سدرہ کرن ریسرچ اسکالر
جی سی ویمن یونیورسٹی ،سیالکوٹ ،پاکستان
منتخب خواتین ناول نگاروں کے ناول میں نسوانی کردار
ناول اطالوی زبان کا لفظ ہے ۔جس کے لغوی معانی انوکھا ،نرالا. نیا اور عجیب کے ہیں ۔اصطلاح میں ناول وہ کہانی جس کا موضوع انسانی زندگی ہو اور انسانوں کو پیش آنے والے واقعات کو مخصوص انداز سے پیش کیا گیا ہو۔ناول میں تصوراتی دنیا کی بجائے حقیقت کی ترجمانی کی جاتی ہے ۔ناول میں متوسط طبقے کی عکاسی کی جاتی ہے ۔
اردو ادب میں کردار نگاری کو اہم مقام حاصل ہے ۔کردار یونانی زبان کا لفظ کریکٹر سے لیا گیا ہے ۔جس کے معنی نقش کرنا ،واضع نشان بنانا وغیرہ ،اصطلاح میں اس کے معنی شخصیت کے ہیں ۔کردار کا تعلق اردو کی اصناف افسانہ ،ڈرامہ ،ناول یا کہانی سے ہوتا ہے ۔کردار ہی کہانی میں زندگی کی حقیقت کو پیش کرتے ہیں ۔کردار ہی کہانی کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں ۔سماج میں عورت کے کردار کو اہمیت حاصل ہے ۔معاشرے میں عورت اور مرد دونوں کا کردار ضروری ہے ۔افسانہ ہو یا ناول دونوں کے بغیر کہانی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتی۔اردو ناول میں نزیراحمد نے مراۃ العروس میں نسوانی کردار کی ابتداء کی ۔انھوں نے پہلی دفعہ عورت کو کہانی کا مرکزی کردار بنا کرپیش کیا۔انھوں نے بہت سے نسوانی کردار یش کیے ۔نزیر احمد اپنے ناولوں میں متوسط طبقے کی عورتوں کی اصلاح کرنا چاہتے تھے ۔سرشار نے بھی نسوانی کردار کو اہمیت دی ۔سرشار نے فسانہ آزاد میں حسن آرا کو کو منظرعام پر لائے ۔عبدالحلیم شرر نے بھی فردوس بریں میں زمرد کو مرکزی کردار کے طور پر پیش کیا ۔ہادی رسوا نے بھی عورت کے درد کو محسوس کیا اور امراوجان اداکو پیش کیا ۔راشد الخیری نے عورت کی مظلومیت کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ۔پریم چند نے بھی نرملا ،سمن ،صوفیہ ،دھنیا وغیرہ جیسے نچلے طبقے کے نسوانی کرداروں کو اپنے ناولوں میں جگہ دی ہے اردو ناول میں جہاں تک نسوانی کردار کا تعلق ہے ہر ناول نگار نے اپنے انداز سے عورت کے پہلو کو بیان کیا ہے ۔خواتین ناول نگاروں نے بھی نسوانی کردار کے حوالے سے بہت کام کیا ہے ،ان کے ہاں عورتوں کی نفسیات اور نسوانی کردار دیکھنے کو ملتے ہیں ۔مردوں کے مقابلے میں عورت کو زیادہ فوقیت حاصل رہی ہے ۔کیوں کہ عورت صنف نازک ہے ایک عورت ہی عورت کے مسائل،جزبات کو زیادہ اچھے سے سمجھ سکتی ہے ۔اور عورت ہی عورتوں کے احساسات و جذبات کو زیادہ بہتر طور پر اجاگر کر سکتی ہے ۔اس مقالے میں منتخب خواتین ناول نگاروں میں (قراۃ العین حیدر،بانو قدسیہ ،رضیہ فصیح احمد ،جیلانی بانو،صغرا مہدی ،واجدہ تبسم )قابل ذکر ہیں ۔جن کے ناولوں میں نسوانی کرداروں کی ترجمانی کی گئی ہے ۔
قراۃ العین حیدر (چاندنی بیگم )
