You are currently viewing مٹھی بھر چھائوں کا تنقیدی جائزہ

مٹھی بھر چھائوں کا تنقیدی جائزہ

مسعوداحمد

ریسرچ اسکالر ،جواہرلعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی

’’مٹھی بھر چھائوں ‘‘کا تنقیدی جائزہ

افسانہ، ناول کے مقابلے میں مختصر اور داستان کے مقابلے میں مختصر ترین صنف ہے۔اپنے اختصار کے باعث صنف افسانہ نے بہت جلد اردو ادب میں اپنا ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔افسانے کا کینوس محدود ہونے کا سب سے اہم فائدہ وحدت تاثر کی برقراری ہے۔اس برقراری کی بدولت افسانہ نگار منتشرالخیالی کا شکار ہونے سے بچ نکلتا ہے۔یہی اختصار افسانے کو دوسری نثری اصناف سے مشکل بھی بناتا ہے۔اردو افسانے کی ابتدا پریم چند کے مجموعہ ’’سوزوطن‘‘سے مانی جاتی ہے۔مقام استعجاب ہے کہ صنف افسانہ کا پہلا مجموعہ ہی قابل ضبط ٹھہرا۔اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ اس صنف میں ظلم کے خلاف اور مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانے کی قوت فطری ہے۔ضبط و پابندی کا یہ سلسلہ سجاد ظہیر،عصمت چغتائی اور سعاد ت حسن منٹو کے افسانوں تک چلتارہا۔متذکرہ افسانہ نگاروں کے افسانوں پر عائد حکومتی پابندی اور عدالتی کاروائی نے اس صنف کو مقبول کرنے میں غیر ارادی تعاون دیا۔بیسویں صدی کی چھٹی دہائی سے اردو میں علامتی ،تمثیلی اور تجریدی افسانے کا ظہور ہوا۔پاکستان میں یہ عمل انور سجاد اور انتظار حسین کے عہد کی نسل نے شروع کیا۔ہندوستان میں ایسے افسانوں کے بانی بلراج مینرا اور سریندر پرکاش ٹھہرے۔

         پرویز مانوس کا تعلق جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ سے ہے۔یہ وہی شہر ہے جہاں ایشیا کے عظیم افسانہ نگار کرشن چندر نے اپنی ابتدائی کہانیاں سپرد قلم کیں۔پونچھ اور راجوری اضلاع پیرپنجال کے دامن میں واقع ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عوامی سطح پر انسانی سوچ کو محدود رکھنے میں ان پہاڑوں کا اہم رول رہا ہے،تاہم ان کے دامن سے پھوٹتے جھرنوں اور قدرت کے دوسرے مناظر نے ادیبوں کے لئے مناسب ماحول فراہم کیا۔پرویز مانوس حساس طبیعت واقع ہوئے ہیں۔وہ ایک عرصے سے وادی کشمیرمیں مقیم ہیں۔جس شخص کی زندگی کے ابتدائی ایام پونچھ جیسی پہاڑی مگر زرخیز سرزمین پہ گزرے ہوں،جس کی جوانی نے وادی کے حسن میں اپنے حسن کو ملا کر دیکھا ہو،جس کی تخلیقی حس نے زمان و مکان کے دائرہ میں رہتے ہوئے حالات و واقعات کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا ،ہو اس کے افسانو ں کا فنی اعتبار سے پختہ اور صنفی اعتبار سے کامیاب ہونا یقینی ہے۔

         ’’مٹھی بھر چھائوں ‘‘موصوف کادوسرا افسانوی مجموعہ ہے۔یہ سال 2014ء میں درخشاں پبلی کیشنز ،آزاد بستی سرینگر سے چھپ کر منظر عام پر آیا۔اس سے پہلے ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’شکارے کی موت‘‘کے عنوان سے 1995ء میں چھپ کر قبول عام حاصل کر چکا تھا۔’’مٹھی بھر چھائوں‘‘ میں کل انیس کہانیاں شامل ہیں۔جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔درد کی دہلیز،قدرت،سفید خون،خراشیں،برگشتگی،گھونسلے،آس بھرے دونیناں،فساد،امی گھر چلو نا،دلدل،صابن کی ٹکیا،سحر نو،محسن،انصاف قدرت کا،الٹی گنگا،چوڑیاں،محبت ایسی دھڑکن ہے،آخری چنار اور راکھ ارمانوں کی۔

