You are currently viewing منٹو کا ’آ خری سلیوٹ‘

منٹو کا ’آ خری سلیوٹ‘

ڈاکٹر شیو پرکاش

اسسٹنٹ پروفیسر

ہندستانی زبانوں کا مرکز، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی

منٹو کا ’آ خری سلیوٹ‘

         سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور کرشن چندر اردو افسانہ نگاروں کا وقار بھی ہیں اور معیار بھی۔ان تینوں افسانہ نگاروں کی عظمت کے الگ الگ اسباب ہیں۔سعادت حسن منٹو کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے زبان و بیان کی آرائش و زیبائش سے بلند ہو کر اپنے عہد کے سماجی و ثقافتی حالات کے گہرے شعور کے ساتھ سادہ ،سلیس اورفطری اسلوب میں ایسی کہانیاں لکھیں جو اپنے عہد کی حقیقتوں کی اصل حقیقتیں سامنے لاتے ہیں۔اس ضمن میں منٹو کی کسی بھی کہانی کانام لیا جاسکتا ہے۔کیونکہ ابتدائی دور کے چند ایک افسانوں سے قطع نظر منٹو کے کم و بیش تمام افسانے موضوع کے اعتبار سے قاری کے دل و دماغ کو مسخر کرنے کی غیر معمولی خوبیاں رکھتے ہیں۔اسی لئے اگر یہ سوال کیا جائے کہ منٹو کاسب سے عمدہ اور شاہکار افسانہ کون سا ہے؟تو اس کا جواب دینا ممکن نہیں ہوگا۔یہاں تک کہ اگر منٹو کے چند نمائندہ افسانوں کی نشاندہی کرنے کو کہا جائے تو صرف ٹو بہ ٹیک سنگھ،کھول دو،ٹھنڈاگوشت،بو ،ہتک اور کالی شلوار کے نام گنوانا منٹو کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ان افسانوں کی فنی اور جمالیاتی اہمیت اپنی جگہ،لیکن ان کے علاوہ بابو گوپی ناتھ،موذیل ،سہائے،ممد بھائی،خوشیا،۱۹۱۹ کی ایک بات،نیا قانون اور آخری سلیوٹ وغیرہ بھی کم تر افسانے نہیں ہیں۔

         آخری سلیوٹ اس اعتبار سے ایک اہم افسانہ ہے کہ اس افسانہ میں سعادت حسن منٹو نے تقسیم ملک کو بر صغیر کاایک ایسا المیہ قرار دیا ہے جس نے نہ صرف مشترکہ تہذیب کے مبارک اور مقدس وجود کو چور چور کیا ہے بلکہ ہندوستان اور پاکستان میں آباد بر صغیر کی دو بڑی قوموں ہندوئوں اور مسلمانوں کے دلوں میں نفرت اور دشمنی کا جو بیج بویا وہ اب ایک تناور درخت بن چکا ہے۔سعادت حسن منٹو نے ہندوستان کی تقسیم کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا اور گرچہ بعض مجبوریوں کی بنا پر خود منٹو نے تقسیم ملک کو برصغیر کے عوام کی خواہش کا نہیں بلکہ تنگ نظر اور خود غرض اقتدار پسند سیاسی رہنمائوں کی سازش کا نتیجہ قرار دیا۔ٹو بہ ٹیک سنگھ میں تقسیم ملک کی تہہ میں کارفرما فرقہ واریت اور خود غرضانہ سیاست کو منٹو نے پوری شدت کے ساتھ رد کیا ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ اگر برصغیر ہندوپاک کے عوام نے تنگ نظر اور مفاد پرست سیاست دانوں کے فریب میں آکر فرقہ وارانہ منافرت اور علاحدگی پسندی پر اسی طرح عمل پیرا رہے تو نہ تو ہندوستان باقی رہے گا نہ پاکستان۔ٹو بہ ٹیک سنگھ میں سعادت حسن منٹو نے ایک پاگل کی زبانی ایسی ہی ہوش مندانہ پیشن گوئی کی ہے۔

’’۔۔۔   سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا۔پر اب —سنا ہے پاکستان میں ہے۔کیا پتہ ہے کہ لاہور جو ا ب پاکستان میں ہے، کل ہندوستان میں چلا جائے گا یاساراہندوستان ہی پاکستان بن جائے گا۔اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب نہیں ہو جائیں گے؟‘‘

