ڈاکٹرشیخ ریحانہ بیگم
(اسسٹنٹ پروفیسر
ڈاکٹر رفیق زکریا سینٹر فار ہائر لرننگ اینڈ ایڈوانسڈ ریسرچ
اورنگ آباد،مہاراشٹر)
نداؔفاضلی کی شاعری میں تہذیبی حوالے
نداؔفاضلی کی زندگی سفر سے عبارت ہے۔گوالیار سے دلی اور دلی سے ممبئی اور ممبئی میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے بعد ہندوستان سے باہر آناجانا رہا۔ یہ سفر صرف جسمانی سفر نہیں بلکہ ذہنی سفر بھی ہے اور اس سفر کے دوران انھوں نے جو کچھ دیکھااپنی نظم و نثر کا موضوع بنایا۔ابتدائی دور کی نظموں میں ’حلقۂ اربابِ ذوق‘ کے کچھ شعراء کا اثر نظر آتا ہے۔کہیں اختر ؔشیرانی کی رومانویت عیاں ہوتی ہے تو بیشتر نظمیں سلامؔ مچھلی شہری کی نظموں کی یاد دلاتی ہیں۔نداؔ کی گیت نما نظموں یا نظم نما گیتوں میں مدھیہ پردیش کے لوگ گیتوں کے ساتھ ساتھ ہندی کی لوک گیتوں کا کافی اثر نمایاں ہے۔نداؔ کی شعری لفظیات ہندی کے لوک گیتوں سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود اردو کی تہذیبی اقدار اور صوفیانہ و قلندرانہ مزاج میں رچی بسی ہیں۔نداؔ کی کامیابی یہ ہے کہ ان اثرات کو انھوں نے من وعن قبول ہی نہیں کیا ان میں مختلف اسالیب کو ایک دوسرے میں مدغم کردیا اور کہیں اپنی شخصی آواز واسلوب کو اس طرح شامل کیا کہ وہ اسلوب اور اظہار ان کا اپنا معلوم ہوتا ہے عبدالاحد ساز کو انٹرویو دیتے ہوئے نداؔ فاضلی نے کہا تھا کہ:
’’میرے ابتدائی اسلوب کی تراش خراش میں میرؔغالبؔ اور داؔغ کی روایات کے ساتھ ساتھ مختلف ہندوستانی بولیوں کے سنتوں کے شعری معجزات بھی کارفرما ہیں۔غزل کی زبان کی درباری شائستگی میں عوامی نغمگی کی شمولیت اس اسلوب کا بنیادی مزاج ہے۔‘‘ ۱؎
نداؔؔ فاضلی دیہی اور قصباتی تہذیب کے پروردہ ہیں۔ اپنی تہذیب اور مٹی سے والہانہ عشق ان کی شاعری میں رچا بسا ہے۔اپنے گھر، اپنے گائوں اور اپنی مٹی کا ذکر بار بار کرتے ہیں۔نداؔ کی تمام شاعری گوالیار کے حسین مناظر،دلی کی سیاسی سرگرمیوں اور ممبئی کی بھاگتی دوڑتی زندگی کی غماز ہے۔مندرجہ ذیل نظم ’’بادل میرے گائوں بھی آئو‘‘ انسانی ہمدردی کی مثال ہے۔ایسا لگتا ہے کہ بارش نہ ہونے کے سبب دیہات میںسوکھا پڑا ہوا ہے۔سبھی بحران میں مبتلا ہیں اور شاعر چاہتا ہے کہ سب خوش حال زندگی گذاریں۔کہتا ہے کہ:
بادل میرے گائوں بھی آئو
پگڑی ٹانگو
پیپل نیچے
اونٹ بٹھائو۔
مسجد پیچھے
۱؎ روبر(انٹرویو) عبد العہد ساز ۔اعتراف(رسالہ)۔ص۔ ۲۸۱،کتابی سلسلہ۔۱،ندافاضلی نمبر،مرتبین:مجلس مشاورت:رام پنڈت،اسلم پرویز ،وقار قادری
سوکھ رہے ہیں تال تلائو
پھر ان کو بھر جائو
بادل میرے گائوں بھی آئو
چوپالوں میں کتھا سنائو
پنجرے کی مینا سے بولو
بنیا ڈنڈی مار رہا ہے
دال نمک
اچھے سے تولو
