You are currently viewing وبائے ناگہانی

وبائے ناگہانی

ڈاکٹر ارتکاز افضل

اورنگ آباد م مہاراشٹر

وبائے ناگہانی

(۱)

بڑی مدت سے بس اس

 زعم میں ہم مبتلا تھے

کہ ہم سورج کے وارث ۔۔۔سوریہ ونشی

طلوع صبح کی نوخیز

رونق سے ہمارا کیا تعلق

چہچہوں سے واسطہ کیا

جدھر منہ موڑ لیں گے

سارا زمانہ ساتھ ہوگا

اگر بھولے سے سورج بھی

کبھی دستک جو دروازے پہ دے

چوکھٹ سے لوٹادیں گے۔۔۔کہہ دیں گے

دیر تک جاگے ہوئے تھے

دیر تک سوئیں گے ہم

پھر کبھی آنا!

(۲)

ادھر چند روز سے

دن رات گھر پر ہیں

تو جانے کیوں

گھر کے خالی خالی کمرے

گھورتے ہیں رات دن

چوکھٹیں منہ پھاڑ کے

بیزارگی سے دیکھتی ہیں

کھڑکیاں دروازے سارے بندہیں

ایسا لگتا ہے کہ جیسے

گھر کی دیواروں پہ آویزاں

ساری تصویریں

منہ تاکتی ہیں بے بسی سے

ہم کہ گویا اجنبی ہوں اپنے گھر میں

(۳)

کبھی سوچا نہیں تھا

کہ خود اپنا ہی گھر یکلخت

یوں بے اماں ہوجائے گا

نہ کوئی توتلی بھاشا میں بولے گا

نہ ہی کلکاریاں ہوں گی

اور محبت پاش سارے لمس

آندھیوںکی زد پہ ہوں گے

بیسنی روٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو

اور میتھی کی مہک       ہوا لے جائے گی

مگر میں جانتا ہوں

یہ کفارہ ہے سب ان ساعتوں کا

جو فریبِ رونقِ بازار کی خاطر

تمھاری بن گزاری تھیں

(۴)

دوستوںکی محفلوں کو چھوڑکر

بھاگتے پھرتے رہے ہیں

ہے کبھی سامان عشرت کی طلب

اور کبھی ،ہے رعونت خوراحساسِ تفضل

یہ دن بھی دیکھنا تھا

دوست اور احباب یوں منہ پھیر لیں گے

نہ کوئی مونس و غمخوار ہوگا

پڑوسی سرسری سے ملنے والے

احتیاطاً فاصلے سے پوچھ لیں گے

خیر خیریت تمھاری

وہ نوکر اور چاکر جو کبھی

تمھارے جنبش لب پر

لبیک کہتے دوڑتے تھی

عجب نظروں سے دیکھیں گے

(۵)

اے خدائے لم یزل

کسی کے زعم کو ،کبر و ریا کو

اس قدر پرواز مت دینا

کہ پروں میں آگ لگ جائے

چلچلاتی دوپہر کی دھوپ تو ہوگی یقیناً

پیاس کے ماروں کو تھوڑی چھائوں دینا

بارشوںکازور ہو طوفان ہو

تیری مشیت۔۔۔

بے گھروں بے آسرا بندوں کے سر پر

تاروں بھرا ایک آسمان دینا

آزمائش ہے تو رب ذوالجلال

استقامت بھی عطا فرما

توفیق دے اس ناگہانی سے

گذر جائیں سبھی ثابت قدم

اور پھر ان خشک آنکھوں کی

ویرانی کے تصدق

ندیاں ،تالاب،جھرنےپھر رواں ہوں

امتحاں دینا۔۔۔مگر اتنا کڑا ہر گز نہ دینا

(۶)

لوگ کہتے ہیں اندھیرا،گھپ اندھیرا

روشنی کے نہ ہونے کی دلیل ہے

ہو نہیں سکتا

یہ بھی ممکن ہے کہ ہم نے خوف سے

اپنی آنکھیں بند کرلی ہوں

یقیں رکھو۔۔۔لمبی لمبی سانس لو

انہی سانسوں کی گرمی سے مگر

روشنی پھر لوٹ آئے گی

اندھیرے،روشنی سے خوف کھائیں گے

دھیرے دھیرے ہی سہی

چھٹ جائیں گے

(۷)

پنچھیوں کے چہچہے ہیں

جوںکے توں قائم

پیڑ پودے ،سب کے سب سرشار ہیں

جنگلوں میں اگنے والی گھاس کا

بانکپن اب بھی سلامت

اور ہم     اپنی ناکردہ سبھی تنہائیوں کے

ہیں اسیر    اپنے جتھوں سے کٹے

خوف کے مارے اطاعت کے بہانے ڈھونڈتے ہیں

سونچتے ہیں اپنی ان تنہائیوں کو

فضل و برکت سے سجائیں گے

اے خدائے لم یزل

جنھیں مطلوب ہوں تنہائیاں

ایسے سبھی اہلِ نظر کو

مقدور بھر تنہائیاں دینا

اکیلا پن مگر ہرگز نہ دینا

***

ڈاکٹر ارتکاز افضل

سابق ڈائریکٹر بی سی یوڈی،ڈاکٹرباباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی،اورنگ آباد(مہاراشٹرا)

سابق ڈائریکٹر ،ڈاکٹر رفیق زکریا سینٹر فار ہائرلرننگ اینڈ ایڈوانسزڈ ریسرچ،روضہ باغ اورنگ آباد(مہاراشٹرا)

Leave a Reply