You are currently viewing میرؔ کی غزلوں میں ہندی الفاظ

میرؔ کی غزلوں میں ہندی الفاظ

ڈاکٹرشاہ جہاں بیگم گوہرؔ کرنولی

گیسٹ لیکچرر، ڈاکٹر عبدالحق اردو یونی ورسٹی، کرنول، آندھراپردیش

میرؔ کی غزلوں میں ہندی الفاظ

         میر محمد تقی میرؔ کو ’’خدائے سخن‘‘ کہا گیا ہے۔ اردو کے عظیم اور لازوال شاعروں کی کتنی ہی مختصر فہرست بنائی جائے وہ میرؔ کے نام سے خالی نہیں ہوسکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگ مرزا غالبؔ کو پہلا نمبر دیں مگر خود مرزا غالبؔ نے میرؔ کی فن کارانہ صلاحیت کا اعتراف کیا ہے:

ریختے کے تمھیں استاد نہیں ہو غالبؔ

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

دوسری جگہ میرؔ کی شاعری کے مختلف رنگ اور اسالیب کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے:

میرؔ کے شعر کی کیا بات کہوں اے غالبؔ

جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں

         غالبؔ کے معاصر اور آخری مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر کے استاد خاقانیٔ ہند ملک الشعرأ محمد ابراہیم ذوقؔ دہلوی نے بھی میرؔ کے کمال فن کو اس طرح سراہا ہے:

نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔکا انداز نصیب         ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

         میرؔ بنیادی طور پر غزل کا شاعر ہے۔ اس نے چھ دواوین پر مشتمل ایک ضخیم کلیات اپنی یادگار چھوڑی ہے۔فارسی زبان میں شعرائے اردو کا ایک تذکرہ نکات الشعرااور خود نوشت سوانح عمری ذکر میر اور رسالہ فیض میر فارسی نثر پر ان کی قدرت کے گواہ ہیں اور فارسی غزلیات کا ایک مکمل دیوان بھی موجود ہے۔ شاعری کی تقریباً تمام اصناف میں انہوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ قصیدہ، مثنوی، مرثیہ رباعی وغیرہ لیکن ان کی شہرت کا ایوان بلند غزل کے ان وجد آفرین ، شور انگیز اور کیف آور اشعار پر قائم ہے جنھیں تیر و نشتر سے تعبیر کیا جاتا ہے یہاں تک کہ روایتی طور پر میرؔ کے بہتر (72) نشتر مشہور ہوگئے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے (72) اشعار ہی اچھے کہے ہوں دوسرے سادے مضامین بھی انہوں نے اپنی شاعری میں باندھے ہیں اور ان کی شاعری لفظ و معنی دونوں کے اعتبار سے بہت بلند ہے۔اس ضمن میں ممتاز نقاد حامد کاشمیری کی آرا ملاحظہ ہوں:

’’بعض لوگ میرؔ کو سہل پسندی کے اتنے رطب اللسان ہیں کہ ان کی سہل ممتنع کے ذیل میں آنے والی غزلوں کو بھی ان کی سہل پسندی کا ثبوت قرار دیتے ہیں۔ ایک اچھا شعر زبان کی سادگی اور روانی کے باوجود ابہام اور معنوی تہہ داری کا حاصل ہوتا ہے میر کی سہل ممتنع کے ذیل میں آنے والی شاعری کو سادہ یک رنگ یا سریع الفہم قرار دینا درست نہیں نہ ہی ان سے ان کی سہل پسندی مترشح ہوتی ہے۔ ایسے اشعار میں سادہ الفاظ میں معین یا معروف مظاہر ادا نہیں کیے گئے ہیں بلکہ انوکھے اور پیچیدہ تجربوں کا اظہار کیا گیا ہے۔‘‘

                   (مونو گراف میر تقی میرؔ۔ پروفیسر مظفر حنفی، 2009دہلی، ص:95)

         لیکن میرؔ اقلیم سخن کے تنہا تاجدار ہیں ۔ ان کی زندگی اور شاعری میں بڑی ہم آہنگی ہے۔ ان کی سیرت نے اندازو اسلوب کی تعمیر میں بڑی مدد دی ہے۔

