کومل شہزادی،پاکستان
میں ہوں جہاں گرد: مختصر تاثر
بقول اکبر حیدر آبادی:
مسافرت کا ولولہ سیاحتوں کا مشغلہ
جو تم میں کچھ زیادہ ہے سفر کرو سفر کرو
سفرنامہ ایک دلکش صنف ادب ہےجس میں سفر تو مصنف کرتا ہے لیکن قاری بھی ساتھ سفر سے لطف اندوز ہوتا ہے۔سیر وسیاحت کو صحیفہ فطرت کے مطالعے اور نیرنگی کائنات کے مشاہدے کا ذریعہ بناتے ہیں۔
“میں ہوں جہاں گرد” یہ اکیسویں صدی کا شاہکار سفرنامہ ہے۔اس کے مصنف فرخ سہیل گوئنڈی ہیں۔فرخ سہیل گوئنڈی کی شخصیت سے کون واقف نہیں۔ایک علمی،ادبی اور سیاسی شخصیت ہیں۔٧٧٨ صفحات پر مشتمل سفر نامہ جمہوری پبلی کیشنز سے شائع ہوا۔اکیسویں صدی کی دو دہائیاں گزری ہیں اور جتنے بھی سفرنامے میری نظروں سے گزرے ہیں یا جن کا مطالعہ کرچکی ہوں، یہ واحد سفرنامہ ہے جو ضخیم اور منفرد انداز کا ہے۔ایک تحقیقی اور معلوماتی طرز کا سفرنامہ ہے۔فرخ سہیل گوئنڈی صاحب کی جہاں دوسرے موضوعات پر کتب ہیں وہیں یہ سفرنامہ کو بہترین کتاب کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔سفر نامے زیادہ تر منظر نگاری کے احوال پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن اس سفر نامے کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں تقریباً سبھی معلومات کو شامل کرنے کی جستجو کی گئی ہے۔میں یہ سفر نامہ پڑھنے کے بعد ذاتی رائے رکھتی ہوں کہ یہ ایک بہترین معلوماتی اور تحقیقی سفرنامہ ہے ۔امجد اسلام امجد ،مستنصر حسین تاڑر کے بعدسہیل گوئنڈی صاحب عمدہ سفرنامہ نگار ثابت ہوئے ہیں۔ انکا یہ سفرنامہ ” میں ہوں جہاں گرد” اکیسویں صدی کا منفرد سفرنامے کے طور پر جانا جائے گا۔جیسے آغاز میں ہی یہ لکھتے ہیں کہ سفر کا جنون انہیں سکول کے زمانے سے ہی تھا۔یہاں ایک بات لازم کرنا چاہوں گی کہ ایک اچھا سفرنامہ تبھی قارئین کے سامنے آسکتا ہے جب آپ سفر کرنے کا اشتیاق رکھنے کے ساتھ اُسے قلم سے صفحہ قرطاس سے کس کیفیت سے اتارتے ہیں یہ سب پڑھنے والے پر تاثر چھوڑ تا ہے۔”میں ہوں جہاں گرد” میں ٩۵ سفرنامے موجود ہیں۔اول سفرنامہ” گرفتاری یا راہ داری” جس میں آفیسر سے تلخ کلامی اور ویزہ کے لیے کی گئی سفارش ،ایرانی ویزا افسر کے سوالات اور ویزا کے لیے کی گئی سفارش میں کامیابی ،اور ویزا کی منظوری سے مصنف کی خوشی کے احوال اس میں ملتے ہیں۔سفرنامہ نگار خود کو افسر کے سامنے کریانے والے کے طور پر ظاہر کرتے ہیں تاکہ ویزے کی اجازت مل سکےیہ اس اداکاری میں کامیاب ہوتے ہیں۔ادھر سےان کی جہاں گردی کاسفر کی ابتداء ہوتی ہےاور قارئین کے سامنے “میں ہوں جہاں گرد” جیسا شاہکار سامنے آتا ہے۔اس کا احوال کچھ یوں تحریر کیا گیا ہے:
” یقین نہیں آرہا تھا کہ میرے پاسپورٹ پرویزےکی مہروں نے میری جہاں گردی کے درکھول دیئے ہیں۔میں مشرق وسطیٰ اور یورپ کو چھونے جارہا تھا۔”