چاندنی بیگم قراۃ العین حیدر کا ناول ہے ۔اس ناول کا بھی موضوع تقسیم ہند اور اس سے پیدا ہونے والے حالات ہیں ۔اس ناول کا آغاز ایک حویلی سے کروایا جو تہذیب و ثقافت اور قومی یکہجتی کی مظہر ہے ۔اس میں ہندوستان کے نوآبادیاتی عہد کی عکاسی کی گئی ہے ۔شیخ اظہرعلی ایک وکیل ہے ۔قنبر علی اس کا اکلوتا بیٹا ہے ۔ جو اشتراکی نظریہ کا حامی ہے ۔قنبرعلی کی شادی چاندنی بیگم سے مقررہوتی ہے ۔قنبر علی کی والدہ کی وفات ہو جاتی ہے ۔مراثیوں کے ایک طائفے نے قنبرعلی کو اپنے تحت کرلیا اور ایک بیلارانی مراثن سے شادی کرلی۔چاندنی کے والدین فوت ہو جاتے ہیں ۔وہ قنبرعلی کے پاس جاتی ہے ۔بیلا رانی اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتی ۔اس کے بعد کٹوری ہاؤس میں ملازمت کرتی ہے ۔قنبرعلی کے گھرمیں چاندنی بیگم سے لاشعوری طور پر آگ لگ جاتی ہے اور قنبر کے اہل خانہ سمیت چاندنی بیگم بھی جل جاتی ہے. اس پورے ناول میں نھوں نے تقسیم ہند سے لے کر موجودہ دور تک ہونے والی معاشی ،معاشرتی تبدیلیوں کو پیش نظررکھا ہے ۔مثلا جائیدادوں کا مسلہ ،ہندوستان میں رہ جانے والی مسلمانوں کی دشواریاں ،مسلمان لڑکیوں کا ماڈرن نہ ہونے کی وجہ سے اچھے لڑکےنہ ملنا،نوجوان نسل کا مغربی تہذیب کی طرف رجحان وغیرہ۔
چاندنی اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔چاندنی تعلیم یافتہ ،ذہین اور روشن خیال لڑکی ہے۔چاندنی نفسیات کی لیکچرر تھیں ۔شیخ اظہرعلی کے بیٹے قنبرعلی سے اس شادی مقررہوجاتی ہے ۔چاندنی کے والدین کا انتقال ہو جاتا ہے ۔چاندنی بے سہارا ہو جاتی ہے ۔وہ قنبرعلی کے پاس اس توقع سے جاتی ہے کہ قنبر اسے قبول کرلے گا ۔مگر وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوتا ہے کہ قنبر علی کی شادی ہو گئی ہے۔ چاندنی کو بہت صدمہ ہوتا ہے ۔اس کی زندگی میں بہت سے ناموافق حالات آتے ہیں ۔وہ حیرت انگیز صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتی ہے ۔
صفیہ سلطانہ چاندنی بیگم میں ایک اہم کردار ہے ۔جو خوبصورت اور تعلیم یافتہ لڑکی ہے جو قنبرعلی کو اپنا آئیڈیل مانتی ہے۔قنبر کی شادی اور اس کی موت کے بعد جس صدمے سے وہ گزرتی ہے ۔وہ دنیا جہاں کو بھول جاتی ہے ۔وہ اپنی زندگی میں اتنے دکھ جیھلتی ہے کہ خوشیوں کی خواہش بھی نہیں کر پاتی۔
“بیلاسوچتی اس سرد مہری کے ذریعے جو میری
توہین ہو رہی ہے اس بے عزتی سے بدترہے۔ جو
میری ماں اور نانی برداشت کرتی تھیں ۔”
چاندنی بیگم میں بیلا ایک اہم کردار ہے ۔بیلا ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے ۔رقص ،موسیقی اس کا مشغلہ ہے ۔وہ خوبصورت اور ذہین لڑکی ہے ۔قنبر علی سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔وہ قنبرعلی کی دولت کو دیکھ کر محبت کا ڈھونگ رچاتی ہے ۔قنبر بھی اس کی محبت کا اسیر ہو جاتا ہے ۔دونوں شادی کرلیتے ہیں ۔بیلا قنبر کی کوٹھی کاسارا نقشہ بدل دیتی ہے ۔مصنفہ نے بیلا کے کردار کے ذریعے ان نچلے طبقے کی ان خواتین کی نمائندگی کی ہے جو دولت کے لالچ میں آکر امیر لڑکوں سے شادی کرلیتی ہیں مگربعد میں دونوں کے درمیان اچھے مراسم نہ ہونے کی وجہ سے انجام الم ناک ہوتا ہے ۔اور سب کچھ تباہ و برباد ہو جاتا ہے ۔