کھول کے اپنی مہنگی گٹھری
سستی ہاٹ لگائو
بادل میرے گائوں بھی آئو
نیم کی میٹھی کرو نمبولی
سلگائو ٹھنڈے چولھوں کو
میدانوں سے دھوپ اٹھاکر
پینگیں بھرنے دو جھولوں کو
چپ چپ ہیں
بیجوں ہیں انکر
آلہا اودل گائو
بادل میرے گائوں بھی آئو
پیاسی ہے
ندیا بے چاری
شیتل جل برسائو
بادل میرے گائوں بھی آئو
ہندوستانی کلچر کی دوسری مثال اس نظم میں دیکھئے:
دو سہیلیاں
بیٹھے بیٹھے اوب رہے ہیں
آئو سہیلی
سرپٹ بھاگیں
سر کے بال تلک کھل جائیں
دھم دھم
یوں دہلیزیں لانگیں
گھٹنوں گھٹنوں تال میں چل کر
منہ منہ تک گھاگر بھر لائیں
اور نشانے تاک تاک کر
پتھر سے پتھر ٹکرائیں
برگد کی ننگی شاخوں پر
بن جھولے کے
ایسا جھولیں
لاکٹ چٹلے میں پھنس جائے
انگوٹھے پیشانی چھولیں
ان کی نظمیں سبک و نازک امیجری کی وجہ سے گیتوں کے قریب معلوم ہوتی ہے۔لہجہ میں سادگی اور لفظوں کے برتائو میں غیر معمولی سلیقہ اور انتخاب الفاظ میں ارضیت کی صفات ان کی کئی نظموں کا وصف خاص معلوم ہوتا ہے۔نظم ’’ایک بات‘‘ دیکھئے:
اس نے اپنا
سرکھجلایا
انگوٹھی کے نگ کو دیکھا
اٹھ کر
خالی جگ کو دیکھا
چٹکی سے ایک تنکا توڑا
چرپائی کا بان مروڑا
بھرے پرے گھر کے آنگن میں
کبھی کبھی وہ بات
جو لب تک
آتے آتے کھوجاتی ہے
کتنی سندر ہوجاتی ہے (ایک بات۔لفظوں کا پل)
نظم سادہ ،رواں اور سبک ہے۔تنکوں کا توڑنا،باندھ کا مروڑنا،ایک معصوم نوخیزمشرقی لڑکی کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کا اظہار ہے۔نظم کا یہ کردار ذہن سے زیادہ دل سے تعلق رکھتا ہے۔یہ اضطراری حرکتیں سوچ اور احساس کے عین مطابق ہیں۔جہاں تک انسانی جذبات کا تعلق ہے نداؔؔ کا بنیادی سروکار انسان اور اس کی ذہنی اور جذباتی کیفیات سے رہا ہے۔وہ سیدھے سادھے لفظوں کو گہرے معنی میں استعمال کرنے کے ہنر کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔
نداؔکی شاعری میں موضوعاتی اعتبار سے ایک بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب وہ چھوٹے شہر سے نکل کر مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے ممبئی پہنچے۔ممبئی ایک صنعتی شہر ہے یہاں زندگی کی تیز رفتاری اور لمحہ لمحہ بدلتے ہوئے حالات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش، سرمائے اور محنت کا ٹکرائو،اونچی اونچی ایرکنڈیشن عمارتوں اور جھگی جھونپڑیوں کا تضاد اور سب سے بڑی بات تو انسان کے مشین بن جانے کا احساس شدت سے نمایاں ہوتا ہے۔ ندا ؔفاضلی چونکہ ایک دیہی معاشرے سے نکل کر اس ماحول میں آئے تھے اس لئے ان کے یہاں فرد اور معاشرے کا ٹکرائو ہونا ہی تھا ۔ممبئی آنے کے فوراً بعد کی نظموں میں حیرت و استعجاب اور اپنے ماضی کے ساتھ ذہنی طور پر جڑے رہنے کی کوشش نمایاں نظر آتی ہیں ۔