” میں نےانقلاب ایران دیکھا” اس سفر نامے میں مشہد شہر جو اہل تشیع کے لیے اہم جگہ اور ایرانیوں کے انقلاب کی روداد ہے۔سفرنامہ ” اور تہران آگیا” میں تہران کی یونیورسٹی اور ایران پر روتی تاریخ کا بھی ساتھ ساتھ احوال تحریر کیا ہے۔مزید برآں تہران ریلوے اسٹیشن اور وہاں کی سواری کا احوال اور ایک خاتون کی جائےمقام پر جانے کے احوال قلمبند کئے ہیں۔اقتباس ملاحظہ کیجیے:
” میرے ساتھ بیٹھی ایرانی طالبہ نے کہا،آغا ،فکر نہ کرو۔میں آپ کو آپ کی منزل آنے پر مطلع کردوں گی۔میں اسی طرف کی مسافر ہوں”۔
ایرانیوں کی مختصر تاریخ کے ساتھ اُن کے انقلابی احوال کو بھی انہوں نے ساتھ ساتھ تحریر کیا ہے۔جن میں اہم سفرنامے” میں نے انقلاب ایران دیکھا” ،” اجڑاایرانی شاہی محل” شامل ہیں۔انکا ایک سفرنامہ” حضرت ابوایوب انصاری کے حضور” جو ترکی کا اہم مزار ہے۔مصنف نے مزار کے اندرونی منظر کا احوال اور عثمانی سلطنت کی مختصر تاریخی سرگزشت ہے۔مصنف کی گھر والوں کی فرمائش پر ادھر حاضری دے کر انکے لیے دعا کی درخواست کی تکمیل کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔سفرنامہ سے مختصر اقتباس ملاحظہ کیجیے:
“آپ نے کہا تھا کہ قسطنطنیہ چلے ہوتو حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار مبارک پر ضرورحاضری دینا اور سب کے لیے دعا کرنا۔آپ سے کیا وعدہ آج پورا کیا۔”
اس کے علاوہ ایران و ترکی کے بہترین سفرناموں میں “کاخ گلستان” ،” بازار بزرگ” ،”اجڑا ایرانی شاہی محل”،”انقرہ میں عاشقوں کاپارک”،”استنبول کے سات برج”،”بلغاریہ کاتاج محل”، ” یونانیوں کا اپالونیا” وغیرہ شامل ہیں۔
اس سفر نامے کی خوبی یہ ہے کہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ خود کو اس سفرکاحصہ سمجھتے ہیں۔مصنف کے سفرنامے میں دکھائے مختلف مقامات ان کو دلربا منظروں کے کیف کو محسوس کرتے ہیں۔انکے سفر ناموں کااسلوب نہ ہی سادہ کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی پیچیدہ کیونکہ کچھ سفرناموں میں پیچیدہ الفاظ بھی موجود ہیں۔اس کے باوجود انکے الفاظ کاانتخاب ہر سفرنامے کے حوالے سے عمدہ رہاجس انداز میں انکو برتا گیا۔مکالماتی انداز میں سفر کی روداد کو خوبصورت انداز میں قلمبند کیا ہے۔سفرنامہ وہ واحد صنف ہے جس میں بہت سی اصناف کی علمی خوبیاں موجود ہوتی ہیں۔فرخ سہیل گوئنڈی صاحب نے جتنی ترتیب اور نفاست سے اپنی آنکھ کا منظر قرطاس پراتارا ہے اگر اسے عمدہ کاوش کے طور پر دیکھا جائے تو ایک شاہکار معلوم ہوتا ہے۔اس سفر نامے پر بی ایس لیول پر مقالہ بھی لکھا جانا چاہیے تاکہ تعلیمی میدان میں نیا تحقیقی کام سامنے آِسکے۔المختصر،یہ فقط سفرنامہ ہی نہیں بلکہ بہت سے پوشیدہ خطوں سے پردہ اٹھاتا ایک تحقیقی سفرنامہ ہے جو قاری کو مطالعہ کے دوران بہت سی معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔
بقول نظیر اکبر آبادی:
دیکھ لے اس چمن کو جی بھر کے نظیر
پھر تیرا کا ہے کواس باغ میں آنا ہوگا
***