ڈاکٹر سہیم الدین خلیل الدین صدیقی
مہاراشٹرمیں اردو تحقیق و تنقید(ماضی ، حال اور مستقبل)
نام تصنیف:۔ مہاراشٹر میں اردو تحقیق و تنقید(ماضی،حال اور مستقبل)
مولف و مرتب :۔ ڈاکٹرمحمد دانش غنی
سنہ اشاعت :۔ ۲۰۲۰ء
صفحات :۔ ۳۰۴
قیمت :۔ ۳۰۰روپئے
زیرِاہتمام :۔ اسباق پبلی کیشنز،پونے
طباعت :۔ نورانی آفسیٹ پریس، اسلام پورہ، مالیگائوں
ناشر :۔ گوگٹے جوگلے کر کالج ،رتناگری۔415612
مبصر :۔ ڈاکٹر سہیم الدین خلیل الدین صدیقی (اورنگ آباد، دکن)
اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبئہ اردو ، شیواجی کالج، ہنگولی۔ ۴۳۱۵۱۳۔
ہندوستان کی ایک ریا ست کانام مہاراشٹرہے،ریاست مہاراشٹرکی سرزمین اردوزبان و ادب کے لئے قدیم زمانے سے ہی زر خیز رہی ہے۔ یہاں ولی ؔ، سراجؔ کی غزلیں ، حمیداورنگ آبادی کاتذکرہ ’’گلشن گفتار‘‘اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کی اردو تحقیق ،ترتیب و تنقید خاص اہمیت کے حامل ہے۔یہ سلسلہ آج بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ جاری و ساری ہے اورتوقع ہے کہ آگے بھی اسی طرح سے یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ موجو دہ دور کو سائنس و تکنالوجی کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید کا دوربھی کہا جاتاہے۔جس کی زندہ جاوید مثل مہاراشٹرکے محققین اور ناقدین ہیں۔جو انتھک کوششوں کے ذریعے اردو ادب کو نئے موضوعات ،نئے تحقیقی نظریات اور نیا زاویہ نظردے رہے ہیں۔ جس کی کامیاب مثال ہمیں زیر بحث موضوع ِتصنیف وترتیب’’مہاراشٹر میں اردو تحقیق و تنقید(ماضی ، حال اور مستقبل)‘‘ملتی ہے۔اس موضوع کے متعلق اظہار ِ خیال کرنااس راقم کے لیے باعث ِفخر ہے۔
زیر بحث کتاب’’مہاراشٹرمیںاردوتحقیق وتنقید‘‘ڈاکٹرمحمددانش غنی کی ترتیب کردہ تالیف ہے جس میں ۲۲/فروری/ ۲۰۲۰ء کو شعبئہ اردو،گوگٹے جوگلے کر کالج، رتناگری میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے مالی تعاون سے ایک روزہ قومی سمینار منعقد ہواتھاجس کے کنوینرڈاکٹرمحمد دانش غنی تھے اس سمینار میں کل ۳۷ مقالے پڑھے گئے تھے جس کو موصوف نے بڑی محنت سے ترتیب دیا۔ان مقالہ نگاران میں کم و بیش ۱۶ (سولہہ)ریسرچ اسکالرس کے اوربقیہ۲۱(اکیس)پروفیسرس، ڈاکٹرس اور ماہرناقدین ومفکرین کے مضامین شامل ہیں۔ان ۳۷ مقالوں کے علاوہ انتساب ہے جو کہ’’مہاراشٹر کے محققین اور ناقدین کے نام‘‘کیا گیاہے۔ اس کے فوراََ بعدڈاکٹر آفتاب عالم نجمی ؔ۔ شعبئہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ کا ڈاکٹر محمد غنی پر بہت عمدہ اظہار خیال ہے۔ اس اظہا رخیال کے بعد ان کے دوست عبید حارث کی نظم بعنوان ’’تعبیر‘‘ہے ۔اس کے بعد فہرست ہے بعد ازاں فہرست کے’’ حرف ِدانش‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر محمددانش غنی کااس کتاب پر مقدمہ ہے ۔مقدمے میں پورے سمینار کی مختصرروداداور اظہار تشکر بیان کیا گیاہے ۔اس کے بعد زیر بحث کتاب کے مولف کا خاکہ پرویز احمد کے قلم سے ’’ ایک سنجیدہ شخصیت …‘‘کے عنوان سے تحریر ہے۔جس میں محمددانش غنی صاحب کی سنجیدگی ، بھائی چارہ اور ان کی حسن و سلوکی کااظہاربڑے خوبصورت انداز میں ملتا ہے۔ یہ پرویز احمد وہی ہے جنھوں اس کتاب کا سرورق ڈیزائین کیا ہے ۔اور ڈیزئین بھی ایسا کہ ہر قاری کو اپنی طرف موہ لیں۔