You are currently viewing نعمت اللہ ارشدؔ گھمن کی کتاب”تاب اسلم:شخصیت اور فن” پر تبصرہ

نعمت اللہ ارشدؔ گھمن کی کتاب”تاب اسلم:شخصیت اور فن” پر تبصرہ

صائمہ اختر

سیالکوٹ

نعمت اللہ ارشدؔ گھمن کی کتاب”تاب اسلم:شخصیت اور فن” پر تبصرہ

         “اب اسلم: شخصیت اور فن “کا مطالعہ کیا تو مصنف کے اندازِ نگارش سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پائی۔یہ شہر سیالکوٹ کی متحرک و فعال ادبی تنظیم ‘‘بزم علم و ادب سیالکوٹ” کے بانی وصدر اور ایجوکیشن آفیسر نعمت اللہ ارشدؔ گھمن صاحب کی تخلیق ہے جو کہ حُسنِ ادب پبلیشرز فیصل آباد کے زیر اہتمام طباعت کے مراحل سے گزر کر آج ہمارے ذہن و قلب کو روشن کر رہی ہے۔ان کی شخصیت تحقیق کی دنیا میں محتاجِ تعارف نہیں، لوگوں نے ان کی تحقیقی خدمات کو سراہا ہے۔آپ کی پہلی تصنیف”مباحث”اشاعت کے مراحل طے کر کے منظر عام پر آ چکی ہے اور ادبی حلقوں میں داد و تحسین سمیٹنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔امیدِ واثق ہے ان کی دوسری تخلیق”تاب اسلم: شخصیت اور فن” بھی ادبی حلقے میں خوب پذیرائی حاصل کرے گی اور اس سے تحقیق و تنقید کے طالب علم بہت مستفید ہوں گے ان شاء اللہ۔

         اس کتاب کا انتساب مصنف نے اپنے استاد محترم ڈاکٹر عامر اقبال صاحب اور اپنی شریک حیات ام قاسم گھمن کے نام کیا ہے۔تصنیف کی طباعت بہت عمدہ اور سرورق دیدہ زیب ہیں۔

          ”حرف آغاز ”مصنف نے خود بڑے ہی خوبصورت اور جامع الفاظ میں تحریر کیا ہے۔حرفِ آغاز کے بعد ڈاکٹر محمد عامر اقبال( صدر فیض چیئر یونیورسٹی آف سیالکوٹ)،سید عدیدؔ (صدر شعبہ اردو پنجاب گروپ آف کالجز سیالکوٹ) ،ایوب صابرؔ(سر پرست بزم علم و ادب)اورپروفیسر ندیم اختر(سینیئر سبجیکٹ سپیشلسٹ اُردو)جیسی مایہ ناز شخصیات کے تابؔ اسلم سے متعلق تاثرات کو قلم بند کیا گیا ہے۔قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ مصنف نے کوشش کی ہے کہ شہر اقبال کے ان شعرا کو ادبی حلقوں اور شعر و ادب سے محبت کرنے والوں سے متعارف کرایا جائے جن کے فن اور ادبی خدمات کو نہ تووہ شناخت ملی نہ وہ پذیرائی جو ان کا حق تھا۔نسل نو کو ادب کی تاریخ سے جوڑے رکھنے کی یہ ایک قابل ستائش کاوش ہے۔ادب دوست نعمت اللہ ارشدؔ گھمن صاحب کسی بھی ذاتی مفاد و تشہیر کی سوچ سے بالاتر ہو کر شعر و ادب سے غیر معمولی محبت اور وابستگی کا ثبوت دیتے ہوئے ادبی ذوق رکھنے والوں کی تسکین کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔

         وسیع النظری،وسعت قلبی اور فہم و فراست کا شعور رکھنے والے ہمہ جہت تخلیق کارنعمت اللہ ارشد گھمن صاحب نے ایسی دھرتی پر جنم لیا جو صدیوں سے علم و ادب اور شعر و سخن کا عظیم گہوارہ رہی ہے۔شہر سیالکوٹ میں ایسی بہت سی شخصیات نے آنکھ کھولی جو دنیائے ادب کے آسمان پر روشن ستاروں کی طرح خوب چمکے۔نعمت اللہ ارشد گھمن صاحب اسی ادبی میراث کے تخفظ کے لیے اردو کے فروغ میں اپنا ایک منفرد اور مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔شعر و ادب سے ان کی والہانہ محبت مستقبل میں روشن ادبی امکانات کا اشارہ ہے۔آپ انتہائی منکسر المزاج شخصیت کے حامل حساس شاعر،مصنف،محقق،نقاد اور ماہر تعلیم ہیں۔

