جاوید اقبال علیمی
ریسرچ اسکالرشعبہ اردو IGNOU نئی دہلی
میرے حصّے کی دنیا،ایک مطالعہ
“میرے حصّے کی دنیا”اردو کے معروف غزل گو اور نظم گو شاعر پرتپال سنگھ بیتابؔ کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔پرتپال سنگھ بیتابؔکا تعلق جموں وکشمیر کے خطّہ پیر پنجال کے خوبصورت پہاڑی علاقہ پونچھ سے ہے۔پونچھ کبھی ریاست ہوا کرتی تھی۔تقسیم ہند کے وقت اس کے دو ٹکڑے ہوگئے اور یہاں کے رہائشی جانی انجانی زمینوں کی طرف ہجرت کرگئے۔تقسیم کے وقت پھیلنے والی شورش اور فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے گیانی پریم سنگھ اپنی اہلیہ سمیت امن وامان کی زندگی بسر کرنے اور تلاش معاش کے لیے پونچھ سے ہجرت کر کے پنجاب چلے گئے ۔وہاں بھی وہ ایک شہر سے دوسرے شہر اور دوسرے سے تیسرے شہر کی طرف مسلسل ہجرت کرتے رہے۔اسی ناختم ہونے والے سفر ہجرت میں 26جولائی1949ء کو انبالہ میں گیانی پریم سنگھ کے یہاں پرتپال سنگھ بیتابؔ کی پیدائش ہوئی۔بیتابؔ صاحب سکھ قوم سے تعلق رکھتے ہیں ،ان کی مادری زبان پنجابی ہے لیکن انھوں نے ترجیحّا اردو زبان کو اظہار وبیان کا وسیلہ بنایا ۔اپنے منفردانداز بیان اور اسلوب شعری کی بنیاد پر غزل گوئی اور نظم گوئی سے ایک جہان کو متاثر کیا ۔ان کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ کرنے کویہی کافی ہے کہ وہ وقت کے معتبر ادبی جریدے ’’شب خون‘‘ میں چھپتے رہے ہیںاور مشہور نظریہ سازنقّاد شمس الرحمن فاروقی کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔موج ریگ،فلک آثار،نظم اکیسویں صدی ، خود رنگ اورایک جزیرہ بیچ سمندر ان کے شعری مجموعے ہیں۔
پرتپال سنگھ بیتابؔ کی اردو زبان وادب سے وابستگی پیشہ وارانہ نہیں تھی ،بلکہ عاشقانہ اور مخلصانہ تھی ۔پیشہ کے اعتبار سے وہ جموں وکشمیر ایڈ منسٹریشن میں مختلف معزز عہدوں کی زینت رہے ہیں۔غالبًا2020ء کے اواخر میںترکوٹہ نگر جموں میں ان کے دولت کدے پر میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔کرونا جیسی مہلک وبا کے عام ہونے کے باوجود انھوں نے آداب میزبانی کا پورا پورا خیال رکھا ،مجھ جیسے طالب علم کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آئے اور رخصت ہوتے وقت اپنے شعری مجموعوں کے ساتھ اپنی خود نوشت سوانح عمری ’’میرے حصّے کی دنیا ‘‘ بھی عنایت کی ۔’’ میرے حصّے کی دنیا ‘‘ کہنے کو تو صرف بیتابؔ صاحب کی خود نوشت سوانح عمری ہے ،لیکن درحقیقت یہ جموں وکشمیر کی تاریخ کا ایسا اشاریہ ہے جو گذشتہ تقریبًانصف صدی کے ادبی ،سماجی ،معاشرتی اور سیاسی حالات کو سمجھنے میں معاون ومددگار ہے۔میرے حصّے کی دنیا ،سولہ ابواب پر مشتمل ہے۔تمام ابواب بلاعنوان ہیں ۔کتاب کی فہرست سازی بھی نہیں ہوئی ہے۔اگر مذکورہ امور کا بھی التزام کیا جاتا تو بہتر ہوتا ۔