کومل شہزادی
کراچی پاکستان
نقش فریادی : ایک تعارف
“رسالہ ” عربی لفظ ہے ۔جس کا معنی ترسیل کا آلہ ہے ۔ اردو رسائل نے اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں ۔ ادبی رسالہ میں ادب کی مختلف ادبی جہات مثلاً شاعری،ناول ،افسانہ کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ زمانہ قدیم سے عہدجدید تک اردوادبی رسائل کی اہمیت سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ۔دنیا کےکسی بھی زبان کے ادب کے فروغ میں رسائل اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ جہاں اردو رسائل نے ہماریروایات و اقدار،تہذیب وتمدن،کلچر،ثقافت میں اہم کردار ادا کیا ہے وہیں ادب کے فروغ میں بھی کلیدی حثیت رکھتے ہیں ۔ اردو ادبی رسائل ہمارےتنقیدی نظریات و معیاری تخلیقات اور فکر و فن کو موضوع سخن بناتے ہیں اور ادب کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اردو رسائل نےادب کے مختلف موضوعات کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔اورادبی رسائل خصوصی ادبی شمارے یا ادبی رسائل نمبرز بھی شائع کرتے ہیں جن میں افسانہ نمبر ، ناول نمبر ، غالب نمبر ، شاعری نمبر ، اقبال نمبر ، غزل نمبر،مرثیہ نمبر ،نعت نمبر اور ناولٹ نمبراور خصوصی شخصیت نمبر بھی جاری کئے ہیں ۔ اردو رسائل و جرائدادب کے ترجمان ہیں اردو ادبی ورسائل وجرائد انسانی جذبات و احساسات کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ ادبی رسائل ادبی صحافت کے میدان میں بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ان ادبی رسائل میں ہفتہ وار، ماہنامہ ، سہ ماہی ، ششماہی ، اور سالانہ مجلے بھی ہوتے ہیں کیوں کہ ان کی اشاعت کی مدت مختلف ہوتی ہے ۔ یہ ۔سیاسی ، سماجی ،مذہبی اور ادبی شعور کو اجاگر کرتے ہیں ۔
برصغیر پاک وہندمیں ادبی رسائل و جرائد کی اک توانا روایت موجود ہے،،جس کی وجہ سے ادب پھیلنے پھولنے لگ گیا۔ ان رسائل نے اپنے عہد کی ترجمانی کی اورادب و ادبی مباحث کھل کر سامنے آئے اور ان ادبی رسائل کی وجہ سےمختلف شعرا و ادبا کے کلام سے واقفیت حاصل ہوئی ۔بیسویں صدی نئے رجحانات،نئے امکانات ،نئے جذبات و احساسات،نئے انکشافات اور نئے تقاضوں ،اور ایجادات،نئےکی صدی ہے۔ اس صدی میں علم و ادب کی ترقی کے لئے رسائل و جرائد نے اہم خدمات سر انجام دیں۔دور حاضر میں جہاں اُردو رسائل کی جگہ انٹرنیٹ، فیس بک اور ٹیکنالوجی نے لے لی ہے،لیکن اس کے باوجود اس بات پر یقین کرلینا کہ رسائل وجرائد کی اہمیت آج کے عہد کے لیے ضروری نہیں تو درست نہ ہوگا ۔اس ترقی سے رسائل و جرائد مواد نئے طریقوں سے قاری تک پہنچانے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں ۔
بے شک مادی ضروریات نے انسان کو جکڑ لیا ہے مگر ذہنی سکون اور پرورش کے لیے اردو رسائل تیز اور موثر ذریعہ ہیں۔ انٹر نیٹ ،اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب ہونے کے باوجود اردو رسائل میں اضافہ ہوا ہے ۔ کچھ رسائل سرکاری ہیں ،اور کچھ غیر سرکاری ۔
اگر غیر سرکاری رسالوں کی بات کی جائے تو ان کی تعداد سرکاری رسالوں سے بہت زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد سوا دو سو کے قریب ہے۔ جن میں ایسے بھی ہیں جن کی ادبی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے ،کہ اردو کے مختلف رسائل پر زوال بھی آیا ان کی اشاعت پر پابندی بھی لگا دی گئی مگر