افسانوں کے عناوین قاری کو پہلی قرات میں چونکا دیتے ہیں۔اس طرح کے عناوین قائم کرنے سے افسانہ نگار کی تخلیقی حس اور ذہنی اپج کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔موصوف کے افسانوی کردار زندگی کی پریشانیوں سے گھبرا کر بھاگتے نہیں بلکہ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔وہ راہ فرار میں یقین نہیں رکھتے۔ان کے افسانوں میں جیتے جاگتے کردار ہیں۔اشارہ و کنایہ کے پردے میں لپیٹ کر اپنی بات کہنے سے افسانہ نگار نے شعوری اجتناب برتا ہے۔وہ زندگی کو ا س کی اصل شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔اپنے کرداروں میں مصنوعی یا فرضی اوصاف بتانے میں موصوف یقین نہیں رکھتے۔ان کے ہاں پریم چند کی حقیقت نگاری،کرشن چندر کی منظر نگاری،منٹو کی بے باکی ،عصمت چغتائی کی روایت شکنی،راجندر سنگھ بیدی جیسی افسانوی بنت اور حیات اللہ انصاری جیسی طبقاتی ترجمانی بآسانی مل جاتی ہے۔مقام حیرت ہے کہ موصوف کا تعلق مابعد جدید نسل سے بھی بعد کا ہے۔انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اکیسویں صدی کے ادیب ہیں۔آج کے انسان کے تقاضے بیسویں صدی کے انسانی تقاضوں سے یکسر مختلف ہیں۔موصوف اس امرسے بخوبی واقف ہیں۔اس لئے وہ افسانے میں اپنا الگ رنگ بکھیرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔’’مٹھی بھر چھائوں ‘‘کا ابتدائیہ اردو کا مشہور افسانہ نگار نور شاہ نے لکھا ہے۔وہ پرویز مانوس کی افسانوی انفرادیت پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

         ’’مٹھی بھر چھائوں‘‘اس عنوان میں رنگارنگی اور معنویت نظر آتی ہے۔نازک احساس کی لہک محسوس ہوتی ہے۔اس مجموعے میں شامل افسانے پڑھ کر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ پرویز مانوس کا افسانے لکھنے کا اپنا ایک انداز ہے۔ان کے افسانے تجربات اور احساسات کے آئینہ دار ہیں۔ان کے افسانوں میں زبان و بیان کی نزاکتیں ملتی ہیں۔انسان دوستی کی فضا ملتی ہے۔خواتین کی بیچارگی کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔بھوک ،افلاس اور ناداری کی ان گنت تصویریں کینواس پر لکھی جاتی ہیں۔اونچے ایوانوں میں ہو رہی بداعمالیوں کی عکاسی ملتی ہے۔وہ سرمایہ دار اور سیاست دانوں کے چہروں کی نقاب کشائی کر کے ان کو عوامی عدالت میں پیش کرنے سے ہرگزہرگز نہیںڈرتے۔آج کے اونچے اور بڑے لوگوں کے قول و فعل اور کردار کی صحیح عکاسی کرنے سے نہیںہچکچاتے ۔مٹھی بھر چھائوں میں شامل اکثر افسانوں میں کشمیر کی دھواں دھواں فضائیں ملتی ہیں،ٹوٹے ٹوٹے مناظر ملتے ہیں۔تبدیل ہوتی ہوئی زندگی کے آثار نظر آتے ہیں۔‘‘

(مٹھی بھر چھائوں،ابتدائیہ از نورشاہ)

نور شاہ کے اس اقتباس سے پرویز مانوس بٹ کی افسانہ نگاری کی مختلف جہات کا اندازہ ہوتا ہے۔افسانہ نگار کو جس بنیادی وصف کا حامل ہونا چاہیے وہ ہے نڈرہونا۔موصوف انتہائی نڈر اور حق گو ادیب ہیں۔ان کی کہانیوں پر بات کرنے سے پہلے کشمیر کے حالات کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔دراصل موصوف نے جب افسانے لکھنے شروع کئے تو وادی کشمیر کے حالات مجموعی اعتبار سے ایک عجیب کروٹ لے رہے تھے۔1989ء میں وادی کے حالات میں نمایاں تبدیلی آئی۔یہ تبدیلی اپنے ساتھ ہر اعتبار سے بربادی کی سوغات لئے رونما ہوئی۔انسانی چین و سکون رفتہ رفتہ عنقا ہونے لگا۔افراتفری،سیاسی انتشار اور ذہنی تنائو کا دور شروع ہوا۔اسی سال موصوف کا پہلا افسانہ ’’احساس‘‘روزنامہ ہند سماچار میں شائع ہوا۔اس نکتے کی جانب اشارہ ان کے افسانوی سفر کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو گا۔

