You are currently viewing منظومات- ناز فاطمہ

منظومات- ناز فاطمہ

ناز فاطمہ،پاکستان

منظومات

                   آخری جنگ

میری نیندوں میں آہیں تھیں

میرے خوابوں میں آنسو تھے

وہ خود پر جبر تھا گہرا

یا فضا میں لہو کی سرخی تھی

میرے دل پر تیری  یادوں

تیری باتوں کا سایہ تھا

اک تو میں تھی تنہا

اور دوجے یہ میری بقا کی آخری جنگ تھی لوگو

وہ لمحہ  بن کے سونامی

میری ہستی پہ آیا تھا

جو میں نے مڑ کر دیکھا

تاحد نظر منظر میری تباہی کا چھایا تھا

تو کچھ بھی بچ نہ پایا تھا

تو کچھ بھی بچ نہ پایا تھا

***

ستارے مقدر کے

تم نے دیکھا ہی نہیں تمہیں کیا معلوم

تجھ سے بچھڑ کر کس حال ، کن حالات سے گزری ہوں میں

تڑپتا تھا میرا لمحہ لمحہ

وہ قیامت تھے جن دن رات سے گزری ہوں میں

لوگ سمجھانے کو ، بہلانے کو جو چلے آتے تھے

بے خبر ، ناسمجھ زخموں پر ہی زخم لگاتے تھے

وہ بستیاں جنہیں بسنے میں تھے زمانے لگے

پل بھر میں اجڑ گئیں لوگو

وہ تعلق جسے لہو سے تھا سینچا ہم نے

کچے دھاگے سے بھی کچے نکلے  کہ خون پانی تھا

تم تو چہرہ بدل گئے مقام بدل گئے

 بنا کر اپنا عجیب مستقبل

ہمارا ماضی و حال بدل گئے

تم نے بدلا تھا بس چلن اپنا

ہمارے مقدر کے ستارے چال بدل گئے

***

بازی گر

وہ انداز و تخاطب کی الگ پہچان رکھتا ہے

بچا کر اپنی ہستی کا وہ  ہر سامان رکھتا ہے

بخوبی جانتا ہے رمز اپنے ہر مقابل کی

وہ ہر بازی میں اپنی جیت کا امکان رکھتا ہے

وہ اکثر کھولتا ہے  ہر نفس میں درد کی پرتیں

ہر دکھتی ہوئی رگ کا  وہ یوں  دھیان  رکھتا ہے

وہ جذبے بیچ دیتا ہے بہت ہی اونچے نرخوں پر

وہ کار عشق میں اونچی سی اک دوکان رکھتا ہے

Leave a Reply