عبد العزیز ۔کے
ریسرچ اسکالر
شعبہ اردو، جامعه سری شنکر اچار یہ برائے سنسکرت، کالڈی، کیرالا
حسین ا لحق کا افسانوی مجمو عہ “نیو کی اینٹ ” ۔ایک تنقیدی مطا لعہ
بیسیوں صدی کے نصف آخر سےجن تخلیق کاروں نے اپنی تخلیقات سے اُردو فکشن کی دنیا میں اپنی نمایاں ترین شناخت قائم کی ہے۔ ان میں حسین الحق کا نام قابل ذکرہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج افسانے اور ناول پر ہونے والی تقریبا ہرگفتگو اور ہر تحریر میں حسین الحق حوالہ کے طور پر ضرور موجود رہتے ہیں ۔ یعنی حسین الحق اُردو فکشن کی تاریخ کا ایک ناگزیر حصہ بن چکے ہیں۔ اپنے طویل تخلیقی سفر میں انہوں نے سات افسانوی مجموعے ، پس پردۂ شب ،صورت حال، بارش میں گھرا مکان ،گھنے جنگلوں میں ،مطلع، اور سوئی کی نوک پر رکالمحہ، نیو کی اینٹ کے علاوہ تین ناول، بولومت چپ رہو ،فرات اور اماوس میں خواب سے ہمارے افسانوی سرمائے میں بیش بہا اضافے کئے ہیں۔ ان کی تخلیقات کینویس وسیع اور متنوع ہے۔ وہ اپنے عصر کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور بڑی معروضیت کے ساتھ اپنے مشاہدات کو اپنی تخلیقات میں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے عہد، اپنے ماحول، اپنے عہد کے تضادات اور تصادمات کو ایک ایسے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں افسانوی انفرادیت کے ساتھ ساتھ فکشن کی بنی جمالیات بھی شامل رہتی ہے۔ یوں ان کی تخیلیقت فکری و فنی اعتبار سے اپنے معاصرین تخلیقاروں سے امتیازی اہمیت کی حامل ہے۔
حسین ا لحق 2/نومبر 1949 کو سہسرام میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حضرت مولانا انوار ا لحق شہودی نازش سہسرامی تھے۔ جو خود ایک مشہور عا لم دین، خطیب، شاعر اور ادیب گزرے ہیں۔ ان کی والدہ محترمہ شوکت آرا کا تعلق بھی سہسرام سے ہی تھا۔ حسین ا لحق کی ابتدائی تعلیم خاندانوں کے روایات کے مطابق ان کے والد کے زیر سایہ دینی تعلیم سے ہوئی، اس کے بعد انھوں نے مدرسہ کبیر یہ سے مولوی کا امتحان پاس کیا۔1968 میں ایس۔ پی۔ جین کالج سے گر یجو یشن مکمل کیا اور یونیور سٹی میں اول ہو ئے۔ بعد ازاں پٹنہ یو نیور سٹی سے 1970 میں اردو میں ایم یے کیا اور اس میں بھیس سر فہرست رہے۔حسین ا لحق اپنے والد صاحب کی رہنمائی میں لکھنے کا کام تو دس برس کی عمر سے ہی شروع کر چکے تھے۔ ان کی پہلی کہانی “عزت کا انتقال” 1965 ء میں ما ہنامہ “کلیاں” لکھنو میں صوفی بلیاوی کے نام سے شائع ہو ئی۔ اسی سال ماہنامہ جمیلہ دہلی میں ان کا پہلا فسانہ “پسند” شائع ہوا۔23 دسمبر 2021 میں ان کا انتقال ہوا۔
” نیو کی اینٹ” حسین الحق کا آخری اور اہم مجموعہ ہے۔ یہ 2010 ء میں شائع ہوا،اور ان میں بیس افسا نے شامل ہیں۔ناگہانی ،مور پاؤں، سبحا ن الله ،انحد،مردہ راڈ ار،جلیبی کارس ، زندگی اے زندگی ، آشوب ،نجات َکوئی نجات ، بیچاؤ بیچاؤ، کب ٹھہرے گا در داے دل ! ،استعارہ ، جلتے صحرا میں ننگے پیروں رقص ، کہا سے میں خواب ،گونگا بولنا چاہتا ہے ،لڑکی کو رونا منع ہے، غم زدہ، یہ آدی، رام نگر کے رستے میں ،اور نیو کی اینٹ۔