ڈاکٹرسہیم الدین خلیل
نذرِغیاث( تبصرہ)
نام تصنیف : نذرِ غیاث
مرتب : ڈاکٹرشیخ اصغرشیخ اکبر
قیمت : ۳۰۰روپیے
صفحات : ۲۶۶
مطبع : روشن پرنٹرس، دہلی۔۶
ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۶۔
مبصر : ڈاکٹرسہیم الدین خلیل (8087933863 )اورنگ آباد ،دکن۔
شعبئہ اردو، شیواجی کالج ہنگولی، مہاراشٹرا۔
ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی اور نگ آباد۔ مراٹھواڑہ کی ایک واحد یونیورسٹی ہے جس سے تعلق رکھنے والے متعدد پروفیسر ، اسوسیٹ پروفیسر ، ڈاکٹراور پی ایچ ڈی و ایم فل ریسر چ اسکالر س نے مختلف زبان و ادب میں متعدد کارہائے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔وہ اپنے آپ میں ایک ضرب المثال کادرجہ رکھتے ہیں۔شعبئہ اردو ، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کا ایک ایسا شعبۂ ہے جس میںمتعداد تخلیق کاروں نے جنم لیا ہے اور ان علمی و ادبی خدمات کا چرچہ پورے ملک تک پھیلا ہوا ہے۔ جس کی ایک جیتی جاگتی مثال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ سے سند یافتہ سابق پروفیسر اور شعبئہ اردوڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھو اڑہ یو نیور سٹی اورنگ آباد ڈاکٹر محمد غیاث الدین ہے۔جوکہ ۱یک درجن سے زائد تصانیف وتالیفات کے تخلیق کار ہے۔جس نے یونیورسٹی ہذا کوو اردو ادب کواچھے طلباء ہی نہیںدیئے بلکہ اچھے تخلیق کار بھی دیئے ہیں۔زیر تبصرہ مرتب کر دہ کتا ب ایک ایسے ہی طالب علم کی محنت کا سرمایہ اور اپنے استا د سے بے پناہ محبت و عقیدت کا اظہارہے اس ہونہار طالب علم کا نام ڈاکٹر شیخ اصغر ہے ۔جس نے اپنے پی۔ اٰیچ ۔ ڈی کے تحقیق کے دوران ہی اس کو مرتب کیا ہے۔لیکن اب وہ طالب علم ڈاکٹر شیخ اصغر، شعبۂ اردو ،ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھو اڑہ یو نیور سٹی اورنگ آباد میںایژاے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور اپنی خدمات انجام دے رہاہے۔
زیربحث کتاب ’’نذر ِغیاث‘‘ کے سر ورق اور بیک کو ر پرپروفیسر محمد غیاث الدین کی تصویر ہے اور اسی بیک کور پرمحمد غیاث الدین سے متعلق ڈاکٹر سیدحامدسابقہ وائس چانسلرA.M.Uعلی گڑھ کی رائے ہے ۔اور یہ کتاب مختلف تحقیقی و تنقید ی مضامین کا مجموعہ جس میں کل۳۷ مضامین اور مرتب کا لکھا ہوا پیش لفظ ہے۔ان مضامین کو لکھنے والوں کی جماعت میں چند ایک پروفیسر،ڈاکٹر، فکشن نگار، پی۔ اٰیچ ۔ڈی اور ایم۔فل کے ریسرچ اسکالرکے تنقیدی ، تحقیقی ،تعریفی اور تعارفی مضامین شامل کتا ب ہے۔زیر تبصرہ کتاب کے کے کچھ نمائندہ مضمون نگاروں و ان کے مضا مین کی فہرست کچھ اس طر ح سے ہیں۔