         سعادت حسن منٹو نے اپنے سیکولر اور فرقہ واریت مخالف نظریے کوافسانہ آخری سلیوٹ میں ’مسئلہ کشمیر‘‘ کے حوالے سے پیش کیا ہے۔مسئلہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ تو ہے ہی لیکن اس سے زیادہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔صدیوں سے فرقہ وارانہ اتحاد،انسان دوستی اور امن پسندی کشمیر کے قومی تشخص کے بنیادی امتیازات رہی ہیں۔لیکن ملک کی تقسیم کے بعد کشمیر کی اس انفرادیت کو جیسے نظر لگ گئی۔کشمیر کو رہنا چاہیے تھا یا پاکستان میں اس پر تو سیاسی دانشوروں کو ہی کچھ کہنا زیب دے گا۔لیکن میں اپنی جانب سے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ کشمیر کے قومی تشخص کے وجود پر تقسیم ملک کے بعد سے ہی خراشیں پڑنے لگی تھیں۔ان خراشوں کے درد کودوسرے کشمیریوں کی طرح منٹو نے بھی محسوس کیا اور شاید کہیں زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کیا۔افسانہ’’آخری سلیوٹ‘‘ محض ایک افسانہ نہیں کشمیر کے اس درد کا اظہار ہے۔پاکستان کے ارباب و عقد کا خیال تھا اور یہ ہے کہ مسلم اکثر یتی علاقہ ہونے کی وجہ سے کشمیر پر پاکستان کا حق تھا اور ہے جبکہ بہت سارے اسباب کی بنا پر ہندوستانی رہنما نہ صرف اس دلیل کو رد کرتے ہیں بلکہ کشمیر کو ہندوستان کا ہی اٹوٹ انگ مانتے ہیں لیکن آج تک کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ خود کشمیر کے عوام کیا چاہتے ہیں۔’آخری سلیوٹ‘ اسی سوال کا جواب ہے۔

         افسانہ’آخری سلیوٹ‘ ہندوستان کی تقسیم کے بعد 1950-51 کے آس پاس لکھا گیا۔یہ افسانہ منٹو کے افسانوی مجموعہ’یزید‘ میں شامل ہے۔منٹو نے اس افسانے کے لئے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ کو منظر نامے کے طور پر استعمال کیا ہے۔لیکن افسانہ میں جنگ کی گھن گرج نہیں اور نہ بارود کی بو ہے بلکہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے بھائی چارہ کی نغمگی ہے۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی،محبت و اخوت کی خوشبو ہے۔

         آخری سلیوٹ میں ہندوستان اور پاکستان کی پہلی جنگ میں ہندوستانی فوجی رام سنگھ اور پاکستانی فوجی رب نواز کی دلی کیفیات کوافسانے کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔رب نواز اور رام سنگھ دونوں کا تعلق ایک ہی گائوں سے تھا۔دونوں بچپن کے دوست تھے۔دونوں کے گھروں میں آنا جاناتھا۔دکھ درد میں دونوں کے گھر والے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے۔رام سنگھ اور رب نواز ساتھ ساتھ اسکول جاتے کھیلتے،کودتے جوان ہوئے اور ایک ہی دن ایک ساتھ فوج میں بھرتی ہوئے ۔دوسری جنگ عظیم میں کئی محاذوں پر ایک ساتھ دشمن کے خلاف جنگ کی تھی۔ان دنوں یعنی تقسیم ملک سے پہلے انڈین آرمی میں ہندو،مسلم ،سکھ اور عیسائی ہر مذہب کے لوگ تھے۔کوئی بنگالی تھا تو کوئی مدراسی ،کسی کا تعلق پنجاب سے تھا تو کسی کا جموں و کشمیر سے۔لیکن انگریز افسران کی قیادت میں یہ سبھی دوستوں کی طرح مل جل کر رہتے تھے۔سبھی ہندوستانی کندھے سے کندھا ملا کر دشمن کا مقابلہ کرتے تھے۔ان کے درمیان مذہب کے نام پر کوئی فرق نہیں تھا۔لیکن اب مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم کے بعد اب انھیں میں سے کچھ لوگ پاکستانی ہو گئے تھے اور کچھ ہندوستانی۔ایک ہی تہذیب  ایک ہی جیسے رسم ورواج اور ایک ہی گائووں اور قصبوں کے رہنے والے اب ہندوستانی اور پاکستانی ہو گئے تھے اور اس جنگ میں ایک دوست دوسرے دوست کی بندوق کے نشانے پر تھا۔ملک اور وطن کے نام پر ساتھ ساتھ پلنے بڑھنے والے اس جنگ میں ایک دوسرے کے جان کے دشمن ہو گئے تھے۔ملک کی تقسیم کے بعد رام سنگھ ہندوستانی فوج میں رہا۔رب نواز دوسرے بہت سارے مسلمانوں کی طرح  اپنا گائوں اپنی زمین چھوڑ کر پاکستان ہجرت کر گیا اورپاکستانی فوج میں شامل ہوگیا۔پچھلی جنگ میں رام سنگھ اور رب نواز نے ایک ساتھ اتحادی فوج کا مقابلہ کیا تھا۔لیکن اب کشمیر کے لئے جو جنگ ہو رہی تھی مذہب کے نام پر۔ دونوں طرف کے فوجیوں کی برین واشنگ کی (Brain washing) کی گئی تھی اور اس جنگ کو اسلام اور کفر کی جنگ قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی۔لہٰذا دونوں طرف کے فوجیوں کی دلی کیفیات کا منٹو نے بڑے ہی حقیقت پسندانہ انداز میں نقشہ کھینچا ہے۔:

’’دل میں بڑا ولولہ ،بڑاجوش تھا۔بھوک پیاس سے بے پروا،صرف ایک لگن تھی۔دشمن کاصفایا کر دینے کی ۔مگر جب اس کاسامنا ہوتا تو جانی پہچانی صورتیں نظر آتیں۔بعض دوست دکھائی دیتے،بڑے بغلی قسم کے دوست جو پچھلی لڑائی میں اس کے دوش بدوش اتحادیوں کے دشمنوں سے لڑے تھے۔پر اب جان کے دشمن بنے ہوئے تھے۔‘‘

         اس افسانہ میں آخری سلیوٹ میں ،منٹو نے یہ تاثر دیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے فوجی ۔کشمیر میں ایک دوسرے کے خلاف جنگ تو لڑ رہے تھے لیکن ان کے دلوں میں بھی یہ سوال اُٹھ رہا تھا کہ وہ کیوں اور کس کے خلاف جنگ کر رہے ہیں ؟منٹو نے فوجیوں کی اس بے اطمینانی کو رب نواز کے حوالے سے پیش کیا ہے۔رب نواز کو اس کے پاکستانی آقائوں نے یہ بتایا تھا کہ مسلم اکثریتی صوبہ کشمیر کاالحاق صرف اور صرف مسلم اکثریتی ملک پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔لیکن جب رب نواز دیکھتا تھا کہ کل تک جو اس کے دوست تھے،راتوں رات دشمن ہو گئے کہ اس جنگ میں وہ اس دشمن کے خلاف لڑ رہا تھا جو کل تک اس کاہم وطن اور ہم سایہ تھا۔

         اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ سعادت حسن منٹو نے کبھی نہ تو دو قومی نظریہ کو تسلیم کیا نہ ملک کے بٹوارے کو اور نہ تقسیم ملک کے بعد وطنیت کی نئی تشریحات کو۔منٹو نے اس افسانے کے بین السطور یہ سوال اٹھایا ہے کہ تقسیم ملک کے بعد کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے ساتھ مل گیا اور دوسرا ہندوستان کے ساتھ۔تو پھر جو اپنی زمینوں سے اکھڑ کر نئی زمینوں میں آباد ہوگئے۔ان کے لئے وطن کا مفہوم کیا ہونا چاہیے وہ علاقہ جہاں وہ ہجرت کر کے آئے اور سکونت اختیار کر لی پھر وہ خطہ زمین جہاں وہ پیدا ہوا،پلا بڑھا۔منٹو نے یہ سوال اس افسانہ کے مرکزی کردار رب نواز کی خود کلامی کے ذریعے نمایاں کیا ہے۔رب نواز سوچتا ہے:

’’یہ وطن پہلے بھی اس کا وطن تھا۔وہ اس علاقے کارہنے والا تھا جو اب پاکستان کاایک حصہ بن گیا تھا ۔اب اُسے اپنے اس ہم وطن کے خلاف لڑنا تھا جو کبھی اس کا ہم سایہ ہوتا تھا۔جس کے خاندان سے اس کے خاندان کے پشت ہا پشت کے دیرینہ مراسم تھے۔اب اس کاوطن وہ تھا جس کا پانی تک بھی اس نے کبھی پیا تھا۔‘‘

         افسانہ ’آخری سلیوٹ‘ کااختتام جنگ کے ایک درد ناک منظر کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ منظر کچھ اس طرح ہے:

’’کشمیر کی ایک پہاڑی پر جھڑپ جاری تھی۔جس میں ایک طرف صوبیدار رب نواز اور دوسری طرف رام سنگھ کے سپاہی صف آرا تھے۔یہ محاذ ِ جنگ دریائے کشن گنگا (پاکستان میں دریائے نیلم) کے کنارے اس سڑک کے لئے جو مظفر آباد ’’کرن‘‘ جاتی ہے ۔دونوں طرف سے گولیوں اور گالیوں کا تبادلہ ہو رہا تھا۔لیکن اسی دوران صدیوں کابھائی چارہ ،مذہب اور سیاست ،نفرت اور عداوت سب پر حاوی ہو جاتا ہے۔منٹو نے یہ منظر بڑے ہی جذباتی انداز میں پیش کیا ہے۔رب نواز گالی کے جواب میں خود بھی اونچی آواز میں گالی دیتا ہے۔اُدھر زخمی پڑا ہوارام سنگھ اپنے بچپن کے یار رب نواز کی آواز پہچان لیتا ہے اور۔ایک دم اُدھر سے ایک زخمی آواز بلند ہوئی:

رب نواز ۔۔۔۔

رب نواز کانپ گیا۔

رام سنگھ کی آواز پھر گونجی

اوئے کمہار کے کھاتے۔

رب نواز پھوں پھوں کرنے لگا۔۔۔وہ بڑبڑایا۔’’بکتا ہے خنزیر کی دُم۔پھر اس نے رام سنگھ کو جواب دیا۔

اوئے بابا ٹل کے پرشاد۔اوئے خنزیر کے جھٹکے۔

پھر محاذپر دوستی اور محبت کی فضا چھا جاتی ہے لیکن اسی دوران غلطی سے رب نواز کی غیر ارادی گولی سے رام سنگھ زخمی ہوجاتا ہے۔رب نواز دم توڑتے ہوئے رام سنگھ کے پاس جاتا ہے۔

رام سنگھ نے اپنی آنکھیں کھولیں۔لیٹے اٹینشن ہوکر اس نے سلیوٹ کیا۔۔۔۔

۔۔۔اس کا سلیوٹ کرنے والا اکڑا ہوا ہاتھ ایک دم گرگیا۔۔۔اس نے بڑ بڑانا شروع کیا’’کچھ نہیں ۔اوئے رام سیاں۔۔۔بھول ہی گیا تو سور کے نلا۔۔۔

کہ یہ لڑائی ۔۔۔۔۔یہ لڑائی‘‘۔

         ڈاکٹر خالد اشرف نے درست لکھا ہے کہ افسانہ ’آخری سلیوٹ ‘ میں رام سنگھ کی موت نہ صرف ایک بے گناہ اور معصوم انسان کی موت ہے بلکہ اس تصور کی علامتی موت بھی ہے جو برصغیر ہندوپاک میں کئی صدیوں کی ہندومسلم یگانگت کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا اور جسے مشترکہ کلچر کے نام سے معنون کیا جاتا ہے۔رب نواز اور رام سنگھ ہندوستانی عوام کی مشترکہ تہذیب اور ملی جلی وراثت کی نمائندگی کرتے ہیں جہاں مذہب ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانے کا نہیں بلکہ ایک دوسرے کے احساسات واعتقادات کے احترام کادرس دیتا ہے۔

         اگر دیکھا جائے تو اپنے کئی دوسرے افسانوں کی طرح منٹو نے اپنے اس افسانہ ’آخری سلیوٹ‘ میں بھی مشترکہ تہذیب کی عصری معنویت کو نمایاں کیا ہے۔

٭٭٭

Leave a Reply