نظم ’’بمبئی‘‘
یہ کیسی بستی ہے میں کس طرف چلا آیا
فضا میں گونج رہی ہیں ہزاروں آوازیں
سلگ رہی ہیں فضائوں میں انگنت سانسیں
جدھر بھی دیکھوں کھڑے کولھے پنڈلیاں آنکھیں
مگر کہیں کوئی چہرہ نظر نہیں آتا
یہاں توسب ہی بڑے چھوٹے اپنے چہروں کو
چمکتی آنکھوں کو
گالوں کو
ہنستے ہونٹوں کو
سروں کے خول سے باہر نکال لیتے ہیں
سویرے ہوتے ہی جیبوں میںڈال لیتے ہیں
عجیب بستی ہے اس میں نہ دن نہ رات نہ شام
بسوں کی سیٹس سے سورج طلوع ہوتا ہے
جھلستے ٹین کی کھولی میں چاند سوتا ہے ۱؎ (بمبئی)
اس نظم میں حیرت و استعجاب کی کیفیت زیادہ ہے ساتھ ہی ساتھ ممبئی کی زندگی پر ایک بڑا متصوفانہ تبصرہ ہے کہ سائنس کی ترقی کے سبب کس طرح انسان کو زندہ رہنے کے لئے مشین کا پرزہ بن جاتا پڑتا ہے ۔اسی کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی انھیں ستاتا ہے کہ انسان کو اپنی شخصیت چھوڑکر مستعار چہروں پر نقلی رویوں کو اپنانا پڑتا ہے۔
نداؔؔؔ کی شاعری میں خدا کا وہ تصوّر اُبھرتا ہے جو خداکو انسان کے ہمدرد دوست یا ایک مشفق کی حیثیت سے دیکھتا ہے ۔ خدا جابرو قاہر یا محض سزا دینے والانہیں ہے بلکہ وہ انسان کا ہمدرد دوست مشفق و مہربان ہے ،صوفیا کی زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ نداؔؔؔ کی بیشتر نظموں میں خدا کا جمالی پہلو نمایاں نظر آتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ آج کا انسان خدا کے اس پہلو کو بھلا چکا ہے ۔ مذہب یا تصور یزداں صرف ظاہری عبادات اور رسوم تک محدود رہ گئے ہیں ۔
خدا کے ڈھونڈنے والے خدا کے آستانوں میں
اسے بیچا خریدا جارہا ہے اب دکانوں میں
طبعی خدا اور تہذیب کا ربط جو مکمل ایقان اور بے پناہ محبت پر قائم تھاٹوٹ چکا ہے ۔خدا کا یہی تصو ر ان کی کئی نظمو ں میں نما یا ں ہو تا ہے ۔ اور چو نکہ خدا کا یہ تصو ر سا ری آرائشو ں سے پاک ذہن ہی میں ابھر سکتا ہے اس لئے نداؔؔؔ کے یہاں ’ بچہ ‘ جو معصومیت کی علا مت ہے ایک اہم کر دا ر بن جا تا ہے ۔
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یو ں کر لیں
کسی روتے ہو ئے بچے کو ہنسا یا جائے
———————–
بچہ بولا دیکھ کر مسجد عالیشان
اللہ تیرے ایک کو اتنا بڑا مکان
———————–
گھاس پر کھیلتا ہےاک بچہ ،پاس ماں بیٹھی مسکراتی ہے
مجھے حیرت ہے جانے کیوں دنیا،کعبہ و سومنات جاتی ہے
۱؎ شہر میں گائوں(مورناچ) ندا ؔفاضلی ۔ ’بمبئی‘ مطبع اصیلہ آفسیٹ پرنٹرس نئی دہلی،معیار پبلیکیشنز ۲۰۱۲۔ص ۱۵۳
ہمیشہ مندر و مسجد میں وہ نہیں رہتا
سنا ہے بچوں میں چھپ کر وہ کھیلتا بھی ہے