بانو قدسیہ (راجہ گدھ)
بانو قدسیہ کو اردو ادب میں اہم مقام حاصل ہے ۔راجہ گدھ بانو قدسیہ کا ناول ہے۔بانو قدسیہ نے اس ناول کے ذریعے پاکستان کے جدید سماجی اور غیر مذہبی نظام کی عکاسی کی ہے ایک ایسے سماج کو ناول کا موضوع بنایا ہےجو ذہنی،سماجی مذہبی اور اخلاقی تعلیمی لحاظ سے معاشرے کی روایات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ۔اسی وجہ سے اخلاقی اور سماجی برائیوں کا شکار ہوتے ہیں ۔بانو قدسیہ نے راجہ گدھ میں ایسے سماج کی عکاسی کی ہے جہاں گھروں میں ماں کی بجائے بیٹی کی حکومت ہے ۔عورت کو بوڑھا ہونے کی اجازت نہیں اس کوشباب کو برقرار رکھنا ضروری ہے ۔اعلی طبقے کے لوگوں نے عورتوں کو ہر طرح سے آزادی دے رکھی تھی ۔اس سماج کے لوگوں میں والدین اپنی پارٹیوں میں مصروف رہتے ہیں ۔انھیں اپنی اولاد کی صیح تربیت کرنے کی فرصت نہیں ملتی ۔ان کی اولاد جس حالت میں رہے والدین کو کوئی سروکار نہیں ہوتا اس سماج کی عورتیں دفتروں اور ریڈیو اسٹیشن میں کام کرتی ہیں ۔مختلیف خطوں اور علاقوں سے آئی ہوئی عورتیں اپنے حسن شباب کی نمائندگی کرتی ہیں۔ایسی عورتوں پر مصنفہ نے گہرا طنز کیا ہے۔
“اس طرح ناول نگار نے جدید تہذیب کی آندھیوں میں عورتوں
کا جنسی استحصال شادی و نکاح جیسی مذہبی بندشوں سے
انحراف انسانی اقداروں میں شکست و ریخت اور نئی نسل کے
بے راہ روی کے مناظر پیش کیے ہیں ۔”
سیمی اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔سیمی تعلیم یافتہ اورذہین لڑکی ہے وہ ماڈرن آزاد خیال ،بےباک اور نڈر لڑکی تھی ۔سیمی کے والدین بھی آزاد خیال سوچ کے مالک تھے۔ ۔سیمی اپنے والدین سے گریاں ہے۔جس کے باعث وہ ہوسٹل میں رہتی ہے ۔سیمی آفتاب شاہ سے محبت کرتی ہے لیکن آفتاب شاہ کسی اور لڑکی سے شادی کر کے لندن چلا جاتا ہے ۔سیمی آفتاب کی بے وفائی برداشت نہیں کر پاتی اور آخر موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔سیمی ایک کمزور عورت کا کردار ہے جو روشن خیال ،ماڈرن ہونے کے باوجود حالات کا مقابلہ نہیں کر پاتی اور خود کشی کرلیتی ہے ۔
امتل اس ناول کا دوسرا اہم کردار ہے وہ ایک عمر دراز طوائف ہے ایک ریڈیو اسٹیشن پر وہ گایا کرتی تھی ۔مگر عمر کے ڈھلنے کے ساتھ ہی اس کی آواز بھی یاد رفتہ بن گئی تھی ۔وہ اپنی چالیس سالہ زندگی میں بہت سے تجربات حاصل کر چکی تھی۔قیوم بھی دنیا سے کٹا ہوا انسان ہے۔قیوم امتل سے شادی کی درخواست کرتا ہے ۔مگر امتل شادی کی پیش کش ٹھکرا دیتی ہے ۔وہ ایسی زندگی بسر نہیں کرسکتی تھی جہاں عزت کے نام پر زندگی کا گلا گھونٹ دیا جائے۔امتل کا کردار اس چیز کی نمائندگی کرتا ہے کہ اگرطوائف گناہ کے ماحول سے نکلنا بھی چاہے تومعاشرہ اس کو قبول نہیں کرتا ۔دوسری طرف امتل کے کردار سے اس چیز کی نشاندہی ہوتی ہے کہ طوائف جس آسائش ،سکون ہی عادی ہو جاتی ہے اسے چھوڑ کر عام گھریلو زندگی گزارنا ممکن نہیں ہوتا۔انسان جب ایک بار حرام زندگی کا مالوف ہو جائے تو پھر اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔
عابدہ متوسط طبقے کی عورت ہے وہ سادہ مزاج اور جاہل عورت ہے ۔جو اپنے شوہر سے ناراض ہو کر بھائی کے گھر رہتی ہے ۔عابدہ اولاد کی نعمت سے محروم ہے۔عابدہ کی قیوم سے ملاقات ہوتی ہے۔قیوم اور عابدہ کے درمیان یوگا کے ذریعے جسمانی مراسم قائم ہو جاتے ہیں ۔عابدہ اولاد کی خواہش میں اس تعلق کے لیے رضا مند ہو جاتی ہے۔قیوم کے ساتھ تعلق نے عابدہ میں گناہ کا احساس پیداکردیتا ہے ۔آخر اس نے اس گناہ کے رشتے سے توبہ کرلی اور اپنے شوہر کے ہنسی خوشی چلی گئی ۔عابدہ کے کردار کے حوالے سے آرزوں تمناؤں کے جنگل میں بھٹکنے والے افراد کی ذہنی نفسیاتی حالت کو بیان کیا ہے ۔عابدہ کے ذہن میں ہمیشہ منفی سوچ اور غلط جذبات کا دھاوا رہا ہے ۔
رضیہ فصیح احمد ،(آبلہ پا)
آبلہ پا رضیہ فصیح احمد کا ناول ہے ۔اس ناول کی کہانی اس طرح ہے کہ صبا کی ماں اور اس کے بہن بھائی 1947ء کے فسادات کی نظر ہو چکے تھے ۔صبا اپنے والد کے ساتھ رہتی ہے ۔وہ دونوں زیادہ تر سیروسیاحت میں وقت گزارتے تھے۔چمنستان میں ایک ہوٹل میں مقیم ہیں ۔وہاں صبا کی ملاقات اسد سے ہوتی ہے ۔اسد ایک خوبصورت نوجوان ہے ۔جو اسی ہوٹل میں بوبی نامی بچے ساتھ رہتا ہے ۔صبا ان دونوں کو پسند کرتی ہے ۔آخر کار صبا اور اس کی شادی ہو جاتی ہے ۔شادی کے بعد دونوں میں جگھڑے ہوتے ہیں اور بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے ۔اس ناول میں چار نسوانی کردار ہیں ۔
صبا اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔صبا اپنے والد کے ساتھ چمنستان ہوٹل میں رہتی ہے ۔اسی ہوٹل میں اسد نامی لڑکے کو پسند کرتی ہے اور شادی کرلیتی ہے ۔دونوں میں تعلقات اچھے نہیں رہتے اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے ۔طلاق کی بات کو وہ اپنے والد اور پھوپھی سے پوشیدہ رکھتی ہے صبا کے والد کا انتقال ہو جاتا ہے ۔یہیں سے اس زندگی میں رنج و الم کا باب شروع ہو جاتا ہے ۔لیکن وہ ہمیت نہیں ہارتی ۔وہ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے لگتی ہے ۔اسی دوران عامر جو صبا کا عاشق تھا ۔اس سے شادی کی خواہش کرتا ہے ۔مگر صبا اس کی التجا کو قبول نہیں کرتی ۔صبا ایک نرم اور درد مند دل رکھنے والی حساس عورت ہے ۔اسے جذباتی صدمے پہنچتے ہیں مگر وہ بہت صبر اور تحمل سے کام لیتی ہے ۔
عذرا ایک اہم کردار ہے ۔وہ ہزار طوفان کی لپیٹ میں آنے کے بعد بھی مستحکم نظر آتی ہے ۔وہ حیرت انگیز صبر و تحمل سے کام لیتی ہے ۔تمام مصائب و تکالیف کو برداشت کرتی ہے ،کبھی حرف شکایت لب پر نہیں لاتی ہے۔عذرا اپنی بہن سے بہت محبت کرتی ہے ۔اس کا شوہر اس کی بہن پر بری طرح فریفتہ ہے ۔یہاں تک دونوں اکھٹے رہتے ہیں ۔عذرا ان کے مراسم سے واقفیت کے باوجود دل برخستہ نہیں ہوتی ۔مگر جب یہ بات نا قابل برداشت ہو تو کہتی ہے کہ :-