درج بالا فہرست سے واضح ہے کہ نا گہانی پہلا اور نیو کی اینٹ اس مجموعے کا آخری افسانہ ہے۔ یہ مجموعہ نیوکی اینٹ سرنا مئہ کتاب ہے، اور اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی دیباچہ یا پیش لفظ نہیں۔ ویسے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہےکہ حسین الحق نے اپنی کسی کتاب پر بھی کوئی پیش لفظ لکھا،نہ لکھوایا۔ حسین الحق کا یہ افسانوی مجموعہ کو بڑا ادبی کارنا مہ ہے ،اور یہ ہمالہ نما افسانوی معیار کے دورے کے بغیر ہدیہ ناظرین و قارئین کر دیا ہے۔ اس مجموعہ کے بعض افسانے پہلے بھی بعض مقر رسائل و جراید میں شائع ہو چکے ہیں لیکن اس مجموعے میں ایسی کوئی معاملات موجود نہیں جس کی بنا پر سمجھا جاسکے کہ یہ افسانہ جریدے میں پہلے شائع ہو چکا ہو۔ یہ تفصیلات ہر چند کہ غیر ضرورہیں ، لیکن ان سے حسین الحق کی فطری سادگی اور فنکارانہ بے نیازی کے آیات وآثار کا پتہ چلتا ہے۔ جہاں تک زیر نظر افسانوں کے کیف و کم کا تعلق ہے، ہر افسانہ نہ صرف ماجر انگاری اور اپنے شفاف بیانیہ نیز رواں اسلوب کی وجہ سے متاثر کرتا ہے بلکہ زندگی کے سوز و ساز درد و داغ کی کیفیات میں قاری کو ہمیشہ شریک اور منہمک رکھتاہے اور یہ پہلے افسانے سے شروع ہوکر آخری افسانہ تک جاری رہتا ہے۔
حسین الحق کے تقریبا تمام افسانے معاشرتی زندگی اور سماجی حقائق کے عکاس ہیں۔ ان میں چند افسانے دیہی زندگی اور شہری زندگی سے بھی واسطہ پڑتاہے۔ شہری زندگی میں بھی عام اور خاص زندگیوں کا امتیاز و اختصاص دکھائی دیتا ہے۔ ۔ یعنی ان کےافسانوں میں دیہات سے شہر تک مختلف فرقوں اور طبقوں کی کہانیاں پیش کی گئی ہیں ۔ زمانی اعتبار سے تقسیم ہند کے بعد کی صورت حال کا فنکارانہ تجزیہ افسانہ” نا گہانی“ میں دکھائی دیتا ہے ، موجودہ دور کے حقائق و واقعات یعنی ان افسانوں میں دیہات سے شہر تک مختلف فرقوں اور طبقوں کی کہانیاں پیش کی گئی ہیں، یعنی تقسیم ہند کے بعد کی صورت حال کا فنکارانہ تجزیہ اس افسانےمیں دکھائی دیتا ہے۔انھوں نےموجودہ دور کے حقائق و واقعات کو بھی ”نیو کی اینٹ میں افسانے کا موضوع بنایا گیا ہے ۔ اس طرح موضوعات و مسائل میں بھی تنوع واضح ہے اور ان کی پیش کش میں بھی رنگارنگی اور بوقلمونی دکھائی دیتی ہے۔ ان تمام افسانوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ سارے افسانے مشترکہ معاشرتی زندگی اور سماجی حقائق کے نشیب و فراز سے وابستہ ہیں۔
حسین الحق بظا ہر کسی معمولی واقعہ کو بھی اپنی فنی صلاحیت سے نہ صرف قابل توجہ بلکہ سنسنی خیز اور بصیرت افروز بنا دیتے ہیں ۔افسانہ ”مردہ راڈار ”میں اس طرح دکھائی دیتاہے۔ پوش کالونی میں آبی جماؤ کی وجہ سے پیدا ہو جانے والی دلدل میں پھنس کر ایک کتے کے پلے کی موت ہو جاتی ہے یا اس سے قبل اسی دلدل میں پھنس کر کراہنے اور چلانے والی بکری اور اس پر جھپٹتے ہوئے کتوں کا منظر جس فنی چابکدستی سے ترتیب دیا گیا ہے ، وہ توجہ طلب بھی ہے اور سنسنی خیز و بصیرت افروز بھی ، رمزیت ، اشاریت اور ایمائیت حاشیہ تاویل کو وسعت عطا کرتی ہوئی نظر آتی ہے یعنی قاری اگر تفکر اور تامل سے کام لے تو اس کے سامنے کئی سوالات ابھر آتے ہیں ۔