         ’’مٹھی بھر چھائوں ‘‘کی پہلی کہانی کا عنوان ’’درد کی دہلیز‘‘ہے۔یہ افسانہ موصوف کی فنی بصیرت کا بین ثبوت ہے۔اس مابعد صداقت اور مابعد جدید کے بعد کے دور میں جب انسان کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں۔دنیاوی رنگارنگی اور چہل پہل کے باوجود انسان تنہا ہے۔بے چینی اور بے اعتنائی آج کے انسان کا مقدر ہے۔انسانی اقدار دم توڑ رہی ہیں۔اور انسان حالی کے الفاظ میں خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ان تمام امور کا متذکرہ افسانہ میں فنی خوبصورتی کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔ایک بوڑھا شخص جس کے دور میں اور آج کے دور میں واضح فرق آچکا ہے۔اس دور میں محبت تھی،ہمدردی تھی،انسانیت اور اخوت و بھائی چارگی تھی۔آج کے دور میں ان خصوصیات کی جگہ نفرت نے ،بے مروتی نے اور منافقت نے لے رکھی ہے۔اسی لئے اس بوڑھے شخص کو ایک بس کنڈیکٹر سے لے کر پڑھے لکھے ڈاکٹر تک سے ایک ہی جواب اور ایک ہی انداز میں ملتا ہے۔تعلیم بھی کوئی خاص فرق قائم نہیں کر پائی۔افسانے میں گر چہ ظاہری طور پر کوئی کردار نہیں تاہم بوڑھے شخص کے علاوہ بس کنڈیکٹر،ہوٹل والا،کلینک کا ہیلپر اور ڈاکٹر اس کے ضمناً کردار ہیں۔کہانی کے آخر میں وہ بوڑھا شخص بھیڑ سے بھری اس دنیا سے اکتا کر ایک جگہ کووں کے ہجوم کو دیکھتا ہے ۔یہ کوے اپنے ایک ساتھی کی موت پر ماتم کناں ہیں۔وہ کسی آدم ذات کو اس جانب جانے دینے کے لئے راضی نہیں ۔یہ منظر دیکھتے ہی اس بوڑھے شخص کو اپنے انسان ہونے پر افسوس ہوتا ہے۔وہ اپنے آپ پر ترس کھاتا ہے اور شرم کے مارے پسینہ پسینہ ہو جاتا ہے۔پرویز مانوس کا یہ طنزیہ انداز افسانے میں مزید جان ڈال دیتا ہے۔موصوف نے اس بوڑھے شخص کے ذریعے آج کے انسان کی پستی کی وجوہات کو بیان کیا ہے۔یہ افسانہ آج کی انسانیت کے مجموعی المیے کو بیان کرتا ہے۔

         افسانہ ’’قدرت‘‘پہلی ہی قرات میں قاری کے رونگٹے کھڑا کر دیتا ہے۔اس افسانے میں افسانہ نگار نے سماج کی تلخ حقیقت کو بہترین انداز میں الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔متذکرہ افسانے میں ان کا مخاطب مسلم سماج ہے۔اسلامی تاریخ اپنے اندر متعدد نشیب و فراز لئے ہوئے ہے۔طلوع اسلام سے قبل جہالت کا دور دورہ تھا۔اس دور میں دوسری مروج برائیوں کے علاوہ ایک بڑی برائی بچیوں کو زندہ درگور کرنا تھا۔رسالت مآب ﷺ کی آمد سے یہ جہالت بھرا دور اسلام کی روشنی سے منور ہوا۔افسانہ نگار نے صدر اسلام کے قبل کے دور کاآج کے دور سے تقابل کیا ہے۔آج انسان ترقی کے دعوے کرتا تھکتا نہیں۔اکیسویں صدی کو سائنس اور فلسفہ کی صدی ہونے کا شرف حاصل ہے۔باوجود اس کے بچیوں کے تعلق سے آج کا سماج اس وقت کے سماج سے بدتر نظر آتا ہے۔آج Sex determinationکے بعد بچیوں کا اسقاط حمل کردیا جاتا ہے۔انہیں اس دنیا میں آنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔اس صورتحال کے ہوتے ہوئے اگر کوئی ترقی یافتہ سماج ہونے کا دعوی کرتا ہے تو یہ دعوی مضحکہ خیز ہو گا۔سوال یہ ہے کہ ان نومولود بچیوں کا قصور کیا ہے۔؟ کیوں انہیں اس دنیا میں آنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔کیا ایسا عمل کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی ایک عورت کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں۔عورت نے انہیں نو مہینے اپنی کوکھ میں رکھا۔قریب ڈھائی سال تک اپنا دودھ پلایا۔باوجود اس احسان کے عورت ذات کے ساتھ اس قدر ظلم روا رکھنا کہاں کی انسانیت ہے۔افسانے میں بیگم عثمانی کی محبت اور خوشی دراصل نئے مولود بچے کو لے کر نہیں تھی،بلکہ صرف لڑکے کے لئے تھے۔یہی وجہ تھی کہ کل تک وہ اپنی بہو کو دیکھنا گوارا نہیں کرتی تھی آج اس کی بلائیں لیتے تھکتی نہیں ہے۔ماں کے رویے میں یکلخت آئی اس خوش گوار تبدیلی نے عدنان کو اچھنبے میں ڈال دیا۔نوشی اس افسانے کی مرکزی کردار ہے۔وہ ایک باہمت ،سلیقہ مند اور باعزت عورت ہے۔وہ ہر کسی کی بھلائی چاہتی ہے۔باوجود اس شرافت اور محبت کے وہ سماج کے عتاب سے محفوظ نہیں رہ پاتی۔یہ معلوم ہونے پر کہ نوشی کے رحم میں پلنے والا نو مولود جنس بچی ہے ،اس کی ساس اور خاوند اس کی مرضی کے بغیر ہی اسے ہسپتال میں بغرض ابارشن لے جاتے ہیں۔راستے میں بیگم عثمانی ایک حادثے کا شکار ہو جاتی ہے۔حادثے میں آئی چوٹوں کی تاب نہ لاکر وہ بالآخر دم توڑ دیتی ہے۔اسی حادثے میں نوشی کا حمل گر جاتا ہے۔وہ ابارشن جیسے تکلیف دہ مرحلہ سے گزرنے سے بچ جاتی ہے۔عدنان تاعمر باپ بننے کا خواب دیکھنے سے آزاد ہو جاتا ہے۔کیونکہ حمل گر جانے سے نوشی اب بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی۔فاضل مصنف نے افسانے کو ایک خوبصورت موڑ دے کر ختم کر دیا ہے۔انہوں نے اس افسانے میں قدرت اور انسان کے مابین ٹکرائو کو بیان کیا ہے۔انسان جب قدرت کے خلاف کوئی عمل کرتا ہے تو قدرت اسے سبق سکھانا نہیں بھولتی۔اس افسانے میں بیگم عثمانی اور عدنان کو یہی سبق ملا ہے۔

