You are currently viewing نیا ترسیلی بیانیہ اور اردو صحافت

نیا ترسیلی بیانیہ اور اردو صحافت

پروفیسر شافع قدوائی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ ، یوپی

نیا ترسیلی بیانیہ اور اردو صحافت

نئی صارف اساس اطلاعاتی تکنالوجی کے حوالے سے مرتب اور متشکل ہونے والی اکیسویں صدی کو متعدد متعین امتیازات کے باعث مابعد صداقت اور قومیت (Post-truth and Nation Century)  عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس عہد کا اہم ترین شناس نامہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کا پیہم استعمال ہے جس کا اساس اصلاً بولے ہوئے لفظ (Spoken Word) پر قائم ہے اور Chattingسمیت دیگر ذرائع ترسیل میں Spoken Wordکی ہمہ گیر بالادستی کے پیش نظر اب رسم الخط کی حاکمیت کے خاتمے (End of tyranny of script) کے تصور کو بھی فروغ حاصل ہورہا ہے۔ اس تعبیر آشنا اور فتوحات اور کامرانیوں کے نئے امکانات کی مسلسل آبیاری کرنے والی کائنات اب کسی نجات کوش فلسفہ (Emancipatory Philosophy) یا خوش آئند نظریۂ حیات یا وسیع تر سیاسی سیاق کو محیط منظم کوشش یا لسانی یا ثقافتی آرزومندیوں کو بروئے کار لانے والی حکمت عملی کو قبول نہیں کرتی بلکہ انسان اور دیگر نوامیس فطرت کے باہمی ارتباط کی نوعیت اور انسان کے پر پیچ اور سنگین خارجی مسائل اور اس کے وجود ی سروکاروں اور حسیاتی اور جمالیاتی منطقوں کی شیرازہ بندی اور ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ایک ہمہ جہت ترسیلی بیانیہ کی تشکیل کرتی ہے جو انسان کے جملہ مسائل کو بیک وقت مرکز نگاہ بناتا ہے اور ان کے ازالہ کا مکالمہ قائم کرتا ہے۔ ذرائع ابلاغ اور عمل ترسیل اب کسی شئے کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ فی نفسہٖ Endہو گئے ہیں۔ حسن و قبح اور ردو قبول کا عمل کسی مذہبی، مابعدالطبیعیاتی ، سیاسی اور سماجی احکام کا پابند نہیں بلکہ معاشرے کا حاوی ڈسکورس (Dominant Discourse) ذرائع ابلاغ ایک ایسے ترسیلی بیانیہ کے حوالے سے قائم کرتے ہیں کہ اس کی اثر پذیری سے زندگی کا کوئی گوشہ نہیں بچ پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاصر معاشرہ کو Spectacle Society یا تماشہ معاشرہ بھی کہا جاتا ہے۔ خرید وفروخت کی سرگرمیوں سے قطع نظر جذبوں کے اظہار اور عقیدے سے متعلق رسومیات بشمول مذہبی تقریبات اور تہواروں کے انعقاد اور ان کی تاریخوں کا تعین بھی ذرائع ترسیل کرتے ہیں۔ محبت کے جذبے کی نوعیت اور اس کے اظہار کی تاریخ کا تعین انسانی تاریخ میں ہمیشہ مذاہب یا معاشرتی رسومیات کی رو سے کیا جاتا رہا ہے۔ کرسمس، دیوالی، ہولی اور عید وغیرہ کی مثالیں سامنے کی ہیں۔ اسی طرح زندگی کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کو یوم پیدائش یا یوم وفات یا پھر کسی قومی مملکت (Nation State) کی تاریخ میں کسی اہم دن پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مگر بازار  اساس معاشرہ، جن کے پاس خریدنے اور بیچنے کی طاقت کے علاوہ کوئی اور قوت نہیں ہے، اب ذرائع ابلاغ کے توسط سے انسان کے معتقدات اور جذبات کو بھی کیش کرنے پر قادر ہو گیا ہے۔ ماں سے یا باپ سے محبت کا اظہار کسی بھی دن کیا جا سکتا ہے مگر اسے ایک مخصوص دن سے وابستہ کرکے اور کارڈ کی صورت میں اس رسم کی ادائیگی کو قابلِ قبول بنا دینا اسی روش کا غماز ہے۔ اسی طرح جنس مخالف سے محبت کے اظہار کو 14؍فروری کو Valentine’s Dayسے مربوط کر دینا وغیرہ اس نوع کی اہم مثالیں ہیں۔ فنون لطیفہ اور کلچر کے اعلیٰ ترنمونوں کے بجائے اس کی مقبول عام اور پست سطح کو فروغ دینا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