سابق وائس چانسلرڈاکٹر سید حامدکا مضمون’’تحسین ناشناسی‘‘، پروفیسرصاحب علی کامضمون’’نذرِ قاضی عبدالستار‘‘ ، اورنگ آباد کے معروف فکشن نگار نورالحسنین کا مضمون ’’نذرِ قاضی عبدالستارایک جائزہ‘‘،ڈاکٹر شیخ محمد انیس کا’’ عصری حسیت کا ناول زوال آدم ِ خاکی‘‘،ڈاکٹر عبدالرب کے تین مضامین ’’عروج آدمِ خاکی:پروفیسر محمد غیاث الدین (شخصی خاکہ)‘‘،’’معاصر اردو ناول اور پروفیسر محمد غیاث الدین کے ناولوں کی انفرادیت‘‘اور ’’فرقہ واریت اور اردو ناول‘‘، ڈاکڑ یحیٰ صبا کا ’’پروفیسر محمدغیاث الدین اور زوال آدم خاکی ‘‘، ڈاکٹر فیروز عالم کا ’’اعلیٰ انسانی اقدار کے زوال کا نوحہ: زوال آدمِ خاکی ‘‘اور شیخ اصغر کے لکھے ہوئے تین مضامین’’ناول عذاب ِدانش حاضرمیں دور حاضر کے اعلیٰ تعلیمی اور سماجی مسائل کی عکاسی‘‘،’’زوال آدم ِ خاکی میںجدید دور کے سماجی مسائل ‘‘اور ’’فرقہ واریت اور اردو ہندی افسانے ۔۔۔کا مختصر جائزہ‘‘جیسے مضامین کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی اور ایم فل ریسرچ اسکالرزکے مضامین اس میں شامل ہے۔اور ان ریسرچ اسکالرز کے لکھے ہوئے مضامین کو مرتبہ نے دو حصوں میں منقسم کیا ہیں۔ پہلا حصہ معروف فکشن نگار و سابقہ صدر شعبہ(ڈب ا م ی ا) اور پروفیسرڈاکڑ محمد غیاث الدین کی شخصیت، سیر ت ، زندگی پر مشتمل چار مضامین ہیں ،جس میں افتخار احمدکا مضمون ’’محمد غیاث الدین حیات و خدمات‘‘ اور عبدالحمید ملک کا مضمون ’’محمد غیاث الدین : حیات اور شخصیت‘‘محمد غیاث الدین کی وسیع ترین و سمندر جیسی پھیلی ہوئی شخصیت کی شدت کو کم ضرور کر تی ہے ۔ اور ان کی شخصیت کی باز گشت کتا ب کے دوسرے حصہ فکر وفن،تخلیق کے ۳۳ مضامین میں بھی ان کی شخصیت کی بھی باز گشت سنائی دیتیں ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب کے تما م مضامین اپنی نوعیت کے ہے جس میں ہر مضمون نگار نے اپنے مشاہدے و تجربے کی بینا پر جو کچھ بھی لکھا ہے بہت خو ب لکھا ہے۔ ان مضامین کے لکھنے والوں کو ہم تین درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔پہلا اعلیٰ درجہ کے مضامین دوسرے اوسط درجہ کے مضامین اور تیسرے ریسرچ اسکالرزکے و طالب علموں کے مضامین پہلے اعلیٰ درجہ مضامین ان تخلیق کاروں کے مضامین ہیں جوکہ مستنعدوتجربہ کار تخلیق کاروںکی جامع تخلیقات ہیں جن میں ہم سید حامد کامضمون’’تحسین ناشناسی‘‘،پروفیسر صاحب علی کا’’ نذر قاضی عبدالستار‘‘،نورالحسنین کا ’’نذر قاضی عبدالستارایک جائزہ‘‘ ،ڈاکٹر عبدالرب کا’’معاصراردو ناول نگار اور پروفیسر محمد غیاث الدین کے ناولوں کی انفرادیت ‘‘،ڈاکٹر فیروز عالم کا’’اعلیٰ انسانی اقدار کے زوال کا نوحہ زوال ِآدم ِخاکی ‘‘ اورڈاکٹریحیٰ صباکا ’’زوال آدم خاکی ایک تجزیاتی مطالعہ ‘‘کامیاب قلمکاروں کی قلم سے نکلے ہوئے مضامین ان ادیبوںکا عمیق و گہرا مشاہدہ و تجربہ معلوم ہوتے ہیں۔جن میں بلا کا تسلسل و روانی ہیں اوراتنا ہی نہیں بلکہ یہ محمدغیاث الدین کے کا میاب فکشن نگار و مستنعدادیب ہو نے کی دلیل بھی معلوم ہوتے ہیں۔اور اسی کے ساتھ اردو ادب میں محمد غیاث الدین اہمیت و افادیت کو بھی متعین کرنے میں کامیاب معلوم ہوتے ہیں۔سیدحامد اورپروفیسر صاحب علی کے مضامین قاضی عبدالستاراورمحمد غیاث الدین رشتہ استاذاور تلمذ ی کے تعلق کو واضح کرتے ہیں۔