         مجموعے میں شامل تیسری کہانی کا عنوان ’’سفید خون‘‘ہے۔اس افسانے کو پڑھنے کے بعد اس بات کا یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس عمر کا افسانہ نگار اتنا عمدہ فن پارہ تخلیق کر سکتا ہے۔ہم گزشتہ صفحات میں عرض کر چکے ہیںکہ موصوف کا افسانے سے طبعی میلان ہے۔افسانہ لکھنا ان کا شوق بھی ہے اور مافی الضمیر بیان کرنے کا وسیلہ بھی۔ان ہی دو وجوہات کی بنیاد پر وہ اچھے افسانے تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔متذکرہ افسانہ کے کردار دیناناتھ نے دو شادیاں کر رکھی ہیں۔پہلی بیوی سے انہیں دو بیٹے تھے۔جن کے نام بشن اور کشن تھے۔بشن اور کشن کو یہ شک تھا کہ ان کے باپ نے اپنے ایک مخصوص کمرے میں سونے کی اینٹیں رکھی ہیں۔وہ دونوں ان اینٹوں کو ہتھیانا چاہتے تھے۔یہ عمل بنا دینا ناتھ کا قتل کئے ممکن نہیں تھا۔غور طلب بات یہ ہے کہ وہ یہ قدم صرف شک کی بنیاد پر اٹھا تے ہیں۔دیناناتھ نے اس افسانے میں ایک بلیغ جملہ کہا ہے۔’’مچھیرا اپنی ماں کو کھا رہا تھا اور لوگ سمجھ رہے تھے کہ مچھلی کھا رہا ہے۔‘‘یہ جملہ اپنے اندر طنز کے علاوہ بلیغ معنی رکھتا ہے۔پرویز مانوس اکثر اپنے کرداروں سے ایسے جملے کہلواتے ہیں۔جنہیں اگر کھولا جائے تو ہر جملہ اپنے آپ میں ایک افسانہ بن جائے۔مادہ پرستی کے اس دور نے انسانی رشتوں کو سب سے زیادہ چوٹ پہنچائی ہے۔آئے روز اخباروں کی سرخیوں میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ فلاں بیٹے نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔فلا ں بیوی نے اپنے آشنا سے مل کر اپنے خاوند کو موت کی نیند سلادیا۔فلاں بھائی نے اپنی بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔یہ سب واقعات اسی مادہ پرستی کی دین ہیں۔متذکرہ افسانے میں بھی دونوں بیٹے کانتا کی حماقت کا شکار ہوتے ہیں۔کانتا دیناناتھ کی دوسری بیوی ہے۔بشن اور کشن اپنی ماں کی موت کو بھول جاتے ہیں۔درندگی کی تمام حدوں کو پار کر دیتے ہیں۔افسانے کے اختتام پر جب کشن اور بشن باپ کے اس کمرے میں گھستے ہیں جس میں سونے کی انیٹیں ہونے کا شک ہے، تو دیکھتے ہیں کہ وہاں تو صرف ان کی ماں شیلا کی ایک قد آور تصویر ہے۔یہ دیکھتے ہی بشن کے ہاتھ سے لالٹین گر جاتا ہے۔یہاں سے قاری کے ذہن میں مختلف کہانیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔افسانہ کے ختم ہوتے ہی قاری کے ذہن میں نئی کہانی کا شروع ہونا فن افسانہ نگاری کا کمال ہے۔اس کمال کو پرویز مانوس بٹ نے بخوبی نبھایا ہے۔