اس کے باوجود یہ بات مسلم ہے کہ نئے رسائل اب بھی جنم لے رہے ہیں ۔ جو رسائل سماجی ضرورت اور ذہنی ارتقاءکی پیش رفت رکھتے ہیں وہ جلد ہی مقبولیت عام حاصل کر لیتے ہیں ادب کے مختلف رجحانات و ادوار سے متاثر، متنوع قسم کے قارئین موجود ہیں جو ان رسائل سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
آج بھی نئے ادبا و شعرا کی کھیپ پیدا ہورہی ہے اور نئے نئے اسالیب اور ہیئت کے تجر بات کررہی ہے اور خوش قسمتی یہ ہے کہ اردو رسائل و جرائدان سے ہمیں متعارف بھی کروارہے ہیں۔ ابتداء میں ہفتہ وار اخبارات ہی ادبی مضامین اور ادب کے لیے استعمال ہوتے تھے ۔ اردو رسائل و جرائد کی ابتداء کے بارے میں جاننا ہو تو مشکل ہی کہ اس ان کی دستیابی ہوسکے ۔ برصغیر میں انیسوی صدی کی وسط میں ادب کے فروغ کے لیے گل دستہ با عنوان “گلِ رعنا” پانی پتی کریم الدین نے نکا لا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ ۔ جس میں مختلف شعرا کے کلام کو یکجا کرکے پیش کیا جاتا تھا ۔ 1857 ء کی جنگ کے بعد اہم اردرسائل وجرائد جیسے “اودھ پنج”،”تہذیب الاخلاق”وغیرہ نے ادبی خدمات سرانجام دیں تھیں ۔ تقسیم سے قبل کی بات کی جائے تو ایسے بہت سے جرائد تھے جن کی گونج پورے برصغیر میں گونجتی تھی ۔
ان کے نام درج ذیل ہیں :
مخزن ، ہمایوں ، الناظر ، نظام ،معارف ، اردوئے معلی ، ، عصمت ، اردو ، نگار ، ادبی دنیا ، نیرنگِ خیال ، شاعر ، ساقی ، شاہکار ، الہلال ، سب رس ، آج کل ، کتاب ، افکار ، نیا دور ، فنون ، وغیرہ تھے ان رسائل کی مجموعی تعداد لگ بھگ70 تھی اور دوسری بات تقسیم کے بعد بھی ان میں سے رسائل کی اشاعت ہوتی رہتی تھی۔ان میں ادب اور تاریخ و اسالیب وغیرہ پر تنقیدی مضامین شائع ہونے کے ساتھ ساتھدیگر فنون لطیفہ کے بارے بھی مضامین شائع ہوتے تھے آج کل بھی کئی ادبی حوالے سے گراں قدر مواد فراہم کر رہے ہیں۔ہندوستا ن میں صحافت کی انیسویں صدی میں داغ بیل پڑ گئی ۔ اس وقت برصغیر میں چھاپے خانے بن چکے تھے برصغیر میں صحافت کا مقصد لوگوں تک خبریں پہنچا نا تھا اور علم وفنون کو فرو غ دینا تھا۔
“نقش فریادی” ایک تعارف
اُردو رسائل کے بغیر اردو ادب کی ترقی ناگریز ہے۔ فروغ اردو کے لیے رسائل و جرائد کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اردو رسائل و جرائد میں علمی و ادبی سیاسی، خبری، معلوماتی، تعلیمی اور سائنسی مواد کی پیشکش کی جاتی ہے۔ ان رسائل کی مدت اشاعت مختلف ہوتی ہے۔۔ جیسے روزنامے، دور دوزے، سہ روزے، ہفتہ روزے، پندرہ روزے، ماہنامے، دو ماہی، سہ ماہی، ششماہی، اور سالنامے وغیرہ شامل ہیں۔ اردو رسائل و جرائد ہمیں شاعر، افسانہ نگار اور نقاد سے متعارف کرواتے ہیں۔ ہمارے سامنے یہ معیاری تحریروں کی پیشکش کرتے ہیں۔ ادب اور شاعری کی ترسیل و توسیع میں ادبی رسائل و جرائد کی جتنی اہمیت ہے۔ اتنی شاید کتابوں کی نہیں ہے۔ مخزن زمانہ، ساقی، ادب لطیف ادبی دنیا جیسے رسائل نے اپنے عہد کے تخلیق کاروں کی تخلیقات کو پیش کیا اور بڑے بڑے نقاد محقق اور شعرا کو جنم دے کر علمی و ادبی مباحث کے ساتھ ساتھ ساتھ علوم فنون لطیفہ کو اپنے دامن میں جگہ دی پھر ا ن کے فروغ میں معاونت کی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