نیا ترسیلی بیانیہ، جس کے محور پر سمعی و بصری ذرائع ابلاغ کے علاوہ اخبار اور جرائد بھی گردش کرتے ہیں، محض خارجی حقائق اور واقعات کو مرکز نگاہ نہیں بناتا یا حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ حقیقت کی خود تشکیل کرتا ہے اور پھر زبانِ تصاویر اور متحرک امیجز کے توسط سے یہ باور کراتا ہے کہ اصل حقیقت یہی ہے۔ کاشتکاروں کی خودکشی کے واقعات کو نظرانداز کرکے قارئین یا ناظرین اور سامعین کوبتایا جاتا ہے کہ نمبر ایک سلمان خان ہے یا شاہ رخ یا بِگ باس کے گھر میں گزشتہ شب کیا ہوا۔ یہی سب سے اہم واقعہ ہے اور قارئین کی تمام تر دلچسپی کا مرکز اسی نوع کے واقعات ہیں۔

نیا ترسیلی بیانیہ اطلاع رسانی، ذہن سازی اور انبساط آفرینی سے بیک وقت کسب فیض کرنے کے بجائے اب محض Infotainment Modelکو پیش نگاہ کرتا ہے یعنی اطلاع کی ترسیل میں بھی تفریخ رسانی کے نت نئے امکانات کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ہر خبر ایک روزہ کرکٹ میچ کی سنسنی خیزی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے اور اب خبر اور رائے کا فرق بھی تقریباً معدوم ہو گیا ہے۔ اخبار کی سوچی سمجھی رائے کا اظہار اداریہ میں ہوتا تھا مگر اب اہم خبروں کے ساتھ رائے کا بھی برملا اظہار کر دیا جاتا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا نے بعض اہم خبروں کے آخر میں ٹائمس آف انڈیا کی رائے (Times of India’s Views) کے عنوان سے خبر پر رائے زنی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس طرح اداریہ کی مرکزیت اور اس کے تقدس کے تصور کو بھی تہہ و بالا (Subvert) کر دیا گیا ہے۔ ٹیلی ویژن میں ظاہر ہے کہ اداریہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، لہٰذا اہم موضوعات پر مذاکرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ہر ٹی وی اینکر (Anchor)کی کوشش ہوتی ہے کہ معروضی اور سنجیدہ بحث کے بجائے مجادلہ کی سی صورت (Fight like situation) پیدا کر دی جائے تاکہ انسان کی خلقی کج روی (Wickedness) اس نوع کی سرگرمیوں سے بطور خاص محظوظ ہوتی رہے۔ بِگ باس (Big Boss) کی مقبولیت کا اصل سبب یہی ہے۔

نیا ترسیلی بیانیہ سنجیدہ اور باخبر (Informed) قاری /سامع/ناظر کے بجائے انسانی دردمندی سے عاری تماش بین کو وجود میں لارہا ہے جس کے نزدیک اتلاف انسانی سے ہمیں زیادہ اہم اداکار کی ذات ہے۔ یہی سبب ہے کہ کار سے کچل کر جاں بحق ہونے والے مزدوروں کے ملزم کو جب بری کیا گیا تو اس کا جشن ڈھول تاشے کے ساتھ سڑکوں پر منایا گیا ۔ انسانی بے حسی کے ایسے مناظر اب عام ہو گئے ہیں۔ ترسیل کی نئی حکمت عملی دراصل زبان کے تکلمی کردار کو پیش نگاہ رکھتی ہے اورخبروں کی پیش کش کے طریقوں پر تقریر (Speech Act) کے سائے لرزاں نظر آتے ہیں۔ بول چال کے الفاظ کے پیہم استعمال سے تحریر میں بھی گفتگو کی سی برجستگی پیدا کر دی جاتی ہے اور الفاظ کی صحت یا ان کے صحیح تلفظ پر تو توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ جو عوامی سطح پر رائج ہے وہی صحیح بھی ہے۔ نیا ترسیلی بیانیہ زبان کے تئیں اسی نقطۂ نظر کا موئد ہے۔

