ڈاکٹر شاہد احمد جمالی
۔جے پور
منشی ہیرا لال مونسؔ ۔جے پور(1853-1920ء)
(ریاست جے پور کی ایک شاندارادبی شخصیت)
منشی ہیرا لال مونسؔ جے پور کی اُن ادبی شخصیات میں سے ہیں،جن کے ذکر کے بغیر جے پور کے ریاستی دور کی ادبی تاریخ مرتب نہیں ہو سکتی۔لیکن ہم نے ان کے شایانِ شان ایسی قدر نہیں کی جس کے وہ مستحق تھے۔فارسی و اردو زبانوں کے عالم تھے،اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔آپ نے اپنے حالاتِ زندگی اور خاندان کے دیگر افرادکا ذکر خودنوشت سوانح کی شکل میں کیا ہے۔
یہ حالات انھوں نے اپنی کتاب ’’تغرا ہائے نستعلیق‘‘(مطبوعہ،۱۸۸۹ء)میںاردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں درج کئے ہیںاور اس پر تاریخ جولائی ۱۸۸۹ء درج ہے۔وہ تمام من و عن ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔منشی ہیرا لال اردو و فارسی کے عالم ہونے کے ساتھ شاعر بھی تھے،اور سب سے بڑھ کر بہترین خوش نویس تھے۔اس فن میں انھوں نے جدتیں پیدا کی تھیں۔یہاں تک کہ ہندی اور انگریزی میں بھی وہ خطاطی کیا کرتے تھے۔مذکورہ کتاب فل اسکیپ سائز پر بہت خوبصورت چھپی ہوئی ہے۔منشی ہیرا لال کی تحریر قدیم اردو کی یاد دلاتی ہے،انھوں ملے ہولفظ زیادہ استعمال کئے ہیں،جیسے عالیجناب،فیضمآب وغیرہ۔اس کے علاوہ ’ے‘ کی جگہ’ی‘ کا استعمال کیا ہے۔’گ‘ کو انھوں نے ’ک‘ لکھا ہے۔انھوں نے اپنے حالات بڑی تفصیل سے لکھے ہیں،لیکن خاص خاص باتیں یہاں درج کر رہا ہوں۔
’’ہیرا لال نام ،قوم سے بھارگو برہمن جو عرفا دھوسر کہلاتے ہیں،اشاڑھ بد اشٹمی سنبت ۱۹۱۰ء(۱۸۵۳ء) روز سہ شنبہ تاریخ ولادت ہے۔قدیم وطن کوٹ قاسم اور تین پشتوں سے خاص جے پور میں سکونت ہے۔
والد مرحوم منشی رام جیون صاحب نے جے پور ہی کے مدرسہ میں تعلیم پائی اور عالی جناب پنڈت شیو دین صاحب پرنسپل مدرسہ ،جو آ خر میں مصاحب اور منشی کشن سروپ صاحب جو سپر ٹنڈنٹ مدرسہ تھے اور انجام کار میمبر محکمہ عالیہ کونسل ،جے پور رہے۔ان دونوں کے فیضانِ تعلیم سے سب سے پہلے اور منتہی طالب علم مدرسہ جے پور وہ ہی ہوئے۔۔۔۔۔۔۔ سنبت ۱۹۱۵ کو ۲۷؍برس کی عمر میں والد بزرگوار بھی رحلت فرما گئے۔اور ہم تین بھائیوں کو ۸۔۵۔۳،برس کی عمر میں چھوڑا۔دادا کے حقیقی چھوٹے بھائی منشی رام پرشاد صاحب جن کا میں متنبیٰ ہوںراج قرولی میں بخشی فوج تھے۔والد کے انتقال کے بعدہماری نگرانی کی غرض سے وہاں کی ملازمت کو استعفا دے آئے اور یہاں ہمارے ہمدرد حکام نے ان کو عدالت صدر جے پور کی ملازمت عطا فرمائی۔ان کی سرپرستی اور دربار جیپور کی دستگیری سے ہم نے تعلیم و تربیت پائی۔