“نقش فریادی” کلاسیکل اور جدید ادب کا ترجمان سہ ماہی رسالہ منظر عام پر آچکا ہے۔اس رسالے کی پہلی اشاعت جولائی تا ستمبر سن 2022 ہے ۔اس رسالے کے مدیرِ اعلیٰ ڈاکٹر نصیر احمد اسد جبکہ سرپرست کومل شہزادی ہیں۔جن لوگوں کی زیر نگرانی اس شمارے کی اشاعت ہوئی ان میں ڈاکٹر انصر جاوید گھمن ڈاکٹر طالب علی اعوان ،محمد اکرم، پروفیسر محمد انور الہی چوہدری،اور ڈاکٹر شکیل اختر ٹھاکر شامل ہیں ۔ مجلسی مشاورت میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ ، ڈاکٹر محمد یوسف خشک ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ، پروفیسر ڈاکٹر غلام عباس گوندل ، ڈاکٹر شفیق آصف ، ڈاکٹر محمد افضال بٹ ، پروفیسر ڈاکٹر سید عامر سہیل ، پروفیسر فرحت نسیم علوی ، پروفیسر ڈاکٹر آصف اقبال ، پروفیسر عامر اقبال ، پروفیسر ڈاکٹر طارق کلیم ، میاں محمد آصف اقبال ، پروفیسر ڈاکٹر احمد عبداللہ قمر، پروفیسر ڈاکٹر علی قزلباش ، پروفیسر ڈاکٹر محمد یار گوندل ، پروفیسر ڈاکٹر احمد محفوظ ، پروفیسر ڈاکٹر ڈرمس بلگرر (ترکی) شامل ہیں ۔
اس خصوصی شمارے میں جدید ادب کے فروغ کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس رسالے میں مختلف حصے مختص کیئے گئے ہیں اس کے کل چار حصے ہیں ۔پہلا حصہ اداریہ کے نام سے ہے جس میں مختلف محققین اور ناقدین کے تنقیدی مضامین ہیں جو مختلف نوعیت کے ہیں ۔ دوسرا حصہ ” اقبالیات” پر ہے جس میں ایک اقبالیات پر ایک تنقیدی مضمون ہے ۔ تیسرا حصہ ” افسانہ” پر ہے جس میں جدید معصر افسانہ نگاروں کے افسانوں کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ رسالہ نئے لکھنے والوں کے لیے ایک باقاعدہ پلیٹ فارم کی حیثیت رکھتا ہے ،تاکہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو سکے اور وہ خود کو اُردو ادب میں متعارف کروا سکیں ۔شعرا و ادبا کو متعارف کروانے والے یہ تو رسائل و جرائد ہی تھے جنہوں نے گمشدہ لکھاریوں جو قارئین سے متعارف کروایا ۔ تیسرا حصہ غزلوں پر مشتمل ہے جس میں مختلف شعراء کی ایک ایک غزل شامل کی گئی ہے ۔ آخری حصہ “نظم ” پر ہے جس میں کل تین نظمیں ہیں ۔
یہ سہ ماہی جریدہ قارئین کو نت نئی تخلیقات سے متعارف کروائے گا امید ہے اس کا مستقبل تابناک ہوگا
اس کا دوسرا شمارہ اکتوبر تا دسمبر 2022 ہے۔ اس شمارے کے کل چھ حصے ہیں۔ پہلے حصے میں آٹھ تنقیدی مضامین ہیں ۔دوسرے حصے میں تبصرے شامل کئے جس میں کل تین تبصرے ہیں ۔تیسرا حصہ “افسانچے ” پر منبی ہے جس میں کل تین افسانچے ہیں جو عصری صورتحال کی عین عکاسی کرتے ہیں ۔ حصہ چہارم میں کل پانچ افسانے ہیں ۔ آخری دو حصے شاعری پر ہیں جس میں مختلف شعرا کی غزلیں اور نظمیں شامل کی گئی ہیں ۔یہ سہ ماہی جریدہ قارئین کو نئے تخلیق کاروں کی تخلیقات سے متعارف کروائے گا ۔ یہ ادبی جریدہ موجودہ دور کے ادبی مزاج کو سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے
اس رسالے میں جو تنقیدی مضامین شامل کیے گئے ہیں ان میں پختگی اور متانت پائی جاتی ہے
اس رسالے کے پہلے شمارے میں شامل مضمون ہے اس کا نام ہے “خطہ سیالکوٹ میں اُردو شاعری کی روایت” از ڈاکٹر نصیر احمد اسد