افسانہ ” جلیبی کا رس” ہر چند کے ایک اپارٹمنٹ کی کہانی ہے۔ لیکن یہ بھی پوش کالونی کی طرح ہی پوش سو سائٹی کا منظر پیش کرتی ہے، لیکن اپنی روح یا نفس مضمون کے اعتبار سے تمام تر سیاسی موضوع ہے۔اور اس میں بنیادی طور پر سیاست کے گھنا ؤ ناپن کو پیش کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ سیاست اور اس کا گھناؤ پن اب کہاں دیکھنے کو نہیں ملتے۔ اس سے تو مذہبی، تہذیبی وادبی اور تعلیمی ادارے بھی پاک نہیں۔ دیر وحرم و قبرستان وشمسان تک اور مدرسہ سے خانقاہ تک سیاسی غلاظت کا انبار نظر آتا ہے۔اس کے ساتھ افسانہ ”زندگی ، اے زندگی ”میں ایک لکچرار کی شادی شدہ زندگی کے مسائل پیش کئے گئے ہیں۔ لکچرار کی تنخواه مصارف زندگی کے لئے کافی ہے لیکن اسٹرائک اور وقت پر تنخواہ کا نہ ملنا امید سے ٹھہری ہوئی بیوی کے علاج معالجہ اور بالآخر سیزیرین ڈیلیوری کے مسائل اور اخراجات مجموعی صورت حال کو اندوہناک بنا دیتے ہیں اضافی آمدنی کے لئے لکچرار کا ٹیوشن کرنا اور اس کے باوجود غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر مصوری کے فن کو پیشے کے طور پر برتا اور اس میں لکچراری کے منصب سے زیادہ دلچسپی لیتا ایسے واقعات و واردات ہیں جو موجودہ دور کے اعلی تعلیم کے خستہ حال نظام اور لیکچراری کے بیٹے کی غیر یقینی صورت حال کا وہ منظر نامہ پیش کرتے ہیں جو اپنی واقعیت کے لحاظ سے افسانے سے زیادہ حقیقت کا اظہار قرار دئے جاسکتے ہیں۔ان چند افسانوں کے حوالے سے حسین الحق کے افسانوں کے موضوعات و مسائل کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔ ایک طرف ارتقا پذیر سماج اور دوسری طرف اقداری نظام کی خستہ حالی ان افسانوں کے میں جن متضاد کیفیات سے دوچار کرتی ہے اور ہم جن دینی نفسیاتی اور جذباتی الجھنوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں، بطور مجموعی یہ تاثر حسین الحق کے امتیاز و اختصاص کا زائیدہ اور پروردہ ہے۔ نیو کی اینٹ اور نا گہانی دو ایسے افسانے ہیں جو موضوعات و مضامین اور مسائل کے لحاظ سے بالکل نئے یا اچھوتے نہیں ہیں اس کے باوجود انہیں اردو کے اہم افسانوں میں اس لئے شمار کیا جا سکتا ہے ۔
اس مجموعے کی دوسری کہانی ” مورپاؤں” جو آج کے فرقہ پرست ماحول میں آدمی کے اندر کے چورکو باہر نکا لنے کا کام انجام دیتی ہے۔ اور ان میں سبھی کردار سچائی کے طور پر دیکھاہے۔ جو ان کے اندر ہے اسے بڑی بے باکی سے ظاہر کر دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ اس مجوعہ کاایک اور افسانہ کا نام” انحد” ہے۔ اس میں عورت پر ہو رہے ایک ایسے نا دیدہ ظلم کی داستان نظر آتی ہے، جو عام طور پر متوسط طبقہ کی عورتیں جھلینے پر مجبور ہیں۔ حسین الحق نے اس کہانی کے ذریعہ سماج میں ہو رہے ایک ظلم کی طرف اشارہ کیاہے جسے لوگ عام طور پر محسوس نہیں کرتے۔ ویسے تو ہر سماج میں بیوہ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا سکتا ۔ اس مجموعے کی آخری اور سرنامہ کی کہا نی ”نیو کی اینٹ“ ہے، یہ افسانہ چھ دسمبر کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت اور فنی برتاؤ کے لحاظ سے منفرد قسم کا افسانہ ہے، اور یہ کہانی بابری مسجد کی شہادت کے پس منطر میں ککھا گیا ہے۔ سلامت اللہ اور شیو پوجن اس افسانے کے دو مرکزی اور اہم کردار ہیں۔کالونی میں ایک دوسرے کے آس پاس ہی رہتے ہیں ۔ شیو پوجن کے اجودھیا جانے کی خبر سلامت اللہ کو نہیں ملی ۔ لیکن جب شیو پوجن اجو دھیا سے واپس آتا ہے تو اپنے ساتھ نیو کی اینٹ بھی لاتا ہے۔جس کے درشن کے لئے شردھالووءں اور درشن ابھلا شیوں کی بھیڑ لگنی شروع ہو تی ہے۔ بہر حال سلامت اللہ جب اس اینٹ کو لے کر گھر آتا ہے تو اس کی بیوی بلبلا اٹھتی ہے اور شیرنی کی طرح جھپٹ پڑتی ہے۔ کالج میں پڑھنے والا بیٹا بھی مخالفت پر آمادہ نظر آتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔
” آپ ہی نے بتایا تھا کہ واجد علی شاہ کے وقت سے یہ ہمارے لئے مسئلہ بنی ہوئی ہے، تو پھر ایک ایسی چیز جو ہر زمانے میں ہر آدمی کے لئے مسئلہ بن جاتی ہے، حد یہ ہے کہ اب شیو پوجن چاچا کے لئے بھی مسئلہ بن گئی ، اسے اپنے سرمنڈھ لینا کہاں کی عقلمندی ہے۔”
یہ واقعاتی تشکیل اور پورا منظر نامہ نہ صرف یہ کہ نہایت ہی حساس اور سنسنی خیز صورت حال کا پتہ دیتا ہے بلکہ سنجیدہ غور و فکر کے لئے تحریک بھی دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مشتر کہ تہذیب اور اور قومی وراثت کی بنیاد تو آتھا اور عقیدہ کے ٹکراؤ کے نتیجے میں کھد گئی ہے اور اس کی دھجیاں (اینٹیں) بکھر چکی ہیں ۔ بنیاد کھوکھلی ہو چکی ہے۔ مشتر کہ قومی تہذیب اور مشتر کہ قومی وراثت ایک مسئلہ بن چکی ہے جس کو سلامت اللہ کے بیٹے کے روپ میں نئی نسل شدت کے ساتھ محسوس کر رہی ہے۔ یہ مسئلہ کسی مسلمان ہی کے لئے پریشان کن نہیں ہے، اس مسئلے سے ایک ہندو بھی اتنا ہی پریشان ہے جتنا ایک مسلمان گویا کہ اس مسئلے نے ہندوستان کی پوری مشتر کہ قومیت کو ہی بے چینی ، پریشانی اور انتشار میں مبتلا کر دیا ہے لیکن اس کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اس سوال کا جواب بھی کسی دھند میں کھویا ہوا نہیں۔ اس بات کو تو سلامت اللہ کی بیوی بھی اچھی طرح سمجھتی ہے جو ایک گھر یلو اور سیدھی سادی عورت ہے اور جو بالکل مرنے مارنے پر تلی ہوئی تھی۔یہ افسانہ آخرمیں ہندو مسلم فرقہ ورانہ فسادات سے ختم ہو جاتاہے۔ حسین الحق نے اپنے اس افسانہ کے ذریعے دو مذہبوں کے درمیاں ہونے والی جذباتی کش مکش قاری کے سامنے دکھاتا ہے۔
مجموعہ نیو کی اینٹ“ کے دوسرے افسانوں کی جو خصوصیت بیک وقت محسوس کی جاسکتی ہے وہ موضوعات کا تنوع ہے۔ مشاہدے کی نیرنگی اپنے آپ میں کوئی لازمی وصف نہیں جب تک وہ فنکار کے ذاتی محسوسات کا حصہ نہ بنے لیکن جب ہر افسانہ ایک نئی دنیا سے قاری کا تعارف کرائے اور یہ دنیا کئی صد ہوں پر نہ سہی ، دہائیوں پر یقین محیط ہوں تو پھر افسانہ نگار کی انفرادیت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ غور کیجئے تو اس افسانوی مجموعے میں شریک اشاعت کم از کم نصف افسانے ایسے ہیں جو افسانہ نگار کے دردمند اور حساس دل کے ساتھ ساتھ اس کے وسیع مشاہدے کا بھی پتہ دیتے ہیں ۔ عزت النساء ہوں یا مولانا سبحان اللہ ، پیاسی چڑیا کی طرح زندگی گزارنے والی سبطے کی بھا بھی ہوں یا کب ٹھہرے گا در داے دل کی شباہت ،سب کسی نہ کسی دنیا کے نمائندہ کردار ہیں اور یہ دنیا جانی پہچانی ہونے کے باوجود ہمیں ان دیکھی لگتی ہے تو صرف اس لئے کہ افسانہ نگار سے ایک نئے زاویے سے پیش کرتا ہے۔ افسانہ نگار کے وسیع مشاہدے کی کارفرمائی سے بعض افسانوں میں یہ صورت بھی پیدا ہوئی ہے کہ افسانے کسی ایک نہیں ہوتے ۔ ان میں ایک مرکزی موضوع تو ہوتا ہے اور اس کے اعتبار سے نقطہ عروج پر ایک تاثر بھی ابھرتا ہے۔ا س مجموعے کے چند اور افسانے اپنے ناسٹلجیائی طرز فکر کے سبب ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ انہیں پوری طرح ناسٹلجیا کی پیداوار تو نہیں کہا جاسکتا مگر یادوں کا نگارخانہ ضرور سمجھا جاسکتا ہے۔نیو کی اینٹ کے افسانوں میں ماضی کی یادیں بھی ہیں اور روح عصر بھی ، جذبوں کا سمندر بھی ہے اور دانشوری کا ساحل بھی ، اضطراب بھی ہے اور سکون بھی ، آگہی کے مناظر بھی ہیں اور بے خبری کے جلوے بھی ، اگر نہیں تو بس پروٹیسٹ کا وہ انداز جو بعض افسانوں کی دلکشی میں مزید اضافہ کر سکتا ہے ۔
آگے چل کر ہم کو یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ حسین الحق ایک ایسا فنکار ہے جس نے سماج کے ہر طبقہ سے کردار کا انتخاب کیا ہے اور زمانے اور حالات کی بہتر عکاسی کی ہے سچافنکا روہی ہوتا ہے جس کی کہانیوں میں زمانہ بولتا ہے اور زمانہ کے اعتبار سے کردار ہمارے سامنے آتے ہیں حسین خوبصورت زبان کا استعمال کرتے ہیں جذبات کی عکاسی میں انہیں مہارت حاصل ہے۔ کبھی کبھی وہ رنگوں چاند ستارے ، ہوا ،سر گوشی ،ہاتھ پاؤں کے اشارے چہرے کی تمتما ہٹ جذبات کے ابال، آنکھوں سے بہتے درد اور سماج کی تنگی سچائیوں کو بڑے خوبصورت استعاراتی انداز میں بیان کرتے ہیں اور اپنے فن کا لوہا منوانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ حسین کی کہانیوں میں وقت بولتا ہے زمانہ سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے ہوا کی سسکیاں بھی کہانی سناتی ہیں اور مدھم سرگوشی میں بھی جذبات کا درد بیان ہوتا ہے۔ محبت کو حسین اپنی کہانیوں میں نیو کی اینٹ کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔ محبت ان کی کہانیوں میں لاشعوری طور پر محسوس ہوتی رہتی ہے بھی اشارے کنائے میں اور کبھی کھل کر اس کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ محبت کو چھپاتے بھی نہیں حسین کی کہانیوں میں محبت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ اس آگ کے دریا میں ڈوب کر پار اترنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ وہ فنکار بہت خوش نصیب ہوتا ہے جو اپنے جذبات کو کردار پر حاوی نہیں ہونے دیتا۔ اردو فکشن کی جب بھی کوئی مستند تاریخ لکھی جائے گی حسین کی کہانیوں کا شمار کئے بغیر وہ ادھوری سمجھ جائے گی۔
ABDUL AZEEZ.K
Research scholar, Dept.of Urdu
Sree sankaracharya University of Sanskrit
Regional Center, Koyilandy.
Azeezkabdul27@ gmail,com, 8111823519
***