         نعمت اللہ ارشد گھمن خود بھی علمی شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کی اس سے پہلے تحقیقی و تنقیدی کتاب ”مباحث” منظر عام پر آ چکی ہے اور پانچ کتب جن میں رشید آفرینؔ: شخصیت اور فن، زاہدؔ بخاری: شخصیت اور فن، دبستان سیالکوٹ،سیدعدیدؔ:شخصیت اور فن،ایوب صابرؔ:شخصیت اور فن زیر اشاعت ہیں۔

         ”تاب اسلم: شخصیت اور فن ”میں قلم کار نے شاعر تاب اسلم کی شخصیت اور فن کو موضوع سخن بنایا ہے۔تاب اسلم کا شمار گوہر نایاب میں ہوتا ہے۔تاب اسلم گہرا سماجی شعور رکھنے والے شاعر ہیں۔وہ زندگی کے حقائق کو پوری سچائی اور ایمانداری سے بیان کرتے ہیں۔ان کی شاعری ذات سے کائنات تک کے رنگوں سے مزین ہے۔وہ نفسیاتِ انسانی کے نباض شناس ہیں۔تابؔ اسلم نے اردو شعرو ادب کے دامن کو ثروت مند کیا ہے۔انہوں نے غزل کو روایت کے ساتھ ساتھ جدید غنائیت سے سرفراز کیا۔حسن مفہوم سے وجدان کو سرشار کرنے کی صلاحیت تاب اسلم کی انفرادیت ہے۔انہوں نے حیات انسانی سے جڑے ہر موضوع کو خوبصورت،منفرد اور مناسب الفاظ کے زندگی بخش پیرہن میں صفحہ قرطاس پر اتارالیکن وہ مقام اور پذیرائی جو ان کا حق تھا انہیں نہ ملی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے شعرا کے فن کو منظر عام پر لایا جائے انہیں وہ مقام و مرتبہ دیا جائے جس کے وہ حقدار ہیں۔

         قلم کار کا فنی رویے اور فکری سوچ سے واقف ہونا بہت ضروری ہے۔ اسی صورت وہ موضوع سے انصاف کے تقاضے پورے کر سکتا ہے۔نعمت اللہ ارشدؔ خود بھی شاعر ہیں وہ شعری اصول و ضوابط سے بخوبی واقف ہیں انہوں نے تابؔ اسلم کے اسلوب،موضوعات،نظریات،جذبات اور احساسات کو سہل انداز میں بڑی خوبصورتی سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔سیالکوٹ ادبی روایات کا امین ہے اس کی زرخیز سر زمین پر ہیروں نے جنم لیا اور ادبی ماحول نے انہیں تراشا پھر وہ ادب کے آسمان پر درخشندہ ستارے بن کر چمکے۔تابؔ اسلم بھی ایسے ہی شعرا میں شمار ہوتے ہیں جن کی تخلیقات ان کی ادب سے محبت کا ثبوت ہیں۔

         نعمت اللہ ارشدؔ نے تابؔ اسلم جیسے کہنہ مشق شاعر کے فکر و فن کو اپنا موضوع سخن بنایا اور موضوع کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے۔ تابؔ اسلم کی زندگی کے ہر گوشے کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ان کی شاعری کے موضوعات پر کھل کر بات کی ہے شاعر کی فکر کو ایمانداری اور خلوص سے قارئین کے سامنے رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔جیسے جیسے ہمـ” تابؔ اسلم:فن اور شخصیت” کا مطالعہ کرتے ہیں مصنف کی سوچ و فکر کا سحر قاری پر طاری ہوتا جاتا ہے۔

         تابؔ اسلم نے زندگی سے جڑے ہر موضوع کو اپنی شاعری کا مرکز بنایا اس کے تمام پہلوؤں کو سمیٹنے کی خوبصورت شعوری کوشش کی۔تابؔ اسلم کا ادبی مقام و مرتبہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ان کی علمی لیاقت،تخیل پرواز،الفاظ کا انتخاب،موضوعات کا چناؤ،پرتاثیر اسلوب، ذہنی وسعت اور ادبی مکاشفے کو زمانے نے تسلیم تو کیا لیکن ان کے فن کو وہ پزیرائی نہ ملی جو باقی شعرا کے حصے میں آئی۔مصنف نے کوشش کی ہے کہ ان کی ذات کا کوئی گوشہ قاری کی نظر سے مخفی نہ رہ جائے۔ان کی شخصیت اور فن کے تمام پہلوؤں کو قاری کے سامنے پیش کیا جائے۔اس کتاب کی خوبصورتی ہے کہ مصنف نے اپنی تحقیقی سوچ اور نکتہ نظر کو پیش کرتے ہوئے منضبط اور مرکوز ذہن سے کام لینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