افسانہ ’’برگشتگی‘‘میں دولت کی فراوانی انسانی پیار و محبت کا کس طرح خاتمہ کرتی ہے پر گفتگو کی ہے۔اولاد والدین کے جس پیار کی متقاضی ہوتی ہے وہ والدین زندگی کی دوسری مصروفیات کی بنا پر نہیں دے پاتے۔یہی وجہ ہے کہ والدین اور اولاد کے تعلقات میں بنیادی دراڑ پڑنے لگتی ہے۔ایسے والدین چاہے اپنے بچوں کو جتنی مرضی آسائشیں دے لیں لیکن وہ اپنا تقدس اور احترام ان کے دلوں میں قائم نہیں کر سکتے۔اس افسانے میں اسی صورتحال کا سامنا خان صاحب کو کرنا پڑتا ہے۔خان صاحب کو دولت کے نشے نے حد درجہ چور کر رکھا تھا۔یہاں تک کہ وہ اپنی بیٹی کو اس کی بھینٹ چڑھانے سے بھی نہیں چونکتے ۔انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ایک ایسے گھرانے میں کروائی جو مال و دولت کے اعتبار سے بہت فعال تھا۔ اس شادی کا انجام جلد ہی طلاق کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔گر چہ افسانہ نگار نے مہر کی واپسی کا ذکر کے افسانے کو طربیہ بنانے کی کوشش کی ہے لیکن ا س سے سماج کی فرسودہ حقیقت کی تلافی نہیں ہوتی۔لڑکی کی ملاقات اس کی ماں سے ہوتی ہے۔اس ملاقات کے دوران ان کے مابین کیا بات چیت ہو تی ہے ا س کا ذکر افسانے میں نہیں ملتا۔

         ’’آس بھرے دو نیناں‘‘افسانہ قاری کو انتہائی جذباتی بنا دیتا ہے۔یہ افسانہ موجودہ سماج جو ہر اعتبار سے فرسودہ ہے کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔ایک ایسا سماج جس میں انسان کی انفرادی حیثیت کی کوئی اہمیت نہیں ۔جہاں روایات و خرافات ہی سب کچھ ہیں۔ان کی پاسداری اس سماج سے منسلک ہر فرد کی اولین ذمہ داری تصور کی جاتی ہے۔روایت شکنی یا مروج خرافات سے رو گردانی ایک طرح سے گناہ عظیم ہے۔اگر کوئی شخص اپنی مرضی سی کسی بھی شعبے میں قدم اٹھاتا ہے تو اسے سماج بدر کر دیا جاتا ہے۔مختلف قسم کے لعن طعن کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس افسانے میں ’’وہ‘‘علامتی کردار ایک ایسے شخص کی نمائندگی کر رہا ہے جو سماج کے خلاف قدم اٹھا تا ہے۔اس کا یہ قدم میدان عشق سے تعلق رکھتا ہے۔اس نے اپنی مرضی سے اپنی پسندیدہ لڑکی سے شادی تو کر لی ،لیکن اس کا یہ عمل سماج کو ہضم نہیں ہوا۔صرف سماج ہی نہیں بلکہ اس کے قریبی رشتہ داروں نے بھی اس سے قطع تعلقی میں پناہ لی۔نتیجتاً اسے مجبوراً ہجرت کرنا پڑی ۔وہ اپنی بیوی اور بیٹی ’’درخشاں‘‘کو یہیں چھوڑ جاتا ہے۔ایسا اس نے کیوں کیا اس کی وضاحت افسانہ میں نہیں ملتی ۔ممکن ہے اس کے مالی حالات ان کو ساتھ لے جانے کی اجازت نہ دیتے ہوں۔تاہم وہ بیوی اور بیٹی کی یادو ں سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کرپاتا۔ہمارے سماج کی اس سے بہترین عکاسی کیا ہو سکتی ہے۔پرویز مانوس کا ایک افسانوی وصف یہ ہے کہ حقیقت کو افسانہ کا روپ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ان کے کردار جیتے جاگتے سماج سے تعلق رکھتے ہیں۔تخیلاتی کرداروں کی موجودگی اور علامتی یا استعاراتی انداز بیان سے وہ دانستہ پرہیز کرتے ہیں۔