میرے حصّے کی دنیا ،میں بیتابؔ صاحب نے اپنے سن شعور سے 2009ء یعنی اپنی ملازمت سے سبکدوشی تک کے حالات کو قلم بند کیا ہے۔انھوں نے 1947ء میں ہونے والی ہند و پاک تقسیم اور اس کے سبب سے خاندانوں کے خاندان اجڑنے ،لوگوں کے اپنے وطن میں اجنبیوں کی سی زندگی جینے کے زخم کو بھی کریدا ہے۔کہیں کہیں تو ان کے دل کا غبارسیاہی بن کر صفحات پر پھیلتا چلا گیا ہے۔بیتابؔ صاحب نے پونچھ میں جنم تو نہیں لیا مگر ایک آدھ سال انھوں نے وہاں ابتدائی تعلیم حاصل کی ہے ،پھر جوانی کے ایام میں وہ اپنی چھٹیاں گزارنے پونچھ جاتے رہے ہیں ۔وہاں کے مناظر فطرت ،ٹھنڈے اور میٹھے صافی چشمے،برف پوش سفید پہاڑ،سبز وشاداب خوبصورت وادیاں، موسم برسات میں ندی نالوں کی طغیانی ،موسم بہار میں پھولوں کی رنگینی اور فضاؤں کی رومانی،سب کچھ دیکھتے اور لطف اٹھاتے رہے ہیں۔لہذا جب وہ اپنے والدین کی پیہم ہجرت اور اپنے بچپن کی آبلہ پائی کو یاد کرکے آبدیدہ ہوتے ہیں تو زمین کے کسی ٹکڑے کو اپنی مستقل پناگاہ نہ بنانے کے پیچھے اپنے آبائی وطن پونچھ کی پر کشش وادیوںکی تاثیر بتاتے ہیں ۔لکھتے ہیں:
’’پونچھ کی یعنی اپنے گمگشتہ وطن کی اپنےParadise Lost کی کشش ہی تھی جس نے
ہم لوگوں کو کہیں اور آباد نہ ہونے دیا ۔جہاں بھی جاتے عالم یہ ہوتا کہ:۔
ہم بس گئے وہاں مگر آباد ہو نہ پائے
کچھ شہر وہ جدیدتھا کچھ ہم قدیم تھے ‘‘
(میرے حصّے کی دنیا،صفحہ نمبر 19)
پرتپال سنگھ بیتابؔ نے ایک آدھ سال کے علاوہ نویں جماعت تک کی تعلیم فیروز پور پنجاب میں حاصل کی ۔فیروز پور کے زمانہ قیام کے بہت سے واقعات کو انھوں نے اپنی سوانح عمری میں جگہ دی ہے،اس زمانہ کے اپنے ایک معاشقہ کاذکر بھی کیا ہے جس کا وہ اظہار نہیں کر پائے،اپنی اس غلطی کا انھیں اعتراف بھی ہے۔فیروز پور کے زمانہ تعلیم کے دوران انھیں اپنے بعض اساتذہ کی طرف سے نارواو نازیبا سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑا،ان کی قومیت پر طنزیہ جملے کسے جاتے ،سکھ قوم کے متعلق من گھڑت قصّے اور لطیفے سنا کر دوسروں کی تفریح طبع کا سامان فراہم کیا جاتا۔ایسے غیر اخلاقی رویوں کا درد کیا اور کیسا ہوتا ہے ،وہی سمجھ سکتا ہے جس نے یہ سب محسوس کیا ہو اور اپنے اوپر سہا ہو۔ایک عام آدمی بھی حقارت آمیز برتاؤ سے دل برداشتہ ہوجاتا ہے اور ایسے سماج ومعاشرے سے دور رہنا پسند کرتا ہے جہاں اس کی یا اس کی قوم کی کسی بھی طرح سے تحقیر کی جاتی ہو یا پھر تمسخر اڑایا جاتا ہو۔پھر بیتابؔ صاحب تو شاعر ہیں اور شاعر عام لوگوں کے مقابل زیادہ حساس دل کا مالک ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تقریبًا پچاس سال قبل کے اپنے روحانی زخموں کو یاد کر کے بیتابؔصاحب اس قدر جذباتی ہوجاتے ہیں کہ خالصتانی تحریک کی نفی کرنے اور اپنے ہندوستانی ہونے پر فخرکرنے کے باوجود یہ لکھنے پر مجبور ہیں:
“کئی بار میرے دل میں یہ خیال آیا ہے کہ دنیا بھر کے سکھ عوام آپس میں مل کر حتی الوسع اپنا اپنا مالی حصّہ ڈال کر دنیا کے کسی کونے میںکوئی بڑا سا جزیرہ خرید لیںاور اس میںخالصتان یا کسی اور نام سے ایک ایسا ملک بسائیںجہاں اسکولوں میںسکھ بچوں کو Anti Sikh Remarks Racialسے متعلق لطیفوں کا شکار ہو کر احساس کمتری کے سائے میں اپنی تعلیم مکمل نہ کرنا پڑے‘‘۔
(ایضا،صفحہ نمبر 28)
افسوس کہ ہمارے ملک میں اب بھی ایسے بداخلاق عناصر کی کمی نہیں ہے جو دوسروں کی تحقیر کرنے اور ان کو نیچا دکھانے میں اپنی برتری سمجھتے ہیں ۔ کاش وہ یہ جان پاتے کہ دوسروں کی عزت کرنے میں ہی اپنی عزت ہے۔
بیتابؔ صاحب 1977ء میں بطور کے ۔اے۔ایس افیسر جموں وکشمیر اید منسٹریشن کا حصّہ بنے ۔ترقی کرتے کرتے Administrative Reforms Inspections & Trainings کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔بتیس سالہ دور ملازمت میںجموں وکشمیر کی ایدمنسٹریشن اور یہاں کی سیاست کو بہت قریب سے دیکھا۔انھوں نے متعدد مقامات پر یہ شکوہ کیا ہے کہ جموں وکشمیر کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کی بنا پر ان کے حقوق تلف ہوئے۔ اپنی امانت داری ، دیانت داری اور انصاف پسندی کی وجہ سے بھی انھیں بعض سیاسی لیڈران کے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔سیاسی لیڈران یا بیوروکریٹ عام لوگوں کے حقوق کس طرح اپنے اوپر حلال کرلیتے ہیں ؟میرے حصّے کی دنیا ،کے مطالعہ سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔مجموعی اعتبار سے اس خطّے کی سیاست اور بیوروکریسی کے متعلق بیتابؔ صاحب کے تجربات و تاثرات امید افزا نہیں ہیں ۔البتہ اپنے منصب اور ذمہ داری کے تئیں مخلص افیسران یا سیاسی رہنماؤں کو انھوں نے نظر انداز نہیں کیا ہے بلکہ انھیں نہایت عزت سے یاد کیا ہے ۔ایک ایسا بازار جہاں ضمیرکی خرید و فروخت کوئی مشکل کام نہ تھا ،اس کی گرد سے بیتاب صاحب کیوں کر محفوظ رہ سکتے تھے مگر اس کے باوجود انھوں نے اپنی روحانی فضا کو مکدر نہ ہونے دیا ۔ان کا اپنا شعر ہے:
ہم جسم کو بچا نہ سکے گرد سے مگر
یہ تو کیا کہ روح کو میلا نہیں کیا
بیسویں صدی کی نویں اور دسویں ،دو دہائیاں جموں وکشمیر کے امن پسند باشندوں کے لیے بڑی آزمائش کا سبب بنیں ۔نویں دہائی ہی میں سیاسی انتخابات میں عدم شفافیت کو بنیاد بنا کر ایک طبقے نے انتہا پسندی کی راہ اختیار کی ۔اسی دہائی کے آخر میں کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کا سانحہ پیش آیا ،جس کو ہمدردی کے ساتھ حل کرنے کے بجائے سیاسی لوگوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے بطور بیساکھی استعمال کیا اور آج تک کرتے آرہے ہیں۔