خدا کا یہ تصو ر ہما رے صو فیاء اور سنتوں کے یہا ں نما یا ں ہے ۔ یہا ں خدا کائنا ت کے ہر ذرے میں مو جو د نہ ہو تب بھی ہر ذرہ اس کے ہی وجود کی شہا دت دیتا ہے ۔۔۔وحدت الو جو د یا وحد ت الشہود۔۔۔ کے مبا حث اپنی جگہ ہے کیو نکہ یہ مباحث خالص علمی اور مذہبی ہیں ۔ صو فیوں اور سنتو ں نے ان مبا حث سے ہٹ کر اپنی را ہ نکا لی ہے وہ خدا اور بندے کے بیچ را ست تعلق کو اہمیت
دیتے ہیں۔ صو فی سنتو ں کی طر ح نداؔؔؔ کے یہا ںبھی خدا کا یہی تصو ر ملتا ہے وہ بچے کی مسکر اہٹو ں ، ان کی معصو م با تو ں ، پر ندو ں کے چہچہو ں او ر کلیو ں کے چٹخنے میں مو جو د ہے یا اپنا جلو ہ دکھا تا ہے بشر طیکہ انسا ن مو سیٰ کے گڈریے کی طر ح معصوم اور سچا ہو ۔
نیل گگن میں بیٹھے
کب تک چا ند ستا رو ں سے جھا نکوگے
پر بت کی او نچی چو ٹی سے
کب تک دنیا کو دیکھو گے
آدرشو ں کے بند صحیفو ں میں
کب تک آ رام کرو گے
میرا چھپر ٹپک رہا ہے
بن کے سو ر ج اسے سکھا ئو
خالی ہے آٹے کا کنستر
بن کر گیہو ں اس میں آئو
ٹو ٹ گیا ہے ماں کا چشمہ
شیشہ بن کر اسے بنائو
چپ چپ ہیں آنگن میں بچے
بن کر گیند انھیںبہلائو
شا م ہو ئی ہے
چا ند اگا ئو
پیڑ ہلا ئو
ہوا چلا ئو
کا م بہت ہیں
ہا تھ بٹا ئو اللہ میا ں
میرے گھر میں
آہی جا ئو اللہ میا ں ۱؎ (حمد)
یہ نظم لوک گیتو ں کے انداؔؔ ز میں لکھی گئی ’میر ے گھر میں آہی جا ئو اللہ میا ں‘یو پی کے کسی لوک گیت کا مصرعہ ہے جس میں انسا ن اور خدا کا تعلق ایک نئے انداؔؔ ز سے پو ری معصو میت او ر عقید ت کے سا تھ نما یا ں ہو تا ہے ۔ یہا ں نداؔؔ نے خدا کو انسا ن کی سب سے محبوب ہستی اور زند گی کی بنیا د ی ضرو رتوں کے حوا لے سے خدا سے مدد مانگی ہے ۔
فسادات، کرفیو ،دہشت آج کے دور کی ایسی حقیقتیں ہیں جو زندگی کو تھوڑی دیر کے لئے معطل کردیتی ہے ۔یہ وقفہ ان کی بہیمیت و وحشی پن کی فتح کا ہوتا ہے لیکن زندگی بہر حال اپنا راستہ نکال ہی لیتی ہے اور خیر بہر حال فتح یاب ہوتا ہے ۔ نداؔؔ ؔکے یہاں اسی قسم کی ایک نظم بڑے سیدھے سادھے انداز میں زندگی کے اس رُخ کو نمایاں کرتی نظر آتی ہے ۔ کرفیو اور فسادات وغیرہ
کے ختم ہوجانے کے بعد جب زندگی اپنے معمول پر آتی ہے توخدا اُسے پھر اُس کے معصوم روپ میں دیکھتا ہے ۔ بچوں کا اسکول جانا زندگی کے دوبارہ متحرک ہو جانے کی علامت بن جاتا ہے ۔جب زندگی دوبارہ رواں دواں ہوتی ہے تو گویا پوری فطرت اس کے ساتھی ہوتی ہے ۔پھول کھلتے ہیں ، کلیاںچٹکتی ہیں ، سورج مسکراتا ہے اور چاروں طرف ایک روشنی سی پھیل جاتی ہے اور یہ وہ سماں ہوتا ہے کہ اس حسین منظر کے سامنے آکاش بھی اپنے سر کو جھکا لیتا ہے۔
ہوا سویرا
زمین پہ پھر ادب سے آکاش اپنے سر کو جھکارہا ہے
کہ بچے اسکول جارہے ہیں
ندی میں اسنان کرکے سورج
سنہری ململ کی پگڑی باندھے
سڑک کنارے
کھڑا ہوا مسکرا رہا ہے
کہ بچے اسکول جارہے ہیں
ہوائیں !