         افسانہ ’’فساد‘‘عورتوں کی فطرت کے ارد گرد گھومتا ہے۔عورتوں میں ایک دوسرے سے چڑنے،لڑنے اور جلنے کا جذبہ مرد کے بالمقابل زیادہ ہوتا ہے۔ان کا یہی جذبہ سماج میں بہت ساری نامناسب اور نقصان دہ چیزوں کو جنم دیتا ہے۔بلکہ اول اول جو گھریلو لڑائیاں شروع ہوتی ہیں وہ جلد ہی قبیلوں تک پہنچ جاتی ہیں ۔کبھی کبھی دو سماج آمنے سامنے آجاتے ہیں۔اس صورتحال کے پیچھے عورت کی بدگمانی اور بد ظنی کا راست عمل دخل ہوتا ہے۔زیربحث افسانے میں پہلے دو عورتوں کے مابین بول چال ہوتی ہے۔رفتہ رفتہ یہ’’ میں میں توتو‘‘ ایک بڑے فساد کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔جسے بعد میں آسانی کے ساتھ مذہبی رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔جب جگھڑے کی بنیاد مذہب بن جائے تو ہم جانتے ہیں کہ انسانیت کاجنازہ اٹھ جانا طے ہے۔درندگی اور حیوانیت اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ لیتے ہیں۔افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ باوجود اس سنگین صورتحال کے وہ اپنے کرداروں میں چھپی انسانیت کو تلاش لیتے ہیں۔یہ کام سعادت حسن منٹو نے اکثر کیا ہے۔ان کا کردار چاہے جتنا بھی انسان دشمن بننے کی کوشش کیوں نہ کرے لیکن وہ اپنے اندر کی انسانیت سے دست بردار نہیں ہو سکتا ۔پرویز مانوس منٹو کے اس طریقہ کار کو یہاں دہرانے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔افسانے کا اختتامیہ جملہ قاری کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔’’تم سارے کلمہ پڑھ لو۔پھر سارے کلمہ پڑھ کر دروازے کی پشت پر کھڑے ہو گئے۔‘‘

         ’’امی گھر چلو نا‘‘یہ افسانہ ہمارے عدالتی نظام بالخصوص وکلاء کے حالات کو بیان کرتا ہے۔اس میں افسانہ نگار نے طنزیہ انداز بیان اختیار کیا ہے۔افسانے کا مرکزی کردار زرینہ نامی ایک عورت ہے۔جو اپنے بچے کو اٹھائے اپنے وکیل کا انتظار احاطہ عدالت میں کر رہی ہوتی ہے۔اسے اب پوری طرح یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ لوگ مقدمہ بازی سے گریز کیوں کرتے ہیں۔کیونکہ وہ مسلسل ڈھائی سال سے اپنے وکیل کو پیسے دیے جا رہی تھی۔مثلاًیہ جملہ ’’اب تو وکیل کی توند بھی نکلنے لگی تھی لیکن مقدمہ تھا کہ انگور کی بیل کی طرح لمبا ہوتا جارہا تھا۔‘‘اس جملے سے وکالت کے پیشے سے جڑے افراد کی پوری تاریخ کا انداز ہ ہو جاتا ہے۔انہیں اپنے موکل کے فیصلے سے اتنی رغبت نہیں ہوتی جتنی ہر ماہ پڑنے والی اپنی تاریخ سے ہوتی ہے۔اگر فیصلہ جلدی ہو جاتا ہے تو ظاہرہے اس کا نقصان وکیل کو ہو گا۔اس لئے ان کی کوشش رہتی ہے کہ فیصلہ کو حتی الوسع کوشش کر کے التوا میں رکھا جائے۔وکیلوں کے علاوہ اس افسانے میں ایک زمین دار کی تصویر کشی بھی ہوئی ہے۔یہ زمیندار ہی اکثر لوگوں کو عدالت کا راستہ بتایا کرتا تھا۔مثلاً یہ اقتباس:

’’وہ لوگ چاہتے تو ناصر کو رہا کرا سکتے تھے۔لیکن وہ ایسا کیوں کرتے۔اس طرح تو ان کے مفادات دھرے کے دھرے رہ جاتے۔ان کے شیطانی ارادوں پر پانی پھر جاتا۔زرینہ کو عدالت کا دروازہ کس نے دکھایا تھا۔یہی زمیندار ہی تو تھا جس نے ایک دستی خط دے کر زرینہ کو شہر کے سب سے مہنگےوکیل کے پاس روانہ کیا تھا۔تا کہ وہ جلدی زمین جائداد بیچنے پر مجبور ہو جائے۔زمیندار اچھی طرح جانتا تھا کہ زرینہ نے اپنی برادری کے فیصلے کے خلاف ’’ناصر‘‘سے شادی کی تھی۔اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ زرینہ ناصر کی جدائی زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کر سکے گی۔ابھی ان کی شادی کو دو ہی سال ہوئے تھے اور اسی عرصہ میں قدرت نے ان کی آغوش میں چاند سا بیٹا کاشف ڈال دیا تھا۔آخر ننھا کاشف بھی کب تک اپنے والد کی شفقت سے محروم رہتا۔زمیندار چاہتا تھا کہ زرینہ کی طرف قرض کی رقم اتنی بڑھ جائے تا کہ وہ سود سمیت نہ چکا سکے۔اور قرضہ نہ چکانے کی صورت میں اس کی ساری زمین جائیداد کا وہ مالک بن جائے۔‘‘

(مٹھی بھر چھائوں،ص89/90)

         یہ المیہ صرف کشمیری سماج کا نہیںہے بلکہ اس کا اطلاق ملک ہندوستان اور باہر کے ملکوں پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ایک زمیندار اپنے ذاتی اور حقیر مفاد کی خاطرکس طرح ایک عورت کی زندگی سے کھیلتا ہے۔اسے معصوم بچے کی آہوں کا بھی کوئی احساس نہیں اور دوسری طرف وکیل صاحب ہیں جو اسے اپنی حلال کمائی سمجھ کر پیسے پرپیسہ کھائے جا رہے ہیں۔بالآخر وہی ہوا جو زمیندار چاہتا تھا۔زرینہ کے خاوند ناصر کو ایک فرضی معاملے میں پھنسایا گیا تھا۔اس کو رہا کرانے کی خاطر زرینہ نے اپنے زیورات تک بیچ ڈالے۔جب اس سے بھی وکیل کا جی نہیں بھرا تو زرینہ نے اپنی محلے کی زمین زمیندار کے پاس گروی رکھ دی۔آخر عدالت نے فیصلہ سنایا کہ ناصر جیل ہی میں رہے گا۔اس راحت کے ساتھ کہ زرینہ بھی ا س کے ساتھ جیل ہی میں رہے گی۔کاشف کو بھی تاوقت کہ وہ ماں کا دودھ نہ چھوڑ دے کو جیل میں رکھنے کا حکم دے دیا گیا۔مختصر یہ کہ اب زرینہ جو اپنے زیورات اور زمین سے ہاتھ دھو چکی ہے کا مستقل گھر جیل ہی قرار پایا۔البتہ اسے ایک معمولی راحت یہ ملی کہ ناصر اور کاشف اس کے ساتھ ہیں۔

         ’’دلدل ‘‘افسانہ کثیر الجہت اور کثیر المعانی ہے۔اس افسانے کے کردار سماج کے حاشیے پر زندگی گزارنے والے لوگوں کو بنایا گیا ہے۔ان کے اندر موجود ہمدردی،جذبہ محبت،وفاداری اور انساں دوستی قابل رشک ہے اور قابل تقلید بھی۔افسانہ نگار یہی بات اس نام نہاد سماج کے بتانا چاہتے ہیں کہ سماج کی تشکیل میں جن بنیادی عناصر کی ضرورت ہونی چاہیے انہیں یہ حاشیے پر دھکیلے گئے لوگ ہی پورا کر رہے ہیں۔اس افسانہ میں ہمارے مذہبی سماج پر بھی گہرا اور مبنی بر حقیقت طنز ہے۔ہمارے علمائے دین اور ملائوں نے کبھی اس عورت کی پریشانی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جو اپنے جسم کا برسربازار سودا کرتی ہے۔اسے بس معتوب ٹھہرادینے ہی کو اپنی ادائیگی ذمہ داری سمجھ لیا۔ان کے برعکس افسانہ میں موجود طوائف کی زندگی کو اگر کسی نے سدھارا بھی تو وہ ایک نامور غنڈے دلاور نے۔یہ دلچسپ موڑ ابھی اپنے انجام کو پہنچتا ہی نہیں کہ افسانہ میں ایک اور موڑ جنم لے لیتا ہے۔یہ موڑ دلاور کی جانب سے فائرنگ کی صورت میں ظہور پزیر ہوتا ہے۔دلاور یہ کام محض شک کی بنیاد پر انجام دیتا ہے۔نتیجتاً اسے زندگی کے بیش قیمت سولہ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑتے ہیں۔اگر دلاور سے یہ عمل سرزد نہ ہوا ہوتا تو وہ اس طوائف جو اب تائب ہو چکی تھی کے ساتھ خوشی سے زندگی بسر کر سکتا تھا۔