         محقق کا براہ راست تعلق حقائق سے ہوتا ہے۔زندگی کی حرکات و حرارت پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے مصنف نے اپنے خیالات کی ترسیل میں ہر ممکن احتیاط برتی ہے اور کوشش کی ہے کہ ذہنی الجھاؤ اور ابہام سے پاک تحریر ہو۔تابؔ اسلم کی زندگی کا ایک ایک جز اپنے سیاق وسباق سے کڑی کی طرح جڑا ہوا آگے بڑھتا ہے اور شاعر کے فن کی ایک ایک پرت کھلتی چلی جاتی ہے۔تسلسل اور توازن نعمت اللہ ارشدؔ گھمن کی تحریر کی خوبی ہے۔تحریر کی خوبصورتی میں سب سے زیادہ مصنف کی محنت،لگن،وسعت مطالعہ،ذہنی یکسوئی،متن اور متعلقہ موضوع پر مکمل گرفت کا عمل دخل ہے۔

کسی فن پارے پر بات کرنے سے پہلے اس فن کارکے نظریات کاادارک اس کی لگن،جانفشانی،احساسِ ذمہ داری اور بلند نگاہی کاعرفان ہونا ضروری ہے۔مصنف کی خوبی یہ ہے انہوں نے تابؔ اسلم کی شخصیت اور ان کے کام پر مکمل تحقیق کی کلام کو پڑھا ان کی باریکیوں کو سمجھا اور مواد کی جستجو میں صبروشکیب اورتحمل کا پیکر بن کر وہ اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔اس لیے ان کی ہر تحریر ان کے نظریے کے مطابق ان میں محقق کی ایک بڑی خوبی کا اشاریہ بن جاتی ہے۔ وہ تحقیق کے خار زار کے مسافر ہیں اسی لیے وہ تن آسانی کی جگہ مشکل پسندی کو پسند کرتے ہیں۔تحریر کے ہر ایک لفظ کے چناؤ میں مصنف کے مطالعے کی وسعت،سہل تفہیم،موضوع پر مکمل عبور اور موضوع پر ذہن مرکوز رکھنے کی خونظر آتی ہے۔

         نعمت اللہ ارشدؔ گھمن تحقیق کے طالب علم ہیں کچھ منفرد کر لینے کی تمنا ان کی تحریروں میں نظر آتی ہے۔وہ تحقیقی بلند نگاہی،علمی توسّع، مطالعے کی وسعت اور صحیح صورتِ حال کو مدلل پیش کرنے کی جستجو رکھنے والے مصنف ہیں۔ تابؔ اسلم کی شخصیت و فن،ادبی زندگی اور ان کے سیرت و کردار کے ہر پہلو کا مکمل جائزہ اور پھر ان تمام عناصر کی کارفرمائی شاعر کی تخلیقات میں تلاش کرتے ہوئے اس کے شعری اثاثے کا بھرپور تنقیدی تجزیہ پیش کرنے کی کامیاب سعی مصنف کی فنی بصیرت کا ثبوت ہے۔مصنف نے اپنی تنقیدی بصیرت کے اظہار کے ساتھ ساتھ عملی تنقید کی بساط بچھاتے ہوئے اپنے موضوع سے مکمل انصاف کیا ہے۔

         مجموعی طور پر یہ کتاب نعمت اللہ ارشدؔ گھمن کے تحقیقی و تنقیدی رجحانات کی مکمل عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔انہوں نے زبان وبیان کو نہایت سہل رکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ طلبہ کو کوئی شاعری پڑھتے اور سمجھتے وقت کوئی دقت پیش نہ آئے اور مکمل طور پر اس سے استفادہ کریں۔نعمت اللہ ارشد گھمن حقائق کے بیان میں کسی جھجک یا مرعوبیت کو حائل نہیں ہونے دیتے اسی لیے وہ اپنی رائے دینے یااختلاف کرنے میں تحقیقی اصول کی پاسداری پر کھرے اترتے ہیں۔تابؔ اسلم کے ہم عصر شعرا اور ادبی شخصیات کی آرا بھی اس کتاب کا ایک مستند حوالہ ہیں۔ تابؔ اسلم کی منتخب شاعری شامل کرتے ہوئے کتاب کی خوبصورتی اور دلکشی میں اضافہ کیا گیا ہے۔

         ۲۰۰ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت انتہائی مناسب ہے تاکہ طالب علم بآسانی خرید سکیں۔امید کی جاتی ہے کہ علمی و ادبی حلقوں میں نعمت اللہ ارشد گھمن صاحب کی یہ کتاب خاطر خواہ پذیرائی حاصل کرے گی اور تحقیق و تنقید کے طلبہ اس سے بھر پور مستفید ہوں گے۔ان شا اللہ ان کا یہ تحقیقی سفر اسی عمدگی سے جاری رہے گا۔ڈھیروں دعائیں اللہ تعالیٰ آپ کو دین و دنیا میں کامیاب اور سرخرو کرے اور آپ کے علم و ہنر میں اضافہ فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین۔

***

Leave a Reply