ڈاکٹر نصیر احمد اسد اس مضمون میں لکھتے ہیں کہ خطہ سیالکوٹ و ادب کا گہوارہ ہے۔جہاں اقبال فیض جیسے قد آور شخصیات نے جنم لیا اس کے علاوہ اس مضمون میں شجر طہرانی ، امین حزیں ، سید صادق حسین ، اثر صہبائی ، اصغر سودائی ، خواجہ عبد المجید عرفانی ، احسان اللہ ثاقب ، محمد طفیل ،ریاض حسین چودھری ،یوسف نئیر ، صابر ظفر ، اور جابر علی سید جیسے شعرا کا ذکر کیا گیا ہے کہ جو اردو شاعری کے ہیت ، اسالیب میں اضافے موجب بنے یہ مضمون سیالکوٹ میں جنم لینے شعراء کا احاطہ کرتا ہے
فکشنات کے نئے تخلیقیت امروز سنگ میل ، از نظام صدیقی
اس مضمون میں ناول کے فنی لوازمات اس کے ہیئت و اسالیب اور ناولوں کی اقسام پر بات کی گئی ہے۔ مضمون نگار نے ناول کو انسانی شعور و آگہی کا آب حیات کہا ہے ۔عہد جدید کے تخلیق کاروں جیسے مشرف عالم ذوقی ، رحمٰن عباس ، ترنم ریاض ، سید محمد اشرف ، خالد جاوید ، انیس اشفاق اور نور الحسن کا ذکر کیا گیا ہے ۔
سرشام” ایک مختصر تاثر ، از جمیل احمد عدیل
اس مضمون میں عارفہ ثمن اختر کے مجموعہ شعری “سرشام ” پر ایک تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے ۔ “سر شام ” عارفہ ثمن اختر کی غزل و نظم کا مجموعہ ہے۔
جمیل احمد کی “سخن وری بڑی اچھی لگی” از رانا محمد شاہد
جمیل احمد عدیل اکیسویں صدی کے تخلیق کاروں میں شمار ہوتے ہیں ہیں اس مضمون میں ان کے کالموں کے مجموعے “سخن وری “کا جائزہ لیا گیا ہے
بائیں پہلو کی پسلی “ایک جائزہ از ڈاکٹر ریاض توحیدی کاشمیری
اس مضمون میں احمد رشید کی افسانہ نگاری اور ان کے افسانوی مجموعے واہلو کی پسلی کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے احمد رشید کا تعلق علی گڑھ سے ہے
تانثیت ایک جدید اصطلاح ہے جو لاطینی زبان کے لفظ femina تانثیت کا نظریاتی بیان کرنا یعنی عورت کو بحیثیت متعارف کروایا جائے اس مضمون میں تانثیت اس کے پس منظر کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
، تانثیت اور اُردو شاعری ، کومل شہزادی
اس مضمون میں تانیثیت کے لفظی و اصطلاحی معنی کے ساتھ ساتھ اس کے تعلقات کے بارے میں بات کی گئی ہے اردو شاعری میں جن خواتین نے تانثیت پر قلم کشائی کی اس کو بدلیں سے بیان کیا گیا ہے۔
روہنگیا زبان و ادب کا تذکرہ ، ڈاکٹر فرحت علوی
اس مضمون میں میں مہنمار ملک کی زبان روہنگیا اور اس کے رہنے والے باشندوں کے زوال کو بیان کیا گیا ہے ۔اس خطے کے ادب میں گیت ، ماہیے ،اور فنون لطیفہ میں اضافے کا موجب بنے ۔ آج کل یہ مسلم خطہ زوال کا شکار ہے ۔
اُردو تفسیری ادب کا تذکرہ، ڈاکٹر عبدالمنان چیمہ ،
اس مضمون میں قرآن مجید پر تفسیر القرآن پر لکھی گئی تفاسیر کا جائزہ لیا گیا ہے۔
یہ مضمون قرآن کی تفاسیری کتب کا احاطہ کرتاہے ۔
اُردو سیرت نگاری پیر کرم شاہ الازہری کی ” ضیاء النبی” کے تناظر میں
اس مضمون میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیر کرم شاہ کی کتاب”ضیاء البنی” کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔
مذہبی ، سماجی اور ثقافتی بیانیے ، تشکیلات رد تشکیلات اور تارڑ کا ناول ” قلعہ جنگی ” کا ایک مابعد جدید مطالعہ از یوسف نون
