امام تقریباً چھ ماہ پونہ میں مقیم رہے۔ ان کے اعزاز میں دعوتیں ہوئیں۔ نشستیں ہوئیں۔ عزت افزائیاں ہوئیں، آزاد غزل کے تعلق سے تفہیمی مذاکرہ ہوا جس میں مرحوم رشید اعجاز اور کئی شعرا ء نے حصہ لیا۔ مظہر امام سرکاری طو ر پر کسی ٹریننگ پر آئے تھے۔

         اس طرح زیر مطالعہ کتاب ‘‘مظہر امام کے خطوط نذیر فتح پوری کے نام’’ صرف خطوط کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ مظہر امام ، نذیر فتح پوری اور پونے کے سلسلے کی کئی معلومات فراہم کرتا ہے۔ اردو شائقین کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔

٭٭٭

Dr. Ahsan Alam

Ahmad Complex, Al-Hira Public School

Moh: Raham Khan, Darbhanga – 846004

Mob: 9431414808

Leave a Reply