نیا ترسیلی بیانیہ ماضی کے برخلاف ترسیل کے بڑی حد تک یکطرفہ ہونے کا قائل نہیں ہے۔ اب ترسیل کا بہائو لازماً ماخذ سے وصول کنندہ تک نہیں ہوتا بلکہ اکثر یہ ترتیب معکوس صورت بھی اختیار کر لیتی ہے۔ نیا بیانیہ زیادہ Participatory یا قاری/ناظر/سامع اساس ہو گیا ہے۔ اخباروں میں تو مراسلہ کے کالم کی روایت زمانہ قدیم سے قائم ہے مگر اب ٹی وی میں ناظر اپنے ویڈیو بھی بھیج سکتے ہیں۔ اسی طرح اب Citizen Journalism کا نیا دور شروع ہوا ہے۔ مختلف ٹی وی چینلوں نے سوشل میڈیا مثلاً یو ٹیوب، فیس بک اور ٹوئٹر جن کی نوعیت تعاملی (Interactive) ہے، کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ناظر کی مرسلہ خبروں اور رپورٹوں کو نشر کرنا شروع کیا ہے۔

انسان کی جملہ ضروریات اور اس کی حسی و جذباتی تسکین کو اولین ترجیح دینا نئے ترسیلی بیانیہ کا مابہ الامتیاز عنصر ہے۔ ٹی وی سے قطع نظر اگر محض اخبارات کو مرکز نگاہ بنایا جائے تو یہ منکشف ہوگا کہ اب محض اداریہ یا مضامین کے توسط سے کسی موضوع سے متعلق تمام اہم مباحث سے قاری کو واقف نہیں کر دیا جاتا بلکہ اب ادارتی صفحہ کے علاوہ دیگر صفحات پر بھی کسی اہم موضوع یا کسی اصطلاح (Term) کی وضاحت کے لئے خصوصی کالم شائع کئے جاتے ہیںاور اسے e-explained کے عنوان سے چھاپا جاتا ہے۔ انڈین اکسپریس نے یہ اہم اور خوش آیند سلسلہ شروع کیا ہے۔ اخبار کے تجربہ کار ادارتی عملہ کا کوئی رکن خصوصاً اسسٹنٹ ایڈیٹر یہ کالم لکھتا ہے اور آخر میں مزید مطالعہ کے لئے مفید کتابوں اور ویب سائٹوں کی بھی نشان دہی کی جاتی ہے۔ اسی طرح صحت اور تندرستی سے متعلق مضامین کے لئے ہفتہ میں ایک صفحہ مختص کیا جاتا ہے اور اکثر کسی ڈاکٹر یا تغذیہ کے ماہر کے قارئین کے ساتھ سوال و جواب کا کالم بھی شائع کیا جاتا ہے۔ کچھ اخباروں میں نئی کتابوں کے تبصروں پر مشتمل ہفتہ وار خصوصی صفحہ شائع کیا جاتا ہے، اسی طرح مذہب اور اخلاقی تعلیمات سے متعلق خصوصی کالم بھی اشاعت پذیر ہوتا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا میں اس کالم کا عنوان Speaking Treeہے۔