“مگر میں بھی عورت ہوں ،کبھی کبھی میرا دل ایک دم
تڑپ اٹھتا ہے ۔جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر
کسی ویرانے میں بھاگ جاؤں ۔”
شاہد حاجی جو کہ صبا کے لیے آئیڈیل تھی ۔اس کوزندگی میں بہت سے رنج و الم کا سامنا کرنا پڑا ۔مگر وہ مصائب اور تکالیف کو برداشت نہ کرسکیں اور جلد ہی موت کی آغوش میں چلی گئیں ۔اور پھر روبینہ کا کردار ہے جو ایک رنگین تتلی کی مانند ہے ۔وہ بھی صبا کے کردار کے قریب نظر آتی ہے ۔اس نے بھی محبت کا فریب کھایا ہوا ہے ۔اور تمام تلخیوں سے گزر رہی ہے ۔ان کے علاوہ سہیلہ بیگم،بیگم احمد ،بیگم کراموفون نظر آتے ہیں ۔
واجدہ تبسم (نتھ کی عزت)
واجدہ تبسم اردو ادب میں ایک نڈر بے باک ناول نگار کی حیثیت رکھتی ہیں ۔واجدہ تبسم نے نتھ کا زخم ،نتھ کی عزت،نتھ کا بوجھ ،نتھ اترائی ،نتھ کا نمرو وغیرہ کے نام سے ناول لکھے ہیں ۔مصنفہ نے نتھ کو عورت کے لیے علامت کے طور پر استعمال کیا ہے ۔یہ ایسا زیور ہے جسے پہننے کے بعد عورت نئی زندگی کی طرف چلتی ہے۔اس میں نوابوں کی عیاشیاں اور ان محلوں میں عورت پر ہونے والے ظلم کی داستان پیش کی ہے۔نھوں نے حیدر آباد کے طوائفوں اور نوابوں کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے ۔ڈاکٹر سید جاوید اختر لکھتے ہیں:-
واجدہ تبسم کے ناولوں کا ایک مرکزی موضوع ہے ۔“
حیدر آبادی معاشرت میں طوائف کا کردار اس کی زندگی
کے نشیب وفراز اس کی خوشیاں اس کے غم اس کی خواہش
اس کی حرکتیں اور گھریلو زندگی پر اس کے اثرات کا تجزیہ
جس خوبی کے ساتھ واجدہ نے اپنے ناولوں میں کیا ہےوہ
قراۃ العین حیدر کے سوا کسی اور ناول نگار کے ہاں مثال
نہیں ملتی ۔”
حیا اس ناول کا مرکزی کردار ہے جو ایک طوائف ہے ۔مگرشریف گھرانوں میں زندگی گزارنے کی خواہش مند ہے وہ ایک مرد کے ساتھ سگھڑ زندگی گزارنا پسند کرتی ہے۔مگر معاشرہ ان کو کبھی قبول نہیں کرتا ۔نواب شوکت حیا سے شادی کا وعدہ کرتا ہے ۔مگر وہ اس کے ساتھ نا جائز تعلقات کے بعد شادی کہیں اور کرلیتا ہے ۔حیا یہ صدمہ برداشت نہیں کر پاتی۔وہ اپنی ماں کا گھر چھور دیتی ہے اور گناہوں سے توبہ کرلیتی ہے ۔اس کے بعد شوکت سے سر فراز کے ذریعے انتقام لیتی ہے۔حیا کا کردار دوسری طوائفوں سے منفرد ہے کہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر خاموش نہیں رہتی بلکہ ہمت وحوصلہ سے اس کا انتقام لیتی ہے ۔
جیلانی بانو (ایوان غزل)
جیلانی بانوکو اردوادب میں اہم مقام حاصل ہے ۔جیلانی بانو کا ناول ایوان غزل 1976ء کو منظر عام پر آیا ۔اس ناول میں ریاست حیدرآباد کے جاگیردارانہ نظام کی بکھرتی تہذیب اور روایتوں کی عکاسی کی ہے ۔اس معاشرے کی جو خامیاں پوشیدہ تھیں وہ ظاہرہو گئیں ۔اس عہد میں پدرانہ نظام تھا ،عورت کو کم تر اور حقیر جانا جاتا تھا،۔معاشرے میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔اس عہد کے مردوں کا ایک سے زیادہ شادی کرنا اور شادی سے پہلے اور بعد میں غیر عورتوں سے تعلق رکھنا باعث فخر سمجھا جاتا تھا ۔مصنفہ نے کرداروں کی ذہنی ،جذباتی ،نفسیاتی اور سماجی زندگی کو پیش کیا ہے ۔اس عہد کی تہذیبی ،ثقافتی ،سماجی ،معاشی اور معاشرتی حالات و مسائل کی تصویر کشی کی ہے ۔عورت کی مظلومیت،مسائل اور جبر کی تصویر کشی مصنفہ کا خاص وصف رہا ہے ۔