اس خاکے کے فوراََبعد مہاراشٹر سے متعلق اور مہاراشٹر کی تحقیق و تنقید کے متعلق ،بڑے چھوٹے گویا کہ ہر طرح کہ مقالوںکا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن مقالوں کی تفصیل میں جانے سے قبل یہ بتا نا لازمی ہے کہ اس کتاب کے بیک کور پر ڈاکٹر محمددانش غنی کی فو ٹواور اس فوٹو کے نیچے قومی کونسل برائے فرو غ اردو زبان نئی دہلی کے ڈائر یکٹرعلی جناب ڈاکٹر شیخ عقیل احمد صاحب کی ڈاکٹرمحمد دانش غنی صاحب کے متعلق قیمتی ارائیں اورساتھ ہی ساتھ اس کتاب میں تحریری تعاون دینے والے مضمون نگاران اور ریسرچ اسکالر کے لئے نایاب مشورے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لئے گوہر حرف ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب کے تمام مضامین اردو تحقیق و تنقید پر مبنی ہیںاور اسی کے ساتھ علاقہ مہا راشٹر کی سرگرم خدمات کا حسین مظاہر ہ بھی کرتے ہیں۔یہ ایسے مضامین ہیں جس میں متعدد خوبیاں موجود ہیں۔جیسے کے موضوعتی،تحقیقی، تنقیدی، تحریری ، بیانی، ظاہری، باطنی ،تکنیکی، سائنسی ، علمی، ادبی، معاشرتی اور معلوماتی وغیرہ وغیرہ ان تمام مضامین کا ،وہ زیر بحث کتاب کا مکمل جائزہ لیا جائے تو اس میں چار طرح کے مضامین دکھائی دیتے ہیں۔ایک فنی وشخصی نوعیت کے ، دوسرا تعلیمی سرگرمی کے متعلق ، تیسراتحقیقی و تنقیدی اورچوتھا صحافتی درجہ کے۔ہم چاروں اقسام کو ایک جگہ کرتے ہیں تو تحقیق و تنقید کابہت سا ادبی سرمایہ ہمارے سامنے دکھائی دیتا ہے۔ ’’مہاراشٹر میں اردو تحقیق و تنقید:ماضی، حال اور مستقبل‘‘ ایک ایسا دستاویز ہے ۔ جس میں متعددادبی شخصیتیں سانس لے رہیں ہیںاور وہ بھی ایسے جن کا تعلق سرزمین مہاراشٹرسے یا اس کے آس پاس کے علاقوں سے ہیں۔ان کے اسمائے گرام رہتی دنیاتک قائم و دائم رہے نگے۔ایسے مضامین کی تعداد ۲۴ہیںجس میں فنی وشخصی نوعیت کی جھلک ملتی ہے جن میں دو مضمون’ بابائے اردومولوی عبدالحق‘ متعلق ڈاکٹرایم آئی جرمن اورآمنہ فاروقی ،ایک’ سکندر علی وجدؔ‘کے متعلق ڈاکٹر عافیہ عظمیٰ کا ،ایک ڈاکٹر ارشد جمال کا ’شرف الدین ساحل‘،ایک مضمون ڈاکٹر غضنفراقبال کا’ڈاکٹر ظ انصاری کی ادبی خدمات‘ پر،شیخ ارم کا’’کالی داس گپتا رضاؔ‘ کے موضوع پر،ڈاکٹر ترنم کا’نذیرفتح پوری کی تحقیق ‘سے متعلق، ’محبوب راہی کی تحقیق ‘پرحناکوثر کا،اشفاق انجم، الیاس صدیقی،شیخ غلام دستگیر، مقبول احمدایک ایک مضمون ڈاکٹر شاہینہ پروین، ڈاکٹر سیماناہید ،ڈاکٹرسید تاج اور محمد عظمت کا شامل کتاب ہے، ان کے علاوہ محمد دانش غنی کے فن، شخصیت اور تحقیقی بصیرت کے متعلق پانچ مضامین ڈاکٹرنظام الدین منور،ڈاکٹرصالحہ صدیقی، ڈاکٹرصفیہ بانو،اسود گوہر اورمحمدخوشترکے ہیں، وسیم عقیل کا’صاحب علی(مرحوم)‘کے فکشن پر،’سریندر پرکاش‘ کے عنوان سے ڈاکٹر رونق رئیس کا،شیخ اصغراکبراور سہیم الدین خلیل کے دومضمون’ محمدغیاث الدین بحثیت افسانہ نگار اور فکشن نگار‘کے عنوان سے موجود ہیں،ڈاکٹر محمددانش غنی کا’میمونہ علی چوگلے کی تنقید نگاری‘کے متعلق ایک مضمون ہے اور مزید دو مضمون بعنوان ’عبدالرحیم انصاری کے آرٹ‘اور’مہاراشٹراردو تحقیق شعری اصناف ‘کے حوالے سے نسرین کولہار کے شامل کتاب ہیں۔مذکو ر صاحباََ کے علاوہ متعدد ایسے بھی نام ہیں ،جن پر خصوصی کوئی مضمون نہیںلیکن کسی نہ کسی مضمون میں ان کا تذکرہ یا تو ان کے ادبی خدمات پر تبصرہ ضرور ملتاہے۔