         وہ تشنگی وہ بے چینی وہ والہانہ سپردگی وہ ضبط و نظم وہ قیامت کا سا ہنگامہ اور وہ آگ کی سی لپٹ جو ان کے کلام میں ہے اس کے حقیقی اسباب ان کی زندگی اور نفسیاتی حقائق ہی میں مل سکتے ہیں میرؔ کی سیرت کی تعمیر میں موثرات خارجی کا بھی بڑا دخل ہے۔ عشق اگر جذباتی اسلوب کا نام ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ میرؔ کے یہاں اس کے رجحانات نہایت قوی ہیں۔ ان کے یہاں جو سوزوگداز ہے وہ محض تخیلی اور جمالیاتی اثر کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح انہوں نے عشق کی جن پوشیدہ اداؤں کا ذکر کیا ہے وہ بھی بغیر اس آگ کو گلزار بنائے ہوئے ممکن نہیں۔

         میر تقی میرؔ اردو شعروسخن میں صرف شاعرانہ عظمت کے ہی حامل نہیں لسانی اعتبار سے بھی ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیاجاسکتا وہ اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے ہندی عناصر اور کھڑی بولی کی لطیف آمیزش سے ریختہ کو عوام و خواص کی منظور نظر بنایا۔ اگر چہ اس دور میں سوداؔ اور دردؔ جیسے شاعر بھی تھے۔ لیکن ان کی شاعری اور میرؔ کی شاعری میں لسانی اعتبار سے نمایاں فرق محسوس کیا جاسکتا ہے۔

         میرؔ نے کھڑی بولی کو نہایت خوش اسلوبی سے اپنے اشعار میں نبھایا ہے۔ کھڑی بولی اور ہندی زبانوں کے الفاظ کے ساتھ میرؔ نے اپنی شاعری میں ہندوستانیت اور ہندی عناصر کو زیادہ دخل دیا ہے۔ اسی سبب میرؔ ہندوستانیوں کے دل کے قریب ہیں۔ میرؔ کو ساری کائنات ہندوستان میں مغائرت کا پردہ نظر نہیں آتا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جہاں ہندوستانی پھلوں موسموں، جانوروں اور ہندوستانی معاشرے کا ذکر کیا ہے وہاں رام راون، لنکا اور اجڑے نگر کے دیے بھی پیش کیے ہیں۔ مثنویوں میں ان کے کردار شیرین،فرہاد اورلیلیٰ مجنون نہیں بلکہ پرسو رام اور اس کی بیوی جیسے ہندی کردار ہیں ،وہ بیانیہ مثنویوں میں ضمیر متکلم کی حیثیت سے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔

         زبان کی تحقیق کے متعلق سردار جعفری نے لکھا ہے کہ جدید ہندی اور اردو زبان کی تشکیل کی تاریخ میں اٹھارھویں صدی جو میر کی صدی ہے سب سے زیادہ اہم ہے۔ میرؔ کے دور تک زبان کا نام صرف ہندی یا ہندوی تھا۔ البتہ کبھی کبھی اس کو ریختہ یا دہلوی زبان کہا جاتا تھا۔ میرؔ کے دور میں اردو زبان کی اہمیت مسلم ہوگئی تھی۔ میرؔ کی استادی نے اس پر مہر ثبت کردی تھی۔ میرؔ کے دور میں  اردو شاعری کو سنوارنے کے لیے نئی ترکیبیں اور بندشیں اختراع کی جارہی تھیں۔ میرؔ نے اپنے کلام میں ہندی الفاظ ومحاورات، تشبیہات، استعارات اور کھڑی بولی کو پوری طرح قائم  رکھا۔ انہوں نے کھڑی بولی کے الفاظ خصوصاً ردیف وقافیے استعمال کیے ہیں۔ جو میر کی شاعری میں حسن پیدا کرتے ہیں۔ وہ حسن و عشق انانیت، فلسفہ حیات، غم غرض یہ کہ ہر موضوع پر اپنے مخصوص انداز میں کھڑی بولی کا استعمال کرتے ہیں:

جفائیں دیکھ لیاں، بے وفائیاں دیکھیں

بھلا ہوا کہ تیری سب برائیاں دیکھیں

         یہاں میرؔ نے وفائیاں اور برائیاں کی نسبت دیکھ لیاں، کھڑی بولی کا لفظ استعمال کرکے شعر میں روح پھونک دی ہے۔ اگر جفائیں دیکھ لیاں کی جگہ جفائیں دیکھ لیں کہتے تو شعر وزن سے گر جاتا اور شعر کی لطافت ختم ہوجاتی:

بارہا وعدوں کی راتیں آئیاں            ظالموں نے صبح کی دکھلائیاں

چل چمن میں یہ بھی ہے کوئی روش      ناز تا کے چند بے پرائیاں

         آئیاں، دکھائیاں، پروائیاں الفاظ نے موسیقیت بھی پیدا کردی ہے اور پڑھنے میں بھی لطف آتا ہے مشہور شعر ہے:

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ

مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں

         ڈاکٹر سید عبداللہ ’’نقد میر‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’میر اپنی بعض غزلوں میں بھگتی کے دوہوں سے متاثر ہیں اور ان غزلوں کو انہوں نے ادھورے گیتوں کا نام دیا ہے۔‘‘    (ڈاکٹر سید عبداللہ ’’نقدِ میر‘‘ آئینہ ادب، لاہور،1985)

         اس اقتباس کے مطابق میرؔ پر یم مارگی شعرا کے کلام سے بے حد متاثر تھے۔ گوپی سنواد جو برج بھاشا کا شاعر تھا میرؔ پر اس کے کلام کا بہت اثر ہوا۔

         میرؔ نے کھڑی بولی میں ہندی عناصر کا خیال کرتے ہوئے ان دوہوں کے اثرات کا عکس اپنے شعروں میں ظاہر کیا:

جب لگ گئے جھمکے رخسار یار دونوں

تب مہر و مہ نے اپنی آنکھیں چھپا لیاں ہیں

چلتے ہیں تو ٹھوکر لگتی ہے میرے دل کو

چالیں ہی دلبروں کی سب سے نرالیاں ہیں

         کھڑی بولی ہندوستانیت کی بہترین مثال ہے اور پھر اس پر ہندی عناصر:

صبح چمن کا جلوہ ہندی بتوں نے دیکھا

صندل بھری جبیں ہے ہونٹوں کی یہ لیا ہیں

         میرؔ کی شاعری میں فارسی کی شیرینی اور ہندی کی نمکینی کا بھی احساس اجاگر ہوتا ہے۔

         ناسخؔ کی طرح میرؔ نے ہندوستانیت سے اپنا تعلق منقطع نہیں کیا ہے۔ ان کے کلام میں ہندوستانی عناصر موجود ہیں اور وہ اردو کے ابتدائی رجحانات کا آئینہ دار ہے۔ ہندی کے ہلکے پھلکے اور میٹھے میٹھے الفاط جن میں سے بیشتر کو افسوس ہے کہ اب خارج کردیا ہے ان کے کلام کی رونق بڑھاتے ہیں بطور مثال چندمصرعے ملاحظہ ہو:

دن آج کا بھی سانجھ ہوا انتظار میں

اس سمئے میں دیکھتے ہم کو بہت آیا کرو

رات ہوئی جس جاگہ ہم کو ہم نے وہیں بسرام کیا

سنا نہیں ہے مگر یہ کہ جوگی کس کے میت

انچھر ہیں تو عشق کے دو ہی لیکن ہے بسنار بہت

         ڈاکٹر بھولا ناتھ تیواری نے ’’زبان میر کی خصوصیات‘‘ میں ان کی شاعری سے لا تعداد ہندی الفاظ کا تجزیہ کیا ہے وہ بھی افعال و ضمائر، صفات وغیرہ ہندی قواعد کے مطابق ہیں ہندوستانی عناصر میرؔ کی زبان کا اہم جز ہیں:

دل وہ نگر نہیں ہے کہ پھر آباد ہوسکے    پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کے

