زیبا خان
ریسرچ اسکالر ، دہلی یونیورسٹی، دہلی
نظم ‘موت کا رقص ‘
رات کی خامشی میں کہیں دور سے
آ رہی اک صدا نے کہا یہ مجھے
اتنے حساس ذہنوں کے ملبے تلے
اپنے بوسیدہ جسموں کے لاشے لیے
تم کہاں جاؤ گی؟
تم کو شاید خبر ہی نہیں !
زیست کرنے کے جتنے بھی امکان تھے،،،
گردشِ وقت کی زد میں آکر سبھی
نذر آتش ہوئے،،
اب فنا اور بقا کے طلسمی سحر
سے تمہارے بدن کو کبھی
بھی رہائی نہیں مل سکے گی،،
تم کو اپنے ہی بستر کی ٹوٹی شکن
پر تعفن زدہ اپنے بکھرے ہوئے،
خواب تک یکجا کرنے کی مہلت نہیں،،
اب تمہاری جبیں!
جس پہ سجدوں کی وارفتگی کے نشاں
مضمحل ہو چکے،
کچھ مجازی خدا کی پناہوں میں ہیں!
کربلائے معلٰی کے اجڑے ہوئے
وحشت آمیز خیموں میں اپنے لیے
کس سہارے کی تم منتظر ہو،، بتاؤ؟
اب یہاں غیب سے عشق بسمل صدا
یا الہٰی مدد ، یا علی ، یا حسین
ہے کوئی جو مجھے تھام لے!!
ہاں نہیں ہے کوئی بھی نہیں ،،
سو اٹھو اس گزرتی ہوئی رات کے
پاؤں میں اپنے خوابوں کی پازیب دو،،
اب تمہارے وجود و عدم کے لئے
بس یہی جیت ہے،
اپنے کاندھوں پہ اپنے جنازے رکھو
جیت کا جشن رکنے تلک
موت کا رقص جاری رکھو،،
***