اس نئے ترسیلی بیانیہ کے امتیازات پر قدرے تفصیلی گفتگو کے بعد یہ ضروری ہے کہ اس پس منظر میں اردو صحافت علی الخصوص اردو اخبارات کا جائزہ لیا جائے۔ اردو صحافت کی 200سالہ تاریخ پر نظر ڈالنے سے منکشف ہوگا کہ اردو صحافت ابتدا ہی سے اطلاع رسانی اور مختلف علوم سے اور نئی سائنسی ایجادات سے قارئین کو واقف کرانے کا فریضہ انجام دیتی رہی ہے۔اردو کے اولین صحافیوں مولوی اکرام، منشی سدا سکھ لال، سید محمد باقر، سید محمد خاں، نول کشور اور سرسید نے صحافت کے جس تصور کی آبیاری کی اس میں واقعات کے سنسنی خیز بیان کے بجائے رونما ہونے والے اہم واقعات اور مختلف میدانوں میں ہونے والی نئی علمی پیش رفت سے قارئین کو واقف کرانا تھا۔یہ صحیح ہے کہ اردو صحافت نے ابتدا ہی سے غیر ملکی تسلط کے خلاف صدائے احتجاج کو اپنا شعار بنایا تھا اور سید محمد باقر کو اس سلسلے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا تھا۔ صادق الاخبار کا طرز عمل بھی کم و بیش یکساں تھا تاہم 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد صورتحال خاصی تبدیل ہوئی۔ سرسید نے 1866ء میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکال کر اردو صحافت کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا اور قارئین کے جذبات کو برانگیخت کرنے کے بجائے ان میںمسائل کے تئیں معروضی نقطہ نظر پیدا کرنے کی کوشش کی۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نے خبر اور اداریہ میں واضح فرق کی نشان دہی کرتے ہوئے اداریہ کی باقاعدہ اشاعت کا اہتمام کیا۔ سرسید کی روش پر اردو صحافت کم ہی عمل پیرا ہوئی اور احتجاج کی لے ہمیشہ تیز رہی ہے۔ جدو جہد آزادی کے دوران اور تقسیم وطن کے بعد بھی اردو صحافت جس نوع کے ترسیلی بیانیہ سے کسب فیض کرتی رہی، اس کی نوعیت بڑی حد تک احتجاجی ہی تھی۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد صورتحال میں نمایاں تبدیلی آئی اور اب اردو صحافت محض احتجاج کو اپنا مقصود نہیں جانتی اور اہم معاصر اخباروں مثلاً سیاست (حیدرآباد)، انقلاب (ممبئی، دہلی)، منصف (حیدرآباد)، راشٹریہ سہارا (نئی دہلی) اور اخبار مشرق (کلکتہ) وغیرہ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب اردو اخبارات اردو، مسلم یونیورسٹی، فرقہ وارانہ فسادات اور مسلم پرسنل لا کو محض مرکز نگاہ نہیں بناتے بلکہ وہ اپنے قارئین کے جملہ تقاضوں پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیںاور نئے ترسیلی بیانیہ سے جس کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے، خود کو مربوط کرنے کی بھی سعی کرتے ہیں۔ اردو اخبارات میں ملک کے مشہور کالم نگاروں اور سیاسی مبصروں کے سنجیدہ تجزیے شائع ہوتے ہیں اور خبروں کے انتخاب میں بھی محض کسی ایک فرقہ کے مذہبی جذبات کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ ’’مسلمان کیا کریں‘‘ اردو صحافت کا انتہائی مرغوب سوال رہا ہے تاہم اب اردو اخبار مسلمانوں کے مسائل کو سماج کے دیگر محروم اور حاشیہ پر سانس لینے والے افراد کے مسائل کے تناظر میں پیش کرنے لگے ہیں۔

اردو صحافت علی الخصوص اخبارات نئے ترسیلی بیانیہ کی پاسداری کرنے کے ساتھ بعض خوشگوار نقطہ ہائے انحراف کی خبر بھی دے رہے ہیں۔ اولاً تو یہ کہ اردو اخبار اب بھی Infotainment یا Page Three Journalism کے قائل نہیں ہیں، لہٰذا Entertainment World کی خبروں کی اشاعت کے لئے کوئی صفحہ مخصوص نہیں کیا گیا ہے اور نہ celebritiesکے ساتھ چیٹنگ کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اسی طرح ضعیف الاعتقادی اوراوہام پرستی کے فروغ سے متعلق مواد بہت کم اشاعت پذیر ہوتا ہے۔ ستاروں کی چال یا قسمت کا حال کالم بھی بہت کم اردو اخباروں میں شائع کیا جاتا ہے۔

اردو اخبارات کے انٹرنیٹ ایڈیشن شائع ہونے لگے ہیں اور اردو اخبارات بھی بڑی حد تک Interactive  ہو گئے ہیں۔ e-learningکا تصور ابھی زیادہ مقبول نہیں ہوسکا ہے اور اس ذریعے سے قارئین کی ذہن سازی کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔

زبان، تصاویر اور دیگر بصری مواد کی اشاعت کی سطح پر اردو اخبار نئے ترسیلی بیانیہ سے پوری طرح ہم آہنگ ہے  جو اردو اخبارات کے خوش آئند مستقبل کا اشاریہ ہے۔

***

Leave a Reply