۱۰؍بجے تک مدرسہ میں پڑھا کرتے،سہ پہر کے وقت جناب قبلہ ہ کعبہ منشی بہاری لال صاحب دہلوی سارست برہمن کی خدمت میں جو پہلے میر منشی ایجنٹی جے پور تھے اور پھر بوجہ حسنِ کار گزاری پوری تنخواہ پر پنشن یاب ہو گئے تھے،لکھنے جایا کرتے۔ منشی صاحب جناب محمد امیر صاحب رضوی معروف بہ پنجہ کش کے شاگرد رشید تھے۔ ،جو ۲۰؍صفر ۱۲۷۳ ھ روز یکشنبہ کو غدر ہند کے ہنگامہ میں شہید ہوئے۔والد مرحوم نے بھی انھیں سے لکھا تھا اور اس فن میں بھی کافی دستگاہ پیدا کی تھی۔اس لئے ہمیں لکھنے کا حق سمجھ کر نہایت توجہ سے بتایا کرتے اور پوتا شاگرد کہا کرتے۔تیرہ چودہ برس کی میری اور ۱۶؍ سترہ برس کی بھائی پنالال صاحب کی عمر ہوگی تب منشی صاحب نے دہلی جا کر انتقال فرمایا۔’’اللہ بخشایدش‘‘آپ کی وفات کا مادّہ تاریخ ہے۔
تعلیم کا سلسلہ میرا اور بھائی صاحب کا سنبت ۲۶؍تک جاری رہا۔جناب مکرمی معظمی مولانا رشید الدین صاحب فاروقی المتخلص فائزؔ و منتظرؔ،مدرس اول مہاراجہ کالج کی خدمت میں حاضر رہ کر فارسی کی درسی کتابیں اور عربی صرف و نحو اور منطق کی چار پانچ کتابیں پڑھیں۔‘‘
سبب ترتیب مجموعہ ہٰذا:
یہ چند فقرات اور ناموں کے طغرائی ترکیبات جو شبیہ بنوانے کی غرض سے نکالی گئی تھیں اور بڑی تلاش سے صحیح صحیح شبیہیں بنوائی گئیں تھیں،ان کی نقلیں مطابق اصل مسمی نندلال و رامچندر ولد چھوٹو لال مصوران نامی ملازمانِ سرکار سے بنواکر بغرض پیش کش بندگانِ عالی فراہم کرتا ہوں اور عام طالبین بھی بہرہ یاب ہوں اس لئے چھپاتا ہوں۔اور ’’طغراہائے نستعلیق‘‘اس کا تاریخی نام رکھتا ہوں۔باقی بشرطِ فرصت آئندہ۔! ‘‘
یہاں تک منشی ہیرالال جی کا بیان تھا جو من عن درج کیا گیا ہے۔منشی ہیرا لال کی بہت سی باتوں کی وضاحت مہاراجہ کالج جے پور کے پروفیسر محمد عبد المغنی نے اپنے ایک تحقیقی مضمون ’’جے پور میں اردو کا تدریجی ارتقاء‘‘میں کی ہے،یہی نہیں انھوں نے جے پور میں خوش خطی کی روایت، منشی ہیرا لال کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ ان کے شاگردوں کے نام بھی درج کئے ہیں،اس مضمون سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں،
’’جے پور کے خوشنویسوں میں منشی بہاری لال تلمیذ جناب سید محمد امیر پنجہ کش رضوی دہلوی نستعلیق کے اُستاذ الاساتذہ تھے ۔ اُن کے نامور شاگرد منشی ہیرالال مونس (مالک ہیرا لال پریس جے پور) نے اُن کی تاریخ وفات اللہ بخشاید ش‘‘ لکھی ہے ایک اور بے مثل کاتب منشی رام دھن شاگر د آغامرزا بھی عرصہ تک جے پور میں مقیم رہ چکے ہیں ممدوح ہفت قلم تھے ، خطِ نسخ میں ا س عہد میں حضرت مولانا مسکین شاہ بڑے نامور گذرے ہیں ۔ خطِ شیفعہ (شکست) میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے ، راجہ مہیش ؔ داس اپنے وقت کے ممتاز کاتب تھے بعد کے دَور میں منشی پنا لال ناظم ، منشی عبدالغنی ومنشی میر حیدر حسن یکتا زکی خطِ نستعلیق میں قابل ذکر ہیں ۔ میر حیدر حسن زکی نسخ بھی لکھتے تھے ۔ اسی طرح منشی ہرالال مونس ؔ نسخ وشکستہ وطغرا و غبار میں مہارت تامہ رکھتے تھے ۔ منشی ہیرالال مونس نے اس فن کی جیسی خدمت کی ، اُن کے معاصرین سے بن نہ آئی ، اور آج بھی اُن کے تلامذہ کی بدولت جے پور میں اس فن کا نام زندہ ہے ، ان کے شاگردوں میں منشی ظہور الحسن وحافظ عبد الکریم ، منشی محمد عبدالرحیم مالک رحیمی پریس جے پور ومنشی رام چند ر خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ‘‘
(جے پور میں اردو کا تدریجی ارتقاء۔پروفیسر عبد المغنی۔زمانہ،کانپور۔جولائی تا دسمبر۔۱۹۴۳ ء۔جلد نمبر۔۸۱۔ص۔۱۱۵)
منشی ہیرا لال مونس کے بیان کردہ واقعات کے بعدکئی مشاہیر کے تاریخی قطعات درج ہیں جو شاعری کے عمدہ نمونے ہیں۔منشی ہیرالال مونسؔ نے ۳۵؍سال کی عمر میں۱۸۸۸ء میں ’’ہیرالال پریس‘‘کا اجرا کیا تھا،یہی پریس ’’مطبع سراج الفیض‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہوا۔چنانچہ اس پریس سے چھنے والی کتابوں پر کسی پرہیرالال پریس اور کسی پر مطبع سراج الفیض،پروپرائٹر ہیرا لال لکھا ہوتا تھا۔مثال کے طور پر مولانا سید نظیر حسن سخاؔ کا ماہانہ رسالہ’’جوہر سخن‘‘ (جے پور،۱۹۱۴ء) پر ہیرا لال پریس،جے پور لکھا ہوا ہے،اور دیوان پروین کا جو پہلا ایڈیشن ۱۹۱۵ء میںشائع ہوا تھا اس پر مطبع سراج الفیض،جے پور لکھا ہوا ہے۔اس طرح کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔یعنی دونوں ناموں سے یہ پریس اپنی خدمات انجام دے رہا تھا۔کم و بیش چالیس سال تک اس پریس نے اردو کی خدمات انجام دیںاور سینکڑوں کتابیں شائع کیں۔چونکہ یہ پریس ۱۸۸۸ء میں جاری ہوا اور اگلے ہی سال منشی ہیرا لال کی یہ کتاب ، اسی پریس سے شائع ہوئی،اس لئے اس کتاب کو اس مطبع کی اولین مطبوعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے منشی کندن لال(ناظر عدالت) نے حسب ذیل قطعہ کہا تھا۔
قطعہ تاریخ افتتاح ہیرالال پریس جے پور کہ مجموعہ ہٰذا اوّلین مطبوعات اوست عطیہ منشی کندن لال صاحب ناظرِ عدالت
مونس ؔنے جن کو فیض رسانی سے ذوق ہے مطبع کا افتتاح کیا خوب ہے کیا
میں نے بھی جا کے ان سے سنِ افتتاح میں مطبع کا افتتاح مبارک ہو کہہ دیا
(۱۳۰۶ ھ)
محکمہ عالیہ کونسی جے پور کے منشی بھوانی پرشاد نے حسب ذیل قطعہ کہا،
کہنا انہیں سرمایۂ صنعت ہے سزاوار مرغوب و پسندیدہ احباب میں طغرے
تاریخ کی کیا فکر ہے دیکھنے والے کہتے ہیں کہ لاثانی و نایاب ہیں طغرے