نسوانی کرداروں کی پیش کش میں جیلانی بانو نے “
اپنے کامل ہنر کا ثبوت دیا ہے ۔عورت ہونے کے ناطے
مصنفہ عورتوں کے مسائل ان کے جذبات و احساسات
اور نفسیات سے پوری طرح واقف ہیں ۔مصنفہ نےمعاشرے
کے مختلیف طبقے کی عورتوں کی سماجی حیثیت اور ان کی
حالات و مسائل کی حقیقی عکاسی کی ہے ۔”
جیلانی بانو کے ناول ایوان غزل میں غزل کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔غزل بتول بیگم اور ہمائیوں شاہ کے گھر پیدا ہوئی ۔غزل کی پیدائش اس گھٹے ماحول میں ہوئی جب بیٹی کی پیدائش کو ہتک سمجھا جاتا تھا ۔غزل کا بچپن بھی اسی رجعت پسند اور فرسودہ ماحول میں گزرتا ہے ۔وہ بچپن ہی سے ماں کی بے چارگی ،بے وقت موت،باپ کی بے حسی اور نفرت ،سوتیلی ماں کا ظلم وستم جھیلتی ہے۔اسے کسی کا پیارنہیں ملتا وہ محبت کے لیے ترستی ہے ۔اسی وجہ سے اگر کوئی اس کے ساتھ ہمدردی سے پیش آتا تو وہ اپنی جان تک دینے کو تیار ہوتی ۔اسی کمزوری کے سبب لوگ اس کے جذبات سے کھیلتے ہوئے اسے اپنی جنسی تسکین کا ذریعہ بناتے۔غزل سچا پیار پانے کے لیے بار بار لٹتی ہے ۔اورہربارغلط راہ اپناتی ہے ۔ایک طرف سرور کی محبت کو ٹھکراتی ہے دوسری طرف شیخو بھائی سے شادی پر احتجاج نہیں کرتی ۔شاہین سے شادی کے بعد اس کی الجھنیں ،پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں ۔جب نصیر سے ملاقات ہوتی ہے اپنی انگھوٹی واپس مانگتا ہے وہ انگھوٹی اس کے لیے موت کا موجب بنتی ہے ۔
چاند ایوان غزل کا اہم نسوانی کردار ہے ۔چاند حیدر علی خان کی بیٹی ہے ۔وہ بہت خوبصورت اور شوخ و شریر ہے ۔اس نے مغربی تہذیب کے زیر اثر تربیت پائی ۔اس لیے بے حدلاپرواہ اور آزاد خیال لڑکی ہے ۔اس کا باپ ڈاکٹر بنانا چاہتا ہے ۔مگر اسی وجہ سے انگریزی سکول پرھتی ہے ۔کلب جاتی ،فلمیں دیکھتی ،عریاں لباس پہنتی تھی ،اسی وجہ سے چودہ برس کی عمرمیں نارائنا جیسے لڑکے کی محبت میں مبتلا ہو کر خودکشی کرکے مرنا چاہتی ہے ۔اس کا ماموں اسے ہر طرح سے آزادی دیتا ہے ۔سنجیواہ جب اس کی محبت کو قبول نہیں کرتا چاند دنیا جہاں کو بھول جاتی ہے ۔ایوان غزل کے مقیم اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔جیلانی بانو نے چاند کے کردار کے ذریعے سماج کے ان مردوں کی تصویر کشی کی ہے جو عورتوں کو دل بہلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ان خواتین کی عکاسی کی ہے جو جاگیردارانہ نظام میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی کھلونا بنتی ہے ۔یہاں بھی عورت مظلوم ہے ۔