         افسانہ ’’صابن کی ٹکیا‘‘کی عجیب بنت ہے۔اس میں چار طرح کے لوگ شامل ہیں۔سیاسی،بنیا،غریب اور غریب پرور۔ساتھ ہی افسانہ نگار نے دنیا کے ذوق کو سطحی بتایا ہے۔ان کے نزدیک ہماری دنیا کی بصیرت اس قدر کم ہوگئی ہے کہ وہ چیزوں کی اصل جمالیات سے لطف اندوز نہیں ہو سکتی۔میک ایپ اور ظاہری اعتبار سے بنی ٹھنی چیزیں ہی دنیا کے لئے خوبصورتی کے معیار پوری کرتی ہیں۔اس افسانے میں چمپا ایسی ہی عورت ہے جسے قدرت نے بے حد خوبصورت بنایا ہے۔وہ چونکہ دولت سے محروم ہے اس لئے میک ایپ کا ضروری سامان اسے میسر نہیں ہے۔ایسا نہ ہونے کی صورت میں سماج اور دنیا اس کے حسن کو خاطر میں نہیں لے رہے۔اس معمے کو جون ایلیا نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے۔

یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ

یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی

         تاہم چمپا جب دوسری مرتبہ صابن کی ٹکیا خریدنے جاتی ہے تو افسانہ میں رومانی فضا قائم ہو جاتی ہے۔دکان پر موجود بابو جی کے اندر کا حیوان جاگ جاتا ہے۔چمپا کی جوانی اسے بابو جی کے جال میں آنے سے روک نہیں پاتی۔دونوں جنسی اختلاط کر بیٹھتے ہیں۔اس عمل سے فارغ ہونے کے بعد دونوں کو اپنے آپ پر ندامت ہوئی لیکن بے سود ۔اس طرح افسانے میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ واقعات و حادثات کی ایک مختلف مگر مسلسل لڑی پرونا پرویز مانوس کا خاصہ ہے۔

         اب تک کے تبصرے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ پرویز مانوس بٹ نے تمام طرح کے موضوعات کو اپنے افسانوں میں شامل کیا ہے۔ان کے افسانوں میں احتجاج اور مزاحمت کی ایک زیریں لہر بھی موجود ہے۔بغاوت ان کے افسانوں کا اہم عنصر ہے۔یہ بغاوت سماج کے رسم و رواج سے،ساہوکاروں اور زمینداروں کے ظلم بھرے رویے سے اور سیاسی نظام سے ہر دوسرے افسانے میں دیکھی جاسکتی ہے۔وہ افسانے کے فن سے مکمل آگہی رکھتے ہیں۔ربط و تسلسل اور خیال کی ہم آہنگی ان کے افسانوں کا دوسرا بڑا وصف ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے افسانے مختصر ہوتے ہیں۔اتنے مختصر کہ موصوف کے اس افسانوی مجموعے کو ایک نشست میں آرام سے پڑھاجا سکتا ہے۔اس کی کل ضخامت 193صفحات ہے۔متذکرہ بالا افسانوں کے علاوہ سحر نو،محسن،انصاف قدرت کا،الٹی گنگا،چوڑیاں،محبت ایسی دھڑکن ہے،آخری چناراورراکھ ارمانوں کی جیسے افسانے اس مجموعے میں شامل ہیں۔ہم اپنے مقالے کو مشتاق احمد وانی کے اس اقتباس پر ختم کرتے ہیں۔

’’گویا اب آج کا انسان اپنے اعمال بد کے باعث مٹھی بھر چھائوں کے لئے ترس رہا ہے۔اسے زندگی کی ننگی دھوپ نے جھلسا کے رکھ دیا ہے۔وہ امن وسکون کی تلاش میں ہے۔حیرت کا ٹھاٹھیں مارتا دریا اس کے ذہن و دل میں موجزن ہے ۔آئے دن کی ہڑتالوں ،کان کے پردے پھاڑ دینے والے نعروں اور خون اگلتی تقریروں سے اب وہ تنگ آچکا ہے۔لہذا اسے اب یک گونہ سکون چاہیے۔اور وہ امن و سکون کی لہلاتی ہوئی کھیتی دیکھنے کا متمنی ہے۔‘‘(مٹھی بھر چھائوں،ص16)

Masood Ahmed

Room number 302-E Bramhaputra Hostel Jawaharlal Nehru university New Dehli,110067

Mob.7042181225

Leave a Reply