(۱۳۰۶ ھ)
راج پریس جے پور کے منشی جمال الدین کاتبؔ اکبر آبادی جو ہیرا لال جی کے شاگردبھی تھے، نے حسب ذیل قطعہ کہا،
میرے استاد کی خوش خط یہ کتاب رنگیں
دیکھ کر کہتے ہیں سب پیر و جواں خوب لکھی
دیکھ لیتے جو اسے مانیؔ و بہزادؔ کبھی
تو یہ بیساختہ کہ اٹھتے کہ ہاں خوب لکھی
چشمِ بد دور ہر اک اہلِ نظر کہتا ہے
یہ کتاب آپ نے استادِ زماں خوب لکھی
اس کی تعریف میں کلک دو زبان عاجز ہے
اس کے اوصاف ہوں کیا مجھ سے بیاں خوب لکھی
سرِ اعدا کو قلم کر کے خوشی سے کاتبؔ
تم نے تاریخ بھی مرغوبِ جہاں خوب لکھی
(۱۳۰۶ ھ)
منشی ہیرا لال کے برادر کلاں منشی پنا لال نے اپنے بھائی کی اس کتاب کے لئے حسبِ ذیل قطعہ کہا تھا،
’’قطع تاریخ عطیہ اخی منشی پنالال صاحب غنیؔ مدرس سابق منشی کلاس مہاراجہ کالج،حال سر رشتہ دار صیغہ عدالتین محکمہ عالیہ کونسل راج سوائی جے پور‘‘
یہ نسخہ نام طغرا ہائے نستعلیق ہے جس کا
منور اس سے دل ہے اور آنکھیں بھی ہیں نورانی
نہ آئیں دیکھنے میں کہیں نہ سننے میں یہ کہیں پر
نہ ہو کیوں کر بھلا پھر دیکھنے والوں کو حیرانی
جو دیکھا فکر میں تاریخ کے مجھ کو تو ہاتف نے
کہافی الفور مجھ سے کان طغرا ہائے لاثانی
(۱۸۸۹ء)
’’طغرا ہائے نستعلیق‘‘ میں تین سو سے زائد طغرے ہیں۔ان میں ضرب الامثال،اشعار،یک مصرع،کہاوتیں، محاورے،سبق آموز فقرے ،مذہبی غیر مذہبی، اردو و فارسی ،سبھی شامل ہیں۔جیسے،
اللہ اکبر۔ یا اللہ۔یا محمدمولانا ضیاء الدین۔ یا خواجہ معین الدین۔مریادا پرشوتم سری رام چندر۔زانکہ از ذرّہ پروری ہر گز نکند آفتاب تاباں عار۔میٹھا میٹھا ہِپ ہِپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔بسنت بہار۔مہیش۔برہما۔۔۔۔۔وغیرہ ۔
اس کے علاوہ اس کتاب میں سنتوں اور مسلم صوفیاء کی خیالی تصاویر بھی ہیں۔منشی ہیرا لال مونسؔ کی دیگر تصانیف حسب ذیل ہیں۔
(۱)اقوال صوفیہ۔(فارسی)۔(۲)دھرم کرم نشٹھا والے بھکتوں کی کتھا۔(۳)یاترا درپن
یہ کتابیں جے پور کی مہاراجہ لائبریری اور سمتی لائبریری جے پور میں محفوظ ہیں۔ان کے علاوہ انھوں نے دارا شکوہ کی کتاب سر اکبر کا اردو ترجمہ بھی شروع کیا تھا،جو دو تین قسطوں تک ہی محدود رہا۔
منشی ہیرا لال کی وفات کے بعد تقریباً ۱۹۲۱ء میں ان کے پریس کو محمد عبد الرحیم خاطرؔ جے پوری نے خرید لیا تھا اور اس کا نام رحیمی پریس رکھا تھا۔یہ پریس جے پور کے ترپولیہ بازار میں نواب صاحب کی حویلی کے سامنے تھا۔
منشی ہیرا لال مونس کا سنِ وفات معلوم نہ ہو سکا،لیکن گمان غالب ہے کہ ان کا انتقال ۱۹۲۰ء میں ہوا۔ ان کا قائم کردہ یہ پریس ۳۲۔۱۹۳۰ء تک اپنی خدمات انجام دیتا رہا۔
٭**