گوہر پھوپھو اس ناول کا مثالی کردار ہے ۔یہ کردار جاگیردارانہ نظام کی ان عورتوں کی نشاندہی کرتی ہے جو کبھی اپنی خواہشات کو پورا نہیں کر سکتیں ۔اس کی وجہ پدرانہ نظام ہے۔سماج میں مردوں کو اہمیت حاصل ہے اور عورتوں کا استحصال کیا جاتا ہے ۔اس کی وجہ مردوں کی خود غرضی ہے جو وہ دولت اور اپنی آرائش و آسائش کی قصاص میں عورت کی زندگی قربان کردیتے ہیں ۔اور وہ ساری زندگی گھر والوں پر بوجھ بن کر رہ جاتی ہے۔جیلانی بانو نے اس کردار کے جذبات کی ترجمانی اس انداز میں کی ہے ۔
وہ جانے کب بچپن سے جوانی میں داخل ہوئیں اور کب برھاپے کی “
سرحد پار کر گئیں ۔گھر میں بہت کم لوگوں نے محسوس کیا کہ گوہر
بیگم کے بال سفید ہونا شروع ہو چکے ہیں ۔ان کے چہرے پر جھریاں
پڑ رہی ہیں وہ کام کرتے کرتے ہانپ جاتی تھیں ۔اس کے باوجود انھوں
نے کبھی کسی غیرمردکی طرف نہیں دیکھا تھا ۔”
کرانتی بھی ایوان غزل کا کردار ہے وہ سنجیوا اور قیصر کی بیٹی ہے ۔ماں باپ کی طرح تغیر پسند ہے ۔وہ بچپن سے ناسازگار حالات کا شکار رہی ہے ان حالات میں بھی گبھراتی نہیں بلکہ ہمت و حوصلہ سے ان حالات کا مقابلہ کرتے آگے بڑھتی ہے ۔
اس کے علاوہ متعدد خواتین ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں نسوانی کرداروں کو موضوع بنایا ہے ۔جن میں عصمت چغتائی ،آمنہ ابولحسن،رضیہ سجاد ظہیر،جمیلہ ہاشمی،صغرا مہدی،واجدہ تبسم ،صالحہ عابد حسین وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔جنھوں نے اپنے ناولوں میں عورت کی ذہنی نفسیاتی کیفیات کو ابھارا ہے ۔انھوں نے عورت پر معاشرے میں ہونے والے استحصال کا وسعت نظر سے مطالعہ کیا ہے ۔اور اپنے ناولوں میں موضوع بنایا ہے ۔عصمت چغتائی نے بے باک اور نڈر عورت کا کردار پیش کیا ہے ۔صالحہ عابد حسین نے مظلوم عورت کی ترجمانی کی ہے۔قراۃ العین نے اعلی طبقے عورت کی زندگی کی عکاسی کی ہے ۔صغرا مہدی نے روشن خیال ،تعلیم یافتہ عورت کو موضوع بنایا ہے ۔آمنہ ابولحسن نے جذباتی عورت کی بے بسی کو پیش کیا ہے۔واجدہ تبسم نے حیدراباد کی طوائف کی زندگی کے ناموافق حالات اور خوشیوں کا جائزہ لیا ہے۔ان تمام مصنفہ نے معاشرے میں عورت کی حیثیت اور ان کے مسائل کی عکاسی کی ہے۔
حواشی
۱:-قراۃ العین حیدر چاندنی بیگم،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی: 1993ء،ص69
۲:-مشتاق احمد وانی ڈاکٹر ،تقسیم کے بعد اردو ناول میں تہذیبی بحران،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،علی گڑھ: 2002ء،ص 282
۳:-رضیہ فصیح احمد،آبلہ پا ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی :1984ء،ص246
۴:-جاوید اختر ،ڈاکٹر،اردو کی ناول نگار خواتین (ترقی پسند تحریک سے دور حاضر تک )سیمہ کتاب گھر ،دہلی:2002ء،ص175
5:-مشرف علی،جیلانی بانو کی ناول نگاری کا تنقیدی مطالعہ ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی:2003ء،ص120
۵:-جیلانی بانو،ایوان غزل ،ناولستان جامعہ نگر ،نئی دہلی:1976ء،ص143
***