سر سبز ڈالیوں میں
دعائوں کے گیت گارہی ہیں
مہکتے پھولوں کی لوریاں
۱؎ شہر میں گائوں(کھویا ہوا سا کچھ) نداؔؔ فاضلی ۔’حمد‘ مطبع اصیلہ آفسیٹ پرنٹرس نئی دہلی،معیار پبلیکیشنز ۲۰۱۲۔ص ۳۷۵
سوتے راستوں کو جگا رہی ہیں
گھنیرا پیپل !
گلی کے کونے سے ہاتھ اپنا ہلا رہا ہے
کہ بچے اسکول جا رہے ہیں ۱؎ (روشنی کے فرشتے )
نظم میں مختلف حسّی ،بصری اور تخیلی پیکروں کی مدد سے تصویرکشی کی گئی ہے مختلف جذبوں کے اظہار کے لئے یہ ٹھوس پیکر فطرت سے لئے گئے ہیں۔سورج زندگی کی علامت ہے جو ندی میں اسنان کرکے ململ کی پگڑی باندھے مسکراتا ہے۔ہوائیں دعائوں کے گیت گاتی ہیں اور پیپل اپنے ہاتھ ہلا ہلا کر بچوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔
زند گی سے محبت کا یہی تصو ر لو ک گیتوںاور نظمو ں میں موجود ہےوہ زند گی کے اس روپ تک پہنچتے ہیں جس میں خیر و حسن مثبت طا قت کی حیثیت سے جا ری و سا ری ہے ۔صر ف اس حسن کو دیکھنے اور پر کھنے وا لی آنکھ چا ہئیے اور جب وہ آنکھ کھل جا تی ہے تو
تما م کا ئنا ت ایک اکا ئی کے رو پ میں ابھر تی ہے اور جب چھو ٹی چھو ٹی تما م حد بند یا ں ٹو ٹ پھو ٹ جا تی ہیں وہا ں نہ مذہب اور فر قے کے اختلا فات رہتے ہیں اور نہ رنگ و نسل کے امتیا زا ت،ساری دنیا ایک کنبہ،ایک خانداؔؔن سمان ہوتے ہیں ۔انسان جب انسانی اقدار کی بنیاد پرزندگی کا مشاہدہ کرتا ہےتو رنگ و نسل مذہب بے معنی ہوجاتے ہیں۔نداؔؔ فاضلی کے دوہوں میں یہی بات ملتی ہے۔
سب کی پوجا ایک سی الگ الگ ہر ریت
مسجد جائے مولوی کوئل گائے گیت
———————-
چاہے گیتا پاجئے یا پڑھئے قرآن
میرا تیرا پیار ہی ہر پستک کا گیان
———————-
پنچھی ،بالک،پھول،جل،الگ الگ آکار
ماتی کا گھرایک ہی سارے رشتہ دار
———————
ساتوں دن بھگوان کے کیا منگل کیا پیر
جس دن سوئے دیر تک بھوکا رہے فقیر
دوہے بابا فرید شکر گنج ،خسرو سے لے کر کبیرو نانک اور ان کے بعد آنے والے دائود وغیرہ تک صوفیاء کا مقبول طرز اظہار رہا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ نداؔ نے اس دور میں دوہوں کو کافی اہمیت دی ۔ان صوفیوں کی تخلیقات میںایک قسم کی پرسکون فضا ملتی ہے۔ندا کے یہاں یہ عمل جدید معاشرہ سے مل کرایک نئی شکل اختیار کرتا ہے۔جس میں تیاگ یا رہبانیت جیسی
۱؎ شہر میں گائوں(کھویا ہوا سا کچھ) نداؔؔ فاضلی ۔روشنی کے فرشتے‘ مطبع اصیلہ آفسیٹ پرنٹرس نئی دہلی،معیار پبلیکیشنز ۲۰۱۲۔ص ۴۱۴
چیزیں نہیں ہیں بلکہ اس کے برخلاف آج کے حالات میں انسانی تشخص کے قیام اور ان کے بنیادی اقدار کو محفوظ کرلینے کی شدید خواہش مل جاتی ہے۔نداؔؔ فاضلی نے دوہوں میں اخلاقی قدروں کا زوال زمانے کے حالات ،معاشرتی مسائل،مادہ پرستی اور زندگی کے مفہوم کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ ان کی غزلوں،نظموں اور گیتوں پر غالب آجاتے ہیں۔