زیر تبصرہ کتاب کے دوسرا اہم موضوع تعلیمی سرگرمی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ہے جس کے متعلق تین مضامین جن میںایک مضمون پروفیسر سیدشہاب الحق کابعنوان’پونے میں اردو تعلیم‘ دوسراجویریہ قاضی کا’کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی‘ اور تیسرااسمابنت رحمت اللہ کا’مہاراشٹرکی نصابی کتب کا ادبی مطالعہ‘یہ تمام مضامین ہمارے علی و ادبی خدمات کے بہترین نمونے ہیں۔اس کے علاوہ اس کتاب تیسراہم موضوع مہاراشٹرمیں اردو تحقیق و تنقیدہے ۔جو کہ اس کتاب کابنیادی مقصد و موضوع ہے۔اس ضمن کل کم و بیش ۱۰ (دس) مضامین ہیںجوکہ خالص اردوتحقیق و تنقید ترجمان ہے، ویسے تو کتاب کے تمام مضامین تحقیق و تنقید کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن،کچھ مضامین ایسے ہیں جس کا موضوع بھی خالص تحقیق و تنقیدکی ترجمانی و عکاسی کر تا ہو ا نظر آتا ہے۔ان مضامین میںڈاکٹر مسرت فردوس صاحبہ کا’مراٹھواڑہ میں اردو نقاداور محقق‘،خان حسنین عاقب کا’ودربھ میں معاصر اردو تنقید وتحقیق‘، ماجد قاضی کا ’جاگتے رہو:شہر ہزارچہرہ ممبئی‘،ڈاکٹرشاہدہ نسرین کا’برار میں جامیعاتی اردو تحقیق‘،ڈاکٹر عبدالباری کا’مہاراشٹر کی جامعات میں ارد و تحقیق و تنقید‘، ڈاکٹر عبدالرحیم کا ’مہاراشٹرمیں فلموںکے حوالے سے…‘، ڈاکٹرانصاراحمدکا’شعر کے پردے میں :ایک محاسبہ ‘اور ڈاکٹرسلیم کامضمون’مہاراشٹر میں جامعاتی اردو تحقیق کے موضوعات‘وغیرہ قابل تعریف ہیں۔ ان تمام مضامین میںاردو تحقیق و تنقید کے تئیں موضوعات کا تنوع ہے ، جس میںمتعدد خوبیاں اور حسن و جمال ہے اور اتنا ہی نہیں اس میں اردو تحقیق وتنقید کے لئے نئی راہیں بھی ہموار کی گئی ۔ بہر حال اس کے علاوہ او ر ایک قسم اس تحقیقی تصنیف میں صحافت بھی ہے ۔ جس کے ضمن میںقریشی زیتون بانونے اپنا مضمون’آن لائن ماہنامہ شاعر کا تنقیدی جائزہ ‘لکھا ہے۔
زیر نظرکتاب ’’مہاراشٹرمیںاردو تحقیق وتنقید(ماضی ، حال اور مستقبل)‘‘اردو تحقیق و تنقید کی بہترین مثال ہے۔اس کے تمام مضامین عمدہ اور نمایاں ہے ۔ان مضامین کا اوربیشتر مضمون نگاروں کا تعلق ریاست’ مہاراشٹر‘سے ہیں ۔یہ کتاب علاقائی ریسرچ کاآئینہ دار ہے۔ تمام مضامین اردو ادب و قارئین کے لئے سود مند ہیں۔ویسے تو یہ سمینار میں پڑھے گئے مقالوں کا مجموعہ ہے، لیکن اس میں سمینار کے لئے اپنے انتھک کوششوں ،کڑی محنت اور گہر ے مطالعہ سے لکھے گئے مضامین ہیں، جس میں ماہرین و ناقدین کے ساتھ ساتھ ریسرچ اسکالرکی بھی قیمتی آرائیںشامل ہیں۔اسی کے ساتھ اس کتاب میں ڈاکٹر محمددانش غنی کی محنت و مشقت کا ثمرہ بھی موجود ہے۔ اس کتاب کا مقصد قارئین و ریسرچ اسکالر میںبلند خیالی پیدا کرنا اورسماج ودرس گاہ میں تعلیم یافتہ ماحول پید ا کرنا ہے۔ میں اپنی بات اس اُمیدکے ساتھ ختم کروں گا کہ یہ کتاب اردو کے ہر قاری کویقناََپسند آئے گی ،بالآخر راقم ڈائریکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو نئی دہلی کے خیال پر اپنی بات منقطع کررہا ہے کہ یہ کتاب بقول ڈاکٹرشیخ عقیل احمدکہ ڈاکٹر محمددانش غنی کی یہ کاوش غیر اردو ماحول میں اردو کا ماحول بنانے کی کو شش کا حصہ ہے اس لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
***