بیتابؔ صاحب چیزوں کو گہرائی سے دیکھنے کے عادی ہیں،نظام کا حصہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے وہ بھی دیکھا اور محسوس کیا ہے جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوتا ہے۔وہ چنگاری جس نے ہزاروں آشیانوں کو جلا کر خاکستر بنادیا ،اس کے جل اٹھنے کے کیا اسباب تھے؟۔جنت بے نظیر کہی جانے والی وادی کشمیر آتش دوزخ کی تصویر کیوں کر بنی ؟بیتابؔ صاحب کے قلم حق رقم نے اپنی محتاط زبان میں سب کچھ لکھ دیا ہے۔انتہا پسندی کے اس دور عروج میںبیتابؔ صاحب کن مشکلات سے دوچار ہوئے،کن لوگوں نے ان کی زندگی میں خوشگوار یادیں چھوڑیں ،کون لوگ ان کی روح کے لیے اضطراب کا سبب بنے۔بیتابؔ صاحب کی زندگی کے کٹھے میٹھے تجربات ’’میرے حصّے کی دنیا ‘‘ کا حصّہ بن کر قاری کو خوشی ومسرت اور حیرت وتعجب کا ملا جلا مجسمہ بنا دیتے ہیں۔
بیتابؔ صاحب کی ازدواجی زندگی کی بات کریں تو اس کی شروعات کرنے میں بھی وہ آزمائشوں کا شکا ر ہوئے۔انھوں نے اپنے خاندان اوراہل خانہ کی مرضی کے خلاف ایک ہندو گھرانے میں پیار ومحبت کی شادی رچائی۔نتیجے میں زوجین کو سخت حالات سے دوچار ہونا پڑا ،لیکن بالآخر محبت کی جیت ہوئی اور حالات معمولات پر آگئے۔عشق ومحبت کی اس داستان میںپر خار راہوں اور خوشگوار یادوںکا تذکرہ مہ جبینوں پر دل ہارجانے والوں کی دلچسپی کا سامان تو ہے ہی ،ازدواجی زندگی کے نشیب وفراز میں متزلزل قدموں کے لیے حوصلہ افزا بھی ہے۔بیتابؔ صاحب کی زندگی میں رنج وغم اور مسرت وشادمانی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔وہ اپنی ذاتی یاخانگی پریشانیوں کو اپنی اور اہل خانہ کی خوشیوں میںسد راہ نہیں بننے دیتے ۔وہ نہ تو اپنے آپ میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ دوسروں کے حقوق تلف ہوں اور نہ دوسروں میں اس طرح مگن ہوجاتے ہیں کہ خود سے دور ہوجائیں۔ان کی زندگی میں توازن ہے۔انھیں خود سے لگاؤ ہے تو دوسروں کا خیال بھی۔وہ اس دنیا کی بھری بزم کا حصّہ ہوتے ہوئے ،اس سے الگ رہنا چاہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں:
بھری دنیا میں رہوں شامل بھی
اور دنیا سے جدا ہو جاؤں
بیتابؔ صاحب نے اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ ایام سیر وسیاحت میں بھی گزارے ہیں۔نیپال،جزیرہ نکوبار انڈمان،آسام اور ہماچل پردیش وغیرہ کے سیاحتی مقامات سے متعلق دلچسپ معلومات نے کتاب کو اور بھی پر لطف بنا دیا ہے ،اس کے علاوہ جموں وکشمیر کے بعض مقامات اور مناظر فطرت کی تصویر کشی اورانتہا پسندی کے دور کے سنسنی خیز واقعات ،قاری کو تجسس کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’میرے حصّے کی دنیا‘‘جہاں اس خطّے کی نصف صدی کی سیاست ،معاشرت،مذہب،تہذیب وتمدن اور تاریخ وادب پر ایک نیم تاریخی دستاویز ہے ،وہیں خود نوشت سوانحی ادب کے باب میں ایک اہم اور قابل قدر اضافہ ہے۔
***