اس مضمون میں مستنصر حسین تارڑ کے ناول ٫”قلعہ جنگی ” کا مابعد جدید مطالعہ کے تناظر میں جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔
اردو فکشن میں جدید اصناف از منیر عباس سپیرا
اس میں اُردو فکشن کی ہیئت و تجربات کا ذکر کیا گیا ہے۔ جن میں مائیکرو فکشن ، فلیش فکشن ، اور افسانچہ شامل ہیں ۔
کہانی آوارہ ہوتی ہے :تنقیدی جائزہ از ڈاکٹر محفوظ احمد ثاقب
اس مضمون میں سلیم اختر ڈھیرہ نے “کہانی آوارہ ہوتی ہے ” جو اطالوی لوک داستان کا ترجمہ ہے اس کے خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے کہ آیا یہ ترجمہ کس حد تک ترجمے کے فنی لوازمات پر پورا اترتا ہے یہ ترجمہ عمدہ کاوش ہے ۔
سیمیں کرن کے افسانوں میں سماجی ، تہذیبی عکس از انعم زاہد
اس مضمون میں دور حاضر کی افسانہ نگار سیمیں کرن کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیا گیا ہے ۔
آخر میں اقبالیات پر ایک مضمون ہے۔
اقبال بحثیت مفکر تعلیم از فریمولوی فیروز الدین ڈسکوی کی ادبی خدمات از ڈاکٹر نصیر احمد
مولوی فیروز الدین ڈسکوی کی ادبی خدمات از ڈاکٹر نصیر احمد اسد مضمون میں مولوی فیروز الدین کی عملی خدمات کا ذکر کیا گیا ہے ۔
دوسرا مضمون مابعد جدید کے نظریہ کا اصل مقولہ از احمد سہیل مابعد جدیدیت اس کے ہیت و اسالیب کا احاطہ کرتا ہے۔
اردو میں افسانوی تنقید کا نیا پیراڈایم اور آصف فرخی “عالم ایجاد ” کی روشنی میں از ایم خالد فیاض
مضمون میں آصف فرخی کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیا گیا ہے آصف فرخی کا شمار بہترین تخلیق کاروں میں ہوتا ہے ۔
ناول ” دھنی بخش کے بیٹے” میں خیر و شت کا تصور از کومل شہزادی
اس مضمون میں حسن منظر کے ناول ” دھنی بخش کے بیٹے ” کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ حسن منظر نامور تخلیق کار ہیں جو نئے تقاضوں سے بخوبی واقف ہیں
ناول ” جہنم جاگتا رہتا ہے ” تحقیقی و تنقیدی جائزہ از ڈاکٹر محفوظ احمد ثاقب
اس مضمون میں “جہنم جاگتا رہتا ہے ” سلیم اختر ڈھیرہ کے ترجمہ کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انہوں نے ترجمہ کی عمدہ کاوش کی ہے ۔
نسیم حجازی ۔۔۔۔تحریک پاکستان کا عملی کردار از عزرا پروین
اس مضمون میں نسیم حجازی نے جو تحریک پاکستان میں جو کردار نبھایا اس کے ساتھ ساتھ علمی سفر کا بھی ذکر کیا ہے ۔
ثمینہ سید کی افسانہ نگاری از منیر عباس سپیرا
اس مضمون میں جدید افسانہ نگار تہمینہ سید کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے
آخری حصے میں تین تبصرے شامل کیے گئے ہیں جن میں پہلا تبصرہ نعمان نزیر کا ہے دوسرے نمبر پر وجیہہ ضمیر کا جبکہ آخر میں ڈاکٹر انصر جاوید گھمن ہے ۔
اُردو رسائل پر عروج و زوال آتا رہا ہے ۔کچھ رسائل متواتر شائع ہوئے تو کچھ رقص شرر ثابت ہوئے ۔ آج بھی رسائل و جرائد کی اشاعت کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ مختلف جامعات کے توسط بھی رسائل و جرائد منظر عام پر آ چکے ہیں جو اسکالر کی حوصلہ افزائی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
ہم کسی طور پر بھی اردو رسائل و جرائد کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے
“نقش فریادی” اُردو رسائل میں اضافے کا موجب بنا ہے امید ہے یہ رسالہ اردو ادب میں جلد ہی علمی و ادبی پزیرائی پا لے گا ۔اُ