اوسط درجہ کے مضامین میں ہم ڈاکٹرشیخ محمد انیس کا مضمون ’’عصری حسیت کا ناول زوال آدم خاکی ‘‘ ، ڈاکٹر ہاجرہ بانوکالکھا ہوا مضمون’’زوال آدم خاکی:ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘محمدرفیق محمد حنیف کا ’’پروفیسر محمد غیاث الدین حیات اور ادبی خدمات ‘‘،شیخ اصغرکا ’’ناول ’عذاب دانش حاضر‘ میں دورحاضر کے اعلیٰ تعلیمی اور سماجی مسائل کی عکاسی‘‘ نازنین سلطانہ کا’’افسانہ ’شہری عید‘ ایک جائزہ‘‘، شیخ متین احمدکا’’افسانوی مجموعہ’قصّئہ روزو شب‘کا جائزہ (کردارنگاری کی روشنی میں)اور واسیعہ بیگم کا ’’مضامین غیاث‘‘وغیرہ کو شامل کر سکتے ہیں۔ان تمام مضامین میںڈاکٹر محمد غیاث الدین کی ادبی خدمات کا جائزہ ان کے تصانیف کے حوالے سے بیان کی گئی ہیں۔ اس اوسط درجہ مضامین نگاروں میں دو ایک پی ایچ ڈی اسکالر ز ہیں ۔ رہیں بات تیسر ے درجہ والے مضامین نگاروں کی توان میں پی ۔ایچ ۔ڈی اورایم ۔فل ریسرچ اسکالرز ہیں ۔ ان کے اسمائے گرامی شیخ شازیہ فرحین ، شیخ شکیلہ بانو، شیخ فردوس جہاں، ثریا بیگم ،رضوانہ بیگم، شیخ محمد جاوید، سہیل ہاشمی، نور جہاں بیگم، افروز خاتون، سید زاہد الدین ، شہباز زرّین اور سیدہ فوزیہ فاطمہ ہیں۔ان تما م ریسرچ اسکالرز نے ہی نہیں بلکہ تمام قلم کاروں نے اپنی قلمی خدمات کے ذریعہ محمد غیاث الدین کوان ادبی خدمات عوض میں نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے ۔
مجموعی طور پرزیر تبصرہ کتاب ’’ نذرِغیاث‘‘کے بارے میں کہا جائے تومیںیہ کہہ سکتاہوںکہ یہ ایک ایسی ترتیب ہے ۔جس میںہر طر ح کے نئے اور پرانے قلم کار شامل ہیں۔جس کی شناخت انٹر نیشنل ،نیشنل اوراسٹیٹ لیول تک ہے لیکن ان میںکچھ ایسے بھی مضمون نگار ہیں۔ جن کا کوئی لیول نہیںہے، لیکن اس ترتیب میں ان کے مضمون کی شمولیت انہیں کوئی نہ کوئی درجہ ضرور دے دیتی ہے۔البتہ’’ نذ رِغیاث ‘‘ ایک ایسی جامع مضامین ترتیب وتالیف ہے،جو تمام مضمون نگاروں کو ایک صف میں لے آتی ہے جیسا کہ بقول شاعر :
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود ایاز
کوئی بندہ رہا نہ رہا کوئی بندہِ نواز
’’نذرغیاث‘‘کے مطالعہ سے یہ علم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محمد غیاث الدین اردو ادب کی ایسی ہمہ گیرشخصیت ہے،جس نے اردو ادب کے دامن کو وسعت دینے میں بہت سی کارگاہے نمایاں انجام دی ہیں، اور اپنی تصنیف و تالیف سے اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے ۔آپ اردو کے بہترین ناول نگار ،بہت اچھے و عمدہ افسانہ نگار،ممتاز نقاد،نامورمحقق،نمائندہ مرتب ،اچھے مثالی استاد، کامیاب شاگردہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شخصیت کے مالک بھی ہے ۔آپ کی شخصیت کسی ایک کتاب میں مکمل طورپر سما نہیںسکتی۔محمد غیاث الدین اردو دب کا وہ دریاجس کا ایک کنارہ دوسرے کنارے تک تا قیامت مل نہیںسکتا۔ ان کی خدا داد صلاحتیںاور اردوسے والہانہ عشق ادب کو وقار بخشتاہے۔شاید یہی صلاحتوں نے ڈاکٹرشیخ اصغر کو ’’نذر ِغیاث ‘‘ مرتب کرنے پر مجبور کیا ۔ ’’نذ رِ غیاث ‘‘اردو کے چند اہم نذرانوں میں سے ایک نذرانہ نظر ہے۔جوکہ پروفیسرمحمد غیاث الدین کی بحرا عظمی شخصیت کا قطر ہ معلو م ہوتی ہے۔ اوریہی قطریں دریا کو سمندربناتے ہیں۔
***