         بطور مثال اور چند مصرعے :

موند کر آنکھیں اگر تو دل کی طرف ٹک دھیان کرے

چلتا پھرتا ہے پر اداس اداس

مکھڑے سے کس کے تونے اے میرؔ دل لگایا

چتون کے کب ڈھب تھے ایسے

         ایسے الفاظ کے علاوہ میرؔ کے یہاں جوگ، تجنا، سنسار، سمرن، بھسم، اچرج، ہنکار وغیرہ ہندی کے سینکڑوں الفاظ مستعمل ہیں جو کہ اپنی قدیم شکل میں ہی ابتدائی حسن اور معصومیت کے ساتھ بے تکلفانہ آئے ہیں مثلا چند مصرعے ملاحظہ ہو:

پھرتے ہو میرؔ صاحب سب سے جُدے جُدے تم

دل آپ کا کسو سے شاید لگا نہیں ہے

ان نے تو آنکھیں موند لیا ہیں

تجھ کنے بیٹھے تو گھٹ جاتا ہے دل

         میرؔ کی غزلوں میں ہندوستانی فضا ایک نئے اور اچھوتے روپ میں ظاہر ہوتی ہے:

میرؔ کے دین و مذہب کو پوچھتے کیا ہو ان نے تو

قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

آتشِ عشق نے راون کو جلا کر مارا

گرچہ لنکا تھا اس دیو کا گھر پانی میں

دل و دلی گرچہ ہیں دونوں خراب

پہ کچھ لطف اس اجڑے نگر میں بھی ہیں

         بعض جگہ میرؔ نے اپنے تخلص کے ساتھ ’’جی‘‘ کا استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے اشعار میں بول چال کی گھلاوٹ پیدا ہوگئی ہے:

اول عشق میں میرؔ جی رونے لگے        خاک بھی منہ کو ملو نالہ و فریاد کرو

         اور ایک مصرع دیکھیے:

رات تو ساری کٹی سنتے پریشاں گوئی

سردار جعفری نے ’’مقدمہ نقد میرؔ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے:

’’کھڑی بولی جس پر جدید ہندی اور اردو زبان کی بنیاد ہے۔ اتنے نکھرے روپ میں میرؔ کی دین معلوم ہوتی ہے۔‘‘           (سردار جعفری ’’مقدمہ نقدِ میرؔ، مشمولہ ایڈیٹر آئینہ ادب، لاہور۔1980)

         مذکورہ بالا اقتباس صحیح نظر آتا ہے۔ کیوں کہ میرؔ کا یہ رجحان دور متقدمین سے لے کر متاخرین اور جدید دور تک قائم ہے۔ میرؔ حسن نظیرؔ اکبر آبادی، حالی، اقبالؔ، اکبرؔ، اسماعیلؔ میرٹھی، جوشؔ، آرزوؔ، چکبستؔ اور فراقؔ وغیرہ کی شاعری اس بات کا زندہ ثبوت ہیں۔

         میرؔ نے زبان اور زندگی کا رشتہ کبھی منقطع نہیں کیا، ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا خاقانی اور سعدیؔ کا کلام سمجھنے کے لیے فرہنگ کی ضرورت ہے لیکن میر کا کلام صرف اس شخص کی سمجھ میں آ سکتا ہے جو جامع مسجد کی سیڑھیوں کی زبان سے آشنا ہو۔

         شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں قرآن کو قران، پلید کو پلیت، شتاب کو شتابی، امیری کو امرائی، اور دستخط کو دو سخط نظم کیا ہے۔ اور میرؔ کے نزدیک سخنوری پیشہ نہیں ہے ’’فنِ شریف‘‘ ہے۔ میرؔ نے اس کی کوشش کی ہے کہ شاعری کا ایوان، رفیع قبول عام پر قائم کریں۔ انہوں نے زبان کے مزاج کو پہچانا ہے اور فارسی اور ہندی کے صرف وہ الفاظ استعمال کیے ہیں جو اسی میں کھپ جائیں اور رونق کو بڑھادیں ۔ الفاظ کے معاملہ میں ان کے یہاں فلاں ابن فلاں کا سوال نہیں ہے وہ صرف وہ الفاظ انتخاب کرتے ہیں جو مطلب کو دل میں اتار دیں۔ یہ اشعار نہیں شربت کے گھونٹ ہیں۔ غزلیں نہیں میٹھی میٹھی باتیں ہیں۔ وہ لفظ  کو بے جان اور بے روح چیز نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ اس کی جوہری انفرادیت کے قائل تھے اور ایسے اپنے سلیقہ شاعرانہ سے اس طرح شعر میں کھپاتے تھے کہ وہ لفظ وہیں کاہوجاتا تھا۔ اگر یوں کہاجائے تو مغالطہ نہ ہوگا کہ ان کے یہاں قلم کی تیزی بھی ہے اور رنگوں کی خوش نمائی بھی۔ وہ شاعری کو گل و بلبل میں محدود کردیتا نہیں چاہتے۔

         ایہام کے سخت مخالف تھے اور’’لفظ تازہ‘‘ کی تلاش پر زور دیتے تھے۔ ماہر لسانیات کی حیثیت سے بھی میرؔ کا درجہ ہندوستانی ادب میں بلند وبالا ہے:

بندگی کیشوں پر ستم مت کر                     ڈر خدا سے تو اے بت بے باک

رسمِ قلمرو  عشق مت پوچھ کچھ کہ ناحق            ایکوں کی کھال کھینچی ایکوں کو دار کھینچا

سنا ہے میں نے اے کھیتے ترے خلوت نشینوں سے        کہ تو دارو پیئے ہے رات کو مل کر کمینوں سے

         مذکورہ اشعار میں ’’ایک کو‘‘ کے بجائے ایکوں کا لفظ استعمال کرکے شعر کو بے وزن نہیں کیا اور ’’کھیتے‘‘ کی بجائے کھیت کے بھی کہہ سکتے تھے۔

         اوپر جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ میر ؔنے اپنی تصویروں میں کہیں فارسی کا رنگ بھرا ہے اور کہیں ہندی سے۔ کیوں کہ شروع ہی سے میرؔ کا مزاج اپنے پیش روؤں سے بالکل مختلف تھا۔ ان کا جوہر ذاتی اس نوع کا تھا اور تخلیقی اپچ ایسی زبردست تھی کہ شروع جوانی سے ہی میرؔ اپنے عہد کے مزاج سے ہٹ کر شعر کہہ سکتے تھے۔ متعدد اسلوبیاتی امتیازات کے باعث میر کا لہجہ ایسی شدید انفرادیت رکھتا ہے کہ میرؔ کا شعر پڑھتے ہی فوراً محسوس ہوتا ہے کہ یہ لہجہ دوسروں سے الگ ہے میرؔ کا آرٹ قریب نظر کی کیفیت رکھتا ہے۔ اس کا کمال یہی ہے کہ اس آرٹ پر آرٹ کا شائبہ نہیں ہوتا یعنی سادگی کے ساتھ میرؔ کی پرکاری اس درجہ تہہ نشیں کہ بظاہر سادگی ہی سادہ معلوم ہوتی ہے۔

         میر اردو کے پہلے بڑے شاعر ہیں جن کے یہاں اردو کی جتنی نشانیں، جتنے ذیلی اسالیب، جتنی لسانی جہات ملتی ہیں اتنی بعد کے کسی شاعر کے یہاں نہیں ملتی۔آخر میں میر ؔ کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا

پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا

کتابیات

1۔ میر تقی میرؔ : محمد حسین آزاد

2۔ انتخاب کلیات میرؔ: فاروق ارگلی

3۔ آئینہ ادب، لاہور:ڈاکٹر سید عبداللہ’’ نقد میر‘‘ 1985ء

4۔ آئینہ ادب، لاہور: سردار جعفری،’’مقدمہ نقد میر‘‘ 1980ء

5۔ کلیات نقد میری: مرتب زیر نگرانی ’’شمس الرحمن فاروقی‘‘

Leave a Reply