قسمت وسمت کچھ نہیں جگ کا ایک ودھان
جگتے کا سنسار ہے سوتے کا شمشان
———————
ہندو کا ہودان یاہومسلم کی خیرات
گیہوں ،چاول،دال کا کیا مذہب کیا ذات
———————
میں کاغذ تو کلپنا،تجھ میں میں ساکار
اپنی ہی تصویر کو پوجے رچناکار
———————
ماٹی سے ماٹی ملے کھوکے سب نشان
کس میں کتنا کون ہے ؟کیسے ہو پہچان
———————
برکھا سب کو دان دے جسی کی جتنی پیاس
موتی سی یہ سیپ میں مٹی میں یہ گھاس
———————
اندر مورت پر چڑھے گھی پوری لوبان
مندر کے باہر کھڑا ایشور مانگے دان
نداؔؔؔ کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے لہجے کو کہیں بھی بدلنے نہیں دیا۔ان کے پاس زبان و بیان کو اپنے طور پر برتنے کا ہُنر بھی ہے اور نئے لفظوں کو ہماری روایت سے جوڑنے کا فن بھی۔امیرخسروؔ ،کبیرداسؔ،تلسیؔ داس ،سورداس ، گرونانکؔ ،اور نظیرؔ جسے عوامی لب و لہجہ کے شاعروں نے بھی انھیں متاثر کیا ۔اوریہ تاثر صرف موضوعات کی حد تک یا عام لفظوں کے استعمال کی حد تک محدود نہیںرہا بلکہ ان کی فکر میں بھی ایک قسم کا صوفیانہ انداؔؔز نمایاں ہونے لگا ۔یہاں صوفیانہ انداؔز سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ کسی ایک خاص مذہب کے پیرو ہوکر اس میںبیان کردہ تصوف یا بھکتی کے مبلغ بن گئے بلکہ انھوں نے ان مکتبہ ہائے فکرسے انسان دوستی اور زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھا۔
اردو زبان ایک ایسی زبان ہے جس کے ادبی سرمائے میں مختلف خطوں ،تہذیبوں اور مذاہب کی رنگا رنگی موجود ہے جو دوسری زبانوں میں شاذونادر ہی ملے۔خاص طور پر اردو شاعری میں ہندوستانی تہذیب کی فضا کو ابتدا ء ہی سے معطر کیا۔ امیر خسرؔو،قلی قطب ؔشاہ و نظیرؔ سے لے کر اقبالؔ،غالبؔ اور جدید شعراء تک یہ فضا چھائی ہوئی ہے۔چاہے نظمیں ،غزلیں ہوں یا گیت و دوہے ندا کی تمام شاعری میں ہندوستانی تہذیب کی روح سموئی ہوئی ہے۔تہذیب زندگی کی تمام سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے اور نداکی بنجارہ مزاجی ،دیہات کے مندر ،مسجد،کھیت ،کھلیان،ندی ،تالاب اور جنگل کی خاموشی سے نکل کرشہر کے شور، نعرے،فساد،کرفیو، جلسے،مورچے سے ہوتی ہوئی فیکٹریوں ،بلڈنگوں،جھونپڑپٹیوں ،ریل کے ڈبوں اور دوڑتی کاروں سے گذر کرایک ایسا جہاں آباد کرتی ہے جہاں ہمدردی ،محبت،انسان دوستی،خودشناسی،خدا شناسی اور(ماں،باپ،بہن،بھائی،بیٹی جیسے) رشتوں کا احساس و احترام موجود ہے جو ہماری تہذیب کے مظاہر ہیں۔
***